اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مرتبہ: مطہر احمد طاہر۔ جرمنی)

اگست، ستمبر2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

تعزیراتِ پاکستان 295-Cکے تحت مقدمے کی سزا پاکستانی قانون کے مطابق موت ہے

ایک احمدی کے خلاف توہینِ مذہب کا نیا مقدمہ

شاہین مسلم ٹاؤن ، پشاور (ستمبر2020ء): 8؍ستمبر 2020ء کومشتعل ہجوم نے ایک احمدی عبدالوحید کے گھر کا گھیراؤ کرلیا ۔ پولیس نے مداخلت کرکے بڑی مشکل سے انہیں اور ان کے اہل خانہ کو رات 3 بجے ایک محفوظ مقام پر منتقل کیا۔

عبد المجید ولد عبدالوحید پر توہینِ رسالت کا الزام لگا یا گیا۔یہ الزام لگانے والا عمران احمد نامی 15 سالہ لڑکا ہے جو قانوناََ نابالغ ہے۔واضح رہے کہ عبد المجید اور عمران احمد کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوا تھا جس کو بنیاد بنا کر عمران احمد نے عبد المجید پر توہینِ رسالت کا الزام لگایا۔

معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا معاملہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔اس حقیقت کا پتہ اس بات سے بھی چلتا ہے کہ عبد المجید کے گھر کے باہر جمع ہونے والے ہجوم میں سے بعض افراد اس علاقے کے رہائشی نہیں تھے۔مشتعل ہجوم نے احمدیوں کے گھر کو نذرِ آتش کرنے کی بھی کوشش کی البتہ پولیس کی مداخلت سے افرادِ خانہ کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا۔

اس واقعے کے دو دن بعد مورخہ 10؍ستمبر 2020ء کو مولویوں اور بعض دیگر افراد نے ضلع پشاور میں واقع پھانڈو پولیس سٹیشن کے سامنے دھرنا دے کر عبد المجید کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ ملزم عمران علی نے 8؍ستمبر 2020ء کو ہونے والا وہ واقعہ دہرایا جس کے مطابق گھر واپسی پر اُس نے عبدالمجید کے گھر کی دیوار پر ختمِ نبوت کا پوسٹر لگا ہوا دیکھاجس پر عمران علی نے ’’ختمِ نبوت زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا۔

عمران کے بیان کے مطابق جس وقت اُس نے یہ نعرہ لگایا اُس وقت ملزم عبد المجید اپنے گھر کے باہر بیٹھا ہوا تھا جس نے یہ نعرہ سُن کر پشتو زبان میں کچھ ایسی بات کہی جس سے توہینِ رسالت ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ جس وقت پولیس نے عبد المجید اور ان کے گھر کے دیگر افراد کو اس بات کا یقین دلایا تھا کہ انہیں کسی محفوظ جگہ پر لے جایا جارہا ہے اُس وقت اُن سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ آپ کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ نہیں بنایا جائے گا ۔

تاہم بعد میں پولیس نے اپنے ہی بیان سے روگردانی کرتے ہوئے ملاؤں کے دباؤ میں آکر عبد المجید کے خلاف تعزیراتِ پاکستان 295-Cکے تحت مقدمہ درج کرلیا جس کی سزا پاکستانی قانون کے مطابق موت ہے۔

یہ مقدمہ مورخہ 10؍ستمبر 2020ء کو پھانڈو پولیس سٹیشن، پشاور میں درج کیا گیا۔

جماعتِ احمدیہ کو پولیس کے زیرِ حراست عبد المجید کی زندگی کے بارے میں شدید تحفظات ہیں کیونکہ اس سے قبل بھی پولیس کی زیرِ حراست توہینِ مذہب کے ملزمان کی زندگیاں غیر محفوظ رہی ہیں۔

لاہور میں احمدیوں کو بلاوجہ گرفتار کر کےتشدد کا شکار بنایا گیا

لاہور (30؍ستمبر 2020ء):تین احمدیوں کو جھوٹا مقدمہ بنا کر گرفتار کرلیا گیا جبکہ اس سے قبل دو احمدی ناجائز طور پر مقدمات کا سامنا کررہے تھے۔

اس ضمن میں یاد دہانی کرانا ضرور ی ہے کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے 26؍مئی 2020ء کو ایک احمدی روحان احمد کے خلاف قرانی تعلیم پھیلانے کی وجہ سے مقدمہ درج کرلیا۔ روحان احمد کے ساتھ ساتھ 6؍مزید احمدی عہدیداران کے نام بھی اس مقدمے میں ناجائز طور پر داخل کرلیے گئے تھے۔

یہ مقدمہ ایک معروف مولوی کے بدنامِ زمانہ بھائی مولوی حسن معاویہ کے دباؤ پر بنایا گیا ہے۔ روحان احمد کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ عید کی چھٹیوں پر لاہور اپنے والدین سے ملنے آئے ہوئے تھے۔

دو دیگر ملزمان مسمیٰ ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد نے 29؍مئی 2020ء کو ضمانت قبل از گرفتاری لے لی تھی۔ بعد ازاں 16؍جولائی 2020ء کو ضمانت کی تصدیق کے وقت معاندین نے کمرۂ عدالت کے اندر اور باہر بہت ناخوشگوار ماحول پیدا کیے رکھا جس کی وجہ سے ان دونوں ملزمان نے پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ جج نے ان کی ضمانت کی درخواست خارج کردی۔

چونکہ ان دونوں ملزمان کی گرفتاری کا امکان تھا ، انہوں نے خود کو تفتیشی افسر کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔اس عمل کو پُر امن اور ہموار بنانے کے لیے انہوں نے دو احمدیوں جناب عمران احمد ورک اور جناب مدثر احمد طاہر آف لاہور کو بطور ضامن اور تیسرے ملک ظہیر احمد کو بطور دوست ساتھ لیا۔

تفتیشی افسر حقائق کی تفتیش کے بجائے گرفتاریوں میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا، کیونکہ با اثر ملا حسن معاویہ اس میں سرگرمی سے ملوث تھا۔ چنانچہ نہ صرف دو ملزمان بلکہ دو ضامن اور ان کے ’دوست‘ کو بھی پولیس نے گرفتار کیا۔ دونوں ضامن افراد پر رشوت دینے کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔ جبکہ دوست ملک ظہیر احمد نہ تو ملزم تھا اور نہ ہی وہ زیرِ تفتیش کیس میں ملوث تھا۔ اس کی گرفتاری مکمل طور پر ظالمانہ عمل ہے۔

گرفتاری کی پہلی رات کو حراست میں لیے گئے افراد پر ملا معاویہ کی موجودگی میں تشدد کیا گیا۔اس لیے پاکستان سٹیزن پورٹل کے ذریعے شکایت کی گئی۔

یہ کیس اور یہ گرفتاریاں ملّاںاور ریاست کے گٹھ جوڑ اور اس کے نتیجہ میں واقع ہونے والے ظلم کی نشاندہی کرتی ہیں ، جس کا سامنا خاص طور پر پنجاب کے رہنے والے احمدی کررہے ہیں۔

احمدی دکاندار کو موت کی دھمکی

محمودہ، ضلع راولپنڈی (13؍اگست 2020ء):جناب ظفر احمد روالپنڈی ضلع کے علاقے محمودہ سے تعلق رکھنے والے ایک احمدی ہیں جن کی چک بیلی خان میں سٹیشنری کی دکان ہے۔ مورخہ 13؍اگست 2020ء کو کچھ لوگ ان کی دکان میں آئے اور ان سے کہا ’’تم مرزائی ہو، یا تو تم اسلام قبول کرلو یا پھر یہ علاقہ چھوڑ کر چلے جاؤ ورنہ ہم تمہیں جان سے ماردیں گے۔‘‘اس واقعے کی اطلاع فوری طور پر مقامی پولیس کو دی گئی لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

اس کے بعد 19؍اگست کو اسی علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک نامور ملّا ںداؤد ، ظفر احمد کی دکان پر آیا اور تھوڑی دیر تک کچھ دیکھ بھال کر کے چلا گیا۔مقامی SHOاو ر ڈی آئی جی پولیس کو اس بات کی اطلاع دی گئی۔ پولیس، جو اس سے پہلے کوئی کارروائی نہیں کررہی تھی، اس واقعہ پر حرکت میں آئی اور انہوں نے ملاداؤد کو طلب کرلیا۔ اس پر ملا داؤد نے بیان دیا کہ اس کا گذشتہ واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو لوگ اس سے پہلے آکر دھمکی دے کر گئے تھے وہ ان کو نہیں جانتا نہ ہی وہ اس کے لوگ ہیں۔

اس کے بعد ASP پولیس نے ملا داؤد اور ظفر احمد دونوں کو طلب کیا ۔ ظفر احمد صاحب نے پولیس کو ساری بات کھل کر بتائی کہ کس طرح ملاداؤد اس علاقے میں احمدیوں کے خلاف مسجد سے ایک منظّم مہم چلا رہا ہےاور جماعت کے خلاف لاؤڈسپیکر پر نفرت پھیلاتا ہے۔ ظفر احمد نے پولیس کو مزید بتایا کہ ملاداؤد نے یوٹیوب پر اپنا چینل بھی بنا رکھا ہے جس پر وہ جماعت کے خلاف لغو زبان استعمال کرتا ہے۔ ملا داؤد نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا۔

انکوائری کے بعد ASPنے ظفر احمد کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button