کیا حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت عیسیٰؑ کی گستاخی کی ہے؟
غیر احمدی علماء حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک اعتراض یہ کرتے ہیں کہ نعوذباللہ آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی۔ اور یہی اعتراض نصاریٰ نے ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا تھا کہ نعوذباللہ آپ مسیح کو گالیاں دیتے ہیں۔ جیسا کہ تفسیر الخازن میں لکھا ہے کہ نجران کے وفد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا
’’مَا لَكَ تَشْتُمُ صَاحِبَنَا؟ ‘‘
کہ آپ ہمارے ( یسوع مسیح) کو گالیاں کیوں دیتے ہیں؟
(تفسیر خازن جِلد اوّل صفحہ 358 و تفسیر ثنائی )
لیکن درحقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن عیسائی پادریوں کے سامنے جو ناحق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے تھے خیالی مسیح کی اُس حیثیت کو پیش کیا جسے انجیل بیان کرتی ہے تا اُنہیں کے مسلّمات سے اُنہیں ملزم کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انجیلی مسیح کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’ہمیں پادریوں کےیسوع اور اُس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی۔ انہوں نے نا حق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دےکر ہمیں آمادہ کیا کہ اُن کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال اُن پر ظاہر کریں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 292حاشیہ)
’’یاد رہے کہ ہماری رائے اُس یسوع کی نسبت ہے جس نے خدائی کا دعویٰ کیااور پہلے نبیوں کو چور اور بٹمار کہا اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بجزاس کے کچھ نہیں کہا کہ میرے بعد جھوٹے نبی آئیں گے۔ ایسے یسوع کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں۔‘‘
(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 13)
ھَذَا مَا کَتَبْنَا مِنَ الْاَنَاجِیْلَ عَلٰی سَبِیْلِ الْاِلْزَامِ۔ وَاِنَّا نُکْرِمُ الْمَسِیْحَ وَنَعْلَمُ اَنَّہٗ کَانَ تَقِیًّا وَّمِنَ الْاَنْبِیَاءِ الْکِرَامِ۔
یعنی یہ سب باتیں ہم نے انجیلوں کے حوالوں کی بنا پر بطور الزام خصم لکھی ہیں۔ ورنہ ہم تو حضرت مسیح کی عزت کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ پارسا اور برگزیدہ نبیوں میں سے تھے۔
(ترغیب المومنین، روحانی خزائن جلد13صفحہ 451، حاشیہ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ بالا تحریرات سے یہ بات واضح ہے کہ آپ نے بطور الزام پادریوں کے سامنے اُس انجیلی مسیح کی تصویر کو پیش کیا جو اُن پادریوں کے خیال میں تھی۔ جیسا کہ قاسم علی نانوتوی صاحب لکھتے ہیں کہ’’نصاریٰ جو دعویٰ محبّت عیسیٰ علیہ السلام کرتے ہیں تو حقیقت میں اُن سے محبّت نہیں کرتےکیونکہ دارومدار اُن کی محبت کا خدا کا بیٹا ہونے پر ہے تو یہ بات حضرت عیسیٰ میں تومعلوم۔ البتہ اُن کے خیال میں تھی اپنی خیالی تصویر کو پوجتے ہیں اور اسی سے محبت کرتے ہیں حضرت عیسیٰ کو خداوند کریم نے اُن کی واسطہ داری سے برطرف رکھا ہے۔ ایسا ہی شیعہ بھی اپنی خیالی تصویر سے محبّت کرتے ہیں ائمہ اہل بیت سے محبّت نہیں کرتے اس محبّت پر محبان قدرشناس کو دشمن اہل بیت سمجھنا ایسا ہی ہے جیسا نصاریٰ بزعم خود رسول اللہ اور اُن کی اُمت کو دُشمن عیسٰی سمجھتے ہیں ‘‘
(ھدیتہ الشیعہ صفحہ 327)
گویا حضرت مسیحؑ کی دو تصویریں ہیں؛ اہل اسلام کے پاس حقیقی اور نصاریٰ کے پاس خیالی۔ عیسائی اسی خیالی تصویر کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اسی سے محبت کرتے ہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ کہا وہ دراصل اسی خیالی مسیح کے متعلق کہا نہ کہ اس مسیح کے متعلق جسے اسلام پیش کرتا ہے۔
اس جگہ ہم ایک اصول بھی بیان کر دینا مناسب سمجھتے ہیں جسے غیر احمدی علماء مخالفین اسلام کے اعتراض کرنے پر اُن کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب اپنے رسالہ ’’بحث تناسخ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ضروری ہےکہ ہر ایک کلام کے صحیح معنی وہی ہوتے ہیں جو متکلم کی منشاء کے مطابق ہوں اگر کسی کلام کے ایسے معنی ہوں کہ متکلم اُس کو صحیح نہ جانتا ہو گو اپنی کھینچ تان سے ہم اُسےسیدھا بھی کرلیں مگر حقیقت میں سیدھے نہیں ہوں گے کیونکہ متکلم اُن معنوں سے انکاری ہے۔ یہ اصول اہلِ زبان کا مسلّم ہے۔ ‘‘
( بحث تناسخ صفحہ54)
’’سب آفتوں کی جڑ یہی ہے کہ متکلم سے اُس کے کلام کے معنے دریافت کرنے سے پہلےہی اُس پر رائے زنی کی جائے اور آپ ہی آپ اُس کی شرح کرکے حاشیہ چڑھایا جائے۔‘‘
( تفسیر ثنائی جِلد اوّل )
پس باوجود اس کے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے کلام کی خود وضاحت پیش فرمادی اُس کلام پر مخالفین کا اپنے حاشیہ چڑھا کر اعتراض کرنا اور ایسے معنی بیان کرناجن کو متکلم صحیح نہیں جانتا اور اُن کا انکاری ہے کہاں کی دیانت داری ہے؟ پھر یہی طریق خود مخالفین احمدیت بھی عیسائیوں کے مقابل پر اختیار کرتے رہے لیکن اُن پر توہین کا الزام کیوں نہیں؟ اور نہ ہی اس روش کو اختیار کرنے پر مخالفین احمدیت نے خود کو توہین کا مرتکب سمجھا لیکن بغض میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پرضرور الزام لگاتے رہے۔ جیسا کہ محمد حسین بٹالوی اپنے رسالہ اشاعت السنه میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں: ’’حضرت مسیح کو دشنام دہی کے جواب میں جو آپ سے اس ضمیمہ میں ہوئی ہے حکومت سلطنت اسلام ہوتی تو ہم اِس کا جواب آپ کو دیتے اُسي وقت آپ کا سر تلوار سے کاٹ کر آپ کو مردار کر دیتے۔‘‘
(اشاعۃ السنہ جِلد 18نمبر 3صفحہ 95)
لیکن اشاعۃ السنہ جلد 17نمبر 7صفحہ 221پر اسی مسیح کے متعلق جس کی دشنام دہی کی سزا قتل مقرر کی گئی تھی لکھتے ہیں: ’’انجیلی مسیح کے معجزہ شراب سازی کے ( جس سے اُس کی اباحت نکلتی ہے ) ردّ میں قرآن نے فرمایا کہ شراب۔ جوا۔ تہان یابت اور پالنسی ناپاک ہیں شیطانی کام ہیں ان سے بچو تاکہ نجات پاؤ۔ اور انجیلی مسیح کی تعلیم اخلاق کے ردّ میں قرآن کی ہدایت صفحہ 211 میں گزر چکی ہے۔
بالجملہ انجیلی مسیح کے جملہ امور کو جو مذکور ہوئے قرآنی مسیح نے اور قرآن نے خطا قرار دیا ہے نہ وہ خطا جو عمد کے مقابل میں ہوتا ہے بلکہ یہاں خطا سے گمراہی و سرکشی و فساد کشی مراد ہے پس اس مسیح کو عصمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نسبت نہیں۔‘‘
یہی حال ثناء اللہ امرتسری اور دیگر مخالفین سلسلہ احمدیہ کا تھا۔ ثناء اللہ امرتسری حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے رسالہ ’’تعلیمات مرزا‘‘میں لکھتے ہیں: ’’مرزا صاحب کی یا کسی اور صاحب کی ساری عمر کی نیکی ایک پلڑے میں اور حضرت عیسیٰ کے حق میں مرقومہ بدگوئی دوسرے پلڑے میں رکھی جائے گی تو یہ دوسرا پلڑا بحکم شریعت بہت جھکنے والاثابت ہوگا۔‘‘
(رسائل ثنائیہ صفحہ 431)
لیکن اپنی تصنیف اسلام اور مسیحیت میں مسیح کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’یسوع مسیح نے خود یا انجیل نویسوں نے جبلّت استفسار کی خوب مٹّی پلید کی تاکہ اس کے بعد کوئی شریف آدمی سوال ہی نہ کر سکے اگر کرے تو بد اور حرام کار ٹھہرے۔‘‘
(اسلام اور مسیحیت صفحہ 80)
تفسیر ثنائی میں لکھا ہے کہ’’تورات اور انجیل کو مسودہ سے تشبیہ اُس کی حالت موجودہ کے لحاظ سے ہے جس میں ایسے مضامین بھی ہیں کہ حضرت لوط نے شراب پی کر اپنی لڑکیوں سے زنا کیا۔ مسیح نے شراب کی دعوت میں شراب کے کم ہونے پر معجزہ سے شراب کو بڑھا دیا۔ ورنہ حقیقی تورات اور انجیل نورِ ہدایت تھی‘‘
( تفسیر ثنائی جِلد 2صفحہ 17)
پس ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جب تورات کی دو حیثیتیں حقیقی، غیر حقیقی ہو سکتی ہیں تو مسیح کی کیوں نہیں؟ مولوی عبدالرؤف صاحب اخبار اہل حدیث میں لکھتے ہیں: ’’مسیح اپنے قول کے مطابق نیک انسان نہ تھا۔‘‘پھر مسیح کی بد چلنی انجیل سے ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’مسیح نے اجنبی عورتوں سے اپنے سر پر عطر ڈلوایا۔ ایک عورت نے جو اُس شہر کی بد چلن اور فاحشہ عورت تھی مسیح کا پاؤں دھویا پھر اپنے بالوں سے پونچھا پھر اُنہیں چوما اور اُن پر عطر ملا۔ ظاہر ہے کہ اجنبی عورت بلکہ فاحشہ اور بد چلن عورت سے سر کو اور پاؤں کو ملوانا اور وہ بھی اُس کے بالوں سے ملا جانا کس قدر احتیاط کے خلاف کام ہے۔ اس طرح کے کام شریعت الٰہیہ کے صریح خلاف ہیں۔‘‘
( اخبار اہلِ حدیث 31؍مارچ 1939ءصفحہ 9)
بریلوی فرقے کے مشہور امام احمد رضا خان مسیح کے متعلق لکھتے ہیں: ’’مسیح علیہ السلام اپنی پہلی آمد میں نا کامیاب رہے اور یہودیوں کے ڈر کے مارے کام تبلیغ رسالت سرانجام نہ دے سکے۔‘‘
(انوارِ شریعت جِلد دوم صفحہ 55)
اسی طرح لکھتے ہیں کہ’’عیسائیوں کا خدا (مسیح ) مخلوق کے مارے سے دم گنواکر باپ کے پاس گیااُس نے اکلوتے کی یہ عزت کی اُس کی مظلومی بے گناہی کی یہ داد دی کہ اُسے دوزخ میں جھونک دیا اوروں کے بدلے اُسے تین دن جہنّم میں بھونا۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ جلد 15صفحہ 539تا540)
پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند شان کے اظہار کے لیےجو کچھ لکھا قابل صد ہزار تحسین ہے۔ خدا اُس برگزیدہ نبی کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
(مرسلہ: محمد اعظم سیفی۔ انڈیا)