میری مریم (قسط نمبر 4)
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
آخری لمحات
بہرحال اب انجام قریب آ رہا تھا مگر اللہ تعالیٰ پر اُمید قائم تھی، میری بھی اور ان کی بھی۔ وفات سے پہلے دن ان کی حالت نازک دیکھ کر اقبال بیگم(جو اِن کی خدمت کیلئے ہسپتال میں اڑھائی ماہ رہیں اللہ تعالیٰ انہیں دونوں جہان میں بڑے مدارج عطا فرمائے) رونے لگیں۔ اُن کا بیان ہے کہ مجھے روتے ہوئے دیکھ کر مریم محبت سے بولیں پگلی روتی کیوں ہو، اللہ تعالیٰ میں سب طاقت ہے۔ دعا کرو، وہ مجھے شفا دے سکتا ہے۔ ۴؍مارچ کی رات کو میرمحمد اسماعیل صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ اب دل کی حالت بہت نازک ہوچکی ہے اب وہ دوائی کا اثر ذرا بھی قبول نہیں کرتا اس لئے میں دیر تک وہاں رہا۔ پھر جب انہیں کچھ سکون ہوا تو شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پر سونے کیلئے چلا گیا۔ کوئی چار بجے آدمی دَوڑا ہوا آیا کہ جلد چلیں حالت نازک ہے۔ اُس وقت میرے دل میں یہ یقین پیدا ہو گیا کہ اب میری پیاری مجھ سے رُخصت ہونے کو ہے اور میں نے خدا تعالیٰ سے اپنے اور اس کے ایمان کے لئے دعا کرنی شروع کر دی۔ اب دل کی حرکت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی تھی اور میرے دل کی ٹھنڈک دارالآخرۃ کی طرف اُڑنے کے لئے پَر تول رہی تھی۔
آخری بات
کوئی پانچ بجے کے قریب مَیں پھر ایک دفعہ جب پاس کے کمرہ سے جہاں مَیں معالجین کے پاس بیٹھا ہوا تھا ان کے پاس گیا تو ٹھنڈے پسینے آ رہےتھے اور شدید ضعف کے آثار ظاہر ہو رہے تھے مگر ابھی بول سکتی تھیں۔ کوئی بات انہوں نے کی جس پر میں نے انہیں نصیحت کی۔ انہوں نے اِس سے سمجھا کہ گویا مَیں نے یہ کہا ہے کہ تم نے روحانی کمزوری دکھائی ہے رحم کو اُبھارنے والی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ میرے پیارے آقا! مجھے کافر کر کے نہ ماریں یعنی اگر میں نے غلطی کی ہے تو مجھ پر ناراض نہ ہوں، مجھے صحیح بات بتا دیں۔ اُس وقت میں نے دیکھا کہ موت تیزی سے ان کی طرف بڑھتی آ رہی ہے۔ میرا حساس دل اب میرے قابو سے نکلا جا رہا تھا، میری طاقت مجھے جواب دے رہی تھی مگر میں سمجھتا تھا کہ خداتعالیٰ اور مرحومہ سے وفاداری چاہتی ہے کہ اِس وقت میں انہیں ذکرِ الٰہی کی تلقین کرتا جائوں اور اپنی تکلیف کو بھول جائوں۔ میں نے اپنے دل کو سنبھالا اور ٹانگوں کو زور سے قائم کیا اور مریم کے پہلو میں جھک کر نرمی سے کہا تم خدا تعالیٰ پر بدظنی نہ کرو۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی (وہ سید تھیں ) اور مسیح موعود علیہ السلام کی بہو کو کافر کرکے نہیں مارے گا۔
آخری گفتگو
اُس وقت میرا دل چاہتا تھا کہ ابھی چونکہ زبان اور کان کام کرتے ہیں میں اِن سے کچھ محبت کی باتیں کر لوں مگر مَیں نے فیصلہ کیا کہ اب یہ اِس جہان کی روح نہیں اُس جہان کی ہے اب ہمارا تعلق اِس سے ختم ہے۔ اب صرف اپنے رب سے اس کا واسطہ ہے اس واسطہ میں خلل ڈالنا اِس کے تقدس میں خلل ڈالنا ہے اور میں نے چاہا کہ انہیں بھی آخری وقت کی طرف توجہ دلائوں تا کہ وہ ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو جائیں مگر صاف طور پر کہنے سے بھی ڈرتا تھا کہ ان کا کمزور دل کہیں ذکر ِالٰہی کا موقع پانے سے پہلے ہی بیٹھ نہ جائے۔ آخر سوچ کر میں نے ان سے اِس طرح کہا کہ مریم! مرنا تو ہر ایک نے ہے دیکھو! اگر میں پہلے مر جائوں تو میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کروں گا کہ وہ کبھی کبھی مجھ کو تمہاری ملاقات کے لئے اجازت دیا کرے اور اگر تم پہلے فوت ہوگئیں تو پھر تم اللہ تعالیٰ سے درخواست کرنا کہ وہ تمہاری روح کو کبھی کبھی مجھ سے ملنے کی اجازت دے دیا کرے اور مریم! اس صورت میں تم میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سلام کہنا۔
تلاوتِ قرآن
اِس کے بعد میں نے کہا مریم! تم بیماری کی وجہ سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں آئو میں تم کو قرآن کریم پڑھ کر سنائوں۔ پھر میں نے سورہ رحمٰن جو اُن کو بہت پیاری تھی پڑھ کر سنانی شروع کی (مجھے اِس کا علم نہ تھا بعد میں اِن کی بعض سہیلیوں نے بتایا کہ ایسا تھا )اور ساتھ ساتھ اِس کا ترجمہ بھی سنانا شروع کیا۔ جب مَیں سورۃ پڑھ چکا تو انہوں نے آہستہ آواز میں کہا کہ اور پڑھیں تب مَیں نے سمجھ لیاکہ وہ اپنے آخری وقت کا احساس کر چکی ہیں اور تب مَیں نے سورۂ یٰسنپڑھنی شروع کر دی۔
آخری دعائیں
اِس کے بعد چونکہ اب اپنے آخری وقت کا انکشاف ہو چکا تھا کسی بات پر جو انہوں نے مجھے کہا کہ میرے پیارے! تو میں نے ان سے کہامریم! اب وہ وقت ہے کہ تم کو میرا پیار بھی بھول جانا چاہئے۔ اب صرف اُسی کو یاد کرو جو میرا بھی اور تمہارا بھی پیارا ہے۔ مریم! اُسی پیارے کو یاد کرنے کا یہ وقت ہے اور میں نے کبھی
لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ
اور کبھی
رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ
اور کبھی
بِرَحْمَتِک اُسْتَغِیثُ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
پڑھنا شروع کیا اور ان سے کہا کہ وہ اِسے دُہراتی جائیں۔ کچھ عرصہ کے بعد میں نے دیکھا کہ ان کی زبان اب خود بخود اَذکار پر چل پڑی ہے۔ چہرہ پر عجیب قسم کی ملائمت پیدا ہوگئی اور علامات سے ظاہر ہونے لگا جیسے خدا تعالیٰ کو سامنے دیکھ کر ناز سے اُس کے رحم کی درخواست کر رہی ہیں۔ نہایت میٹھی اور پیاری اور نرم آواز سے انہوں نے بار بار
یَاحَیُّ یَاقَیَّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ
کہنا شروع کیا۔ یہ الفاظ وہ اِس انداز سے کہتیں اور اَسْتَغِیْثُ کہتے وقت ان کے ہونٹ اِس طرح گول ہو جاتے کہ معلوم ہوتا تھا اپنے ربّ پر پورا یقین رکھتے ہوئے اُس سے ناز کر رہی ہیں اور صرف عبادت کے طور پر یہ الفاظ کہہ رہی ہیں ورنہ اُن کی روح اس سے کہہ رہی ہے کہ میرے ربّ! مجھے معلوم ہے تو مجھے معاف کر ہی دے گا۔
اِس کے بعد میں نے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کو بُلوایا کہ اب مجھ میں برداشت نہیں، آپ تلقین کرتے رہیں۔ چنانچہ انہوں نے کچھ دیر تلاوت اور اَذکار کا سلسلہ جاری رکھا۔ اِس کے بعد کچھ دیر کے لئے پھر میں آ گیا۔ پھر میر صاحب تشریف لے آئے۔ باری باری ہم تلقین کرتے رہے۔ اب ان کی آواز رُک گئی تھی مگر ہونٹ ہِل رہے تھے اور زبان بھی حرکت کر رہی تھی۔ اس وقت ڈاکٹر لطیف صاحب دہلی سے تشریف لے آئے اور انہوں نے کہا کہ بیماری کی وجہ سے سانس پر دبائو ہے اور ڈر ہے کہ جان کنی کی تکلیف زیادہ سخت نہ ہو اس لئے آکسیجن گیس سنگھانی چاہئے۔ چنانچہ وہ لائی گئی اور اس کے سنگھانے سے سانس آرام سے چلنے لگ گیا مگر آہستہ ہوتا گیا لیکن ہونٹوں میں اب تک ذکر کی حرکت تھی۔
خدا تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو گیا
آخر دو بج کر دس منٹ پر جب کہ مَیں گھبرا کر باہر نکل گیا تھا، عزیزم میاں بشیر احمد صاحب نے باہرنکل کر مجھے اشارہ کیا کہ آپ اندر چلے جائیں۔ اِس اشارہ کے معنی یہ تھے کہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے۔ مَیں اندر گیا اور مریم کو بے حس و حرکت پڑا ہوا پایا مگر چہرہ پر خوشی اور اطمینان کے آثار تھے۔ ان کی لمبی تکلیف اور طبیعت کے چڑچڑا پن کی وجہ سے مجھے ڈر تھا کہ وفات کے وقت کہیں کسی بے صبری کا اظہار نہ کر بیٹھیں اِس لئے ان کے شاندار اور مؤمنانہ انجام پر میرے منہ سے بے اختیار اَلْحَمْدُللّٰہِ نکلا۔
سجدۂ شکر
اور مَیں ان کی چارپائی کے پاس قبلہ رُخ ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گیا اور دیر تک اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا کہ اُس نے ان کو ابتلاء سے بچایا اورشکرگزاری کی حالت میں ان کا خاتمہ ہوا۔ اِس کے بعد ہم نے ان کے قادیان لے جانے کی تیاری کی اور شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر لا کر انہیں غسل دیا گیا۔ پھر موٹروں اور لاریوں کا انتظام کر کے قادیان خدا کے مسیح کے گھر میں ان کو لے آئے۔ ایک رات ان کو انہی کے مکان کی نچلی منزل میں رکھا اور دوسرے دن عصر کے بعد بہشتی مقبرہ میں ان کو خدا تعالیٰ کے مسیح کے قدموں میں ہمیشہ کی جسمانی آرام گاہ میں خود مَیں نے سر کے پاس سے سہارا دے کر اُتارا اور لحد میں لٹا دیا۔
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْھَا وَارَحَمْنِیْ
اولاد
مرحومہ کی اولاد چار بچے ہیں تین لڑکیاں اور ایک لڑکا۔ یعنی امۃ الحکیم، امۃ الباسط، طاہر احمد اور امۃ الجمیل
سَلَّمَھُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَکَانَ مَعَھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ
جب مرحومہ کو لے کر ہم شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پہنچے تو چھوٹی لڑکی امۃ الجمیل جو اُن کی اور میری بہت لاڈلی تھی اور کُل سات برس کی عمر کی ہے، اُسے میں نے دیکھا کہ ہائے اُمّی! ہائے اُمّی! کہہ کر چیخیں مار کر رو رہی ہے۔ میں اُس بچی کے پاس گیا اور اُسے کہا جمی! (ہم اُسے جمی کہتے ہیں ) اُمّی اللہ میاں کے گھر گئی ہیں وہاں اُن کو زیادہ آرام ملے گا اور اللہ میاں کی یہی مرضی تھی کہ اب وہ وہاں چلی جائیں۔ دیکھو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے، تمہارے دادا جان فوت ہوگئے کیا تمہاری اُمّی اُن سے بڑھ کر تھیں۔ میرے خدا کا سایہ اِس بچی سے ایک منٹ کے لئے بھی جدا نہ ہو، میرے اِس فقرہ کے بعد اُس نے ماں کے لئے آج تک کوئی چیخ نہیں ماری اور یہ فقرہ سنتے ہی بالکل خاموش ہوگئی بلکہ دوسرے دن جنازہ کے وقت جب اُس کی بڑی بہن جو کچھ بیمار ہے، صدمہ سے چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی تو میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ کے پاس جا کر میری جمی اُن سے کہنے لگی چھوٹی آپا! (انہیں بچے چھوٹی آپا کہتے ہیں ) باجی کتنی پاگل ہے۔ ابا جان کہتے ہیں اُمّی کے مرنے میں اللہ کی مرضی تھی؟ یہ پھر بھی روتی ہے۔ اے میرے رب! اے میرے رب! جس کی چھوٹی بچی نے تیری رضاء کے لئے اپنی ماں کی موت پر غم نہ کیا، کیا تواُسے اگلے جہان میں ہرغم سے محفوظ نہ رکھے گا۔ اے میرے رحیم خدا! تجھ سے ایسی امید رکھنا تیرے بندوں کا حق ہے اور اِس امید کا پورا کرنا تیرے شایانِ شان ہے۔
(باقی آئندہ)