افریقہ (رپورٹس)جلسہ سالانہ

تنزانیہ کے شمالی ریجن شیانگا (Shinyanga) میں جلسہ سالانہ نو مبائعین کا انعقاد

(عبد الناصر مومن۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)

محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے امسال جماعت احمدیہ شیانگا ریجن کو تیسرے ریجنل جلسہ سالانہ نو مبائعین کے انعقاد کی توفیق ملی۔ تنزانیہ کے 31 ریجنز میں سے ایک ریجن شیانگا ہے۔ جو شمالی تنزانیہ کے لیک زون میں واقع ہے۔ اس ریجن میں جماعت احمدیہ کا باقاعدہ طور پر نفوذ 2011ء میں ہوا۔ اس وقت اللہ کے فضل سے اس ریجن میں کل 55جماعتیں، 21مساجد اور 18مشن ہاوسز ہیں اور 5000 سے زائد سعید روحیں احمدیت کے جھنڈےتلے موجود ہیں۔ الحمدللہ

شیانگا ریجن تنزانیہ میں واقع جماعتی ملکی ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 1000کلومیٹر دور ہے۔ اس لئے مرکزی جلسہ سالانہ میں یہاں کےافراد جماعت میں سے ایک محدود تعداد ہی شریک ہو پاتی ہے اور کئی افراد غربت اور دیگر بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث شامل نہیں ہو پاتے۔ اسی امر کو مد نظر رکھتے ہوئے مکرم طاہر محمود چوہدری صاحب امیر و مبلغ انچارج تنزانیہ کی ہدایت پر ریجنل جلسہ سالانہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس بابرکت جلسہ میں خصوصاً نو مبائعین کی تعلیمی، تربیتی اور روحانی تشنگی دور کرنے کے لئے ریجنل مبلغ صاحب اور دیگر عہدیداران نے جامع پروگرام مرتب کیا۔

مکرم عمران محمود صاحب ریجنل مبلغ شیانگا ریجن اس دو روزہ جلسہ سالانہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

ریجنل جلسہ سالانہ کی تیاری کا آغاز حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعائیہ خط سے کیا گیا۔ ریجن کے تمام صدران سے میٹنگ کر کے جلسے کی جگہ اور دیگر تمام کام کیسے سر انجام دئیے جائیں طے کیا گیا۔ اسی اجلاس میں ریجنل افسر جلسہ سالانہ کا انتخاب ہوا اور بعد از منظوری ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سےافراد جماعت نے نہایت محنت اور قربانی کے جذبہ کےساتھ جلسہ سالانہ میں پکنے والے کھانے کے لئے راشن مثلاً چاول، لوبیا وغیرہ اور ٹرانسپورٹ کے لئے رقم اکٹھی کی۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔ افراد جماعت اور خصوصاً نو مبائعین نے نمایاں قربانی کر کے، باوجود غربت اور محدود وسائل کے، اپنی طاقت سے بڑھ کرحصہ ڈالا۔ اور اس طرح 600 کلو چاول اور 30 کلو لوبیا جمع کیا جن کی مجموعی مالیت تقریباً 850000 تنزانین شلنگز ہے۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ کے لئے بھی 700000 شلنگز جمع کر کے احباب جلسے میں پہنچے۔ الحمد للہ علیٰ ذلک۔

جلسہ سے قبل ایک دعوت نامہ تیار کیا گیا جس میں احمدیت کا تعارف، پیغام اور جلسہ کی اغراض ومقاصد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں بیان کئے گئے اور 5000کی تعداد میں چھپوا کر عوام الناس اور سرکاری و دیگر مذہبی عہدیداران میں تقسیم کئے گئے۔ خدام جلسہ سے پندرہ روز قبل سے روزانہ جماعتی کتب و لٹریچر لے کر مختلف اطراف میں نکلتے اور دعوت نامہ کے ساتھ ساتھ جماعتی تعارف و تبلیغ بھی کرتے۔ اسی طرح ریجنل ہیڈکوارٹر ضلع کہامہ (Kahama) کے نواح میں دس کلومیٹر کے علاقہ میں بذریعہ گاڑی و سپیکر اعلانات کے ذریعہ پیغام پہنچایا گیا۔

کہامہ شہر میں جماعت احمدیہ کے ریجنل ہیڈ کواٹر کے آغاز کے ساتھ ہی مخالفت کا سامنا رہا۔ جس جگہ جماعتی مسجد اور ریجنل مشن ہاؤس کی تعمیر ہوئی اس جگہ پر ہماری مسجد پہلی اسلامی عبادتگاہ تھی مگر گزشتہ ایک سال میں غیر احمدیوں کی طرف سے یہاں تین مساجد کی تعمیر ہوئی جہاں سے لوگوں کو من گھڑت باتیں جماعت کے بارے میں بتا کر جماعتی مسجد آنے سے روکا جاتا ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمان نہیں، منافق ہیں ،فری میسن ہیں، مسجد میں جن ہوتے ہیں وغیرہ … اسی طرح جلسے میں شرکت سے بھی روکا گیا۔ مگر اس سب کے باوجود جو لوگ آئے انہوں نے بتایا کہ ہمیں تو بتایا گیا تھا اس جلسے میں فتنہ فساد ہوگا مگر یہ جلسہ تو انتہائی پر امن اور تربیت کے لئے مفید اور ضروری ہے۔

مکرم امیر صاحب تنزانیہ کے ہمراہ ملک بھر سے 10مرکزی مبلغین اس جلسہ میں شمولیت کے لئے تشریف لائے۔ 40 افراد جماعت کا قافلہ تقریباً 1000کلومیٹر کا سفر کر کے دارالسلام سے تشریف لائے۔ یہ احباب جس بس میں آئے وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصاویر اور آپ کی آمد کے اعلانات کے بینرز سے مزین تھی۔ اور تمام رستہ ’’اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح‘‘ کا اعلان کرتی منزل مقصود تک پہنچی۔

مزید بر آں جامعہ احمدیہ تنزانیہ، ایم ٹی اے اسٹوڈیو تنزانیہ، خدام الاحمدیہ، انصاراللہ اور لجنہ اماءاللہ تنزانیہ کے نمائندگان بھی اس بابرکت جلسہ کے لئے تشریف لائے۔

جلسہ گاہ کا معائنہ

مکرم امیر صاحب نے جلسہ گاہ کا تفصیلی معائنہ کیا۔ مرکزی جلسہ گاہ، شاملین جلسہ کی رہائش گاہ، لنگرخانہ، بک سٹال اور دیگر بنیادی ضروریات مثلاً پانی، بستر اور غسل خانہ وغیرہ کے انتظامات کے حوالہ سے جائزہ لیا اور ضروری ہدایات سے نوازا۔

جلسہ کا پہلا دن

جلسہ گاہ میں باجماعت نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد پہلے اجلاس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ تلاوت اور نظم کے بعد پہلی تقریر مکرم کریم الدین شمس صاحب ریجنل مبلغ مبیاو کٹاوی ریجنز نے ’’جماعت احمدیہ کے بنیادی عقائد، احمدی اور دوسرے مسلمانوں میں فرق اور حکومت وقت کی اطاعت‘‘ کے عنوان پر کی۔ دوسری تقریر مکرم یوسف عثمان کامباولایا (Kambaulaya) صاحب سابق مبلغ سلسلہ نے ’’ابتدائی جلسہ سالانہ کے حالات اور جلسہ کی اغراض و مقاصد‘‘ کے عنوان پر کی۔ اس کے بعد مقامی سیاسی حکمران جماعت کے ایک لیڈر نے اظہار خیال کرتے ہوئے دعوت نامہ پر اور علاقہ میں جماعتی خدمات پر شکریہ ادا کیا اور ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ بعد ازاں تیسری تقریر مکرم ریاض احمد ڈوگر صاحب ریجنل مبلغ ارنگا و نجومبے (Iringa، Njombe) نے ’’تربیت اولاد‘‘ کے عنوان پر کی۔

مکرم امیر صاحب نے اپنے خطاب میں نو مبائعین کو بیعت کے بعد اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین کی اور دیگر غیر از جماعت مہمانان کو بتایا کہ ہم اس جلسے میں اپنے نئے بھائیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے آئیں ہیں، اسلام احمدیت امن کا پیغام ہے، ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہمارا دین ہمیں حکومت وقت کی اطاعت سکھاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پہلے دن کے اجلاس کا اختتام ہوا۔

مجلس سوال و جواب

جلسہ کے پہلے روز بعد نماز مغرب وعشاء مجلس سوال و جواب کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں شاملین جلسہ نے علماء کرام سے مختلف سوالات کئے جس کے جوابات موقع پر دئے گئے۔ تمام شاملین نےاس مجلس کو بہت پسند کیا اور بعض نے برملا اظہار کیا کہ اس مجلس کے ذریعے ہمارے علم میں گراں قدراضافہ ہوا ہے۔ بعض نومبائعین نوجوانوں نے بتایا کہ بغیر نکاح کے ایک ساتھ رہنے کو ہم برائی نہیں سمجھتے تھے مگر اب ہمیں علم ہواکہ یہ گناہ ہے لہٰذا اب ہم ایسا نہیں کریں گے۔

جلسہ کا دوسرا دن

دوسرے دن کا آغاز نماز تہجد سے ہوا، جو تمام شاملین نے جلسہ گاہ میں مکرم اہتشام لطیف صاحب ریجنل مبلغ موانزہ کی اقتداء میں باجماعت ادا کی۔ نماز فجر کے بعد مکر م خواجہ مظفر احمد صاحب ریجنل مبلغ ڈوڈوما نے ’’ایمان کے ساتھ مشکلات اور مخالفت کا ہونا لازمی امر‘‘ کے عنوان پر درس دیا۔

دوسرے دن کے اجلاس کی کارروائی کا آغاز پرچم کشائی سے ہوا۔ امیر صاحب نے لوائے احمدیت ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم کے ورد کے ساتھ بلند کیا اور دعا کروائی۔

دوسرے دن کے اجلاس کی پہلی تقریر مکرم عابد محمود بھٹی صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ تنزانیہ نے ’’نظام جماعت، خلافت اور اس کی اطاعت‘‘ کے عنوان پر کی۔ دوسری تقریر مکرم آصف محمود بٹ صاحب ریجنل مبلغ موروگورو ریجن و انچارج ایم ٹی اسٹوڈیو نے ’’انفاق فی سبیل اللہ ،مال اور نفس کی قربانی اور اسکی برکات‘‘ کے عنوان پر کی۔ تیسری تقریر مکرم عبدالرحمان عامے صاحب مبلغ سلسلہ نے ’’تربیت، عبادت اور بیعت کے بعد تقویٰ کے حصول کی جدوجہد‘‘ کے بارے میں کی۔

مکرم امیر صاحب نے اختتامی خطاب اور دعا کروائی۔ امیر صاحب نے انتہائی مؤثر انداز میں پیغام حق پہنچایا اور نومبائع احمدی احباب کو نصائح کیں اور کہا کہ پنجوقتہ نماز اور نماز جمعہ میں باقاعدگی اختیار کریں اور اپنے اندرہر ایک نیک تبدیلی پیدا کریں کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ ہر کمزوری کو چھوڑ کر ہر اچھائی کو اختیار کرنے والے بن گئے ہیں۔

اس جلسہ میں شاملین کی تعداد تقریباً 1200 سے زائد تھی۔ معزز مہمانوں کے قیام وطعام کا انتظام ریجنل مشن ہاؤس اور مسجد کے ساتھ ایک گھر میں کیا گیا تھا۔ باقی تمام مہمانوں کا انتظام جلسہ گاہ میں تھا۔

پریس کانفرنس اور جلسہ کی میڈیا کوریج

جلسہ کے دوسرے روز علی الصبح پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندگان نے امیر صاحب سے ملاقات کی۔ امیر صاحب نے جماعت کا تعارف کروایا اور جلسے کی غرض بتانے کے بعد صحافیوں کے سوالات کے جوابات بھی دئے۔ اس پریس کانفرنس کو تمام بڑے مقامی وملکی میڈیا چینلزنے نشر کیا۔ جلسے کی خبریں 6 ٹی وی اور ریڈیو چینلز پر نشر ہوئیں۔ اس کےساتھ ساتھ جماعت کے ’’احمدیہ ریڈیو مٹوارہ‘‘ چینل نےجلسہ کے تمام پروگرامز بذریعہ آڈیو لنک براہ راست نشر کئے، جس کے باعث تنزانیہ کے جنوب مشرقی ریجنز تک جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچا۔ الحمد للہ۔ 3اخبارات نے تصاویر کے ساتھ جلسے کی خبریں شائع کیں۔ مزید بر آں سوشل میڈیا پر بھی کثرت سے جلسے کی پوسٹس شیئر ہوئیں۔

میڈیا نے لکھا اور بیان کیا:

٭…جماعت احمدیہ مسلم جماعت ہے ان کی تعلیمات جو یہ اپنے لوگوں کو سکھاتے ہیں وہ امن، پیار اورمحبت کی ہیں۔ یہ ایک خدا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حکومت وقت کی اطاعت کی تلقین کرتے ہیں۔

٭…بچوں کی تربیت اور شرک سے بچنے کی تعلیم دیتے ہیں (اس ریجن میں شرک بہت ہے)۔

٭…جماعت احمدیہ انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہے، جیسا کہ پانی کے کنویں کھدوائے گئے اور عوام الناس کوسولر انرجی مہیا کر رہے ہیں۔

٭…جماعت نے اس ریجن میں 150 پانی کے نلکےاور 21 مساجد تعمیر کی ہیں۔

یہ تمام باتیں میڈیا نے مفصل بیان کیں۔

مہمانوں کے تاثرات

ایک بات جس کا اظہار اکثریت نے کیا وہ یہ تھی کہ اس پروگرام سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے اور جماعت کے بارے صحیح تعارف ہوا ہے۔ جماعت احمدیہ پر امن اور خدا اور بندوں کے حقوق ادا کرنے میں کوشاں رہنے والی جماعت ہے۔ احمدی احباب نے خود کو تبدیل کرنے کا عزم کیا۔ مقامی معلم صاحب نے بتایا کہ احباب جماعت اس جلسے میں شامل ہو کر بہت خوش تھے۔ بہت سے سرکاری نمائندگان نے مبارک باد دی اور بعض عیسائیوں نے کہاکہ اس پروگرام میں شامل ہوکر خود کو خوش قسمت محسوس کر رہے ہیں، بہت ہی بابرکت دن تھا جلسے کا۔ بعض سرکاری افسران نے اور سکول ٹیچرز نے کہا کہ آپ خدا کی خاطر کام کر رہے ہیں اسے جاری رکھیں اس علاقے کے لوگوں کو اس کی بہت ضرورت ہے ۔اللہ تعالیٰ تمام شاملین کے اموال و نفوس اور مساعی میں برکت دے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنیں اور اس بابرکت جلسہ کوسب کی ہدایت کا باعث بنائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button