حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کاغیر معمولی صبر اور تحمل
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 26؍ نومبر 2010ءمیں فرمایاکہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام’’نبوت کے دعوے سے بھی پہلے، بیعت لینے سے بھی پہلے بلکہ ابتدا میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر کے اعلیٰ خُلق کی جوتلقین فرمائی تھی اس کا اظہار اور اس پر عمل آپ کی زندگی کے آخری لمحہ تک جاری رہا۔ جس کی بعض مثالیں جیسا کہ میں نے کہا مَیں پیش کروں گا۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ 1898ء میں مولوی محمد حسین صاحب نے اپنا ایک گالیوں کا بھرا ہوا رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور بھیجا۔ اپنی رپورٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ مَیں نے 27جولائی 1898ء کے الحکم میں اس کیفیت کو درج کر دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ آج قریباً تیس سال ہوئے جب اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوصلہ، ضبطِ نفس اور توجہ الی اللہ پر غور کرتے ہوئے پڑھتا ہوں تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل جاتے ہیں۔
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ463-462)
بے تحاشا گالیوں سے بھرا ہوا جورسالہ تھا آپؑ نے اُس کے جواب میں پورے حلم اور حوصلہ اور صبر و تحمل کا اظہار کیا۔ آپ کے سکونِ خاطر اور کوہِ وقاری کو کوئی چیز جنبش نہ دے سکتی تھی۔ بڑی پُر سکون طبیعت تھی۔ بڑی باوقار طبیعت تھی۔ یعنی اس طرح کہ جس طرح پہاڑ ہو۔ گویا کہ وہ ایک عظیم شخصیت تھے۔ وقار کا ایک پہاڑ تھے اور یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ کسی قسم کی گالیوں کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ یعنی کبھی یہ نہیں ہوا کہ بے وقاری دکھاتے ہوئے گالیوں کے جواب میں، گالیوں کا جواب آپ کی طرف سے جائے۔ فرماتے ہیں کہ یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ خدا تعالیٰ کی وحی جو آپ پر ان الفاظ میں نازل ہوئی تھی کہ
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ(احقاف: 36)
فی الحقیقت خدا کی طرف سے تھی اور اُسی خدا نے وہ خارق عادت اور فوق الفطرت صبر اور حوصلہ آپ کو عطا فرمایا تھا جو اولوالعزم رسولوں کو دیا جاتا ہے۔ قبل از وقت خدا تعالیٰ نے متعدد فتنوں کی آپ کو اطلاع دی تھی اور وہ فتنے اپنے اپنے وقت پر پوری شدت اور قوت کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ مگر کسی موقعہ اور مرحلہ پر آپ کے پائے ثبات کو جنبش نہ ہوئی۔
(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ ازمولانا یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 464-463)