نکاح کے معاملہ میں فکر، خشیت اور دعاؤں سے کام لو
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
(خطبہ نکاح فرمودہ 28 فروری 1920ء)
28؍فروری 1920ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے شیخ غلام فرید صاحب بی اے کا نکاح شیخ فضل حق صاحب بٹالوی کی ہمشیرہ نواب بیگم صاحبہ سے ایک ہزار روپے حق مہرپر پڑھایا۔
حضور ؓنے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :
نکاح کا معاملہ ایک نہایت ہی عام اور ہمیشہ واقع ہونے والے معاملات میں سے ہے اور ان واقعات میں سے ہے کہ جو خوشی اور رنج کے لحاظ سے گوایک مخصوص حلقہ میں چند منٹ یا گھنٹے کے لئے اثر پیدا کرتے ہیں مگر پھر ان کا اثر بظاہر مٹ جاتا ہے۔میرے نزدیک شادی و نکاح کی مثال ان واقعات کی طرح ہے جو تیر یا گولی کی طرح چھٹتے ہیں۔ جس وقت تیر چھٹتا ہے تو اس کی ایک حرکت ہوتی ہے مگر جب تیر نشانے پر پہنچتا ہے تو ادھر سناٹا ہو جاتا ہے۔ اس کے چھٹنےکی حرکت اس وقت تک بےحقیقت ہوتی ہے جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ وہ نشانہ پر بھی بیٹھا ہے یا یونہی ضائع ہوگیا ہے۔مگر تیر کے چھٹنے اور نشان تک جانے کا عرصہ و فاصلہ اتنا قلیل ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ نہیں ہوتا مگر ہوتا ضرور ہے لیکن جب وہ چھٹتا ہے تو ادھر حرکت ہوتی ہے اور جب وہ اپنے مقام پر پہنچتا ہے تو یہاں سناٹا ہوتا ہے۔یہی حال نکاح کا ہوتا ہے جب تک اس کا بظاہر کوئی اثر نہیں ہوتا اس کے لئے حرکت ہوتی ہے ،تیاریاں کی جاتی ہیں، دعوتیں ہوتی ہیں لیکن جب نکاح کے ثمرات کا وقت آتا ہے تو ہر طرف خاموشی ہوتی ہے جب میاں بیوی میں لڑائیاں اور جھگڑے ہوں یا اور معاملات میں ان کی کشمکش ہو رہی ہو اس وقت کسی کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کس حالت میں ہیں۔نکاح کی مثال موت کے ساتھ بھی دی جاسکتی ہے کہ جب ایک شخص کے جسم سے روح علیحدہ ہوتی ہے تو اس کے گھر والوں میں ماتم پڑ جاتا ہے۔مگر جب اسے دفن کر آتے ہیں اس کا حساب کتاب شروع ہوتا ہے جو اس کےلئے مشکل وقت ہوتا ہے اس وقت لوگ خاموش ہوتے ہیں۔احادیث میں آتا ہے کہ بعض لوگوں کا حساب چند دن دیر میں لیا جاتا ہے۔ تو ایسے مردےکے لیے جب رنج کا وقت ہوتا ہے اس وقت رونے والے خاموش ہو جاتے ہیں۔
پس نکاح ان معاملات میں سے ہے کہ جن کی ابتدا تو خوشی سے ہوتی ہے مگر انتہا کاکسی کو علم نہیں ہوتا اورنہیں جانتے کہ اس کے کیسےثمرات پیدا ہوں گے۔عام لوگ نکاح کی اہمیت سے واقف نہیں ہوتے۔حالانکہ نکاح ایک عمارت ہے جس میں عظیم الشان دنیا آباد ہوتی ہے۔اس وقت سوا ارب دنیا کی آبادی بتائی جاتی ہے۔ چند سو سال قبل دنیا کی جتنی آبادی تھی آج اتنی صرف ابراہیم علیہ السلام کی نسل دنیا میں موجود ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ ایک آدمی کی نسل سے ایک دنیا بن جاتی ہے۔ اس لئے یہ معاملہ چھوٹا معاملہ نہیں بلکہ بڑا اہم معاملہ ہے اس لئے بڑے فکر، بڑی خشیت اور بڑی دعاؤں کی ضرورت ہے اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع کے لئے قرآن کریم کی ان آیتوں کو منتخب کیا ہے جن میں بار بار تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے۔خوشی ایک ایسی چیز ہے جو اپنی ذات میں خوبصورت ہے اور کم لوگ ہیں جو خوشی میں خدا کو یاد رکھتے ہیں۔رنج میں تو خدا یاد آ ہی جاتا ہے پس چونکہ شادی بھی ایک ایسا معاملہ ہے جو دنیا میں خوشی کا معاملہ ہے اور سوائے دنیا کے ایک جزیرہ کے باقی تمام ممالک میں اس موقع پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اسی لئے قرآن میں تقویٰ اللہ پر زور دیا گیا ہے اور بار بار توجہ دلائی گئی ہے کہ خدا پر بھروسہ کرنا چاہئے اور اسی سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدایا اس کے اچھے نتائج پیدا ہوں اور یہ کام تیری مرضی کے مطابق ہو۔
(الفضل8؍مارچء1920ءصفحہ2)