دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے… اخوندزادہ مولوی عبداللطیف
ذکر واقعہ شہادتین
انہیں دنوں میں جبکہ متواتر یہ وحی خدا کی مجھ پر ہوئی اور نہایت زبردست اور قوی نشان ظاہر ہوئے اور میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا دلائل کے ساتھ دنیا میں شائع ہوا۔ خوست علاقہ حدود کابل میں ایک بزرگ تک جن کا نام اخوندزادہ مولوی عبداللطیف ہے کسی اتفاق سے میری کتابیں پہنچیں۔ اور وہ تمام دلائل جو نقل اور عقل اور تائیدات سماوی سے مَیں نے اپنی کتابوں میں لکھے تھے۔ وہ سب دلیلیں ان کی نظر سے گزریں۔ اور چونکہ وہ بزرگ نہایت پاک باطن اور اہلِ علم اور اہلِ فراست اور خدا ترس اور تقویٰ شعار تھے۔ اسلئے ان کے دل پر ان دلائل کا قوی اثر ہوا۔ اور ان کو اس دعوے کی تصدیق میں کوئی دِقّت پیش نہ آئی۔ اور ان کی پاک کانشنس نے بلا توقف مان لیا کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے اور یہ دعویٰ صحیح ہے۔ تب انہوں نے میری کتابوں کو نہایت محبت سے دیکھنا شروع کیا اور اُن کی روح جو نہایت صاف اور مستعد تھی میری طرف کھینچی گئی۔ یہاں تک کہ ان کے لئے بغیر ملاقات کے دُور بیٹھے رہنا نہایت دشوار ہوگیا۔ آخر اس زبردست کشش اور محبت اور اخلاص کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس غرض سے کہ ریاست کابل سے اجازت حاصل ہو جائے حج کیلئے مصمم ارادہ کیا اور امیر کابل سے اس سفر کیلئے درخواست کی۔ چونکہ وہ امیر کابل کی نظر میں ایک برگزیدہ عالم اور تمام علماء کے سردار سمجھے جاتے تھے۔ اسلئے نہ صرف اُن کو اجازت ہوئی۔ بلکہ امداد کے طور پر کچھ روپیہ بھی دیا گیا۔ سو وہ اجازت حاصل کر کے قادیان میں پہنچے۔ اور جب مجھ سے اُن کی ملاقات ہوئی تو قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں نے ان کو اپنی پیروی اور اپنے دعویٰ کی تصدیق میں ایسا فنا شدہ پایا کہ جس سے بڑھ کر انسان کیلئے ممکن نہیں۔ اور جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایسا ہی میں نے ان کو اپنی محبت سے بھرا ہوا پایا۔ اور جیسا کہ اُن کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی اُن کا دل مجھے نوارانی معلوم ہوتا تھا۔ اس بزرگ مرحوم میں نہایت قابلِ رشک یہ صفت تھی کہ درحقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتا تھا۔ اور درحقیقت اُن راستبازوں میں سے تھا جو خدا سے ڈر کر اپنے تقویٰ اور اطاعتِ الٰہی کو انتہا تک پہنچاتے ہیں اور خدا کے خوش کرنے کیلئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کیلئے اپنی جان اور عزّت اور مال کو ایک ناکارہ خس و خاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کو طیار ہوتے ہیں۔ اُس کی ایمانی قوّت اِس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر مَیں اُس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو مَیں ڈرتا ہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو۔ اکثر لوگ باوجود… بیعت کے اور باوجود میرے دعوے کی تصدیق کے پھر بھی دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کے زہریلے تخم سے بکلّی نجات نہیں پاتے بلکہ کچھ ملونی اُن میں باقی رہ جاتی ہے۔ اور ایک پوشیدہ بخل خواہ وہ جان کے متعلق ہو خواہ آبرو کے متعلق۔ اور خواہ مال کے اور خواہ اخلاقی حالتوں کے متعلق ان کے نامکمل نفسوں میں پایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی نسبت ہمیشہ میری یہ حالت رہتی ہے کہ مَیں ہمیشہ کسی خدمت دینی کو پیش کرنے کے وقت ڈرتا رہتا ہوں کہ ان کو ابتلاء پیش نہ آوے۔ اور اس خدمت کو اپنے پر ایک بوجھ سمجھ کر اپنی بیعت کو الوداع نہ کہہ دیں۔ لیکن میں کن الفاظ سے اس بزرگ مرحوم کی تعریف کروں جس نے اپنے مال اور آبرو اور جان کو میری پیروی میں یوں پھینک دیا کہ جس طرح کوئی ردّی چیز پھینک دی جاتی ہے۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ9تا 10)