احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
یہ نشان آپؑ کا عربی زبان میں خطبہ ہے جو خاص تائید الٰہی سے آپ کی زبان پر جاری ہوا، بلکہ الہام میں ہی تھا۔ یہ ایک ایسا نشان تھا جو الہامی تھا اس لئے اس کا نام ’’خطبہ الہامیہ‘‘ رکھا گیا
خطبہ الہامیہ کی بابت بعض روایات (حصہ چہارم)
(گذشتہ سے پیوستہ)اب خطبہ الہامیہ کاٹائٹل پیج ملاحظہ ہو۔اس کے اوپرلکھاہواہے:
’’ھٰذَا ھُوَالْکِتَابُ الَّذِیْ اُلْھِمْتُ حِصَّۃً مِّنْہُ مِنْ رَّبِّ الْعِبَادِ فِیْ یَوْمِ عِیْدٍ مِّنَ الْاَعْیَادِ فَقَرَاْتُہٗ عَلَی الْحَاضِرِیْنَ بِاِنْطَاقِ الرُّوْحِ الْاَمِیْنِ۔ مِنْ غَیْرِ مَدَدِ التَّرْقِیْمِ وَالتَّدْوِیْنِ۔ فَلَاشَکَّ اَنَّہٗٓ اٰیَۃٌ مِّنَ الْاٰیَاتِ۔‘‘
(ترجمہ ازمرتب)’’یہ (خطبہ الہامیہ) وہ کتاب ہے جس کا ایک حصہ (طبع اوّل صفحات 1 تا 38 جو
’’یَا عِبَادَ اللّٰہِ فَکِّرُوْا‘‘……
سے شروع ہوتا ہے
’’وَسَوْف یُنَبِّئُھُمْ مِثْلَ خَبِیْرٍ ……
پر ختم ہوتا ہے) مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عید (عید الضحٰی کو1317ھ جو بتاریخ 11اپریل 1900ء تھی)کے دن الہام ہوا تھا۔ اور پہلے سے لکھوانے اور تحریر میں لانے کے بغیر مَیں نے محض روح امین کے بلوانے پر حاضرین کے سامنے پڑھا تھا اس لئے اس بات میں کچھ بھی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا بھاری نشانِ الٰہی ہے۔‘‘
(تذکرہ صفحہ 291 مع حاشیہ )
اب جس خطبہ کوحضرت اقدس علیہ السلام خود الہام قراردے رہے ہوں اور فرمارہے ہوں کہ اُلْھِمْتُ کہ مجھے الہام ہوا۔اوراسی وجہ سے حضوراقدسؑ خود اس پوری کتاب کانام ہی خطبہ الہامیہ رکھتے ہیں ۔توپھر باقی کیاگنجائش رہ جاتی ہے ۔
اورجہاں تک یہ سوال ہے کہ حضرت اقدسؑ نے اپنی وحی کے مجموعوں میں کہیں درج کیوں نہیں فرمایا ۔تو خاکسارکے نزدیک یہ ایک زائد سوال ہے۔کیونکہ حضرت اقدسؑ نے 1900ء کے بعد سوائے ایک دومقامات کے کوئی مجموعی عبارت بیان بھی تو نہیں فرمائی۔پھرجب بھی کبھی آپؑ نے وہ مجموعات بیان فرمائے ہیں تو کون سی وہاں آپؑ نے ساری وحی بیان فرمائی ہے۔ بلکہ حضورکی اس طرح سے پیش کردہ وحی میں ایک اندازیہ بھی دیکھا جا سکتاہے کہ قدرے پرانے زمانے کے الہامات زیادہ ہوتے ہیں تاکہ یہ بھی نشان رہے کہ اتنے عرصہ سے خدامجھ سے ہمکلام ہورہاہے۔بہرحال ساری وحی تو کبھی بھی اور کہیں بھی حضورؑ نے بیان نہیں فرمائی جوخطبہ الہامیہ کی وحی نہ بیان کرنے سے کوئی جواز نکالا جا سکے۔
ہاں خطبہ الہامیہ کوبطورنشان آپؑ نے نزول المسیح صفحہ 210روحانی خزائن جلد 18صفحہ 588میں پیشگوئی نمبر81 اور حقیقۃ الوحی صفحہ 362روحانی خزائن جلد22 صفحہ 375-376 میں نشان نمبر165 کے طورپر توبہرحال پیش فرمایاہے۔
مختصریہ کہ خاکسارکی رائے میں خطبہ الہامیہ (کاایک معین حصہ جوکہ معروف ہے)الہام کی ذیل میں ہی آتاہے اور اس کوتذکرہ میں شامل کرناچاہیے ۔البتہ بعض بزرگان کا یہ خیال ہوسکتاہے کہ حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کی نگرانی اوربعد میں خلفاء کی ہدایات کے تحت تذکرہ کومرتب کیاجاتارہا ہے اوراس میں خطبہ الہامیہ کوشامل نہیں رکھاگیاتواب بھی نہ رکھاجائے ۔تواس ضمن میں اول تو یہ کہاجاسکتاہے کہ نہ جانے تب کسی کویہ خیال آیابھی ہوگاکہ نہیں۔یاتویہ ہوکہ کہیں سے یہ روایت یاحوالہ مل جائے کہ تذکرہ کومرتب کرتے وقت حضرت صاحب کی خدمت میں یہ معاملہ رکھاگیا تھا اور حضورؓ نے فیصلہ فرمایاتھا کہ خطبہ الہامیہ کوتذکرہ میں شامل نہ کیاجائے پھرتو یہ امرقابل غورہوبھی سکتاتھا۔قابل غوراس لیے عرض کیاہے کہ اب بھی کون ساہم فیصلہ کرنے جارہے ہیں ۔فیصلہ توجب بھی کرے گا خداکاخلیفہ ہی کرے گا۔ مصداق اس مثل کے کہ امورِ خسرواں،خسرواں دانند،پھر بھی اگربہت احتیاط کرناہوتو ایک احتیاط یہ کی جاسکتی ہے کہ ایک نوٹ دے کرتذکرہ میں بطورضمیمہ کے شامل کرلیاجائے۔ اوریہ تو واضح سی بات ہے کہ اس امرکافیصلہ توہمارے امام ہمام کے قلب اطہرنے ہی کرناہے۔
حضرت اقدس بانئ سلسلہ احمدیہ کے پانچویں خلیفہ امام ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 11؍اپریل 2014ء کوبیت الفتوح لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جوکہ اسی خطبہ الہامیہ کی تفصیلات وتوضیحات پرمشتمل تھا۔ اس میں آپ نے فرمایا:
’’آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ایسے نشان کا ذکر کروں گا جو آج کے دن یعنی 11؍ اپریل 1900ء میں ظاہر ہوا۔ یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نشان عمل میں آیا۔ یہ نشان آپ کا عربی زبان میں خطبہ ہے جو خاص تائید الٰہی سے آپ کی زبان پر جاری ہوا، بلکہ الہام میں ہی تھا۔ یہ ایک ایسا نشان تھا جو الہامی تھا اس لئے اس کا نام ’’خطبہ الہامیہ‘‘ رکھا گیا۔ اس الہامی خطبہ اور اس الہامی کیفیت کو دو سو کے قریب لوگوں نے اُس وقت سنا اور دیکھا۔ مجھے بھی کسی نے اس طرف توجہ دلائی کہ آج کے دن کی مناسبت سے جبکہ آج جمعہ بھی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عظیم الشان نشان کو بیان کروں کیونکہ ایسے احمدی بھی ہیں جو شاید خطبہ الہامیہ کانام تو جانتے ہوں جو کتابی صورت میں شائع ہے لیکن اس کی تاریخ اور پس منظر اور مضمون کا علم نہیں رکھتے۔ اور اس بات نے مجھے حیران بھی کیا جب یہ پتا چلا کہ بعض ایسے بھی ہیں جن کو پتا ہی نہیں کہ خطبہ الہامیہ کیا چیز ہے۔ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نشان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے دکھائے ایسے ہیں جو ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہیں اور مخالفین احمدیت کا منہ بند کرنے کے لئے ہمیں مواد مہیا کرتے ہیں۔ آپ کی صداقت کی دلیل ہمیں مہیا کرتے ہیں۔ اور خاص طور پر ایسے نشان جیسے خطبہ الہامیہ ہے یہ تو عظیم الشان نشانوں میں سے ہے۔ جس نے بڑے بڑے علماء کے منہ بند کر دئیے۔ بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ مختصراً اس کا پس منظر اور تاریخ بیان کروں گا اور یہ بھی کہ اس نے اپنوں پر اس وقت کیا اثر کیا، کس کیفیت میں سے وہ گزرے اور غیر اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ اسی طرح اس خطبہ کی چند سطریں یا بعض چھوٹے سے اقتباسات پیش کروں گا۔
اس الہامی خطبہ کی حقیقت اور عظمت کا تو اسے پڑھنے سے ہی پتا چلتا ہے لیکن یہ چند فقرے جو میں پیش کروں گا جو میں نے پڑھنے کے لئے چنے ہیں ان میں بھی اس کی عظمت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام و مرتبے کا پتا چلتا ہے۔ تذکرہ میں یہ خطبہ الہامیہ شاید اس لئے شامل نہیں کیا گیا کہ علیحدہ کتابی صورت میں چھپا ہوا ہے لیکن بہر حال مجھے اس بارے میں کچھ تحفظات ہیں۔ اس لئے آئندہ جب بھی تذکرہ شائع ہو یا آئندہ کسی زبان میں جو بھی ایڈیشن شائع ہوں تو متعلقہ ادارے اس بارے میں مجھ سے پوچھ لیں۔‘‘
(الفضل انٹر نیشنل مورخہ 2؍مئی 2014ء تا 8؍مئی 2014ء جلد 21 شمارہ 18صفحہ 5خطبہ جمعہ فرمودہ11؍اپریل 2014ء)
منارۃ المسیح
کبھی کبھی اونچے اونچے مینار اور ٹاورTower بھی قوموں اورملکوں کاایک نمایاں امتیاز اور وجہ شہرت بن جایاکرتے ہیں ۔کسی زمانے میں پیرس فرانس کا 1063 فٹ اونچا ایفل ٹاور Eiffel Tower اپنی بلندی کی وجہ سے شہرۂ عالم بناہواتھا ۔لیکن اس کے بعد ایک نہیں دونہیں 26ایسے ٹاور تعمیرہوئے کہ جوایفل ٹاورکوبلندی اور شہرت میں کہیں پیچھے چھوڑ گئے۔اب جاپان،جرمنی،امریکہ،نیوزی لینڈ،چین، کینیڈا،قزاقستان،ازبکستان، یوکرائن، ملائیشیا ،ایران ، دوبئی وغیرہ کئی ایسے ممالک سامنے آگئے کہ جن کے نام دنیاکے نقشہ میں بلندترین میناروں کے باعث نمایاں اورمشہورہیں ۔ اب ایران کا1427فٹ اونچا میلاد ٹاوردنیاکے چھٹے نمبرپرسب سے اونچامینارشمار ہوتا ہے۔کینیڈاکا CN Tower اگر دنیاکاتیسرے نمبرپرہے تو چین کا Canton Tower جوکہ 2000فٹ بلندہے دوسرے نمبرپرہے اورٹوکیو جاپان کا 2080فٹ بلندTokyo Skytree دنیاکابلندترین مینارہے ۔ دوسری طرف برج خلیفہ Burj Khalifaکی 2722 فٹ دنیا کی بلندترین عمارت زمین سے اونچی ہونی شروع ہوئی تواس نے دنیابھرکی نگاہوں کو آسمانوں کی طرف اٹھادیا۔لیکن تدبر وتفکر کرنے والی نظرنے چشم تصورمیں دیکھا کہ اس سے بہت پہلے بھی اس دھرتی پر بلندوبالا عمارتیں اور میناربنتے رہے ہیں۔ اس وقت کی دنیاکے ایک آمرمطلق نے اپنے وزیرکواتنی بلندوبالا عمارت تعمیرکرنے کاحکم دیا تھا کہ جوآسمانوں سے باتیں کرنے والی ہوتا کہ وہ اس خداکودیکھ سکے جس کاتصور اس وقت کے خداکے ایک پیغمبرنے دیاتھا جن کوموسیٰ کہاجاتاتھا۔علیہ الصلوٰۃ والسلام۔
وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّيٓ أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلٰى إِلٰهِ
مُوسٰى اورفرعون نے کہا اے ہامان! میرے لئے محل بنا تاکہ میں ان راستوں تک جا پہنچوں جو آسمان کے راستے ہیں تاکہ موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھوں(المومن:37-38)دوسری طرف ایسی قوم بھی نظرآئی جس کوأرم کہاجاتاتھا جواتنی بلندوبالاعمارتیں اور میناراور Towersبنایاکرتی تھی کہ اس کانام ہی ذاتُ الْعِمادیعنی ستونوں والی قوم مشہورہوگیا۔لیکن آج ان قوموں کے نام باقی رہے نہ ان کی بنائی ہوئی عمارتیں اور مینار!……رہے نام اللہ کا!!!
لیکن ان کے مقابل وہ عمارتیں اور میناربھی ہیں کہ جوتعمیرہونے سے بھی پہلے اپنے نام ومقام سے پکارے جاتے ہیں اورپھر کبھی وہ صفحۂ ہستی سے نابودنہیں ہونے پاتے کیونکہ خداکے ہاتھ سے ان کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں۔ وہ عمارتیں اگر مرورِزمانہ اور آفات وحوادث سے اپنے نشان کھوناشروع کربھی دیں تو تقدیرخداوندی سینکڑوں میل دورسے شہزادیوں کواپنے معصوم بیٹوں کے ساتھ ان بے آب وگیاہ وادیوں میں آباد کردیتی ہے کہ تا یہ اس کے مٹتے ہوئے آثارو نشانات سے اس عمارت کوپھر سے تعمیرکریں کہ جوکبھی نہ مٹنے کے لیے بنائی گئی تھی ۔وہ بیت العتیق ہویامسجداقصیٰ یامنارۃ البیضاء منارۃ المسیح ہو۔یہ چند ایک ایسی ہی عمارتیں ہیں کہ جواسی لیے زمین سے اوپراٹھائی گئیں کہ اب یہ کبھی معدوم و منہدم نہیں ہوں گی ۔
(باقی آئندہ)