متفرق مضامین

جنّات کی حقیقت (قسط ہفتم)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

علماء اور مفسّرین کے مضحکہ خیز عقائد ،تاویل و استدلال کے مقابل اِمامِ آخرالزّمانؑ اور آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ حقائق و معارف

جن: انسانی نظر سے چھپی ہوئی مخلوق۔پس جِن وہی مخلوق ہے جو عام انسانی نظر سے پوشیدہ ہو۔ خواہ وہ کسی قسم کی مخلوق ہو۔ غرض جنّ ایک مخلوق ہے۔

امامِ آخرالزّمان اور آپ کے خلفاء کےبیان فرمودہ حقائق و معارف

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی ایک پر معارف تحریر میں فرماتے ہیں:’’قرآنِ کریم میں اوربہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی تربیت اور حفاظت ظاہری و باطنی کے لئے اور نیز اس کے اعمال کے لکھنے کے لئے ایسے فرشتے مقرر ہیں کہ جو دائمی طور پر انسانوں کے پاس رہتے ہیں۔ چنانچہ من جملہ اُن کے یہ آیات ہیں۔

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِيْنَ۔(الانفطار:11)يُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً۔(الانعام:62)لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ۔(الرعد:12)

ترجمہ ان آیات کا یہ ہےکہ تم پر حفاظت کرنے والے مقرر ہیں خدا تعالیٰ ان کو بھیجتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے چوکیدار مقرر ہیں جو اس کے بندوں کی ہر طرف سے یعنی کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر حفاظت کرتے ہیں۔ اس مقام میں صاحب ِ معالم نے یہ حدیث لکھی ہے کہ ہر یک بندہ کے لئے ایک فرشتہ موکّل ہے جو اس کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ اور اس کی نیند اور بیداری میں شیاطین اور دوسری بلاؤں سے اس کی حفاظت کرتا رہتا ہے۔… اور پھر مجاہد سے نقل کیا ہے کہ کوئی انسان ایسا نہیں جس کی حفاظت کے لئے دائمی طور پر ایک فرشتہ مقرر نہ ہو۔ پھر ایک اور حدیث عثمان بن عفّان سے لکھی ہے جس کا ماحصل یہ ہےکہ بیس20فرشتے مختلف خدمات کے بجا لانےکے لئے انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور دن کو ابلیس اور رات کو ابلیس کے بچے ضرر رسانی کی غرض سے ہر دم گھات میں لگے رہتے ہیں اور پھر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے یہ حدیث مندرجہ ذیل لکھی ہے۔

حَدَّثَنَا اسْود بْنُ عامر حَدَّثَنَا سفیانُ حَدَّثَنِیْ مَنْصُورٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ وَقَرِينُهُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ قَالُوا وَإِيَّاكَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ، قَالَ وَإِيَّايَ وَلٰکِن اللّٰهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَلَا يَأْمُرُنِي إِلَّا بِخَيْرٍ

انفرد باخر اجہ مسلم صفحہ 244

یعنی بتوسط اسود وغیرہ عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی تم میں سے ایسا نہیں جس کے ساتھ ایک قرین جِنّ کی نوع میں سے اور ایک قرین فرشتوں میں سے موکّل نہ ہو۔ صحابی نے عرض کیا آپ بھی یارسول اللہ صلعم فرمایا کہ ہاں میں بھی۔ پر خدا نے میرے جِنّ کو میرا تابع کر دیا ہے۔ سو وہ بجز خیر اورنیکی کے اور کچھ بھی مجھے نہیں کہتا۔ اس کے اخراج میں مسلم منفرد ہے اس حدیث سے صاف اور کھلے طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جیسے ایک داعی شر انسان کے لئے مقرر ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے ایسا ہی ایک داعی خیر بھی ہر یک بشر کے لئے موکّل ہے جو کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا اور ہمیشہ اس کا قرین اور رفیق ہے اگر خدا تعالیٰ فقط ایک داعی الی الشّر ہی انسان کے لئے مقرر کرتا اور داعی الی الخیر مقرر نہ کرتا تو خدا تعالیٰ کے عدل اور رحم پر دھبہ لگتا کہ اُس نے شر انگیزی اور وسوسہ اندازی کی غرض سے ایسے ضعیف اور کمزور انسان کو فتنہ میں ڈالنے کے لئے کہ جو پہلے ہی نفس امّارہ ساتھ رکھتا ہے شیطان کو ہمیشہ کا قرین اور رفیق اُس کا ٹھہرادیا جو اُس کے خون میں بھی سرایت کر جاتا ہے اور دل میں داخل ہو کر ظلمت کی نجاست اس میں چھوڑ دیتا ہے مگر نیکی کی طرف بلانے والا کوئی ایسا رفیق مقرر نہ کیا تا وہ بھی دل میں داخل ہوتا اور خون میں سرایت کرتا اور تا میزان کے دونوں پلّے برابر رہتے۔مگر اب جبکہ قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہو گیا کہ جیسے بدی کی دعوت کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کا قرین شیطان مقرر کررکھا ہے۔ ایسا ہی دوسری طرف نیکی کی دعوت کے لئے رُوح القدس کو اس رحیم و کریم نے دائمی قرین انسان کا مقرر کر دیا ہے…پھر جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک بندھا ہوا قانون قدیم سے ہمارے افاضہ کے لئے چلا آتا ہے کہ ہم کسی دوسرے کے توسّط سے ہر یک فیض خدا تعالیٰ کا پاتے ہیں ہاں اس فیض کےقبول کرنے کے لئے اپنے اندر قویٰ بھی رکھتے ہیں جیسے ہماری آنکھ روشنی کے قبول کرنے کے لئے ایک قسم کی روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور ہمارے کان بھی اُن اصوات کے قبول کرنے کے لئے جو ہوا پہنچاتی ہے ایک قسم کی حِس اپنے اعصاب میں موجود رکھتے ہیں لیکن یہ تو نہیں کہ ہمارے قویٰ ایسے مستقل اور کامل طور پر اپنی بناوٹ رکھتے ہیں کہ ان کو خارجی معینات اور معاونات کی کچھ بھی ضرورت اور حاجت نہیں ہم کبھی نہیں دیکھتے کہ کوئی ہماری جسمانی قوت صرف اپنے ملکہ موجودہ سے کام چلا سکے اور خارجی ممد و معاون کی محتاج نہ ہو۔ مثلاًاگرچہ ہماری آنکھیں کیسی ہی تیز بین ہوں مگر پھر بھی ہم آفتاب کی روشنی کے محتاج ہیں اور ہمارے کان کیسے ہی شنوا ہوں مگر پھر بھی ہم اس ہوا کے حاجت مند ہیں جو آواز کو اپنے اندر لپیٹ کر ہمارے کانوں تک پہنچادیتی ہے اس سے ثابت ہے کہ صرف ہمارے قویٰ ہماری انسانیت کی کَل چلانے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ ضرور ہمیں خارجی مُمدّوں اور معاونوں کی حاجت ہے مگر قانون قدرت ہمیں بتلا رہا ہے کہ وہ خارجی ممدومعاون اگرچہ بلحاظ علّت العلل ہونے کے خدائے تعالیٰ ہی ہے مگر اُس کا یہ انتظام ہرگز نہیں ہے کہ وہ بلا توسّط ہمارے قویٰ اور اجسام پر اثر ڈالتا ہے بلکہ جہاں تک ہم نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں اور جس قدر ہم اپنے فکر اور ذہن اور سوچ سے کام لیتے ہیں صریح اور صاف اور بدیہی طور پر ہمیں نظر آتا ہے کہ ہر یک فیضان کے لئے ہم میں اور ہمارے خدا وندکریم میں علل متوسّطہ ہیں جن کے توسّط سے ہر یک قوت اپنی حاجت کے موافق فیضان پاتی ہےپس اسی دلیل سے ملائک اور جِنّات کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم نے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ خیر اور شرّ کے اکتساب میں صرف ہمارےہی قویٰ کافی نہیں بلکہ خارجی مُمدّات اور معاو نات کی ضرورت ہے جو خارق عادت اثر رکھتے ہوں مگر وہ مُمد ّاور معاون خدا تعالیٰ براہ راست اور بلا توسّط نہیں بلکہ بتوسط بعض اسباب ہے سو قانون قدرت کے ملاحظہ نے قطعی اور یقینی طور پر ہم پر کھول دیا ہے کہ وہ مُمدّات اور معاونات خارج میں موجود ہیں گو ان کی کنہ اور کیفیت ہم کو معلوم ہو یا نہ مگر یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ نہ براہ راست خدا تعالیٰ ہے اور نہ ہماری ہی قوتیں اور ہمارے ہی ملکے ہیں بلکہ وہ ان دونوں قِسموں سے الگ ایسی مخلوق چیزیں ہیں جو ایک مستقل وجود اپنا رکھتی ہیں اور جب ہم ان میں سے کسی کا نام داعی الی الخیر رکھیں گے تو اُسی کو ہم روح القدس یا جبرائیل کہیں گے اور جب ہم ان میں سے کسی کا نام داعی الی الشر رکھیں گے تو اُسی کو ہم شیطان اور ابلیس کے نام سے بھی موسوم کریں گے۔ یہ تو ضرور نہیں کہ ہم روح القدس یا شیطان ہر یک تاریک دل کو دکھلاویں اگرچہ عارف ان کو دیکھ بھی لیتے ہیں اور کشفی مشاہدات سے وہ دونوں نظر بھی آجاتی ہیں مگر محجوب کے لئے جو ابھی نہ شیطان کو دیکھ سکتا ہے نہ روح القدس کو یہ ثبوت کافی ہے کیونکہ متاثر کے وجود سے موثر کا وجود ثابت ہوتا ہے اور اگر یہ قاعدہ صحیح نہیں ہےتو پھر خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی کیونکر پتہ لگ سکتا ہے کیا کوئی دکھلا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہاں ہے صرف متأ ثرات کی طرف دیکھ کر جو اس کی قدرت کے نمونے ہیں اس موثر حقیقی کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے۔ ہاں عارف اپنے انتہائی مقام پر روحانی آنکھوں سے اس کو دیکھتے ہیں اور اس کی باتوں کو بھی سنتے ہیں مگر محجوب کے لئے بجز اس کے اور استدلال کا طریق کیا ہے کہ متاثرات کو دیکھ کر اس موثر حقیقی کے وجود پرا یمان لاوےسو اسی طریق سے روح القدس اور شیاطین کا وجود ثابت ہو تا ہے اور نہ صرف ثابت ہوتا ہے بلکہ نہایت صفائی سے نظر آجاتاہے افسوس ان لوگوں کی حالت پر جو فلسفہ باطلہ کی ظلمت سے متاثر ہو کر ملایک اور شیاطین کے وجود کا انکار کر بیٹھے ہیں اور بینات اور نصوص صریحہ قرآن کریم سے انکار کر دیا اور نادانی سے بھرے ہوئے الحاد کے گڑھے میں گر پڑے۔اور اس جگہ واضح رہے کہ یہ مسٔلہ ان مسائل میں سے ہے جن کے اثبات کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے استنباط حقائق میں اس عاجز کو متفرد کیا ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔‘‘

(آئینہ کمالات، اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ78تا 89)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام’’پولوس‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میں نے تحقیق کر لیا ہے کہ ان کے معجزات کی حقیقت سلب امراض سے کچھ بھی بڑھی ہوئی نہ تھی۔ جس میں آجکل یورپ کے مسمریزم کرنے والے اور ہندو اور دوسرے لوگ بھی مشّاق ہوتے ہیں اور خیالات ایسے بیہودہ اور سطحی تھے کہ صرع کے مریض کو کہتا تھا کہ اس میں جِنّ گُھسا ہوا ہے؛ حالانکہ اگر صرع کے مریض کو کونین، کچلہ،فولاد دیں اور اندر دماغ میں رسولی نہ ہو تو وہ اچھا ہو جاتا ہے۔ بھلا جِنّ کو مرگی سے کیا تعلق۔چونکہ یہودیوں کے خیالات ایسے ہوگئے تھے۔ ان کی تقلید پر اِس نے بھی ایسا ہی کہہ دیا۔ اور یا یہ کہ جیسے آجکل جادو ٹونے کرنے والے کرتے ہیں کہ بعض ادویات کی سیاہی سے تعویذ لکھ کر علاج کرتے ہیں اور بیماری کو جِنّ بتاتے ہیں۔ویسے ہی اُس نے کہہ دیا ہو۔مجھے افسوس ہے کہ مسیح کے معجزات کو مسلمانوں نے بھی غور سے نہیں دیکھا اور عیسائیوں کی دیکھا دیکھی اور ان سے سُن سُن کر ان کے معنی غلط کر لئے ہیں۔ مثلاً اَکْمَه کا لفظ ہے جس کے معنی شب کور کے ہیں، اور اب معنی یہ کرلیے جاتے ہیں کہ مادر زاد اندھوں کو شفا دیا کرتے تھے حالا نکہ یہ اَکْمَه وہ مرض ہے جس کا علاج بکرے کی کلیجی کھانا بھی ہے اور اس سے یہ اچھے ہو جاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 470تا471،ایڈیشن 2016ء)

پھر ایک اور موقعہ پر فرمایا:’’یہ مسلمان دَآبَّةُ الۡاَرۡضِ ہیں اور اس لیے اس کے مخالف ہیں جو آسمان سے آتا ہے۔ جو زمینی بات کرتا ہے وہ دَآبَّةُ الۡاَرۡضِ ہے۔ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی فرمایا تھا رُوحانی اُمور کو وہی دریافت کرتے ہیں جن میں مناسبت ہو۔ چونکہ ان میں مناسبت نہ تھی اس لیے انہوں نے عصائے دین کو کھا لیا۔ جیسے سلیمان ؑکے عصا کو کھا لیا تھا۔اور اس سے آگے قرآن شریف میں لکھا ہے کہ جب جِنّوں کو یہ پتہ لگا تو انہوں نے سرکشی اختیار کی ہے۔ اسی طرح پر جب عیسائی قوم نے اسلام کی یہ حالت دیکھی۔ یعنی اس دَآبَّةُ الۡاَرۡضِ نے عصائے راستی کو کمزور کردیاتو ان قوموں کو اس پر وار کرنے کا موقعہ دے دیا، جِنّ وہ ہیں جو چھپ کر وار کرے اور پیار کے رنگ میں دشمنی کرتے ہیں وہی پیار جو حوّا سے آکر نحّاش نے کیا تھا اس پیار کا انجام وہی ہونا چاہیے جو ابتدا میں ہوا۔ آدم پر اُسی سے مصیبت آئی۔ اُس وقت گویا وہ خدا سے بڑھ کر خیر خواہ ہو گیا۔اسی طرح پر یہ بھی وہی حیات ابدی پیش کرتے ہیں، جو شیطان نے کی تھی، اس لیے قرآن شریف نے اوّل اور آخر کو اسی پر ختم کیا۔ اس میں یہ سِرّ تھا تا بتایا جاوے کہ ایک آدم آخر میں بھی آنے والا ہے قرآن شریف کے اوّل یعنی سورۃ فاتحہ کووَ لَا الضَّآلِّیۡنَپر ختم کیا۔ یہ امر تمام مفسر بااتفاق مانتے ہیں کہ ضالِّينَ سے عیسائی مراد ہیں اور آخر جس پر ختم ہوا وہ یہ ہے

قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔مَلِکِ النَّاسِ۔اِلٰہِ النَّاسِ۔مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۬ۙ الۡخَنَّاسِ ۪ۙ۔الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ۔مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ۔(الناس:2تا7)

سورۃ الناس سے پہلے قُلْ هُوَ اللّٰهُ میں خدا تعالیٰ کی توحید بیان فرمائی اور اس طرح پر گویا تثلیث کی تردیدکی اس کے بعد سورۃ النّاس کا بیان کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ عیسائیوں کی طرف اشارہ ہے۔ پس آخری وصیت یہ کی کہ شیطان سے بچتے رہو،یہ شیطان وہی نحّاش جس کو اس سورۃ میں خنّاس کہا ہے جس سے بچنے کی ہدایت کی، اور یہ جو فرمایا کہ ربّ کی پناہ میں آؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جسمانی امور نہیں ہیں۔بلکہ روحانی ہیں۔ خدا کی معرفت اور معارف اور حقائق پر پکّےہو جاؤ تواس سے بچ جاؤ گے۔ اس آخری زمانہ میں شیطان اور آدم کی آخری جنگ کا خاص ذکر ہے شیطان کی لڑائی خدا اور اس کے فرشتوں سے آدم کے ساتھ ہوکر ہوتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ اس کے ہلاک کرنے کا پورے سامان کے ساتھ اترے گا اور خدا کا مسیح اس کا مقابلہ کرے گا۔ یہ لفظ مشیح ہے جس کے معنی خلیفہ کے ہیں عربی اور عبرانی میں،حدیثوں میں مسیح لکھا ہے، اور قرآن شریف میں خلیفہ لکھا ہے۔ غرض اس کے لیے مقدر تھا کہ اس آخری جنگ میں خاتم الخلفاء جو چھٹے ہزارکےآخر میں پیدا ہو کامیاب ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 525تا526،ایڈیشن 2016ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جِنّات کے وجود اور ان کی معرفت اشیا منگوانے اور کھانے کا سوال ہوا اس پر حضرت اقدس ؑنے فرمایا کہ’’ اس پر ہمارا ایمان ہے۔ مگر عرفان نہیں نیز جِنّات کی ہمیں اپنی عبادت، معاشرت،تمدن اور سیاست وغیرہ امور میں ضرورت ہی کیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمدہ فرمایا ہے۔

مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُهٗ مَالَایَعْنِیْهِ

انسانی عمر بہت تھوڑی ہےسفر بڑا کڑا اور لمبا ہے اس واسطے زاد راہ لینے کی تیاری کرنی چاہیے ان بیہودہ محض اور لغو کاموں میں پڑے رہنا مومن کی شان سے بعید ہےخدا کے ساتھ ہی صلح کرو اور اسی پر بھروسہ کرو اس سے بڑھ کر کوئی قادر نہیں۔ طاقت ور نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 403، ایڈیشن 2016ء)

حضرت نور الدینِ اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمودات

حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ۔(الحجر:28)

کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’یہ سچی فلاسفی الٰہی کلام کی ہے۔ تمام وہ لوگ جن کے اچھے اعمال نہیں یا ان کے اچھے اعمال کم ہیں وہ دوزخ میں جائیں گے۔ دوزخ کی گود میں رہیں گے۔ وہی ان کی ماں ہے۔دیکھو قرآن

وَ اَمَّا مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗۙ فَاُمُّہٗ ہَاوِیَةٌ وَ مَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا هِيَهْ نَارٌ حَامِیَةٌ (القارعۃ:9تا12)

بھلا جن کی ماں دوزخ کی گرم آگ ہو ئی وہ لُوؤں کی آگ سے نہ بنے ہوں تو پھر کس سے بنیں۔ سُنو! سارے شریر شیطان یا شیطان کے فرزند ہیں۔ یوحنا8باب 44۔متی 13باب 39۔ متی 16باب 23۔ جس طرح شریرشیطان کا فرزندہے۔اور عیسائی مسیح ؑکا فرزند۔ اُسی طرح دوزخ کی آگ شریر کی ماں ہے، اور وہ لُوؤں کی آگ سے بنا ہے۔ بھلا صاحب جب عام شریروں کی ماں ہاویہ دوزخ ٹھہری تو ان اشرارکا شرارتی آپ شیطان دشمن ِآدم لُوؤں سے کیونکر نہ بنا ہوگا۔ضرور وہ ہمارا دشمن نارِ السّموم سے بنا۔وہ تو پہلے ہی سموم نار سے بنا تھا۔ اور یہی سچی فلاسفی ہے جس کے خلاف ہر کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں۔(فصل الخطاب حصہ اوّل صفحہ179)

السَّمُوْم: تیز لُو کو سموم کہتے ہیں۔ اس کے اندر جو صفت ہے وہ ناری ہے۔

جا نّ:میں شامل ہیں وہ تمام جاندار جن میں ناری مادہ ہو۔ باریک سانپ کو بھی جانّ کہتے ہیں۔طاعون کے کیڑے کو بھی دخن الجن فرمایا ہے۔مِرگی کے کیڑے کو بھی جِنّ فرمایا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے غضب کو بھی آگ فرمایا ہے۔ اسی واسطے اس کے اطفاء کے لئے کھڑے کو بیٹھنےپھر لیٹنے اور پانی پینے اور تعّوذ کا حکم ہے۔ سیاہ کتّے میں شدید زہر ہوتا ہےاُسے ایک جگہ شیطان فرمایا۔اسی طرح جن لوگوں کا شیطان سے تعلّق ہوتا ہے ان میں بھی خاص تیزیاں ہوتی ہیں۔‘‘

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان13؍جنوری1910ءبحوالہ حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ458تا459)

’’عیسوی انیسویں صدی یا تیرہویں صدی ہجری نے ہر قوم و مذہب پر اعتراض تو پیدا کئے۔ مگر بجائے جواب دینے کے شبہات میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ بعض لوگ یا علی العموم عملاً مذہب سے دستبردار ہو گئے۔ بعض مذہب کو ہنسی میں بھی اڑانے لگے۔دوسرے اعتراضوں کے ساتھ لفظ جِنّ پر بھی اعتراض ہیں۔ بعض نے لفظ جِنّ کی ایسی تو جیہ کی جس کا ثبوت عربی زبان یا حضراتِ صحابہ ؓسے نہیں دیا گیا۔ بعض نے کہا کہ مخاطب لوگ چونکہ جنّ کو ایک مخلوق مانتے تھے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے مسلّمات کے لحاظ سے اس لفظ کو استعمال کیا۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ قرآن مجید میں جو کچھ بیان ہوتا ہے بلحاظ واقعات حقّہ کے ہوتا ہے۔

جنّ کے معنی جو چیز عام نظروں میں نہ آوے مثلاً آجکل طاعون کا کیڑا جو عام نظروں میں تو نہیں آسکتامگر اللہ تعالیٰ نے منکروں کے لئے حجّت قائم کرنے کو اس کیڑے کو پیدا کر دیا۔ اور وہ دیکھے گئے۔ غرض شریر، گندہ، مشرک بڑے کافر کو بھی جِنّ کہا ہے۔ اس سے بدتر وہ ارواحِ خبیثہ ہیں جن سے بدی کےتحریک ہوتے ہیں۔ حضرت سلیمانؑ کے وقت شریر بڑےسرداراور کچھ پہاڑی لوگ بھی تھے ان کو جنّ کہا گیا ہے۔

…الْجِنِّ والْاِنْسِ والطَّیْرِ: امیر لوگ، غریب لوگ فاتح قوموں کی تعریف میں کہا جاتا ہےکہ پرندے ان کے ساتھ اڑتے ہیں تاکہ دشمن کی لاشیں کھائیں۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ 284تا285)

پھر آیت

قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ اَنۡتَ وَلِیُّنَا مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ بَلۡ کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ الۡجِنَّ ۚ اَکۡثَرُہُمۡ بِہِمۡ مُّؤۡمِنُوۡنَ۔(سبا :42)

کی تفسیر میں آپؓ نےفرمایا:’’يَعْبُدُونَ الْجِنَّ یہاں جِن کو جِنّ فرمایا۔ان کو اِس سے پہلے رکوع میں الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا (سبا:34)فرمایا۔اُس سے پہلے اَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوۡنَا السَّبِیۡلَا (احزاب:69)فرمایا۔(ضمیمہ اخبار بدر قادیان12؍اکتوبر1910ء)

…جِنّ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے، اور اس کی پیدائش نار السّموم سے ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے۔

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ۔

پس اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی مخلوق کا جسے ہم نہ دیکھ سکتے ہوںمحض اس بنا پر انکار کرنا کہ وہ اگر ہے تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتی دانشمندی سے بعید ہے۔خود جِنّ کے لفظ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ وہ ایک انسانی نظروں سے پوشیدہ مخلوق ہے اس مادہ سے جس قدر الفاظ نکلے ہیں ان میں یہی معنے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً جنّت،جنّۃ جو انسان کو چھپا کرتلوار کے حملے سے محفوط رکھتی ہے۔ جنین وہ بچہ جو ماں کے پیٹ میں پوشیدہ ہو۔جنون عقل کو چھپانے والا مرض۔جِنَّ کا اطلاق حدیث میں سانپ، کالے کتے، مکھی، چیونٹی،وبائی جرمز، بجلی، کبوترباز، زقوم، بائیں ہاتھ سے کھانے والا، بال پراگندہ رکھنے والا، غراب، ناک یا کان کٹا، شیر برسردار وغیرہ پر بولا گیا ہے۔ جِنّ لغت میں بڑے آدمیوں پر بھی بولا گیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے جنّ الناس معظمھم۔ شاید بڑے پیسے والے ساہوکاروں کو بھی اسی لئے مہاجن کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی یہ لفظ غریب لوگوں کے مقابل ایک گروہ پر بولا گیا ہے۔

پہلے فرمایا :

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا بَلۡ مَکۡرُ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ اِذۡ تَاۡمُرُوۡنَنَاۤ اَنۡ نَّکۡفُرَ بِاللّٰہِ وَ نَجۡعَلَ لَہٗۤ اَنۡدَادًا۔(آیت:34)

اس سے آگے فرمایا :

بَلۡ کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ الۡجِنَّ ۚ أَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤۡمِنُوۡنَ۔(آیت:42)۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ 438تا439)

آپؓ نے سورت الجن آیت 2

قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا

کی تفسیر میں فرمایا:’’اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ : جِنّ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے، جیسے ملائک وغیرہ اور اس کی مخلوق ہیں۔مَیں ہرگز ہرگز اس بات کا قائل نہیں کہ جِنّ اور ملائکہ کوئی چیز نہیں ہیں۔مَیں دونوں کا قائل ہوں۔ لیکن ہر جگہ جِنّ کے لفظ کے وہی ایک معنی نہیں۔اور جو خیال کیا جاتا ہے کہ بعض عورتوں بچوں کو جن چمٹ جاتے ہیں مَیں اس کا قائل نہیں ہوں۔لغت کی رُو سے جِنّ ان باریک اور چھوٹے چھوٹے موذی حیوانات کو بھی کہتے ہیں جو غیر مرئی ہیں اور صرف خوردبینوں سے دکھائی دے سکتے ہیں۔طاعون کے باریک باریک کیڑے بھی جِنّ کے نام سے موسوم ہیں۔اسی لئے حدیث شریف میں طاعون کو وَخْزُ اَعْدَائِکُمْ مِنَ الْجِنِّ فرمایا ہے۔ …وَخْزُ کے معنی نیش زنی اور طعن کے ہیں۔ جِنّ لغت میں بڑے آدمیوں کوبھی کہتے ہیں۔…کبوتر کے پیچھے دوڑنے والے انسان کو بھی جِنّکہا ہے۔

…سورۃ الحجر میں انسان اور ’’جانّ‘‘ دونوں کی پیدائش کا ذکر ایک ساتھ ایک ہی آیت میں یکے بعد دیگرے آیا ہے۔

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ۔ وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ۔( الحجر:27تا28)

آدم سے پہلے جانّ اور اس کی ذریّت تھی۔اس سے کسی طرح انکار نہیں ہوسکتا۔اور اب بھی جِنّات غیر مرئی طور پر موجود ہیں۔

کارخانۂ قدرت کا انتظام اور انحصار محسوسات اور مرئیات تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس لئے غیر محسوس اور غیر مشہود و غیر مرئی عالم کا انکار محض حماقت اور نادانی ہے۔ اس لئے کہ جوں جوں سائنس ترقی کرتی جاتی ہے بہت سی باتیں ایسی معلوم ہوتی ہیں جو اس سے پہلے ماننی مشکل تھیں۔ دُوربین اور خوردبین کی ایجاد نے بتا دیا ہے اس کرّہ ہوا میں کس قدر جانور پھر رہے ہیں۔ ایسے ہی پانی کے ایک قطرے میں لاانتہاءجانور پائے جاتے ہیں۔ حیواناتِ منوّیہ۔ایک قطرہ منی میں دیکھے جاتے ہیں۔اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی مخلوق اور انواعِ مخلوق کی حدبندی محض نا ممکن ہے۔اور صرف اپنے محدودعلم کی بناءپر انکار محض نادانی ہے۔ اس لئے اوّلاً جِنّات کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم کسی ایسی مخلوق کا جو انسانی نوع سے نرالی ہو، انکار کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔اور ہم یہ کہنے کی وجوہات رکھتے ہیں کہ جِنّ خداتعالیٰ کی ایسی قسم کی مخلوق ہے جس کو انسان کی ظاہری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔اس لئے کہ ان کی مادی ترکیب نہایت ہی لطیف اور ان کی بناوٹ غایت درجہ کی شفاف ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے انسان ان ظاہری آنکھوں سے انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ان کے دیکھنے کے لئے ایک دوسری حس یعنی روحانی آنکھ کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ اور مومنین صادقین ملائکہ وغیرہ غیر مرئی مخلوق کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ نہ صرف دیکھ لیتے ہیں بلکہ ان سے باتیں بھی کر لیتے ہیں۔خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی مخلوق کو جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے انکار کرنا دانشمندی نہیں۔ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ خدا کی ایسی مخلوق دنیا میں موجود ہے جو انسانی نظروں سے پوشیدہ ہےاور اسی وجہ سے اُسے جِنّ کہتے ہیں۔ کیونکہ عربی میں جِنّ اُسے کہتے ہیں جس میں اخفا ء اور نہاں ہونا پایا جاتا ہے۔ جنّت:انسانی نظر سے پوشیدہ ہے۔ جُنَّةٌ (ڈھال) جو انسان كو چھپا كر تلوار كے حملہ سے محفوظ ركھتی ہے۔ جنین :وہ بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہے، پوشیدہ ہے۔ جنون: عقل چھپانے والا مرض۔ جن: انسانی نظر سے چھپی ہوئی مخلوق۔پس جِن وہی مخلوق ہے جو عام انسانی نظر سے پوشیدہ ہو۔ خواہ وہ کسی قسم کی مخلوق ہو۔ غرض جنّ ایک مخلوق ہے۔

ایک اَور بات بھی یہاں بیان کردینے کے قابل ہےکہ احادیث مین جِنّ کا لفظ سانپ، کالے کتّے، مکھی، بھوری چیونٹی، وبائی جرمز، بجلی، کبوتر، باز، زقوم، بائیں ہاتھ سے کھانے والا، بال پراگندہ رکھنے والا،غراب، ناک یا کان کٹا شریر، سردار وغیرہ پر بھی بولا گیا ہے۔ ان توجیہات پر غور کرنے سے ان مفاسد اور مضارّ کی حقیقت بھی معلوم ہو جاتی ہے جو جِنّوں سے منسوب کی جاتی ہے۔

اب اِس بیان کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں یہاں جو ذکر کیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔نصیبین ایک بڑا آباد شہر تھا۔اور وہاں کے یہود جِنّ کہلاتے تھے۔اور سوقِ عکّاظ (ایک تجارتی منڈی کا نام ہے) میں آیاکرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکّہ سے نااُمید ہوکر طائف تشریف لے گئے اور وہاں کے شریروں نے آپ کو دُکھ دیا۔ آپؐ عکّاظ کو آرہے تھے، راستہ میں بمقام نخلہ یہ لوگ آپؐ سے ملے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صبح کی نماز پڑھ رہے تھے۔ قرآن مجید سن کر رقیق القلب ہو گئے۔ سب کے سب ایمان لے آئے اور جاکر اپنی قوم کو بھی ہدایت کی۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 220تا 222)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button