دعوۃ الندوۃ (قسط ہشتم)
(مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ)
اس کتاب میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے معاصر اخبارات میں شائع ہونے والے واقعات اور بیانات کی روشنی میں بھیندوہ والوں کو خبردار کیا ہے نیز عیسائیت کے سیلاب کے سامنے ندوہ والوں کی ناکافی کوششوں کا بتایا اورمسیح موعودعلیہ السلام اوران کی جماعت کو چھوڑ کرتبلیغ اسلام کی کوشش کرنے والے مسلمان علماء اور قائدین کے ضرر رساں عقائد اور بودے نظریات کی خرابیاں گنوائیں۔
تحریک ندوۃ العلماء، برصغیر میں برطانوی دَور میں برپا ہونے والی تحریک ہے جس کا مقصد اسلامی مدارس کے نظام و نصاب تعلیم کی اصلاح اور اسے عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری تبدیلی و تجدید تھا۔
1892ء میں ندوۃ العلماء کا تخیل پیش کیا گیا اور رفتہ رفتہ اس کے خدوخال اور انتظامی ڈھانچہ متعین ہوتا چلا گیا۔ انتظامیہ ندوۃ العلماء نے ہرسال اس مجلس کا جلسہ عام منعقد کرنے پر اتفاق کیا تھا جس میں تمام مسالک کے ممتاز علماء کو شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔
تاریخی طور پرسال 1902ءمیں 9تا11؍اکتوبر کو ندوۃ العلماء کاسالانہ جلسہ امرتسر میں ہونا قرار پایا تھا،جس کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رسالہ تحفۃ الندوۃ تصنیف فرمایا ، جس کا پیش لفظ زیر عنوان ’’التبلیغ‘‘ عربی زبان میں تھااور بعد میں اردو میں مضمون لکھا تھا،جس میں اہل دارالندوۃ کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ قرآن مجید کو حَکم بنائیں۔ حضور علیہ السلام نے اپنے دعویٰ مسیح موعود کا ذکرکرکے اپنے خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہونے پر حلف بھی اٹھایا۔ مورخہ 6؍اکتوبر کو طبع ہونے والے اس رسالےکو اپنے نمائندگان کے ذریعہ علمائے ندوۃ کے پاس بھیجا۔قادیان سے ایام جلسہ میں امرتسر جانے والے اس معزز گروپ میں مولوی سید محمد احسن امروہی بطور امیر وفد گئےاورآپ کے ساتھ مولوی ابو یوسف محمد مبارک صاحب سیالکوٹی، مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ہزاروی، مولوی محمد عبداللہ صاحب کشمیری اور شیخ یعقو ب علی عرفانی ایڈیٹر اخبار الحکم شامل تھے۔جبکہ لاہور سے حکیم ڈاکٹر نور محمد صاحب شریک ہوئے تھے۔
ندوۃ العلماء کے اس نویں اجلاس کے موقع پر اختیارکردہ اس سفر کی مکمل روئیداد اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا احوال حضرت شیخ یعقو ب علی عرفانی صاحب نے اپنے موقر اخبار الحکم کے 14؍اکتوبر 1902ء کے شمارے کے صفحہ 15سے شائع کرنا شروع کیا اور قارئین تک ندوہ والوں پر اتمام حجت کی تفصیل پہنچائی اور لکھا کہ کس طرح اس اجلاس کے موقع پر جمع عوام و خواص تک سلسلہ کا پیغام پہنچایاگیااور حضور علیہ السلام کی تصنیف تحفۃ الندوۃ کی خوب تشہیر کی گئی۔
ان اہل ندوۃ العلماء کے بارے میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہوا ہےکہ’’میرا اِن لوگوں پر حسن ظن نہیں ہے۔سچی بات یہ ہے کہ مَیں نہ تو ان لوگوں کو متقی سمجھتا ہوں (آئندہ اگر خدا کسی کو متقی کردے تواس کا فضل ہے) اور نہ عارفِ حقائقِ قرآن خیال کرتا ہوں۔‘‘
(تحفۃالندوہ،روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 94تا95)
ندوۃ العلماء والے ایک وسیع حلقہ اثر رکھتے تھے اور ان کی جڑیں شہر شہر قائم تھیں۔اس لیے جماعتی اخبار الحکم میں ندوۃ العلماء سے رابطے اور خط و کتابت کا متعدد جگہ ذکر مل جاتا ہے ، مثلاً الحکم کے مورخہ 30؍نومبر سے10؍دسمبر 1903ء صفحہ 12پراعلان درج ہے کہ انجمن ندوۃ العلماء کا دسواں سالانہ جلسہ مورخہ 4؍جنوری 1904ء کو مدراس میں ہوگا۔اسی اشتہارمیں قواعد رکنیت مجلس ندوۃ العلماء بھی درج ہیں جو جناب خان بہادرغلام محمود مہاجر، ناظم انجمن معین الندوۃ مدراس کی طرف سے تھے۔
اسی طرح اخبار الحکم قادیان کے مورخہ17؍تا 24؍ دسمبر 1904ء کے شمارے کے صفحہ 13 پر رسالہ الندوۃ کا اشتہار موجود ہے۔
حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ کی زیر نظر کتاب دعوۃ الندوۃ ، ایک تفصیلی مضمون کی شکل میں الحکم کے شمارہ مطبوعہ 10؍دسمبر 1901ء میں اولاً سامنے آئی او رپھر کتابی شکل میں بھی شائع کی گئی۔
اس کتاب کے پس منظر کے بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے لکھاہے کہ سال 1901ءکے ندوۃ العلماء کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ندوہ والوں نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو بھی مدعو کیا تھا، مگر آپ کی طرف سے ایک مبسوط خط تبلیغ کے طور پر حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے لکھ کر شائع کردیا تھا جس کا ندوہ والوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
زیر نظر کتاب میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے خط کو کتابی شکل دیتے ہوئے اس مبسوط خط کے متن سے قبل ایک عربی نظم بھی درج کی گئی ہے جو مولوی ابویوسف محمد مبارک علی سیالکوٹی ابن فضل احمد احمدی کی تحریر کردہ ہے۔الاستفتاء من ندوۃ العلماء کے عنوان سے لکھی جانے والی 56 اشعار کی اس نظم کا پہلا شعر ہے:
اھل الدھاء و ندوۃ العلماء
بشرٰی لکم بشریٰ لکم بنجاء
اس کتاب میں بعد میں عربی کلام کے بعد نصف صفحہ پر جماعتی اخبار الحکم کے تعارف پر مبنی اشتہار درج ہے۔
ندوۃ العلماء کی طرف ایک خط کے شروع میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے لکھاکہ’’میرے پیارے بھائی یعقوب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ندوۃ العلماء کے ناظم معین منشی غلام حسین عارف صاحب کی طرف سے ہمارے پاس ایک اعلان پہنچا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اب کے دسمبر میں یہ گروہ کلکتہ میں فراہم ہوگا۔ اس میں مختصراً ندوۃ کی غرضیں بھی لکھی ہیں۔اور ایک خط بھی آیا ہے۔ جس میں چاہا گیا ہے کہ حضرت خلیفۃ اللہ مسیح موعود علیہ السلام آنے والے اجلاس میں شریک ہوں۔ ‘‘
مولوی صاحب نے آغاز میں ندوۃ العلماءاور ایجوکیشنل کانفرنس اور دیگر انجمنوں اور اداروں کو متوجہ کیا ہے کہ جو سب لوگ قوم کی ترقی اور اصلاح کے لیے دن رات اپنی توانائیاں اور زر کثیر خرچ کرتے پھر رہے ہیں، وہ مسئلہ کی اصل جڑ کی تلاش سے قاصر نظر آتے ہیں۔اس طرح مولوی صاحب نے مسلمان قوم کے افراد اور ان کے علماء کی اغلاط کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کی ہے۔یوں آپ نے درست طرز عمل اپنانے کے لیے اسلام کے دور اول یعنی زمانہ نبوی ﷺ کے حالات و واقعات کو مشعل راہ بنانے کی تلقین کی۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓنےمضمون پھیر پھیر کر علماء اور عوام کو بانی اسلام ﷺ کے پاکیزہ اسوۂ حسنہ کی پیروی کی راہ دکھائی۔ اور مثالوں سے بتایا کہ کس طرح معاشرے کی نوع نوع کی خرابیاں ختم ہوکر ایک حسین معاشرہ قائم ہوگیا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی اسلام سے پہلے اورپھر ایمان لانے کے بعد کی حالت مطہرہ کا بتاکر حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے مسلمان قوم کی اصلاح احوال کا بیڑا اٹھانے والوں کی راہ نمائی کی اور لکھاکہ’’حاصل کلام حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تدریجی تعلیم سے اور مقتدر ہتھیاروں کے استعمال سے ایک قوم بنائی جو تین صدیوں تک صراط مستقیم پر رہی اور آخر قانون قدرت کے مقتضا سے طبعی طور پر انقلاب آیا۔پہلے مذہب اور اخلاق میں پھر لازماً حکومت اور سیاست میں خطرناک تغیر پیدا ہوا، اور آج یہ حال ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں اور اب علی گڑھ سکول اور ندوہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس کی وہی صورت و شکل بنادیں جو پہلے تھی۔ مگر خدا کے لئے ان سکولوں کےانصار اور مؤیدین غور کریں کہ کیا وہ ان ہی پگڈنڈیوں پر قدم مار رہے ہیں جن پر اس قوم کے پہلے بانی نے مارا۔اوران کے ہاتھوں میں وہ ذریعے اور ہتھیار ہیں جن کی ترغیب و ترھیب سے قوم کو اس تعلیم پر مجبور یا مائل کر دیں جسے وہ چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ‘‘
(صفحہ 10 اور 11)
مصنف نے مزید آگے چل کر مسلمان قوم کی حالت زار اور اس پر ندوہ جیسے اداروں اور افراد کی کوششوں کی سطحیت اور کمزوری کو عیاں کرکے بغیر کسی خوف و خطر ان لوگوں کے سامنے بعض قدرے تلخ سوال رکھے ہیں اورندوہ کی پالیسیوں کی کمی و کمزوری بتائی ہے۔
اس کتاب میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے معاصر اخبارات میں شائع ہونے والے واقعات اور بیانات کی روشنی میں بھی ندوہ والوں کو خبردار کیا ہے۔ نیز عیسائیت کے سیلاب کے سامنے ندوہ والوں کی ناکافی کوششوں کا بتایا اورمسیح موعودعلیہ السلام اوران کی جماعت کو چھوڑ کر تبلیغ اسلام کی کوشش کرنے والے مسلمان علماء اور قائدین کے ضرر رساں عقائد اور بودے نظریات کی خرابیاں گنوائیں۔ بطور مثال امریکہ کے ڈوئی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی مقابلے کو پیش کیا۔ نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آفاقی مشن کا تعارف کرواکر آپ کی عالمگیر تبلیغی مساعی کا احوال بتایا اور ندوہ والوں کو نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے درست طرز عمل اپنانے کی تلقین کی۔ الغرض یہ ساری کتاب موعظہ حسنہ اور جہاد بطریق احسن کی مثال ہے۔
٭…٭…٭