کیا حدیث ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِی ۔ بخاری میں ہے؟
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک کتاب ’’شہادۃ القرآن‘‘میں ایک حدیث
’’ھَذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِی ‘‘
کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری میں ہے۔فرمایا:
’’اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہئے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لئے آواز آئے گی
ھَذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِی۔
اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہِ ہے‘‘
(شہادۃ القرآن،روحانی خزائن جلد6صفحہ337)
اس پر غیر احمدی علماء نے شور مچایا کہ حضور ؑنے غلط بیانی کی ہے کیونکہ بخاری میں یہ حدیث نہیں ملتی۔ اس کا ایک جواب تو خود حضورؑ پہلے ہی ازالۂ اوہام میں بیان فرما چکے ہیں کہ بخاری میں الفاظ کا اختلاف موجود ہے۔دوسرے بخاری کے تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ نسخے دستیاب نہیں اور معترض یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے تمام نسخے پڑھ رکھے ہیں۔فرمایا:
’’…اور ظاہر ہے کہ صاحب تلویح نے بطور شاہد اپنے تئیں قرار دے کر بیان کیا ہے کہ وہ حدیث یعنی عرض الحدیث علی القرآن کی حدیث بخاری میں موجود ہے۔ اب اس کے ماقبل پر یہ عذر پیش کرنا کہ نسخہ جات موجودہ بخاری جو ہند میں چھپ چکے ہیں ان میں یہ حدیث موجود نہیں۔سراسر ناسمجھی کا خیال ہے۔کیونکہ علم محدود کے عدم سے بکلّی عدم شے لازم نہیں آتا۔ جس حالت میں ایک سرگروہ مسلمانوں کا اپنی شہادت رویت سے اس حدیث کابخاری میں ہونا بیان کرتا ہے اور آپ کو یہ دعویٰ نہیں اور نہ کرسکتے ہیں کہ تمام دنیا کے نسخہ جات بخاری کے قلمی و غیر قلمی آپ دیکھ چکے ہیں۔پھر کس قدر فضولی ہے کہ صرف چند نسخوں پر بھروسہ کرکے بے گناہ عورتوں کو طلاق دی جائے…بخاری کے مطبوعہ نسخوں میں بھی بعض الفاظ کا اختلاف موجود ہے۔ پھر سارے جہان کے قلمی نسخوں کا کون ٹھیکہ لے سکتا ہے۔‘‘
(ازالۂ اوہام حصہ دوم،روحانی خزائن جلد3 صفحہ575)
علامہ ابن حجر العسقلانی ’’فتح الباری بشرح صحیح البخاری‘‘ کتاب الاشربۃ میں ایک روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ روایت بخاری کے بعض قدیم نسخوں میں دیکھی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بخاری کے نسخوں میں مندرجات کا اختلاف پایا جاتا ہے اور ہر روایت تمام نسخوں میں نہیں ملتی۔مشہور عالمِ دین علامہ تمنا عمادی نے اپنی کتاب ’’انتظار مہدی و مسیح۔فن رجال کی روشنی میں‘‘ میں صحیح بخاری کے نام بنام اکیس نسخے گنوائے ہیں۔
اس کے علاوہ خود دیوبندیوں کے ایک مشہور عالم، مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور مولانا قاسم نانوتوی کے پوتے قاری محمد طیب صاحب نے بھی علاماتِ مہدی بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ حدیث بخاری میں ہے:
’’مہدی علیہ السلام کے بارے میں کچھ علامتیں آئی ہیں۔ مثلاًیہ کہ مہدی علیہ السلام کا مکہ مکرمہ میں ظہور ہوگا۔ اور یہ حدیث صحیح بخاری شریف میں موجود ہے کہ غیب سے آواز آئے گی اور وہ آواز یہ ہوگی۔
ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِی فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَطِیْعُوہُ۔
یعنی یہ اللہ کے خلیفہ مہدی ہیں ان کی بات مانو اور ان کی اطاعت کرو۔‘‘
(مجالس حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب جلد اول صفحہ227)
اب یہ تمام نکات ایسے ہیں جو غیراحمدی علماء کے علم میں ہونے چاہئیں بلکہ ہیں کیونکہ ان بنیادی نکات کے علم کے بغیر کوئی عالم عالم نہیں کہلاسکتا۔ لیکن حیرت بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بخاری میں اس حدیث
’’ھَذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِی ‘‘
کے نہ پائے جانے کا الزام اور اعتراض کسی عام آدمی کی طرف سے نہیں بلکہ علماء کی طرف سے عائد کیا جاتا ہے جس کا مقصد سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرکے عوام کو ان سے متنفر کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے، حق کو حق جان کر اسے اپنانے اور باطل کو باطل جان کر اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!