خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍ستمبر2021ء
ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ایسے وفا شعار، خلافت سے اخلاص اور وفا کا تعلق رکھنے والے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے جماعت کو عطا فرماتا رہے
سید طالع احمد شہید کے درخشندہ اوصاف کا تذکرہ
اس کا نقصان ایسا ہے جس نے ہلا کے رکھ دیا ہے۔ وہ پیارا وجود وقف کی روح کو سمجھنے والا اور اس عہد کو حقیقی رنگ میں نبھانے والا تھا جو اس نے کیا تھا
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حادثے کے بعد بہت سے اس معیار کے پیدا کر دے۔
اے پیارے طالع! میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارے ان آخری الفاظ سے پہلے بھی مجھے پتہ تھا کہ تمہیں خلافت سے پیار اور محبت کا تعلق تھا۔ تمہارے ہر عمل سے، ہر حرکت و سکون سے، جب تمہارے ہاتھ میں کیمرہ ہوتا تھا اور میں سامنے ہوتا تھا تب بھی اور جب تم کیمرے کے علاوہ ملتے تھے، چاہے ذاتی ملاقات ہو یا دفتر کے کام سے ،تمہاری آنکھوں کی چمک سے اس محبت کا اظہار ہوتا تھا۔ تمہارے چہرے کی ایک عجیب قسم کی رونق سے اس محبت کا اظہار ہوتا تھا۔ غرض کہ ہر طرح تمہارے ہر عمل سے یہ لگ رہا ہوتا تھا کہ کس طرح تم اس محبت کا اظہار کرو جو تمہیں خلیفۂ وقت سے ہے۔
اے پیارے طالع! میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً تم نے اپنے وقف اور عہد کے اعلیٰ ترین معیاروں کو حاصل کر لیا ہے۔
امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جگہ دی ہو گی
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍ستمبر2021ء بمطابق 03؍تبوک1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ دنوں ہمارے ایک بہت ہی پیارے بچے اور واقفِ زندگی عزیزم سید طالع احمد ابن سید ہاشم اکبر کی گھانا میں شہادت ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 23؍ اور 24؍ اگست کی درمیانی شب ایم ٹی اے کی ٹیم گھانا کے ناردرن ریجن میں ریکارڈنگ کر کے کماسی (Kumasi)آ رہی تھی کہ راستے میں سوا سات بجے کے قریب ڈاکوؤں کی فائرنگ سے یہ جو ٹیم کے تین ممبر تھے ان میں سے دو، عزیزم سید طالع احمد اور عمر فاروق صاحب زخمی ہو گئے۔ تقریباً ساڑھے چار گھنٹے کے بعد پہلے پولی کلینک میں ان کی میڈیکل ٹریٹمنٹ (treatment)ہوئی ۔ اس کے بعد ٹمالے بڑے ہسپتال لے جا رہے تھے تو راستے میں سید طالع احمد کی وفات ہو گئی۔ ایم ٹی اے انٹرنیشنل سے دوسرے ملکوں میں تو شاید بعض شہادتیں ہوئی ہیں لیکن یہاں کی پہلی شہادت تھی اور واقفین نَو یو کے کی میرا خیال ہے شاید پہلی شہادت ہے۔
سید طالع احمد محترمہ امة اللطیف بیگم صاحبہ اور سید میر محمد احمد صاحب کے پوتے تھے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑنواسے اور اس طرح حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحبؓ کے پڑپوتے یعنی پوتے کے بیٹے تھے اور حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ حضرت اماں جان حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے چھوٹے بھائی تھے۔ اس لحاظ سے حضرت اماں جانؓ سے بھی ان کا سلسلہ ملتا ہے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی اور اماں جان سے پھر ایک رشتہ قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ مرزا غلام قادر شہید کے داماد بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ جیسا کہ میںنے کہا وقفِ نو کی تحریک میں بھی شامل تھے۔
بائیومیڈیکل سائنسز میں ڈگری حاصل کی۔ پھر جرنلزم میں ماسٹرز کیا۔ 2013ء میں زندگی وقف کی اور پھر مختلف دفتروں میں کام کرنے کے بعد آخر پریس اور میڈیا میں ان کی تقرری ہوئی۔ اس سے پہلے سید طالع اپنی جماعت میں لوکل لیول پر بھی خدمات بجا لاتے رہے تھے۔ خدام الاحمدیہ ہارٹلے پول میں تبلیغ، تعلیم اور اشاعت اور اطفال کے شعبوں کا کام کیا۔ ان کی 2016ء میں ایم ٹی اے نیوز میں مکمل طور پہ تقرری ہوئی اور اس سے پہلے یہ ریویو آف ریلیجنز میں انڈیکسنگ (Indexing)اور ٹیگنگ (Tagging)کے ہیڈ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ ایم ٹی اے نیوز کے لیے انہوں نے ڈاکومنٹریز بنائیں اور مزید تین یا چار ڈاکومنٹریز پر کام کر رہے تھے۔ یہ جو میری مصروفیات کا ہفتہ وار پروگرام ہے
This week with Huzur
اس کو بھی انہوں نے initiateکیا تھا، انہوں نے شروع کیااور پھر آخر تک اس میں خاص دلچسپی سے اس کی ایڈیٹنگ وغیرہ اور سارا کام کرتے رہے اور یہ پروگرام ایم ٹی اے دیکھنے والوں کے لیے بڑا مشہور تھا۔ ایڈیٹر طاہر میگزین کے علاوہ مجلس خدام الاحمدیہ کے شعبہ اشاعت میں بھی خدمت بجا لاتے رہے۔ مختلف جماعتی رسائل مثلاً ریویو آف ریلیجنز اور طارق میگزین میں مضامین بھی لکھتے رہے اور پریس اینڈ میڈیا کے آفس کے تحت مختلف ممالک میں میرے ساتھ بھی اور ویسے بھی انہوں نے دورے کیے۔
عزیزم طالع کو اپنے کام کو ختم کرنے کے لیے اور صرف ختم کرنے کے لیےنہیں بلکہ معیار کے مطابق پہنچانے کے لیے
ایک غیر معمولی جوش اور جذبہ
ہوتا تھا اور اس کے لیے وہ کسی خطرے کی بھی پروا نہیں کرتا تھا اور اس کی شہادت کے واقعہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ایک لمحے کی بھی فکر نہیں تھی کہ کیا خطرہ ہے۔ بس یہ فکر تھی کہ جس کام کے لیے میں آیا ہوا ہوں اس کو احسن رنگ میں سرانجام دے سکوں اور وقت پہ مکمل کر لوں۔ اسی لیے ایسے وقت میں سفر بھی شروع کیا جبکہ خطرے کے امکانات بہت بڑھ گئے تھے۔ ابوبکر ابراہیم صاحب ٹمالے (Tamale)کے زونل مشنری ہیں۔ وہ کچھ تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 23؍ اگست کو صبح جب ایم ٹی اے کی ٹیم سلاگا (Salaga)روانہ ہونے لگی تو انہوں نے طالع کو اپنا سامان پیک کرتے دیکھ کے کہا کہ ہوٹل سے چیک آؤٹ کر رہے ہو تو سلاگا سے واپس آنا ہے اور یہاں رکنا بھی ہے۔ طالع نے کہا وقت کم ہے اس لیے میں نے واپس کماسی ہی جانا ہے ۔ ان کو مولوی صاحب نے کہا کہ آپ کو سلاگا سے واپسی پر دیر ہو گئی تو پھر رات کو سفر مناسب نہیں ہے لیکن بہرحال انہوں نے کہا ٹھیک ہے، پھر دیکھیں گے لیکن انہوں نے یہ بھی انہیں کہا کہ میں نے آگے سیرالیون بھی جانا ہے اور میرے پاس صرف مزید دو دن ہیں اور بہت سارے کام یہاں کماسی اور اکرا (Accra)میں کرنے والے ہیں۔ اس لیے میرا جاناضروری ہے لیکن آپ کہتے ہیں تو دیکھوں گا۔ بہرحال جب واپس آئے تو انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ واپسی کا سفر کرنا ہے اور یہ واپسی کے لیے کماسی روانہ ہو گئے۔ پونے سات بجے طالع نے عمر فاروق صاحب کو کہا کہ نماز پڑھ لیتے ہیں۔ ان سب نے مغرب اور عشاء کی نمازیں باجماعت ادا کیں۔ پھر ان کو فکر تھی کہ سلاگا سے جو ریکارڈنگ کر کے لائے ہیں اور یہاں ٹمالے میں کی ہیں ان کی فائلز کرپٹ (corrupt)نہ ہو جائیں اس لیے سفر میں ہی انہوں نے اس کو لیپ ٹاپ پر محفوظ کرنے کے لیے کوشش شروع کر دی اور سفر کے دوران یہی کام کر رہے تھے ۔تو ان کو یہ نہیں تھا برداشت کہ کسی طرح بھی وقت ضائع ہو۔ اور پھر جو جماعتی سامان ہے اس کی بھی ان کو ہر وقت فکر رہتی تھی کہ یہ بڑا مہنگا سامان ہے، ضائع نہ ہو جائے۔
بہرحال پولیس رپورٹ کے مطابق یہ کہتے ہیں جب ایم ٹی اے کی گاڑی Mpahaجنکشن کے قریب پہنچی تو ڈاکوؤں نے ان پر فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجہ میں ٹیم کے دو افراد زخمی ہو گئے جیسا کہ میں نے بتایا۔ ان کے ڈرائیور کہتے ہیں کہ ایک گاڑی سامنے سے آ رہی تھی، اس نے مجھے خطرے کا اشارہ کیا جس کو میں سمجھ نہیں پایا لیکن بہرحال جب میں نے دیکھا کہ ڈاکو آگے آ گئے ہیں، ایک دم رات کو ہیڈ لائٹس کی روشنی میں مجھے نظر آئے تو بہرحال میں نے زور سے کلمہ پڑھا لیکن ساتھ ہی ڈاکوؤں نے فائرنگ بھی شروع کر دی۔ سید طالع گاڑی کے پچھلے حصہ میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو بھی اندازہ ہوگیا فائرنگ سن کے کہ آرمڈ رابرز (armed robbers)سے مقابلہ ہو رہا ہے، حملہ ہو گیا ہے۔ عمر فاروق صاحب کہتے ہیں کہ اس فائرنگ کے دوران مجھے کولہے میں ران کے اوپر گولی لگی لیکن اس گولی کا مجھے احساس نہیں ہوا۔ گولیاں برسانے کے بعد ڈاکوؤں کی طرف سے خاموشی ہو گئی اور یہ لوگ پھر تھوڑی دیر بیٹھے رہے۔ بہر حال کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد ڈاکو ٹارچ لے کر آگے بڑھے اور ڈرائیور اور مجھے گاڑی سے اتارا اور ہمارے پاس فون اور جو رقم تھی ہم نے ان کے حوالے کر دی۔ انہوں نے ہمیں باہر سڑک پر لٹا دیا، زدوکوب کیا۔ کہتے ہیں میرے سر پہ زور سے ڈنڈا بھی مارا جس سے خون نکلنا شروع ہو گیا لیکن اس کے باوجود کہتے ہیں مجھے طالع کی فکر زیادہ تھی۔ بہرحال یہ بھی بیمار ہیں ،گولی بھی لگی ہے، سر بھی زخمی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی شفا دے۔ ان کے لیے بھی دعا کریں۔ بہرحال اس کے بعد عبدالرحمٰن اور عمر فاروق جو ڈرائیور تھے وہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہو گیا۔ جب ڈاکو ہمیں لُوٹ کے چلے گئے تو ہم ہمت کر کے اٹھے۔ فوراً گاڑی کی طرف آئے کہ دیکھیں طالع کا کیا حال ہے تو دیکھا کہ اس کے بھی کمر پہ دائیں طرف گولی لگی ہوئی تھی اور اندر دھنس گئی تھی جس کے نتیجہ میں گاڑی میں ہی بہت سارا خون بہہ گیا تھا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق یہی جان لیوا بھی ثابت ہوا۔
بہرحال سانحہ کے بعد انہیں ایک گزرتی بس کے ذریعہ سے Buipeپولی کلینک پہنچایا گیا۔ وہاں کچھ تھوڑی سی treatment ہوئی۔ پھر وہاں سے ٹمالے ٹیچنگ ہسپتال لے جانے کا فیصلہ ہوا لیکن راستے میں ہی ان کی وفات ہو گئی اور ہسپتال جا کے انہوں نے ڈکلیئر کیا کہ وفات توہو چکی ہے۔ عمرفاروق صاحب کہتے ہیں کہ طالع کا سر میری ران پہ تھا اور وہ بار بار مجھ سے یہی پوچھتے تھے کیا حضور کو ہمارے اس واقعہ کی اطلاع ہو گئی ہے؟ دعا کے لیے کہہ دیا ہے؟ کہتے ہیں ہمارے پہ اس سانحہ کا شدید اثر تھا اور بےشمار اندیشے اور خوف تھے جو ہمیں خوفزدہ کر رہے تھے۔ کہتے ہیں سید طالع نے اس دوران میں جب ہم ہسپتال لے کے جا رہے تھے یہ بھی انہیں بتایا کہ دوران فائرنگ انہوں نے فوری طور پر لیپ ٹاپ اور دوسری چیزوں کو پچھلی سیٹوں کے نیچے دھکیل دیا ہے جو وہاںمحفوظ ہیں وہاں سے نکال لینا۔ پھر انہوں نے مجھ سے کیمرے اور فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ کے بارے میں پوچھا کہ کیا سب محفوظ ہے ؟کیونکہ انہیں فکر تھی کہ سب ریکارڈ ضائع نہ ہو جائے۔ میںنے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب متعلقہ سامان محفوظ ہے۔
اسے فکر تھی تو جماعتی اشیاء اور اموال کی
اور جو محنت کی تھی جماعتی تاریخ کو محفوظ کرنے کی اس کی حفاظت کی۔ بہرحال کہتے ہیں کہ نو، ساڑھے نو بجے کے قریب اس کی حالت بگڑنی شروع ہوئی جس کی وجہ سے پولی کلینک والوں نے فیصلہ کیا کہ فوری طور پر کسی ہسپتال منتقل کیا جائے جیسا کہ میں نے کہا کہ ٹمالے ہسپتال لے جا رہے تھے تو راستے میں ہی ان کی وفات ہو گئی۔ ایمبولینس میں بعض ضروری چیزیں بھی موجود نہیں تھیں اور ان ملکوں میں بعض دفعہ یہی حالات ہوتے ہیں۔ ایک تو شروع میں ایمبولینس ملنے کی وجہ سے دیر بھی ہوگئی اور پھر بلیڈنگ بھی بہت زیادہ ہو رہی تھی تو بہرحال آخر وہی ہوا جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی۔ عمر فاروق صاحب کہتے ہیں اس دوران میں جبکہ ہم زخمی سفر کر رہے تھے طالع نے مجھ سے کہا کہ
Tell Huzur that I love him and tell my family that I love them.
عمر فاروق صاحب کہتے ہیں کہ تھوڑی سی ہوش آتی تھی تو پھر یہی بات دوہراتے تھے اور ایسا کئی مرتبہ ہوا۔ یہ ایک دفعہ نہیں کہا، کئی مرتبہ ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ لوگوں نے ہمارا بہت زیادہ خیال رکھا ہے اور ہر ممکن مد د کی ہے جس کے لیے میں آپ کا تہ دل سے مشکور ہوں۔ میں نے ان کا حوصلہ بلند کیا لیکن اب ان کی ہمت جواب دیتی جا رہی تھی اور یہ حالت تھی کہ میں جب سوال کرتا تو بولنے کی بجائے اپنے ہاتھ کی مٹھی بند کر کے انگوٹھا اوپر کر کے اشارہ کرتے کہ سب ٹھیک ہے جس کی وجہ سے مجھے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ پھر ان کی سانس میں تیزی آئی اور ایک لمبی خاموشی ہو گئی اور میں سمجھ گیا کہ جو ہم نہیں چاہتے تھے وہ ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں میل نرس(male nurse) اور ڈرائیور آپس میں لوکل زبان میں باتیں کر رہے تھے جس سے مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ہمیں بتانا نہیں چاہتے لیکن سید طالع احمد کی وفات ہو چکی ہے اور بہرحال جیسا کہ میں نے کہا جب ٹمالے پہنچے تو ایک بج کے انچاس منٹ پر ان کی وفات کا اعلان ہوا، ہسپتال والوں نے ڈکلیئر کیا۔ کہتے ہیں اس خبر کی وجہ سے ٹمالے کے سب لوگ جو تھے بہت افسردہ ہو گئے کیونکہ تھوڑی دیر پہلے ہی ان کو ہنستا کھیلتا انہوں نے رخصت کیا تھا۔ تو بہرحال یہ تو اس کی شہادت کے واقعہ کی کچھ تفصیل تھی۔
ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ ایسے وفا شعار، خلافت سے اخلاص اور وفا کا تعلق رکھنے والے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے جماعت کو عطا فرماتا رہے لیکن اس کا نقصان ایسا ہے جس نے ہلا کے رکھ دیا ہے۔ وہ پیارا وجود وقف کی روح کو سمجھنے والا اور اس عہد کو حقیقی رنگ میں نبھانے والا تھا جو اس نے کیا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی تھی اسے دیکھ کر اور اب تک ہوتی ہے کہ کس طرح اس دنیاوی ماحول میں پلنے والے بچے نے اپنے وقف کو سمجھا اور پھر اسے نبھایا اور ایسا نبھایا کہ اس کے معیار کو انتہا تک پہنچا دیا۔ وہ بزرگوںکے واقعات پڑھتا تھا اس لیے نہیں کہ تاریخ سے آگاہی حاصل کرے اور ان کی قربانیوں پر صرف حیرت کا اظہار کرے بلکہ اس لیے کہ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔
خلافت سے وفا اور اخلاص
کا ایسا ادراک تھا کہ کم دیکھنے میں آتا ہے۔ بلکہ میں کہوں گا کہ ایسا تھا جسے بعض دین کا گہرا علم رکھنے والے بھی نہیں سمجھتے، بعض دفعہ ایسے لوگوں کا علم ان میں تکبر کی بُو پیدا کر دیتا ہے۔ بلکہ میںکہوں گا کہ بعض وہ بھی نہیں سمجھتے جن کا خیال ہے کہ ہم خلافت کے مقام اور اس کے وفا کے معیار کو سمجھتے ہیں۔ اس نے خلافت سے وفا کی اور ایسی وفا کی کہ اپنے آخری الفاظ میں جبکہ وہ موت و حیات کی حالت میں تھا اسے خلیفۂ وقت سے پیار اور وفا کا ہی خیال تھا۔ اپنے بچوں اور اپنی فیملی کا سب کو خیال آتا ہے لیکن ہر دفعہ بار بار اپنے بچوں سے، فیملی سے پہلے یا ساتھ، خلیفہ وقت سے پیار کے اظہار کا شاید ہی کسی کو خیال آتا ہو۔
شاید دو تین سال پہلے اس نے ایک نظم لکھی تھی جو اس نے اپنے کسی دوست کو دی تھی کہ اپنے پاس رکھ لو اور کسی کو نہیں دکھانی، جو خلافت سے تعلق اور پیار سے متعلق لکھی ہوئی تھی اور اس نے شروع ہی اس طرح کیا تھا کہ میں خلیفۂ وقت سے سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں اور ختم اس طرح کیا تھا کہ خلیفۂ وقت سے جو مجھے پیار ہے اور محبت ہے وہ انہیں کبھی پتہ نہیں چلے گی۔لیکن
اے پیارے طالع! میں تمہیں بتاتا ہوں
کہ تمہارے ان آخری الفاظ سے پہلے بھی مجھے پتہ تھا کہ تمہیں خلافت سے پیار اور محبت کا تعلق تھا۔ تمہارے ہر عمل سے، ہر حرکت و سکون سے، جب تمہارے ہاتھ میں کیمرہ ہوتا تھا اور میں سامنے ہوتا تھا تب بھی اور جب تم کیمرے کے علاوہ ملتے تھے،چاہے ذاتی ملاقات ہو یا دفتر کے کام سے، تمہاری آنکھوں کی چمک سے اس محبت کا اظہار ہوتا تھا۔ تمہارے چہرے کی ایک عجیب قسم کی رونق سے اس محبت کا اظہار ہوتا تھا۔ غرض کہ ہر طرح تمہارے ہر عمل سے یہ لگ رہا ہوتا تھا کہ کس طرح تم اس محبت کا اظہار کرو جو تمہیں خلیفۂ وقت سے ہے۔ مجھے شاید ہی کسی میں اس محبت کا اظہار نظر آتا ہو اور گھر میںمَیں ذکر کر رہا تھا کہ اب خاندان میں نوجوانوں میں تو مجھے ایسا اظہار کسی میں نظر نہیں آتا۔ دلوں کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے بلکہ بڑوں میں بھی شاید چند ایک میں ہی ہو۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حادثے کے بعد بہت سے اس معیار کے پیدا کر دے۔
طالع کا وجود جیسا کہ اس نے اپنی نظم میں ذکر کیا ہے ایسا تھا کہ وہ اس محبت کا اظہار نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ چھپانا چاہتا تھا لیکن نہیں چھپتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں اس تعلق کا اظہار کروا دیتا تھا اس لیے وہ مجھے بہت پیارا تھا۔ ہر وقت اس فکر میں رہتا تھا کہ کب خلیفہ وقت کے منہ سے کوئی بات نکلے اور میں اس پر عمل کروں اور صرف خود ہی عمل نہ کروں بلکہ کب اور کس طرح میں خلافت کے مقام کے بارے میں دنیا کو بتاؤں۔ کب خلافت کی حفاظت کے لیے جان کی قربانی بھی دینی پڑے تو جان کا نذرانہ بھی پیش کر دوں۔ پھر
اپنے کام سے ایسا عشق کہ کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
صرف اس لیے ہی اپنے کام سے عشق نہیں تھا کہ اپنے کام کو بہت پسند کرتا تھا اور لوگ بہت سارے ایسے ہیں جو پسند کرتے ہیں۔ ان کو بھی اپنے کام سے بہت عشق اور لگاؤ ہوتا ہے۔اس کو اپنے کام سے اگر لگاؤ تھا تو اس لیے کہ اس ذریعہ سے میں اسلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا دفاع کروں گا، اس لیے کہ یہ پیغام میں دنیا کو پہنچاؤں گا۔ اس لیے کہ میرا کام ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں۔ اس لیے کہ میں نے خلیفہ وقت کا مددگار بننا ہے۔
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی تدفین کے وقت جب میں مٹی ڈالنے سے پہلے قبر کے سرہانے کھڑا تھا تو میرے دائیں طرف آ کے کھڑا ہو گیا۔ میںنہیں جانتا تھا کہ یہ کون کھڑا ہے۔ اب تصویر دیکھی ہے تو پھر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ کون تھا اور کیا موقع تھا لیکن اس تیرہ سالہ بچے نے شاید اس وقت یہ عہد کیا تھا کہ
میں وقف نو ہوں اور اب میں نے خلیفہ وقت کا مددگار بننا ہے،
دست راست بننا ہے اور پھر اس نے سالوں بعد اپنی تعلیم مکمل کر کے اس عہد کو پورا کیا اور نبھایا اور خوب نبھایا۔ جرنلزم میں بھی اس نے میرے مشورے سے داخلہ لیا تھا اور پھر تعلیم مکمل کی اور شہید ہو کر بتا گیا کہ میں خلافت کا حقیقی مددگار بنا ہوں۔
اے پیارے طالع! میں گواہی دیتا ہوں کہ
یقیناً تم نے اپنے وقف اور عہد کے اعلیٰ ترین معیاروں کو حاصل کر لیاہے۔
کس کس طرح وہ خلیفۂ وقت کے الفاظ پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا اس کا اندازہ اس سے ہوجاتا ہے کہ میں نے بعض میٹنگز میں جو مربیان کے ساتھ تھیں انہیں کہا کہ مربیان کو کوشش کرنی چاہیے کہ کم و بیش ایک گھنٹے کے قریب تہجد پڑھا کریں تو عزیز طالع نے بعض مربیان کی طرح یہ سوال نہیں کیا کہ گرمیوں کی چھوٹی راتوں میں کس طرح اتنی جلدی جاگ کر ایک گھنٹے کے قریب تہجد پڑھ سکتے ہیں بلکہ اس نے عمل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ایک دوست مربی نے ایک دن اسے بڑا تھکا ہوا دیکھا تو وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ خلیفۂ وقت نے مربیان کو ایک گھنٹے کے قریب تہجد پڑھنے کا کہا ہے۔ میں بھی تو وقف ہوں تو یہ حکم میرے لیے بھی ہے۔ آج تہجد کی وجہ سے پوری طرح سو نہیں سکا اس لیے تھکاوٹ لگ رہی ہے۔ اس مربی نے مجھے لکھا کہ اس کی بات نے مجھے سخت شرمندہ کیا کہ میں براہِ راست مخاطب تھا اور میں نے خلیفۂ وقت کی بات پر اس طرح عمل نہیں کیا اور اس نے محض ایک واقف زندگی کے عہد کو نبھانے کے لیے اس پر عمل کیا ہے۔ یہ تھا اس کا عہد نبھانے کا معیار۔ پس واقفین زندگی کے لیے بھی وہ ایک نمونہ تھا اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا فرد ہونے کی حیثیت سے
خاندان کے افراد کے لیے بھی وہ وفا اور اخلاص کا ایک نمونہ
قائم کر گیا۔ اب یہ افراد خاندان پہ منحصر ہے کہ کس حد تک وہ اس نمونے پرعمل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے منسوب ہونے کا حق ادا کرتے ہیں۔ خاندان کی عزت یا جسمانی رشتہ داری سے کوئی مقام نہیں ملتا۔ اگر کوئی ان کی عزت کرتا ہے تو ان کی دنیا داری کی وجہ سے نہیں ہے اور نہ کبھی ہو گی۔ حقیقی عزت اس میں ہے کہ دین کے خادم ہوں اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں ورنہ دنیاداروں میں تو کروڑوں لوگ مالی لحاظ سے ان سے بہتر ہیں اور جو دنیاوی لحاظ سے بہتر نہیں ان کے نزدیک بھی ان کی کوئی عزت نہیں ہے۔ پس
میں خاندان کے افراد سے بھی کہتا ہوں
کہ اس جانے والے سے نصیحت حاصل کریں اور اخلاص اور وفا میں بڑھیں اور جس طرح اس وفا کے پیکر نے اپنا عہد نبھایا اور دین کو دنیا پر مقدم کیا باقی افراد خاندان بھی اس نمونے کو دیکھیں اور یہی چیز عزت دلانے والی اور خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے والی ہے ورنہ دنیاداری اور دنیاوی خواہشات افراد خاندان کو معمولی سی بھی عزت نہیں دلا سکتیں۔ اگر اپنے عمل صحیح نہیں ہیں تو کسی بزرگ کا بیٹا ہونا یا کسی بزرگ کی بیٹی ہونا کوئی فخر کا مقام نہیں ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ
واقفین زندگی کے لیے بھی حیرت انگیزنمونہ
تھا۔ کبھی شکوہ نہیں کیا تھا کہ الاؤنس تھوڑا ہے، گزارہ نہیں ہوتا ۔ جو ملتا اس میں شکر کر کے گزارہ کرتا۔ اگر کہیں سے کوئی زائد آمد ہو جاتی توشکرگزاری کے جذبات سے لبریز ہوتا۔ اللہ تعالیٰ سے اس نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ کبھی مجھے تنگی نہ دینا اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی کبھی تنگی نہیں دی۔ باقاعدہ روزے رکھنے والا تھا۔ اس میں بےشمار خوبیاں تھیں۔ بعض لوگ جو قریبی دوست تھے، عزیز تھے ،جو مجھے تعزیت کے خط لکھ رہے ہیں وہ اس کی بےشمار خوبیاں بیان کر رہے ہیں۔ ایسی ایسی خوبیاں جو میرے لیے بھی حیرت انگیز ہیں۔ میں اس کی وفا کو تو کچھ حد تک جانتا تھا لیکن اس کی نیکی اور تقویٰ کے معیار بھی بہت اونچے تھے۔ اس لیے مناسب ہے کہ میں اس کی سیرت کے بارے میں لوگوں کے الفاظ میں ہی بعض باتیں آپ کے سامنے رکھ دوں جس میں اس کی بیوی اور والدین اور بھائی بہنوںاور دوستوں کے جذبات ہیں اور بعض حقائق اور واقعات ہیں۔
عامر سفیر صاحب ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر کہتے ہیں چار سال تک طالع نے ریویو میں کام کیا، انڈیکسنگ ڈیپارٹمنٹ میں بطور آرکائیو ٹیگنگ پراجیکٹ میں بطور نگران خدمت کی توفیق پائی۔ بہت بڑی ذمہ داری تھی جو اس نے سرانجام دی۔ ریویو آف ریلیجنز کے سو سال سے زائد عرصہ کا انڈیکس تیار کرنا، مختلف کیٹیگریز (categaries)کی فہرست تیار کرنا، الگ الگ موضوعات پر مضامین کو ترتیب دینا ایک بہت وسیع کام تھا جس پر انہوں نے بڑی محنت سے اور لگن سے کام کیا۔ گیارہ افراد پر مشتمل یہ ٹیم تھی۔ بہت محنت طلب کام تھا اور اللہ کے فضل سے سب نے اس کام کو سرانجام دیا جس کی نگرانی طالع نے کی۔ پھر کہتے ہیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ طالع
بہت ساری صلاحیتوں کے مالک
تھے۔ تنظیمی کام عمدگی سے بجا لاتے تھے۔ خدمت کا بہت زیادہ جذبہ اور لگن تھی۔ خلافت سے بےپناہ وفاداری اور پیار تھا۔ پھر کہتے ہیں ایک خوبی جس کا میں نے طالع میں مشاہدہ کیا وہ یہ ہے کہ وہ کسی پراجیکٹ کو گراؤنڈ زیرو سے شروع کر کے ایک جذبہ اور شوق کے ساتھ قابل فخر چیز بنا دیتے تھے۔ کبھی اس بات کا انتظار نہیں کرتے تھے کہ کوئی انتظام انہیں کام کرنے کی ترغیب دے یا انہیں یاددہانی کروائے۔ ایک جنونی آدمی کی طرح آگے بڑھ کے کام کرتے۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ جنون کی حد تک عزم اور اخلاص کے جذبہ سے دین کا کام کرتے ہیں۔ طالع کو دنیا کی پروا نہیںتھی۔ جب بھی جماعت اور خلافت کے لیے اسے خدمت کرنےکی توفیق ملتی تو محض یہی اس کے لیے سب کچھ تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ جو کچھ میں نے دیکھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کا سب کچھ خلافت کے گرد گھومتا تھا۔ خلیفۂ وقت کے ساتھ اپنا ایک ذاتی تعلق تھا لیکن جب کبھی میں اسے آپ کی کوئی ہدایت پہنچاتا تو منجمد ہو کر کھڑا ہو جاتا اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں جیسے کوئی بچہ candyکی طرف دیکھتا ہے اور پھر آپ کی ہدایت پہنچانے کے لیے میرا شکریہ بھی ادا کرتا۔ پھر کہتے ہیں ایک ڈاکومنٹری کے بجائے دو دو ڈاکومنٹریز پر کام کرتا اور میں بہت حیران ہوتا تھا کہ دو ڈاکومنٹریز پر ساتھ ساتھ کس طرح کام کر لیتا ہے۔ بسا اوقات ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ طالع کس ڈاکومنٹری پر کام کر رہا ہے۔ ہمیںسرپرائز دینا چاہتا تھا۔ طالع کی
تحقیق کرنے کی صلاحیت
بھی بہت اعلیٰ تھی۔
ایک اور اہم خوبی جو طالع میں پائی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ ہمیشہ اپنی فیملی اور رشتہ داروں کو جماعت سے منسلک اور جماعت کی خدمت کرتے دیکھنا چاہتا تھا۔ جب میں اسے بتاتا کہ فلاں رشتہ دار نے ریویو میں فلاں سلسلہ میں یہ خدمت کی ہے یا کر رہا ہے تو بہت خوش ہوتا تھا۔
قدوس عارف صاحب صدر خدام الاحمدیہ کہتے ہیں کہ بچپن سے ہی میرا اس کے ساتھ تعلق تھا۔ کہتے ہیں میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ طالع نے حضرت ملک غلام فرید صاحب کی شارٹ کمنٹری (Short Commentary) میں نشان لگائے ہوئے تھے اور فائیو والیم کمنٹری (Five Volume Commentary) بھی اس نے بڑی تفصیل سے پڑھی تھی اور مختلف آیات ہائی لائٹ کی تھیں اور چٹیں لگائی ہوئی تھیں۔
فائیو والیم کمنٹری جو اس نے پڑھی ہے اس کی تفصیل بھی مَیں بتا دوں۔ بی ایس سی کرنے کے بعد اس نے ایک سال گیپ ایئر (gap year)لیا تو اس وقت میں نے اسے وقف نَو کی کلاس میں کہا تھا اور اس کے بعد شاید دفتر میں ملاقات میں بھی کہ فائیو والیم کمنٹری پڑھو اور میرا خیال تھا کہ چند سال لگائے گا لیکن چند مہینوں کے بعد ہی آ کر اس نے مجھے بتایا کہ میں نے تمام پڑھ لی ہے۔ حیرت ہوئی تھی مجھے اس وقت بھی یہ سن کے۔ اسی طرح وہ ایسی ڈاکومنٹریز بھی پروڈیوس کرتا جو نوجوانوں کو پسند ہوں۔ مثلاً فٹبال کے بارے میں ڈاکومنٹری بنائی جس میں تربیتی پہلو کو مدنظر رکھا۔
پھر کہتے ہیں کہ ایم ٹی اے پر پروڈیوس کردہ ڈاکومنٹریز ایک سے ایک بڑھ کے ہے۔ کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ جب Brutality and Injustice: Two Trials in a Timeنشر ہوا تو خاکسار نے طالع کو میسج بھیجا کہ ڈاکومنٹری بہت ہی ایمان افروز تھی۔ اس نے بڑی عاجزی سے یہی جواب دیا کہ ہمیں دعاؤں میں یاد رکھنا ،یہ سب اللہ کا فضل ہے۔ ٹویٹر پر کسی نے ڈاکومنٹری کے نام پر اعتراض کیا تو اس پر طالع نے اس کا جواب دیا۔ کہتے ہیں میں نے اسے کہا تو اس نے کہا کہ چونکہ یہ نام خلیفۂ وقت نے خود منظور کیا تھا اس لیے میں نے اس کو ڈیفنڈ کیا ہے۔ اگر عابد یا میری طرف سے یہ نام ہوتا تو میں کبھی کچھ نہ کہتا لیکن خلیفۂ وقت نے اسے منظور کیا ہے تو اس لیے میں نے، بہرحال اس کی وضاحت کرنی ہے اور دفاع کرنا ہے۔ پھر کہتے ہیں پچھلے سال ورچوئل اطفال ریلی پر خاکسار نے مہتمم اطفال کے ذریعہ طالع سے درخواست کی کہ وہ اپنے کچھ واقعات جو آپ کے ساتھ ،خلیفۂ وقت کے ساتھ ہیں، پیش کرے۔ پہلے تو راضی نہیں ہوا پھر جب اس کو صدر مجلس کی حیثیت سے کہا تو راضی ہو گیا اور یہ واقعات بھی بہرحال لوگوں کو بڑے پسند آئے۔ اطفال نے اس کو بڑا پسند کیا۔ اس نے پھر صدر خدام الاحمدیہ کو میسج کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ میری ابھی اصلاح نہیں ہوئی کہ لوگوں کو نصیحت کروں اور واقعات سناؤں۔ میرا ارادہ تھا کہ جب میری اصلاح ہو جائے یا میں بڑھاپے میں موت کے قریب ہوں تو اس وقت یہ واقعات بتاؤں گا اور اس وقت تک یہی میرا خیال تھا کہ خاموشی سے وقت گزاروں گا لیکن تم نے مجھ سے یہ کہلوا دیا۔ لیکن
اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ اب وہ وقت ہے کہ وہ یہ واقعات شیئر کرے۔
ان کی اہلیہ عزیزہ سطوت کہتی ہیں۔ بہت پیار کرنے والا تھا۔ بہت شفقت کا سلوک کرنے والا تھا بچوں کے ساتھ بھی میرے ساتھ بھی۔ بڑا شفقت کا اظہار تھا۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کو appreciateکرتا تھا۔ کھانا چاہے جیسا بھی ہو اس کو پسند کرتا تھا۔ کہتی ہیں میرے والد کی شہادت کے بعد جلدی engagement بھی ہو گئی، منگنی بھی ہو گئی تو میں ذرا پریشان رہتی تھی۔ کہتی ہیں مجھے باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے اداسی بھی بہت تھی لیکن رشتہ کے بعد طالع نے میرا بہت خیال رکھا اور مجھے محسوس نہیں ہونے دیا۔ کہتی ہے جب میری منگنی ہو گئی تو میں سوچتی تھی کہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت ہے ۔ ویسے تو جوان تھا لیکن بچوںکی طرح روتا تھا جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرتا تھا۔ بیٹے طلال کو بھی آنحضورؐ کے بارے میں کہانیاں سناتا تو ہچکیاں لے کر روتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت کہانیاں پتہ تھیں، واقعات رٹے ہوئے تھے۔ اس بارے میں بھی اَوروں نے بھی بہت سارا لکھا ہے کہ اس کو تاریخ کا بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بھی بڑا گہرا علم تھا۔ کہتی ہے کہ مجھے کہتا تھا کہ طلال کا ایک کرسچن سکول ہے۔ جب میں سکول جاتا ہوں تو راستے میں اسے سورہ اخلاص دوہراتا جاتا ہوں کہ تم میرے پیچھے دوہراتے جاؤ۔
خلافت سے محبت بھی بہت تھی اور اس کی بہت غیرت بھی تھی۔
بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن اخلاص کا پتہ دیتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ اتنا خوش ہوتا تھا جب اس کو یہ لگتا تھا کہ آپ اس سے خوش ہیں یا اس کے بیٹے سے خوش ہیں۔ ہمیشہ ملاقات کے بعد ٹریٹ دیا کرتا تھا یا طلال کو چاکلیٹ دیتا تھا کہ بڑے اچھے بچے بن کے تم رہے ہو یا ہمیں آئس کریم وغیرہ کھلانے لے جاتا۔ اس بات پرخوش ہوتا تھا کہ خلیفہ وقت کے سامنے آج تم نے بہت اچھا behaveکیا ہے اور یا ہماری ملاقات بہت اچھی ہوئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ۔کہتی ہیں کہ بعض دفعہ اس کو یہ خیال ہوتا تھا کہ میں نے کسی بات کو ناپسند کیا ہے۔ یہ خیال ہی ہوتا ہو گا، مجھے نہیں یاد کہ کبھی ایسا کوئی واقعہ ہوا ہو ۔تو کہتی ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ جب کبھی یہ خیال اس کو ہوا کہ خلیفہ وقت نے کسی بات کو ناپسند کیا ہے تو تہجد میں رو رو کے اللہ تعالیٰ سے معافیاں مانگا کرتا تھا اور بچوں کی طرح بلک بلک کے روتا تھا اور یہی اس کو ڈاکومنٹریز بنانے کے بعد فکر ہوتی تھی کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے اس کی منظوری آ جائے اور This week والا پروگرام بھی جب اس نے شروع کیا تو بہت خوش تھا کہ اس کی وجہ سے اس کو موقع مل رہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ میرے دفتر میں آ کے میرے سے ریکارڈنگ کر سکے۔ پھر یہ کہتی ہیں کہ اس میں بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ
اس نے اپنے دین کو دنیا سے پہلے رکھا۔
بالکل غیر مادیت پسند تھا ۔کبھی اس نے کسی چیز کی خواہش نہیں کی۔ کبھی اس کے دل میں material چیزوں کے لیے لالچ نہیں تھی۔ کبھی اس کو دنیا کی چیزوں میں دلچسپی نہیں تھی۔ کوئی اس کو مہنگا تحفہ دے دیتا تو گھبرا جاتا تھا کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز آ گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بہت شکر کرتا تھا کہ جو بھی اس کو دیا ہے اسی پر وہ خوش تھا اور جو کچھ اس کے پاس تھا اس پر وہ قانع تھا۔ کہتا تھا کہ بچپن میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ان کے ساتھ مالی معاملات میں کیسا سلوک ہوتا تھا تو کہتا تھا کہ میں نے فوراً پڑھ کر اللہ میاں سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تُو نے مجھے بھی اسی طرح ٹریٹ کرنا ہے اور اس کو پکا یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کر لی ہے اور ہمیشہ میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب ؓکی طرح کا سلوک ہو گا اور یہ واقعی سچ ہے۔ کہتی ہے میں نے یہ خود دیکھا ہے کہ جب کسی چیز کی ضرورت ہوتی تھی تو اچانک اس کے پاس پیسے آ جاتے تھے۔ کہتی ہیں ابھی حال ہی میں دس سال بعد ایک لون (loan)کمپنی نے اس کو فون کیا کہ ہمارے پاس تمہارا ایک ہزار پاؤنڈ ہے۔ اس کو اتنی خوشی تھی کہ میں اپنی گاڑی کی انشورنس payکر سکتا ہوں اور گاڑی کی maintenanceکی جو ضرورت ہے وہ پوری کر سکتا ہوں۔ یہ نہیں کہ اب میں جماعت سے لوں۔
کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا پیار کا سلوک میں نے خود بھی دیکھا ہے۔ انہوں نے ایک تو سلوک کا واقعہ بیان کیا ہے لیکن وہ اپنا واقعہ بھی بیان کرتا ہے کہ جب میں یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ تھا جو تقریباً دس سال پرانی بات ہے ۔کہتا ہے ایک دفعہ مجھے سخت بھوک لگی اور میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ بالکل ختم ہو گئے تھے پیسے۔ میںنے نماز پڑھی۔ جب سلام پھیرا تو دیکھا کہ بستر کے نیچے دس پاؤنڈ پڑے ہوئے تھے۔ کہتا تھا کہ میں حیران تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ پیسے مجھے بھیجے ہیں۔
اس میں اعتماد بھی بہت تھا۔ میں نے کہا کہ لوگ کچھ کر لیتے ہیں مالی لحاظ سے تیاری وغیرہ لیکن اس کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے لیے رزق مہیا کر دے گا۔ اس لیے مجھے بلا وجہ دنیا کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنا وقف نبھاؤں۔ پھر یہ کہتی ہیں کہ جب ہم پہلے کرائے کے گھر میں تھے اور ہمارا tenancy agreementختم ہوا اور کونسل بل، بجلی کے بل وغیرہ کے بارے میں کونسل نے لکھا کہ تمہارے اکاؤنٹ میں کچھ زیادہ پیسے ہیں، دو سو تین سو پاؤنڈ ہیں ،تو فوراً اس نے کہا میں جماعت کو واپس کروں گا حالانکہ جماعت نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ اس طرح تم strictly فالو کرو اور پیسے واپس کرو لیکن اس نے برداشت نہیں کیا۔ اس نے کہا یہ میں نے جماعت کو واپس کرنے ہیں اور کہا کہ جماعت پر بوجھ نہیں بننا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اگر ہو سکتا تو یہ سب مفت میں کرتا اور کبھی
اس کو پسند نہ تھا کہ جماعت پر بوجھ بنے
یا جماعت سے کوئی چیز بھی requestکرے۔ آخر میں بھی اس کو یہی فکر تھی کہ جماعت کا میں اتنا مہنگا سامان لے کر افریقہ جا رہا ہوں کس طرح خیال رکھوں گا اور اس کو اپنی کوئی پروا نہیں تھی۔
مہمان نواز بہت تھا۔ اپنی فیملی اور میری فیملی کا ہمیشہ خیال رکھا کرتا تھا۔ سادہ کپڑے ہمیشہ ہوتے تھے۔ کہتی ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ بعض لوگ اس کو misunderstandکرتے تھے یا سمجھتے تھے کہ شاید اس میں تکبر ہے یا منہ پھٹ ہے لیکن وہ تو ایسا confident تھا وہ پیار سے ایسی باتیں کر جایا کرتا تھا۔ تکبر ان میں بالکل نام کو بھی نہیں تھا۔ طالع بہت معاف کرنے والا تھا اور ہر کسی کی پردہ پوشی کرتا تھا اور کبھی کسی کے خلاف دل میں بات نہیں رکھتا تھا۔
ان کے والد لکھتے ہیں کہ الحمد للہ، اللہ تعالیٰ نے ہمارے بیٹے کو خاص فضل و کرم کے ساتھ شہادت کے لیے چن لیا۔ کہتے ہیںایک خواب کی بنا پر میں نے ذہنی طور پر اپنی بیگم کو اور طالع کو تیار کرنا شروع کیا اور جب طالع کو یہ خواب سنائی تو اس نے کہا کہ کیا آپ نے خواب دیکھی ہے کہ آپ شہید ہو گئے ہیں؟ کہتے ہیں میں بڑا حیران ہوا۔ اس سے پوچھا تمہیں کس طرح پتہ لگا؟ اس نے کہا میںنے بھی یہ خواب دیکھی ہے کہ آپ شہید ہو گئے ہیں۔ تو بہرحال یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے کو اپنے باپ سے جس قدر محبت کی اجازت دی ہے، طالع اس عشق و عقیدت کی حد کو پہنچا ہوا تھا اور میرا خیال ہے کہ اسی وجہ سے اس نے یہ دعا کی ہو گی کہ باپ کی شہادت کی بجائے اسے شہادت کا درجہ ملے اور کیونکہ
وہ اس مقام کا تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا درجہ دے
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے ہی شہادت دی اور اس نے گولی لگنے کے بعد مشنری صاحب کو یہ بھی کہا تھا کہ چاہے میں زندہ رہوں یا مر جاؤں میں نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے۔
کہتے ہیںکہ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں پھونک دیا تھا کہ میں نے تجھے ایک خاندان میں پیدا تو کر دیا ہے اب اس کی ذمہ داری کو بھی سمجھنا اور اس ذمہ داری کو نبھانا اور جان لو کہ تمہاری زندگی اب تمہاری نہیں ہے ۔یہ میری ہے اور صرف میرے حکم پر چل کر تم نے یہ ساری زندگی گزارنی ہے۔ کہتے ہیں کہ طالع نے اپنی زندگی اور اپنی موت سے یہ مہر کر دی کہ اس نے ذمہ داری کا حق ادا کر دیا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ایسا نفس تھا جس کے دل میں کوٹ کوٹ کر اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت اور اپنے پیاروں کی محبت بھری ہوئی تھی۔ ایک ایسا دل تھا کہ بچپن سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور ذکر پر اس کے معصوم لب لرزتے تھے اور آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔ ایک پاکباز نفس جس میں کسی برائی کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ ظاہری و باطنی خوبصورتی بھی تھی اور مشابہت دینی ہے تو کہتے ہیں میں حضرت یوسفؑ سے مشابہت دیتا ہوں، کردار میں بھی اسی طرح پختہ تھا۔ اس کی روح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں چودہ سو سال قبل کی مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں پھرتی تھی اور اس کا جسم پیکر عشق تھا۔ اس کا اوڑھنا بچھونا ،کھانا پینا ،سانس لینا سب خلیفة المسیح کے لیے تھا۔
ان کی والدہ امة الشکور صاحبہ لکھتی ہیں کہ بہت خوش قسمت اور خوش نصیب ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک عظیم الشان بچے سے نوازا۔ طالع کے ساتھ اکتیس سالہ زندگی دنیا کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ پھر انہوں نے کسی خاتون کی خواب کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے دیکھا تھا کہ ایک بچہ جھولے میں ہے اور اس کے ہاتھ باسکٹ سے باہر آ رہے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ انہوں نے بچے کو السلام علیکم کہتے ہوئے سنا۔ اس کے ساتھ ایک نیلے رنگ کا کارڈ تھا جس پر عربی میں ‘اللہ ’لکھا ہوا تھا اور ساتھ انگریزی میں God۔ وہ بتاتی تھیںکہ میرا خیال ہے کہ نیلے رنگ سے مراد لڑکا ہے۔ یہ طالع کی پیدائش سے پہلے کسی خاتون نے خواب دیکھی اور ان کو بتایا تھا۔ انہوں نے خواب ظاہر کیا کہ تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہو گا اور
جہاں جہاںیہ لڑکا جائے گا امن اور سلامتی پھیلائے گا۔
بہرحال کہتی ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے خوبصورت اور پیارے بچے سے نوازا اور کہتی ہیں کہ ہم دونوں نے جب یہ پندرہ سال کی عمر کا تھا تو 2005ء میں ہم دونوں نے اکٹھے وصیت کی تھی۔ دین کے معاملات میں بہت ہوشیار تھا۔ کہتی ہیں تین سال کی عمر میں اس نے قرآن کریم کی کچھ سورتیں یاد کرلی تھیں۔ اپنی والدہ کو بتایا تو بڑی حیران ہوئیں۔ پھر کہتی ہیں یہ بھی مجھے یاد ہے کہ تین سال کی عمر میں مَیں تبلیغ کی باتیں اس سے شیئر کیا کرتی تھی اور بڑی سنجیدگی سے وہ باتیں میرے ساتھ شیئر کرتا تھا یا بتاتا تھا، discuss کرتا تھا ۔ پڑھائی میں بھی بہت اچھا تھا۔ بڑے اچھے نمبر لیتا تھا۔ کہتی ہیں میری خواہش تو یہ تھی کہ ڈاکٹر بنے لیکن اللہ تعالیٰ کا کچھ اور plan تھا۔ بائیومیڈیکل سائنسز کی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے جرنلزم میں ماسٹرز کی توفیق دی۔ کہتی ہیں کہ بیٹے کے انتقال کے بعدمجھے اس بات کا پہلے سے زیادہ احساس ہوا ہے کہ اسے آپ کے ساتھ کس قدر محبت تھی۔ کہتی ہیں آپ نے جب اسے ایم ٹی اے کے لیے تاریخی ڈاکومنٹریز بنانے کا کام دیا تو یہ بھی ہدایت دی تھی کہ بےشک تم independent ہو کر کام سرانجام دو اور وہ اس بات سے بڑا متاثر تھا، inspired تھا۔ کہتی ہیں ان کی بیوی سطوت نے مجھے بتایا کہ 2019ء میں اس نے اسے، سطوت کو ای میل پر آٹھ پروگراموں کے بارے میں ایک plan بھیجا اور جس میں ساتھ لکھا کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو ان پروگراموں کو مکمل کر لینا متعلقہ لوگوں تک پہنچا دینا۔
اس کی ہمشیرہ ندرت کہتی ہیں کہ طالع کے ساتھ رہنے کے بعد میں نے اس کی جماعت کے کاموں کے لیے لگن کو پہچانا۔ دین کی خدمت میں مصروف رہنے کی وجہ سے اکثر دیر سے گھر لَوٹتے۔ یہاں یونیورسٹی میں پڑھنے آئی تھی تو ان کے پاس رہتی رہی تھی۔ کہتی ہیں کبھی رات دس بجے کے بعد کبھی آدھی رات کے بعد گھر آنا اور کھانا کھانا پھر کام پہ لگ جانا۔ چھٹی کے دن بھی اس کے لیے حقیقت میں کوئی چھٹی نہیں ہوتی تھی جب تک کہ جماعت کا کام ختم نہ ہو جائے۔ ہمیشہ بہت جوش اور جذبے سے جماعتی کام میں مصروف رہتا۔ فارغ وقت میں اکثر ڈاکومنٹریز اور ویڈیوز دیکھتا رہتا تو میں نے کبھی کسی کو کسی پروگرام کو اتنی گہرائی میں دیکھتے اور تجزیہ کرتے نہیں دیکھا جیسے کوئی مطالعہ کر رہا ہے اور پوچھنے پر کہتا کہ اپنے ہنر میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بہت ساری دستاویزی فلموں اور ویڈیوز کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ جماعت کے لیے مواد تیار کر کے عمدہ اور معیاری تاریخی ڈاکومنٹریز تیار کرنے کا ملکہ اس کے اندر بہت زیادہ تھا۔
دین کا علم بھی بہت وسیع تھا۔
اگر اسلامی تعلیمات کے حوالے سے کسی باریک سے باریک پہلو کے متعلق میرے ذہن میں کوئی سوال اٹھتا تو اکثر میرا دھیان اس کے متعلق ان سے بات کرنے کی طرف جاتا۔ احادیث کا گہرا مطالعہ تھا۔ کہیں نہ کہیں سے کوئی ایسی حدیث پیش کردیتا جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے تھے اور ساتھ اس کا حوالہ بھی بتا دیتا۔ مختلف موضوعات پر قرآنی آیات کا حوالہ بھی دے دیتا۔ ہر طرح کی گفتگو پر تبصرہ کر لیتا۔ بحث کے دوران اتنے وثوق کے ساتھ اپنے نکات بیان کرتا کہ دوسروں کے پاس انہیں قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا تھا۔ عربی زبان کا بھی مطالعہ تھا اور اس میں کافی گرفت حاصل کرنے کی اس نے کوشش کی۔ اس کی گرائمر سے بھی آشنا تھا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس کی اصل زبان میں سمجھنا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا تھا کہ اس نے عربی کا مطالعہ اتنی گہرائی میں کیسے کیا ہے؟ تو اس نے مجھے بھی مختلف نکات پر مشتمل ایک جامع فہرست بھیجی اور میری راہنمائی کی۔ اس فہرست میں چھبیس اسباق اور بہت سارے نکات الگ تھے اور بہت ساری ترکیبیں بھی تھیں۔ ان تمام ذہنی صلاحیتوں کو طالع نے صرف
خدا کا قرب حاصل کرنے اور جماعت کی خدمت
کے لیے استعمال کیا۔ کہتی ہیں دو خوابیں بالخصوص ایسی ہیں جن کے بارے میں طالع نے مجھے براہ راست بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس میں اس کی شہادت کی طرف اشارہ ہے۔ پہلی خواب طالع نے اپنے بیٹے طلال کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتائی کہ طلال کو اپنے والدین میں سے کسی ایک کے مرنے کا شدید خوف تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ چچا قادر کی شہادت کے بارے میں جانتا تھا۔ یہ بات بتاتے وقت طالع قدرے سنجیدہ ہو گیا اور اپنی آواز آہستہ کر لی۔ کہتی ہیں اس خواب کی تفصیل میری یادداشت میں پوری طرح واضح نہیں ہے لیکن طالع کہتے ہیں کہ اس میں مجموعی پیغام جو تھا وہ یہ تھا کہ میں اپنے سسر کی طرح کچھ واقعہ ہونے کا دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن میں نے یہ خواب دیکھی ہے جس میں اس طرح کا ذکر تھا کہ اس سے ملتا جلتا کوئی واقعہ ہو گا۔ طالع نے خواب میں یہ دیکھا کہ خدام الاحمدیہ کے کپڑے پہنے ہوئے ہے اور
جھنڈا اٹھائے جنت میں داخل ہو رہا ہے
اور ہر کوئی اسے اپنے سسر کے نام سے پکار رہا ہے کہ مرزا غلام قادر آ گیا۔
دوسری خواب طالع کے ایک پیغام کی صورت میں میرے پاس محفوظ ہے۔ جب میں حمل کے دوران بیمار تھی اور کافی سنجیدہ حالت ہو گئی تھی۔ کئی دفعہ ہسپتال میں داخل کیا گیا تو مجھے بار بار فون کرتا اور میرا حال پوچھا کرتا اور تسلی دلاتا۔ اس وقت اس نے اپنی ایک خواب کا ذکر کیا کہ اس کی بہنیں اس کے انتقال کے بعد زندہ رہیں گی اور کہتا ہے کہ کچھ سال پہلے ایک خواب دیکھی تھی جہاں میں جنت میں داخل ہو رہا ہوں اور وہاں میرے رشتہ داروں کی طرف سے ایک خوش آمدید پارٹی کا انتظام کیا گیا ہے۔ میں فوت ہونے پر کافی حیران ہوں اور پریشان ہوں کہ میری چھوٹی بہنیں مجھ سے پہلے نہ کہیں انتقال کرجائیں۔ اس لیے میں نے ادھر ادھر دیکھا تو ان میں سے کسی کو وہاں موجود نہیں پایا۔ اس نے اپنی بہن کو کہا کہ اگر یہ خواب سچا ہے تو تم فکرنہ کرو۔ ڈاکٹروں نے بڑی سنجیدہ صورتحال بتائی ہے لیکن فکر نہ کرو اگر میری یہ خواب سچی ہے تو تم ٹھیک ہو جاؤ گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ سب کچھ ٹھیک بھی ہو گیا۔ کہتی ہیں مجھے طالع کی ذہانت پر بھی فخر ہے۔ خلافت سے اس کی محبت بھی بےمثال تھی۔
ان کی چھوٹی بہن کہتی ہیں کہ
بہترین رول ماڈل
تھے۔ مجھے ان سے کئی باتیں سیکھنے کا موقع ملا ۔کہتی ہے جب میں تیرہ چودہ سال کی تھی تو ایک دن ان کے گھر میں طالع نے چاہا کہ وہ مجھے پسندیدہ سورت پڑھ کے سنائے۔ چنانچہ اس نے مجھے سورۂ یوسف کی تلاوت سنائی جو کہ نہایت عمدہ لہجے اور بہت خوش الحانی سے کی تھی۔ یہ بھی کہتا تھا کہ خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا درس القرآن سنتا رہتا ہوں۔ دفتر آتے جاتے یہ درس سنتا رہتا تھا ۔کہتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے اسے کوئی لطیفہ سنایا جس میں عیسائیت کاذکر تھا اور مذہب کی وجہ سے کچھ تھوڑا عیسائی مذہب کا استہزا کیا گیا تھا تو اس نے مجھے کہا کہ ہمیں کسی مذہب کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔ اس طرح لوگ بھی ہمارے خلاف بولیں گے۔
عابد وحید مرکزی پریس سیکرٹری ان کے رشتہ دار بھی ہیں۔ اس کے ماموں، وہ کہتے ہیں کہ طالع کے ساتھ میرا رشتہ خاص تھا۔ صرف ایک رشتہ ہی نہیں تھا بلکہ بہت سارے رشتوں پر مشتمل رشتہ تھا۔ ماموں بھی اس کا مَیں لگتا تھا لیکن ہمارے درمیان عمر کا زیادہ فرق نہیں تھا۔ وہ میرے لیے ایک چھوٹے بھائی اور دوست کی طرح تھا۔ صرف سات سال کا فرق تھا ۔کہتے ہیں میں نے ہمیشہ طالع میں یہ بات محسوس کی اور مشاہدہ بھی کیا کہ اسے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے بے پناہ محبت
تھی۔ لیکن اگر خاندان کے اندر سے کسی نے کبھی کوئی غلط کام کیا ہوتا تو بہت زیادہ درد اور غم محسوس کرتا تھا کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفۂ وقت کو بدنام کرنے والی بات ہوتی ہے۔ محبت تو تھی لیکن یہ نہیں کہ ان لوگوں سے اندھی محبت ہے۔ پھر دکھ درد بھی ہوتا تھا اور برداشت نہیں ہوتا تھا کہ کوئی خاندان والا ایسی حرکت کرے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام، خاندان کا نام اور خلیفۂ وقت کا نام بدنام ہو۔ کہتے ہیں کہ اکثر میرے ساتھ اس طرح کے مسائل پر گفتگو کرتا اور اس کی آواز میں ہمیشہ درد واضح ہوتا تھا۔ اگرچہ اسے مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا ایک رکن ہونے پر فخر تھا لیکن یہ اعزاز اس کے لیے ایسا نہیں تھا کہ دوسروں کے سامنے اعلان کرتا پھرے یا اس سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے اور بہت سارے لوگ اس کو اس حوالے سے جانتے بھی نہیں تھے۔ ایم ٹی اے نیوز میں کام کرنے کے چند مہینوں بعد کہتے ہیں طالع میرے پاس آیا اور کہتا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ ایم ٹی اے نیوز کو ایم ٹی اے میں بہت معمولی سا سیکشن سمجھا جاتا ہے اور ایم ٹی اے میں لوگ کھلے عام یا اپنے رویے کے ذریعہ سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ایم ٹی اے نیوز ایم ٹی اے کا سب سے کمزور شعبہ ہے لیکن طالع نے اس کمزوری کو اپنا مشن بنا لیا اور پُراعتماد ہو کر کہتا تھا کہ ان شاء اللہ جب کام مکمل ہو جائے گا تو لوگ ایم ٹی اے نیوز کو بہت دلچسپی سے دیکھا کریں گے اور کہیں گے کہ ایم ٹی اے میں بہترین پروگرام ایم ٹی اے نیوز والا ہے۔ یہ میرا چیلنج ہے اور میں نے اسے قبول کر لیا ہے۔ اس کے بعد طالع نے کچھ دستاویزی فلمیں بنائیں اور پھر اَور پروگرام شروع کیے اور کہتے ہیں دستاویزی فلموں کی تیاری کے دوران اکثر میں نے دیکھا ہے کہ اٹھارہ یا انیس گھنٹے کام کرتا۔
حالیہ افریقہ کا جو دورہ تھا وہ بنیادی طور پر اس وجہ سے تھا کہ میں نے اسے ہدایت کی تھی اور اس کے پیش نظر وہی تھا کہ شعبہ نیوز جو ہے نصرت جہاں سکیم کے بارے میں افریقہ جا کر ایک دستاویزی فلم بنائے۔ پروگرام کے مطابق پہلے گھانا جانا تھا، پھر سیرالیون اور پھر گیمبیا۔ پھر یہ بھی اس کی خاطر تیار ہو کے گیا تھا کہ نصرت جہاںکے اوپر ڈاکومنٹری بنائے گا۔ افریقہ جانے سے پہلے طالع نے پورے اہتمام کے ساتھ ہر چیز کی تیاری کی۔ تفصیلی سفر نامہ تیار کیا اور مکمل شیڈیول بنا کے روزانہ کا پروگرام تیار کیا تاکہ کوئی وقت ضائع نہ ہو۔ حقیقت میں اس نے بہت سنجیدگی کے ساتھ یہ تیاری کی تھی۔ کہتے ہیں کہ اکثر طالع کی رائے میں اور میری رائے میں اختلاف ہو جاتا تھا اور میں جب بھی اس سے بحث شروع کرتا تو چند منٹ کے بعد میں ہار مان لیتا کیونکہ مَیں جانتا تھا کہ جب تک میں اس کی بات پر یقین نہ کر لوں وہ بحث جاری رکھے گا، دلیلیں دیتا رہے گا ۔تاہم کہتے ہیں ایک بات میں نے اس میں دیکھی ہے کہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ خلیفۂ وقت کی رائے یہ ہے تو وہ کہتا تھا کہ اگر حضور کی رائے میری رائے سے تھوڑی سی بھی مختلف ہے تو میں پورے دل سے قبول کروں گا کہ میں بالکل غلط ہوں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب پر یہ ڈاکومنٹری بنا رہا تھا تو اس کی کزن جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی پڑپوتی لگتی ہے نے اسے کہا کہ اباجان والی ڈاکومنٹری بھی بہت اچھی بنانا، روز روز نہیں بنتی، تو اس نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ اتنی اچھی ہو گی کیونکہ وہ براہ راست خلیفہ کے بارے میں نہیں ہے لیکن اللہ کرے لوگوں کو پسند آ جائے۔ تو یہ تھا اس کا خلافت سے تعلق۔
مرزا طلحہ احمد نے بھی لکھا ہے کہ چودھری ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ پر بھی ایک ڈاکومنٹری بنانے کا ارادہ کر رہا تھا جس کے لیے اس نے مجھے بھی کچھ کام دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی ڈاکومنٹری بنایا کرتا تھا۔ اس کو سکرپٹ رائٹنگ اور story telling میں مہارت حاصل تھی۔
Adam Walkerصاحب لکھتے ہیں (غالباً آدم واکر صاحب ہی ہیں )کہ طالع کو میں بچپن سے جانتا ہوں۔ ہم نے اکٹھے خدام الاحمدیہ میں اور پھر بعد میں مرکزی پریس آفس اور ایم ٹی اے میں کام کیا ہے۔ ایم ٹی اے سے متعلقہ کاموں میں خصوصاً میں نے یہ بات نوٹ کی کہ طالع ہمیشہ نہایت باریک بینی سے کام کا جائزہ لیا کرتا تھا۔ بہت گہرائی میں جا کر معاملات دیکھتا تھا۔ اگر اس کے ذہن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ یا خلیفہ وقت کے ارشادات اور ہدایات کو لوگوں تک پہنچانے کے بارے میں کوئی خیال پیدا ہوتا تھا تو بلا جھجک مجھ سے بات کرتا اور اپنے خیالات کا اظہار کرتا۔ اس بارے میں سوچتا کہ مختلف آن لائن ذرائع سے پیغام کو کس طرح لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی ہدایات کو گہرائی میں جا کر سمجھتا تھا اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ ہمیشہ سچ بولنے کو ترجیح دیتا تھا۔ اگر کوئی مشورہ دینا ہوتا یا اپنی رائے کا اظہار کرنا ہوتا تو ہمیشہ سچائی کے ساتھ بات بیان کرتا۔ الفاظ میں کبھی ملاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ دوسرے کارکنان کے ساتھ کام کرتے ہوئے بھی انہیں ہمیشہ سچا فیڈ بیک دیتا۔
نسیم باجوہ صاحب لکھتے ہیں کہ 2001ء سے 2009ء تک بریڈ فورڈ میں بطور مبلغ متعین تھا۔ اس دوران ہارٹلے پول جماعت میں بھی جایا کرتا تھا۔ کہتے ہیں: میں نے
بطور طفل
اسے نہایت شوق سے پروگراموں میں شامل ہوتے دیکھا ہے۔ وقت کا پابند، سنجیدہ، ذہین، دینی معلومات کو بڑھانے کا شوق رکھنے والا، نمازوں کو ٹھہر ٹھہر کر ادا کرنے والا، فرمانبردار، مہمان نواز، بڑوں کا احترام کرنے والا، خلیفۂ وقت سے محبت کرنے والا اور ان کی باتوں کو شوق سے سننے والا، ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا کرنے والا، غور و فکر کرنے والا، ذکرِ الٰہی کرنے والا، تبلیغ کے کاموں کو شوق سے کرنے والا، قرآن کریم کو خوبصورتی سے پڑھنے والا طفل تھا۔ بعد میں نوجوانی میں خوبیاں اَور بھی نکھر کر سامنے آئیں۔
اس کی ایک کزن ہیں مبارکہ رحمان۔ وہ کہتی ہیں کہ طالع کی ایک خوبی جو میں نے ہمیشہ محسوس کی وہ اس کی وقف زندگی کی حیثیت سے
قناعت اور سادگی
تھی۔ بہت دفعہ خدا کے اپنے اوپر فضلوں کو گنواتا تھا۔ کبھی اس میں دنیا کی کسی قسم کی لالچ نہیں دیکھی بلکہ جب اس کے سامنے دنیا داری کی بات ہوتی تو اپنے خاص انداز میں ہنستا اور شکر کرتا تھا کہ وقف ہونے کی وجہ سے خدا نے اس کو ان سب معاملات سے بے پروا کر دیا ہے اور اس کی ہر ضرورت کو خدا نے خود ہی پورا کر دیا ہے۔ حقیقی وقف زندگی تھا۔
پھر ان کے ایک دوست اور مربی نوشیروان رشید کہتے ہیں: مجھے پچھلے تین سال سے طالع بھائی کے ساتھ ایم ٹی اے نیوز میں کام کرنے کا موقع ملا۔ تین سال کے عرصہ میں طالع نہ صرف میرے کولیگ (colleague) تھے بلکہ استاد بھی تھے اور اس سے بڑھ کر دوست اور بھائی تھے۔ کہتے ہیں میںنے تین سال کے عرصہ میں طالع کو باقاعدگی سے جمعرات کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا۔ اپنی
پنجوقتہ نمازوں کا بہت خیال
رکھتے ہوئے دیکھا۔ وقت سے پہلے مسجد جاتے اور اس بات کو بھی میں نے دیکھا کہ چندہ جات کی وقت سے پہلے ادائیگی کیا کرتے تھے۔
بہرحال واقعات تو بہت سے ایسے ہیں اور بہت لوگوں نے لکھا ہے لیکن وقت کی رعایت سے کچھ میں نے بیان کر دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جسمانی اور روحانی آل ہونے کا حق بھی اس نے ادا کر دیا اور اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں سے تھا تو محرم کے مہینہ میں اس کو بھی قربانی کے لیے چنا۔ ایک ہیرا واقف زندگی تھا جیسا کہ میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جگہ دی ہو گی بلکہ کسی نے اس کی وفات کے بعد خواب بھی دیکھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ کھڑے ہیں اور طالع دوڑتا ہوا جا کر ان سے چمٹ جاتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے ساتھ اسے چمٹا کر کہتے ہیں کہ آؤ میرے بیٹے، خوش آمدید۔
پس کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جو دین کی خاطر قربانی کر کے اس مقام کو پا لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے بیوی بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو اور انہیں صبر اور حوصلہ دے۔ اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بھی صبر اور حوصلہ دے اور اس کے بہن بھائیوں میں بھی، اس کی اولاد میں بھی اس کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔
نماز کے بعد ان شاء اللہ آج اس کا جنازہ بھی ہوگا۔ جنازہ آ چکا ہے۔
(الفضل انٹرنیشنل 24 ستمبر 2021ء صفحہ 5تا10)