جنّا ت کی حقیقت (قسط سوم)
علماء اور مفسّرین کے مضحکہ خیز عقائد ،تاویل و استدلال کے مقابل اِمامِ آخرالزّمانؑ اور آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ حقائق و معارف
کتب احادیث،سیرت و تفاسیر میں جنات کی روایات اور اُن پر تبصرہ
علماء اور مفسّرین کے مضحکہ خیز عقائد، تاویلات و استدلال
سیرت ابن ہشّام میں لکھا ہے:’’حالاتِ جِنّ‘‘۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ بنی ثقیف کی بھلائی سے ناامید ہو گئے تو طائف سے مکہ تشریف لائے ، یہاں تک کہ جب آپ مقام نخلہ میں پہنچے تو رات کو نماز پڑھنے لگے۔جِنّوں کا ایک گروہ جو نصیبین کا رہنے والا تھا ادھر سے گذرا ، اور وہ سات شخص تھے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے۔جس وقت رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تو یہ لوگ قرآن سنتے رہے ، پھر ایمان لائے اوراس کے بعد اپنی قوم کی طرف گئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی۔‘‘
(سیرت ابنِ ہشّام ،اردو۔ جلد اوّل، صفحہ 280۔ایڈیشن مئی 1994ء۔ ادارہ اسلامیات لاہور)
علامہ محمد بن جریر طبری جِنّات کے حوالے سے بیان کرتے ہیں :’’جنّوں کا قبول اسلام۔آپ ﷺ ثقیف کی طرف سے مایوس ہو کر طائف سے مکہ آنے لگے۔نخلہ آکر آپ نصف شب میں نماز پڑھ رہے تھے کہ چند جِنّ جن کا ذکر اللہ نے کیا ہے آپ ﷺ کے پاس سے گذرے۔یہ یمن کے مقام نصیبین کے سات نفر جِنّ تھے، یہ ٹھہر کر آپ کی تلاوت سنتے رہے۔جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو وہ جِنّ جو اب ایمان لا کر آپﷺ کی نبوت اور تعلیم کے قائل ہوچکے تھے ، اپنی قوم کے پاس آئے اور انہوں نے ان کو برائیوں سے روکنا اور ان کے نتائج سے ڈرانا شروع کیا ۔ انہیں کے قصہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں اس طرح رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا ہے:
’’وَ اِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَیۡکَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوۡہُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا ۚ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوۡا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ‘‘(46:30)۔
اور دوسری جگہ فرمایا:
’’قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا‘‘۔(72:2)۔
ان جِنّوں کے نام جنہوں نے قرآن سنا یہ ہیں۔ حس، مس، ساشر، ناصر ، اینا، الارد ،انین اور احقم۔‘‘
(تاریخ طبری۔ از علامہ محمد بن جریر طبری۔ اردو ترجمہ سید محمد ابراہیم ندوی ،جلد دوم صفحہ 87،86۔ ایڈیشن اپریل 2004ء۔ نفیس اکیڈمی اردو بازارکراچی)
احمد رضاخان بریلوی صاحب اپنے ترجمہ قرآن مجید میں لکھتے ہیں:
’’ فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّةُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ۔ (سورۃ سبا 34 آیت 15) ۔
پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم بھیجا ،جِنّوں کو اس کی موت نہ بتائی مگر زمین کی دیمک نے کہ اس کا عصا کھاتی تھی ، پھر جب سلیمان زمین پر آیا جِنّوں کی حقیقت کھل گئی اگر غیب جانتے ہوتے تو اس خواری کے عذاب میں نہ ہوتے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے لئے جِنّات کو مطیع کیا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی تھی کہ ان کی وفات کا حال جنّات پر ظاہر نہ ہو، تاکہ انسانوں کو معلوم ہو جائے کہ جِنّ غیب نہیں جانتے ۔ پھر آپ محراب میں داخل ہوئے اور حسبِ عادت نماز کے لئے اپنے عصاء پر تکیہ لگا کر کھڑے ہو گئے۔جِنّات حسبِ دستور اپنی خدمتوں میں مشغول رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ حضرت زندہ ہیں ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا عرصہ دراز تک اسی حالت پر رہنا اُن کے لئے کچھ حیرت کا باعث نہیں ہوا، کیونکہ وہ بار ہا دیکھتےتھے کہ آپ ایک ماہ دو دو ماہ اور اس سے زیادہ عرصہ تک عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور آپ کی نماز بہت دراز ہوتی ہے ۔ حتیٰ کہ آپ کی وفات کے پورے ایک سال بعد تک جنّات آپ کی وفات پر مطلّع نہ ہوئے ، اور اپنی خدمتوں میں مشغول رہے، یہاں تک کہ بحکمِ الٰہی دیمک نے آپ کا عصا کھا لیا اور آپ کا جسم مبارک جو لاٹھی کے سہارے قائم تھا زمین پر آرہا ۔ اس وقت جنّوں کو آپ کی وفات کا علم ہوا۔‘‘
(کنز الایمان۔ قرآن مجید ترجمہ از احمد رضا خان بریلوی صفحہ 622۔ مطبوعہ قرآن منزل ترکمان گیٹ دہلی)
نیزاپنے فتاویٰ میں بیان کرتے ہیں:’’ہاں جِنّ اور ناپاک روحیں مرد و عورت ، احادیث سے ثابت ہیں اور وہ اکثر ناپاک موقعوں پر ہوتی ہیں۔انہیں سے پناہ کے لئے استنجاخانے جانے سے پہلے یہ دعا پڑھنا وارد ہوئی :
’’ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْخُبُثِ وَ الْخَبَا ئِث
۔ یعنی میں گندی اور ناپاک چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ‘‘۔ (یہ یا اس طرح کی اور کوئی ماثور دعا پڑھ کر جانے سے استنجاخانے میں رہنے والے گندے جنّات نقصان نہیں پہنچا سکتے )۔ جِنّات سے آئندہ کی بات پوچھنی حرام ہے ۔ مثلاًپوچھنا، میر ا بچّہ کب تندرست ہو گا ؟میں مقدمہ جیتوں گا یا نہیں ؟میری فلاں جگہ شادی ہو گی یا نہیں ؟ میں امتحان میں کامیابی پاؤں گا یا نہیں ؟وغیرہ سوالات کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔ ’’حاضِرات کرکے موکلان جِنّ سے پوچھتے ہیں فلاں مقدمہ میں کیا ہوگا ؟ فلاں کام کا انجام کیا ہوگا؟یہ حرام ہے‘‘۔یقیناً بسا اوقات شریر جِنّات گذشتہ حالات کی درست اطلاعات دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مثلاً آپ کو دس سال قبل سخت بخار آ گیا تھا یا آپ 15 سال قبل فلاں قبرستان میں ڈر گئے تھے یا آپ کے بچّے کو سر پر چوٹ آگئی تھی وغیرہ وغیرہ ۔ آپ کے بارے میں گذشتہ حالات بتانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ باتیں وہ ’’حاضری کا جِنّ ‘‘ آپ کے ہمزاد سے پوچھ لیتا ہے ۔ تو ہمزاد کے ذریعہ ملی ہوئی اطلاع کو ’’علمِ غیب ‘‘نہیں کہتے۔ہر شخص کے ساتھ ایک ہمزاد بھی پیدا ہوتا ہے جو کہ کافرجِنّ ہو تا ہے اور وہ ہر وقت ساتھ رہنے کی وجہ سے اس طرح کی باتیں دیکھتا رہتا ہے۔ایک شیطان ا علانیہ اس (جادوگر) کے ساتھ رہتا ہے جسے وہ دیکھتا ہے اور اس سے باتیں کرتا ہے اور وہ (شیطان) اسے یہ راز ظاہر کرنے سے ہر وقت مانع رہتا ہے اور یہی سبب ہے کہ فریمسین( یعنی انہیں مخصوص جادوگروں کا کوئی فرد) اگر شہر کے ایک کنارے سے گزرے تو دوسرے (جادوگر)کو جو شہر کے دوسرے کنارے پر ہے اطلاع ہو جاتی ہے ، کیونکہ ایک کا شیطان دوسرے کے شیطان کو اطلاع کر دیتا ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔‘‘
(فتاوٰی رِضویہ،جلد 21۔صفحہ 216تا 218۔ایڈیشن 2002ء مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مولانا محمد الیاس عطّار قادری، بانی ’’دعوتِ اسلامی‘‘ اپنی ایک کتاب میں تحریر کرتے ہیں:’’ابو سعد عبداللہ بن احمد کا بیان ہے کہ ایک بار میری لڑکی فاطمہ گھر کی چھت سے یکایک غائب ہو گئی ۔ میں نے پریشان ہو کر سرکار بغداد حُضور سیدنا غوث پاک کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر فریاد کی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ کَرخ جا کر وہاں کے ویرانے میں رات کے وقت ایک ٹیلے پر اپنے ارد گرد حصار (یعنی دائرہ) بنا کر بیٹھ جاؤ ۔ وہاں بسم اللہ کہہ لینا اور میرا تصور باندھ لینا ۔رات کے اندھیرے میں تمہارے اردگرد جِنّات کے لشکر گزریں گے۔ان کی شکلیں عجیب و غریب ہوں گی، انہیں دیکھ کر ڈرنا نہیں ۔ سحری کے وقت جِنّات کا بادشاہ حاضر ہوگا، اور تم سے تمہاری حاجت دریافت کرے گا۔ اسے کہنا:’’مجھے شیخ عبد القادر جیلانی نے بغداد سے بھیجا ہے ، تم میری لڑکی تلاش کرو‘‘۔ چنانچہ کَرخ کے ویرانے میں جاکر میں نے حضور غوث اعظم کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کیا۔ رات کے سناٹے میں خوفناک جِنّات میرے حصار کے باہر گزرتے رہے۔جِنّات کی شکلیں اس قدر ہیبت ناک تھیں کہ مجھ سے دیکھی نہ جاتی تھیں۔سحری کے وقت جِنّات کا بادشاہ گھوڑے پر سوار آیا۔ اس کے اردگرد بھی جِنّات کا ہجوم تھا۔حِصار کے باہر سے ہی اس نے میری حاجت دریافت کی ۔میں نے بتایا کہ مجھے حضور غوث اعظم نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ اتنا سننا تھا کہ وہ ایک دَم گھوڑے سے اتر آیا اور زمین پر بیٹھ گیا ۔ دوسرے سارے جِنّ بھی دائرے کے باہر بیٹھ گئے ۔ میں نے اپنی لڑکی کی گمشدگی کا واقعہ سنایا ۔ اُس نے تمام جِنّات میں اعلان کیا کہ لڑکی کو کون لے گیا ہے؟چند ہی لمحوں میں جِنّات نے ایک چینی جِنّ کو پکڑ کر بطور مجرم حاضر کر دیا ۔ جِنّات کے بادشاہ نے اُس سے پوچھا کہ قُطبِ وقْت حضرت غوث اعظم کے شہر سے تم نے لڑکی کیوں اٹھائی ؟ وہ کاپنتے ہوئے بولا عالی جاہ! میں دیکھتے ہی اُس پر عاشق ہو گیا تھا۔بادشاہ نے اُس چینی جِنّ کی گردن اڑانے کا حکم صادر کیا ، اور میری پیاری بیٹی میرے سپرد کر دی۔ میں نے جِنّات کے بادشاہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ماشاء اللہ آپ سیدنا غوث اعظم کے بےحد چاہنے والے ہیں! اس پر وہ بولا، بے شک جب حضور غوث اعظم ہماری طرف نظر فرماتے ہیں تو جِنّ تھر تھر کانپنےلگتے ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ کسی قطب وقت کا تعین فرماتا ہے تو جِنّ و انس اس کے تابع کر دئے جاتے ہیں۔‘‘
(جِنّات کا بادشاہ۔ از امیر اہل سنت مولانا محمد الیاس عطّار قادری۔ صفحہ 3،2۔ایڈیشن جنوری 2018ء۔مکتبہ المدینہ کراچی)
امام محمد حسین بن مسعود الفراء بغویؒ اپنی ’’تفسیرِ بغوی ‘‘ میں سورہ سباء کی تفسیر میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اہل علم کا بیان ہے کہ حضرت سلیمان مسجد بیت المقدس کے اندر مہینہ دو مہینہ ، سال دو سال یا اس سے کم و بیش مدت تک گوشہ نشین ہو جاتےتھے، وہیں آپ کا کھانا پانی پہنچا دیا جاتا تھا ۔ ایک بار حسب معمول بیت المقدس کے اندر تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی ، جس کے قصہ کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ روزانہ صبح کے وقت بیت المقدس کی محراب میں ایک بوٹی نمودار ہوتی تھی ، آپ اُس سے اس کانام دریافت کرتے تھے وہ اپنا نام بتا دیتی تھی۔آپ اس سے اس کے خواص دریافت کرتے تو وہ اپنے فائدے بتا دیتی تھی۔آپ اس کو کٹوا لیتے تھے ۔پھر اگر وہ کسی پودے کی شاخ ہوتی تو آپ اس کو کسی باغ میں لگوا دیتے تھے ، اور اگر دوا کی بوٹی ہوتی تو لکھ دیتے تھے ۔ ایک روز درخت خروبہ اُگا ۔ حضرت نے اس سے دریافت کیا تو کون ہے ؟ اس نے جواب دیا خروبہ ۔ آپ نے فرمایا کس لئے اُگا ہے ؟ اس نے کہا آپ کی مسجد برباد کرنے کے لئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا یہ بات تو ہو گی نہیں کہ میری زندگی میں اللہ اس مسجد کو برباد کر دے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے میری موت اور پھر بیت المقدس کی بربادی تیری وجہ سے ہو گی ۔ پھر آپ نے اس کو ایک اچھے باغ میں لگوا دیا اور دعا کی ، اے اللہ ! میری موت کو جِنّات سے پوشیدہ رکھنا ، تاکہ انسانوں کو معلوم ہوجائے کہ غیب دان جِنّات نہیں ہوتے ۔ جِنّات آدمیوں سے کہا کرتے تھے کہ ہم غیب کی باتیں جان لیتے ہیں اور آنے والے دنوں میں جو کچھ ہوگا اس سے بھی واقف ہیں۔ اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام محراب (عبادت خانہ) میں چلے گئے اور لاٹھی پر سہارا لگا ئے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے۔ اسی حالت میں کھڑے کھڑے آپ کی وفات ہو گئی ۔ محراب کے اندر آگے پیچھے کئی روشن دان تھے جن میں سے جِنّات آپ کو کھڑا دیکھ کر خیال کرتے کہ آپ نماز میں مشغول ہیں ، اس لئے سخت محنت کا جو کام وہ آپ کی زندگی میں کرتے تھے ان میں آپ کی وفات کے بعد بھی سرگرم رہے اور چونکہ آپ کی عادت ہی تھی کہ نماز میں مشغول ہونے کے بعد ایک مدت تک باہر نہیں نکلتے تھے اس لئے آپ کے برآمد نہ ہونے سے جِنّات کو آپ کی وفات کا کوئی شبہ بھی نہیں ہوا۔ اسی طرح وفات کے بعد ایک سال گذر گیا اور جِنّات برابر کام میں مشغول رہے۔ آخر دیمک نے لاٹھی کو کھا لیا اور آپ کی میت نیچے گر پڑی اور جِنّات کو آپ کی وفات کا علم ہوا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :جِنّات نے دیمک کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی وجہ سے انہیں سخت مشقتوں سے آزادی ملی ۔ اب بھی جِنّات پانی اور مٹی لکڑی کے کھوکھلے حصہ میں دیمک کے لئے ڈالتے ہیں…حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کا جِنّوں کو علم نہیں تھا اس لئےحضرت سلیمان کے حکم کے مطابق کام کرتے رہے ۔ مطلب یہ ہے کہ پہلے جِنّات اپنی غیب دانی کا دعویٰ کرکے لوگوں کو دھوکہ دیا کرتے تھے ۔ لیکن جب حضرت سلیمان کی وفات کا علم جِنّوں کو نہ ہو سکا تو لوگوں کے لئے یہ بات واضح ہو گئی کہ جِنّات غیب دان نہیں ہوتے۔‘‘
(تفسیربغوی اردو۔ از امام الکبیر ابو محمد حسین بن مسعود الفراء بغوی، جلد پنجم صفحہ141تا142۔ایڈیشن،1436ھ۔ ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ ملتان)
امام جلال الدین السیوطیؒ اپنی تفسیر دُر منثور میں سورت الانعام کی آیات کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:
’’یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ؕ قَالُوۡا شَہِدۡنَا عَلٰۤی اَنۡفُسِنَا وَ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ شَہِدُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰفِرِیۡنَ۔ذٰلِکَ اَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ رَّبُّکَ مُہۡلِکَ الۡقُرٰی بِظُلۡمٍ وَّ اَہۡلُہَا غٰفِلُوۡنَ۔وَ لِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوۡا ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعۡمَلُوۡنَ‘‘۔ (الانعام:131تا133)۔
’’اے گروہ جِنّوں اور انسانوں کے! کیا نہیں آئے تمہارے پاس رسول تمہیں میں سے ، سناتے تھے تمہیں ہماری آیتیں اور ڈراتے تھے تمہیں تمہاری اس دن کی ملاقات سے ، کہیں گے ہم گواہی دیتے ہیں اپنے خلاف کہ وہ کفر کرتے تھے ۔ یہ اس لئے کہ نہیں ہےآپ کا رب ہلاک کرنے والا بستیوں کو ظلم سے ، اس حال میں کہ ان کے باشندے بے خبر ہوں ۔ اور ہر ایک کے لئے درجے ہیں ان کے عمل کے مطابق اور نہیں ہے آپ کا رب بے خبر اس سے جو وہ کرتے ہیں‘‘۔امام عبد بن حمید ، ابن منذر اور ابی بن حاتم رحمھم اللّٰہ نے مذکورہ آیات کے بارہ میں حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے یہ قول نقل کیا ہےکہ جِنّوں میں سے رسول نہیں ہیں ۔ بلکہ رسل عظام صرف انسانوں میں سے ہیں ، اور ڈرانے والے جِنّوں میں سے بھی ہیں ۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی:
’’فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوۡا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ مُّنۡذِرِیۡنَ‘‘(الاحقاف:30)
’’پھر جب تلاوت ہو چکی تو لوٹے اپنی قوم کی طرف ڈر سناتے ہوئے‘‘۔امام ابن منذر نے ابن جریج سے ’’رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ ‘‘ کے بارے میں یہ قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد رُسل کے رُسل ہیں۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے حضرت ضحاک رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ ان جِنّوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا حضور نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے ان میں کوئی نبی تھا ؟ تو انہوں نے جواب دیا ، کیا تونے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا:
’’یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ ‘‘۔
یعنی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں میں سے رُسل تھے اور جِنّوں میں سے بھی رُسل تھے ۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں، ہم نے یہ آیت سن رکھی ہے۔ امام ابن منذر اور ابو الشیخ رحمہما اللّٰہ نے العظمہ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ضحاک رحمہ اللہ نے کہا کہ جِنّات جنّت میں داخل ہوں گے ،وہ کھاتے بھی ہیں اور پیتے بھی ہیں ۔امام ابن منذرنے حضرت لیث سے یہ قول نقل کیا ہے کہ مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ جِنّات کے لئے کوئی ثواب نہیں ۔امام ابو الشیخ رحمہ اللہ نے العظمہ میں حضرت لیث بن ابی سلیم کا قول نقل کیا ہے کہ مسلمان جِنّات نہ جنّت میں داخل ہوں گے ، اور نہ جہنم میں ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے باپ کو جنّت سے نکالا ہے ۔ لہٰذا اَب نہ اُسے واپس لوٹائے گا، اور نہ ہی اُس کی اولاد کوجنّت میں بھیجا جائے گا ۔امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا جِنّات کے لئے ثواب ہے۔اور اس کی تصدیق کتاب اللہ میں موجود ہے:
’’وَ لِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوۡا‘‘۔
امام ابو الشیخ رحمہ اللہ نےذکر کیا ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا مخلوق چار قسم کی ہے ۔ ایک مخلوق ساری کی ساری جنّت میں ہوگی ، ایک مخلوق ساری کی ساری جہنم میں ہوگی ۔ اور دو قسم کی مخلوق جنّت اور دوزخ دونوں میں ہوگی ۔ پس وہ جو سارے کے سارے جنّت میں ہوں گے وہ فرشتے ہیں، اور جو سارے کے سارے جہنم میں ہوں گے وہ شیاطین ہیں ۔ اور جو جنّت اور دورخ دونوں میں ہوں گے وہ جِنّات اور انسان ہیں ، ان کے لئے ثواب بھی ہیں، اور ان کے لئے عقاب اور سزا بھی ہے۔ امام حکیم ترمذی رحمہ اللہ نے نوادر الاصول میں، ابن ابی حاتم، ابو شیخ، طبرانی، حاکم، لالکلائی رحمہم اللّٰہ نے السنۃ میں اور بیہقی رحمہ اللہ نے الاسماء والصفات میں ابو ثعلبہ خنشی رضی اللہ عنہ سے حدیث طیبہ روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جِنّوں کی تین قسمیں ہیں ۔ اُن کی ایک قسم پَروں والی ہے جو ہوا میں اُڑتے ہیں ، ایک قسم سانپوں اور کتوں کی صورت میں ہے ، اورا یک قسم وہ ہے جو کبھی(بعض مقامات )پر سکونت اختیار کرتے ہیں اور کبھی وہاں سے کوچ کر جاتے ہیں‘‘۔ امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حضرت حسنؓ سے یہ قول روایت کیا ہے کہ جِنّ ابلیس کی اولاد ہیں اور انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ ان دونوں صنفوں میں سے بعض مومن ہوتے ہیں اور یہ تمام کے تمام ثواب وعقاب میں شریک ہوتے ہیں ۔ جِنّوں اور انسانوں میں سے جو مومن ہے وہ اللہ تعالیٰ کا دوست ہے اور ان میں سے جو کافر ہے وہ شیطان ہے۔امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے ذکرکیا ہے کہ ابن انعم نے کہا جِنّوں کی تین قسمیں ہیں ۔ ان میں سے ایک قسم کے لئے ثواب ہے، اور ان پر عقاب بھی ہے۔اور ایک قسم وہ ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان اڑتے رہتے ہیں۔اورایک قسم سانپوں اور کتوں کی صورت میں ہے۔اور انسانوں کی بھی تین صنفیں ہیں۔ان میں سے ایک صنف کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا ، ایک صنف چوپاؤں کی مثل ہے ، بلکہ ان سے بھی زیادہ راہ بھٹکنے والی اور گمراہ ہے اور ایک صنف انسانی صورتوں میں ہے مگر ان کے دل شیطانی ہیں۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے حضرت وہب بن منبہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ان سے جِنّوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ کھاتے ہیں، پیتے ہیں ، مرتے ہیں اور نکاح کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کی مختلف اجناس ہیں ، پس جو خالص جِنّ ہیں وہ ہوا ہیں،نہ وہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں، نہ مرتے ہیں اور نہ وہ ایک دوسرے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور ان میں سے بعض اجناس ہیں جو کھاتے ہیں، پیتے ہیں، نکاح کرتے ہیں اور مرتے بھی ہیں ۔ مسلمانوں کا کوئی گھرانہ نہیں مگر ان کے گھر کی چھت میں مسلمان جِنّوں کے گھر والے رہتے ہیں ۔ جب صبح کا کھانا چنا جاتا ہے تو وہ چھت سے اُتر کر ان کے ساتھ مل کر کھاتے ہیں ۔ اور جب ان کے لئے شام کا کھانا چنا جاتا ہے تو وہ اترتے ہیں اور ان کے ساتھ رات کا کھانا تناول کر لیتے ہیں۔‘‘
(تفسیر درمنثور از علامہ جلال الدین السیوطیؒ ۔اردو ترجمہ پیر کرم شاہ الازہری۔جلد سوم صفحہ 153تا 155۔ایڈیشن نومبر 2006ء۔ ضیا القرآن پبلی کیشنزاردو بازار لاہور)
(جاری ہے)
٭…٭…٭