قافلہ سالارِ عشق
امن کا پیغام لے کر ، سر تا پا سرشارِ عشق
جیتنے نکلا پہن کر سر پہ وہ دستارِ عشق
وہ علمدارِ صداقت ، مقصد ِ امن و صلح
نفرتوں کے دَور میں کرتا ہے وہ پرچارِ عشق
بالمقابل ایک دنیا ساتھ اُس کے چند لوگ
بڑھ رہا ہے پھر بھی آگے قافلہ سالارِ عشق
جس طرف کو رُخ کرے میدان میں ، ہو فتح مند
ڈھیر ہو جائے مخالف سہہ نہ پائے وارِ عشق
درجہ درجہ گامزن ہے اک بلندی کی طرف
دن بہ دن بڑھتی ہی جائے شدّتِ یلغارِ عشق
پیار سے، گفتار سے پھیلا رہے ہیں ہر طرف
چاہے کوئی مان لے، چاہے کرے انکارِ عشق
ہے الٰہی سلسلہ، قائم رہے اس پہ بہار
یوں ہی آتی جائے اس پہ رفعتِ ادوارِ عشق
احمدی اخلاص کے جذبے سے ہیں گوندھے گئے
ہو گیا کارِ ثواب اب تو جہاں میں کارِ عشق
ہے ہماری زندگی اب تو خلافت کے تلے
اب شفا اس عشق میں پائیں سبھی بیمار عشق
ہم پہ بھی ہوتا رہے ناصرؔ سدا اُس کا کرم
آئندہ نسلوں کی بھی قسمت بنے گلزارِ عشق