جنت و دوزخ کے دروازے… افسانہ اور حقیقت
بہشت کا جو آٹھواں دروازہ ہے وہ اﷲ تعالیٰ کے فضل ورحمت کا دروازہ ہے
پس منظر
قرآن کریم جہنم کے متعلق فرماتا ہے
لَہَا سَبۡعَۃُ اَبۡوَابٍؕ لِکُلِّ بَابٍ مِّنۡہُمۡ جُزۡءٌ مَّقۡسُوۡمٌ(الحجر:۴۵)۔
اس، یعنی جہنم، کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے کے لیے (اہل جہنم کا) ایک حصہ مقرر ہے۔ نیز آنجنابؐ نے بیان فرمایا کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ ابواب الجنۃ)۔ چنانچہ قدرتی طور پر اس بارے میں متعدد سوالات پیدا ہوئے مثلاً یہ کہ جنت و دوزخ میں مختلف دروازوں کی ضرورت کیا ہے؟ یہ دروازے کہاں واقع ہیں، ان میں آپس میں کتنا فاصلہ ہے، ان کے لیے جو حصے مقرر ہیں وہ کون لوگ ہیں؟ اسی طرح یہ کہ ان دروازوں کے نام کیا ہیں؟ ان کی تعداد اتنی کیوں ہے؟
ذیل کے مضمون میں پہلے قدیم علماء کے بعض خیالات اور پھر قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعودؑ کے ملفوظات کی روشنی میں اصل حقیقت واضح کی گئی ہے۔
پرانے علماء کے خیالات
جنت و دوزخ کے متعلق اکثر علماء نے، الا ما شاء اللہ، ایسے خیالات بیان کیے ہیں جو یا تو انہوں نے خود ہی نہیں سمجھے یا پھر وہ بالکل بے بنیاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان پر غور کیا جائے تو فوراً ایسے تضادات اور ایسی غیر معقول باتیں سامنے آ جاتی ہیں کہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اندازوں کی بنا پر زبردستی ایک تشریح کی جا رہی ہے جو خود قرآن کریم اور عقل سلیم کے خلاف ہے۔
پہلا سوال یہ طے ہوا کہ جہنم کے سات دروازے کہاں ہیں؟ اس بارے میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالی جائیں اس طرح جہنم کے دروازے ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں۔ یا ایک ہی ہاتھ کی چار انگلیوں میں فاصلہ ڈال کر کھولا جائے تو اس طرح یہ دروازے کچھ کچھ فاصلہ پر ہیں (البیہقی، شعب الایمان، فصل فی درجات اصحاب الاعراف)۔ تیسرا خیال یہ ہے کہ ایک دوسرے کے اوپر تلے واقع ہیں (تفسیر مقاتل بن سلیمان، زیر آیۃ الحجر ۴۵، نیز سیوطی، در المنثور، زیر آیۃ الحجر ۴۵)۔ اس بات پر روشنی نہیں ڈالی گئی کہ دروازوں کے ساتھ ساتھ یا فاصلے پر یا اوپر نیچے ہونے میں کیا حکمت ہے؟
پھر یہ سوال ہے کہ سات دروازے کیوں ہیں، دس یا پچاس کیوں نہیں؟ بتایا گیا ہے کہ سات دروازے اس لیے ہیں کہ انسان سات اعضاء سے گناہ کرتا ہے۔ آنکھ، کان، زبان، پیٹ، عضو نہانی، ہاتھ، پاؤں (رازی، تفسیر فتح البیان، زیر آیت الحجر ۴۵)۔ اس سے اول تو یہ واضح نہیں ہوا کہ پھر جنت کے آٹھ دروازے کیوں ہیں؟ دوسرے دل اور دماغ کا اس فہرست میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ دل اور دماغ سے بھی گناہ کیا جا سکتا ہے۔
پھر سوال پیدا ہوا کہ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ان کے لیے حصے مقرر ہیں تو یہ کون سے حصے ہیں؟ ایک خیال یہ ہے کہ یہودیوں، مسیحیوں، مجوسیوں، مشرکین، منافقین، بڑے گناہ کرنے والے مسلمانوں، صابیوں، دہریوں کے لیے ایک ایک دروازہ ہے۔ لیکن یہ تو آٹھ دروازے ہو گئے! چنانچہ متبادل فہرست یوں ہے: متجاہلۃ (جو کہتے ہیں کہ ظاہر و باطن کچھ بھی نہیں، سب کچھ محض دھوکا ہے)، دہریہ، ثنویہ(جو دو خداؤں یا طاقتوں کو مانتے ہیں )، مشرکین، یہود، نصاریٰ، منافقین(الماتریدی ، تفسیر، زیر آیت الحجر ۴۵)۔ ہندومت اور بدھ مت وغیرہ بہت سے مذاہب کا اس میں ذکر نہیں کیا وہ جہنم نہیں جائیں گے؟ اگر ہندو مشرکین میں شامل سمجھے جائیں تو پھر مجوسیوں، ثنویہ، وغیرہ کے لیے الگ دروازے کی کیا وجہ ہے؟ وہ بھی تو مشرک ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے لیے الگ دروازہ کیوں نہیں ہے؟ اگر مسلمان کسی دوسرے گروہ کے دروازے سے جائیں گے تو پھر الگ الگ دروازوں کی ضرورت ہی نہیں سب ایک ہی دروازے سے جا سکتے تھے۔
اگلا سوال یہ تھا کہ دوزخ کے دروازوں کے نام کیا ہیں؟ بتایا گیا ہے: حطمۃ، حاویہ، لظیٰ، سقر، جحیم، سعیر، جہنم (ابن ابی حاتم، تفسیر، زیر آیۃ، نیز سیوطی، در الماثور، زیر آیت الحجر ۴۵)۔ بعض کے خیال میں ایک دروازہ حریق ہے(البیہقی، شعب الایمان، فصل فی درجات اصحاب الاعراف)۔ مگر قرآن کریم میں جہنم کو حافرۃ بھی کہا گیا ہے (النازعات: ۱۱)۔ اور نار بھی کہا گیا ہے اور سجین بھی کہا گیا ہے(المطففین: ۸)۔ یہ سوال بھی باقی رہتا ہے کہ جب قرآن کریم انہیں دوزخ کے نام کے طور پر پیش کر رہا ہے تو دروازوں کے نام کیونکر ہو گئے؟
ایک دلچسپ خیال یہ پیش کیا گیا ہے کہ سورۃ الفاتحہ میں عربی کے سات حروف نہیں ہیں۔ ان سات حروف پر جہنم کے سات دروازوں کے نام ہیں (رازی، تفسیر، زیر سورت فاتحہ)۔ یعنی ث سے ثبور، ج سے جحیم، خ سے خزی، ز سے زفیر، ش سے شھیق، ظ سے ظل، ف سے فراق، یا پھر ز سے زقوم، ش سے شقاء، ظ سے لظیٰ (آلوسی، تفسیر، سورۃ فاتحہ)۔ اگر ظ سے لظیٰ ایک دروازہ کا نام ہو سکتا ہے، جو کہ لفظ لظیٰکا پہلا حرف نہیں ہے تو پھر ج سے سجینکیوں نہیں ہو سکتا؟ ز سے زقوم صاف طور پر قرآن کریم میں ایک درخت کا نام بیان ہوا ہے نہ کہ دروازے کا! (الدخان:۴۴)۔ اسی طرح ز سے کبھی زفیر اور کبھی زقوم، ش سے کبھی شھیق اور کبھی شقاء، ظ سے کبھی ظل اور کبھی لظیٰ کہنا ظاہر کرتا ہے کہ اصل حقیقت کسی کو معلوم نہیں، ہر ایک نے اپنے خیال کے مطابق بات کہہ دی ہے۔
دروازوں کی حقیقت
قرآن کریم اور آنحضورؐ کی باتیں حکمت سے معمور ہوتی ہیں۔ اگر جنت و دوزخ کے دروازے ہیں تو اس بات کو جاننے میں ہمارا کوئی فائدہ ہے، اگر وہ سات ہیں تو اس میں بھی کوئی حکمت ہے۔ اگر ان دروازوں کے لیے لوگوں کے حصے مقرر ہیں تو ضرور اس سے کوئی سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔
چونکہ جنت و دوزخ روحانی امور ہیں اس لیے ان کے متعلق قرآن و حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ بطور مثال بیان ہوا ہے۔ چنانچہ دروازے سے مراد وہ طریق ہے جس سے انسان کسی جگہ داخل ہو سکتا ہے۔ پس وہ طریقے جن پر چل کر انسان جہنم میں جاتا ہے مثالی طور پر جہنم کے دروازے کہلا سکتے ہیں۔ اسی طرح جنت کے آٹھ دروازوں سے مراد وہ آٹھ طریق ہیں جن سے انسان جنت میں داخل ہو سکتا ہے۔ آنحضورؐ نے فرمایا کہ جنت کا ایک دروازہ ’’باب الریان‘‘ ہے جس سے روزہ دار جنت میں داخل ہوں گے (بخاری، کتاب الصوم، باب الریان للصائمین)۔ اسی طرح دیگر کئی امور کے متعلق بھی احادیث میں ذکر آیا ہے کہ وہ جنت کے دروازے ہیں۔ یعنی جنت و دوزخ کے دروازوں کا مطلب یہ ہے کہ آٹھ یا سات طریقوں سے انسان جنت یا دوزخ کا حق دار بن سکتا ہے۔ اسی لیے احادیث میں بیان ہوا ہے کہ بعض لوگوں کو ایک سے زائد دروازوں سے جنت میں بلایا جائے گا۔
ان دروازوں کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ’’ایک روز یہ ذکر آگیا کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ اس کا کیا سر ہے۔ تو ایک دفعہ ہی میر ے دل میں ڈالا گیا کہ اصول جرائم بھی سا ت ہی ہیں اور نیکیوں کے اصول بھی سا ت۔ بہشت کا جو آٹھواں دروازہ ہے وہ اﷲ تعالیٰ کے فضل ورحمت کا دروازہ ہے ‘‘
(ملفوظات جلد ۳صفحہ ۳۸۶تا۳۸۷)
سات دروازے کون سے ہیں؟
اہم ترین سوال یہ ہے کہ نیکیوں اور بدیوں کے یہ سات، سات دروازے یا اصول کون سے ہیں؟
اس جگہ مضمون کو آگے پڑھنے سے پہلے قارئین سے درخواست ہے کہ ذرا توقف فرما کر غور کریں کہ آپ کے ذہن میں کیا بات آتی ہے کہ یہ اصول کون سے ہوں گے؟ پھر دیکھیں کہ حقیقت کیا ہے اور آپ اس کے کس قدر قریب یا دور تھے؟
نیکیوں کے متعلق روزہ داروں کے لیے باب ریان والی مشہور حدیث کی وجہ سے ذہن فوراً نماز، روزہ، زکوٰۃ کی طرف جاتا ہے۔ چنانچہ احادیث میں جنت کے ضمن میں روزہ (بخاری، کتاب الصوم، باب الریان للصائمین)۔ صدقہ یا قرض دینے (ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب القرض نیز بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ ابواب الجنۃ)، نمازاور جہاد (معمر بن راشد، جامع، باب نفقۃ فی سبیل اللّٰہ) کے دروازوں کا ذکر آیا ہے۔
پس جنت کے آٹھ دروازوں میں سے نماز، روزہ، صدقہ، جہاد یہ چار دروازے ہوئے۔ آٹھواں دروازہ فضل الٰہی اور موہبت کا ہے۔
بدی کے سات اصول کون سے ہیں؟ اکثر احباب کا خیال شرک، چوری، جھوٹ، زنا وغیرہ کی طرف گیا ہو گا۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ’’دوزخ کے سا ت دروازوں کے جو اصول جرائم سا ت ہیں ان میں سے ایک بد ظنی ہے۔ بدظنی کے ذریعہ بھی انسان ہلا ک ہو جا تا ہے اور تمام با طل پرست بد ظنی سے گمراہ ہوئے ہیں۔ دوسرا اصول تکبر ہے تکبر کرنے والا اہل حق سے الگ رہتا ہے او ر اسے سعادتمندوں کی طرح اقرار کی تو فیق نہیں ملتی۔ تیسرا اصول جہالت ہے یہ بھی ہلاک کرتی ہے۔ چوتھا اصول اتباع ہویٰ ہے۔ پا نچواں اصول کو رانہ تقلید ہے…خدا تعالیٰ نے ان دروازوں کا علم مجھے دیا ہے‘‘
(ملفوظات جلد ۳صفحہ ۳۸۶تا۳۸۷)
پس جہنم کے سات میں سے پانچ دروازے ہمیں معلوم ہو گئے یعنی بدظنی، تکبر، جہالت، اتباع ہویٰ، کورانہ تقلید۔
کیا سات نیکیاں کرنا اورسات گناہوں سے بچنا کافی ہے؟
اگر جنت و دوزخ کے سات سات دروازے ہیں تو کیا انسان صرف سات نیکیوں کے کرنے اور سات گناہوں سے بچنے سے کامیاب ہو جاتا ہے؟ باقی سب نیکیوں کا کیا فائدہ ہے؟ یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، والدین کی خدمت، انصاف، وغیرہ بے شمار نیکیاں کس لیے بیان کی گئی ہیں؟ اسی طرح بدظنی اور تکبر وغیرہ سے بچنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن قتل، منافقت، شرک، رشوت، ملاوٹ، وغیرہ بے شمار گناہوں کی کوئی سزا نہیں؟
جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے بیان فرمایا ہے جنت و دوزخ کے دروازوں سے مراد سات سات نیکیاں اور بدیاں نہیں بلکہ نیکی اور بدی کے سات سات اصول ہیں۔ مثلاً باب الریان سے مراد روزہ کا اصول ہے۔ یعنی اللہ کی خاطر طاقت رکھتے ہوئے اپنے حقوق چھوڑ دینا۔ رمضان کا روزہ اس کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ’’جرائم کے سا ت اصول ہیں اور یہ سب کے سب قرآن شریف سے مستنبط ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے ان دروازوں کا علم مجھے دیا ہے۔ جو گناہ کوئی بتائے وہ ان کے نیچے آ جا تا ہے۔ کورانہ تقلید اور اتباع ہویٰ کے ذیل میں بہت سے گناہ آتے ہیں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد ۳صفحہ ۳۸۶تا۳۸۷)
بدی کے سات اصول
پہلا اصول بدظنی ہے۔ یہ بدیوں کا اتنا وسیع اصول ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :’’بدظنی کے باعث جہنم کا بہت بڑا حصہ، اگر کہوں کہ سارا حصہ بھر جائے گا، تو مبالغہ نہیں۔ ‘‘ (ملفوظات جلد ۱، صفحہ ۶۲)۔ اس میں خدا تعالیٰ کے الہام نہ کرنے، اس کے خزانے محدود ہونے، اس کے شرکا ءہونے وغیرہ کئی قسم کی بدظنیاں شامل ہیں۔ اسی طرح یہ بدظنی کہ خدا تعالیٰ دعا نہیں سنتا یا کوئی چیز نہیں دے سکتا وغیرہ۔ پھر نبیوں پر بدظنی ہے کہ یہ ضرور جھوٹ بول رہا ہے، اپنی حکومت یا پیسہ حاصل کرنے کے لیے دعویٰ کر رہا ہے، کسی نے اس کو بطور ایجنٹ کھڑا کیا ہے وغیرہ۔ پھر عام انسانوں پر بدظنی ہے۔ کچھ لوگوں کی یک طرفہ بات سن کر خیال کر لینا کہ ضرور فلاں نے ایسا کہا یا کیا ہو گا، یا فلاں کی نیت درست نہیں ہےوغیرہ۔
دوسرا دروازہ تکبر ہے۔ یہ اتنی بڑی مصیبت ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ہو جو اس سے بچ سکے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ’’صوفی کہتے ہیں کہ انسان کے اندر اخلاق رزیلہ کے بہت سے جن ہیں اور جب یہ نکلنے لگتے ہیں تو نکلتے رہتے ہیں مگر سب سے آخری جن تکبر کا ہوتا ہے جو اس میں رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل اور انسان کے سچے مجاہدہ اور دعاؤں سے نکلتا ہے‘‘(ملفوظات، جلد ۶صفحہ ۶۱۳)۔ یعنی جو تکبر سے پاک ہے وہ اس سے پہلے تمام بداخلاقیوں سے پاک ہو چکا ہوتا ہے اور آخری مصیبت تکبر ہے جس سے اسے نجات ملتی ہے۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں۔ تکبر کے نتیجے میں انسان سچائی یا حقیقت تسلیم نہیں کرتا۔ پھر ہزار بہانے بنا لیتا ہے کہ ٹھیک ہے مجھے معلوم ہو گیا ہے مگر فلاں مجبوری ہے یا میرے جیسے شخص کے لیے ضروری نہیں کہ علیٰ الاعلان اس بات کو تسلیم کرے وغیرہ۔ انبیاء کو سچا تسلیم نہ کرنے سے لے کر کسی چھوٹے کی بات تسلیم نہ کرنے تک، اپنی غلطی پر قائم رہنے سے لے کر کسی کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد اس سے معافی نہ مانگنے تک بہت سی جگہ پر تکبر دکھائی دیتا ہے۔ اپنے آپ کو دوسروں پر فوقیت دینا، عورتوں بچوں، کسی خاص طبقہ یا گروہ یا قوم کو حقوق میں اپنے برابر نہ سمجھنا تکبر ہے۔ نیکی، اخلاص، قربانی، نیت کی پاکیزگی کا بھی تکبر ہو سکتا ہے۔ اپنی رائے پر اصرار کرنا بھی تکبر کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
تیسرا دروازہ جہالت ہے یعنی لا علمی۔ لوگ قبروں پر سجدہ کرتے، پیروں سے مرادیں مانگتے ہیں اور نہیں جانتے کہ غلط کر رہے ہیں۔ جہالت کا ایک نتیجہ توہم پرستی ہے۔ جنوں سے لے کر فال نکالنے اور بدشگون لینے تک بے شمار چیزیں جہالت اور توہم پرستی کا نتیجہ ہیں۔ اگر کسی بات کا علم نہ ہو تو گو قانوناً انسان زیر الزام نہ ہو لیکن اس کا قدرتی بد نتیجہ پھر بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کو علم نہ ہو کہ فلاں چیز کھانے سے مر جائے گا اور وہ اسے کھا لے تو یہ قانوناً خودکشی تو نہیں لیکن وہ مرے گا۔ اسی طرح روحانی طور پر بھی غلطی کا نتیجہ نکلتا ہے خواہ اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ اسی لیے استغفار پر اتنا زور دیا گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ علم بڑھنے کی دعا سکھائی گئی ہے تاکہ جہالت دور ہو۔
چوتھا دروازہ اتباع ہویٰ کا ہے۔ یعنی اپنی خواہشات کی پیروی۔ اس کے نتیجے میں بھی بہت سے گناہ جنم لیتے ہیں۔ مثلاً حرص، کنجوسی، حسد، بغض، غیبت، بہتان تراشی، وغیرہ۔
پانچواں دروازہ کورانہ تقلید ہے۔ یعنی سوچے سمجھے بغیر سنی سنائی باتوں کو آنکھیں بند کر کے مانتے چلے جانا۔ اس کا ایک پہلو وہ ہے جسے ’’رسم و رواج ‘‘کہا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کی رسوم، سوئم، چالیسواں وغیرہ سب کورانہ تقلید ہی کا نتیجہ ہیں ان کی کوئی اصل تو کہیں موجود نہیں۔ اس کا دوسرا پہلو بےثبوت عقائد ہیں۔ مثلاً عیسیٰؑ کے زندہ آسمان پر اُٹھائے جانے کا خیال کیسا خلاف عقل ہے۔ قرآن کے خلاف، مشاہدے کے خلاف، عقل کے خلاف، سائنس کے خلاف۔ لیکن لوگ کورانہ تقلید کی وجہ سے اس پر قائم ہیں۔ کوئی عقلی، روحانی، علمی، سائنسی دلیل ہے کہ ایک انسان خدا کا بیٹا ہو؟ لیکن مسیحی ایسا مانتے ہیں۔ ہندومت میں نظریہ ہے کہ انسان کی روح دوبارہ دنیا میں آجاتی ہے وغیرہ۔ یہ سب بے ثبوت، خلاف عقل و علم عقائد محض کورانہ تقلید پر مبنی ہیں اور ان کا نتیجہ شرک و دیگر بے شمار گناہ چھوٹے بڑے گناہ۔
جنت و دوزخ کے دروازے اور سورت فاتحہ
سورت فاتحہ قرآن کریم کا خلاصہ ہے۔ چنانچہ خود بخود ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ نیکیوں اور بدیوں کے بنیادی اصولوں کا ذکر سورت فاتحہ میں ضرور ہونا چاہیے۔ اور ایسا ہی ہے۔ چنانچہ قدیم علماء میں سے حضرت امام رازیؒ نے بیان کیا ہے کہ جبریلؑ نے آنحضورؐ کو بتایا تھا کہ اگر آپ کی امت سورت فاتحہ پڑھتی رہے گی تو اس کی ہر آیت امت کو جہنم کے سات دروازوں میں سے ایک ایک دروازے سے بچاتی رہے گی
(تفسیر رازی، زیر سورۃ فاتحہ)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :’’سورہ فاتحہ کی سات آیتیں اسی واسطے رکھی ہیں کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں پس ہر ایک آیت گویا ایک دروازہ سے بچاتی ہے‘‘ (ملفوظات، جلد ۱صفحہ ۳۹۶)۔ پھر فرمایا: ’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام السبع المثانی اس بناء پررکھا گیاہے کہ اس میں جہنّم کے سات دروازوں کی طرف اشارہ ہے اور ان میں سے ہر ایک دروازہ کے لئے اس سورۃ کا ایک حِصّہ مقرر ہے جو خدائے رحمان کے اِذن سے جہنّم کے شعلوں کو دُور کرتا ہے۔ پس جوشخص جہنم کے ان سات دروازوں سے محفوظ گزرنا چاہتا ہے اسے لازم ہے کہ وہ اس سورۃ کی ساتوں آیات کے حصار میں داخل ہو اور ان سے دلی لگاؤ رکھے اور ان پر عمل کرنے کے لئے خدائے قدیر سے استقلال طلب کرے اور تمام اخلاق، اعمال اور عقائد جو انسان کو جہنم میں داخل کرتے ہیں وہ اصولی طور پر سات مہلک امور ہیں اور سورت فاتحہ کی یہ سات آیات ایسی ہیں جو ان مہلکات کی شدائد کو دفع کرتی ہیں ‘‘
(اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸، صفحہ ۷۷۔ ۷۸)
چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورت فاتحہ کی کس آیت کا دوزخ کے کس دروازے سے کس طرح تعلق ہے۔ یہ ایک الگ دلچسپ مضمون ہے۔
٭…٭…٭