بیواؤں اور یتیموں کے حقوق … آنحضرتﷺ کی تعلیم اور اسوہ (قسط اوّل)
ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمدﷺ رحمۃللعالمین بنا کر مبعوث کیے گئے۔آپ کی شان رحمت وفیضان سے مخلوقات کی کوئی نوع اوربالخصوص نسل آدم کا کوئی طبقہ بھی ایسا نہیں ملتا جو اس بحر ناپید اکنار سے فیض یاب نہ ہوا ہواورآپؐ نے ان کو اخلاق فاضلہ اور فضائل محمودہ اور محاسن جمیلہ اور صفات کاملہ کی تعلیم نہ دی ہو۔قبل بعثت نسل آدم کے کمزور طبقات ظلم کی چکی میں پسے جا رہے تھے اورطرح طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے تھے کمزور طبقات کا استحصال عروج پر تھا۔آپؐ کی بعثت سے ہی جہاں انسانوں کو ہر طرح کے حقوق ملنا شروع ہوئے وہاں معاشرے کے ہر فرد کو اتنا باشعوربنا دیا کہ ان کمزور طبقات کےحقوق کی تلفی کا کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ ان کمزور طبقات کی فہرست تو بہت طویل ہے قرآن کریم نے ان میں سائل، غلام ونوکر،مقروض،قیدی،بیوہ،یتیموں اورمحروموں کو شمار کیا ہے اور ان کے حقوق کی طرف معاشرےکو توجہ دلائی ہے۔
بیوہ عورت کو عربی زبان میں ارملہ کہا جاتا ہے اصطلاح میں اس عورت کو کہا جاتا ہے جس کا خاوند فوت ہو جائے اور عرب میں جب کسی کا نان نفقہ ختم ہوجاتا تو کہا جاتا، ارمل فلان کہ اس کا زاد راہ ختم ہو گیا اور وہ فقیر بن گیا،عورت کا جب خاوند مرجاتا ہے تو وہ انتہائی کمزور حالت میں ہوتی ہے کیونکہ اس کے چین و سکون اور حمایت کا ذریعہ ختم ہوجاتا ہے اور اس کے بچےہر قسم کی رعایت سے محروم ہوجاتے ہیں اور وہ بڑی تلخی و درد محسوس کرتی ہے، اور اس کا ذریعہ معاش کمانے والا بھی نہیں رہتا تو اس وجہ سے اس کو ارملہ (بیوہ) کہا جاتا ہے۔
قبل از اسلام بیوہ کی حیثیت
اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ جو عورت بیوہ ہوجاتی اسے ایک سال کی عدت گزارنا پڑتی اور اسے نہایت منحوس سمجھا جاتا۔ ایک سال تک اسےغسل اور منہ ہاتھ دھونے کے لیے پانی تک نہ دیا جاتا اور نہ پہننے کے لیے لباس فراہم کیا جاتا۔اہل عرب میں راوج یہ تھا کہ بیوہ عورت شوہروں کے وارثوں کی ملکیت بن جاتی تھی اور وہ جو چاہتے اس کے ساتھ کرسکتے تھے، اس کو تکلیفیں دےدے کر اس سے حق مہر معاف کراتےتھے، اور اس کو اپنی مرضی کے بغیر شادی نہیں کرنے دیتے تھے۔شوہر کے مرنےیا طلاق دینے کے بعد اس کو اجازت نہیں تھی کہ اپنی پسند سے دوسرا نکاح کر سکے، دوسرے سامان اور حیوانات کی طرح وہ بھی وراثت میں منتقل ہوتی رہتی تھی۔
دین اسلام میں بیواؤں کے حقوق
اس روئے زمین پراسلام کے علاوہ کوئی بھی ایسا مذہب نہیں ہے جس نے اس کمزور صنف کواتنے واضح حقوق عطاکیے ہوں۔اگر دنیاکی تاریخ پڑھی جائے،مذاہب کاتقابلی مطالعہ کیا جائے تومعلوم ہوگاکہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب اورنہ ہی کسی انسانی قانون نے خصوصا ًبیوہ عورتوں کواتنے حقوق دیے ہیں۔جیسا کہ ہندوستان میں ہندو مت کے ماننے والے لوگوں کے ہاں ’’ستی‘‘ جیسی بھیانک رسم رہی ہے، کہ خاوند کی وفات کے بعد اس بیوہ عورت سے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیا جاتا تھا۔غرض یہ کہ قبل ازاسلام دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا بنظرغائرمطالعہ کیاجائے تویہ بات آفتابِ نیم روزکی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ نسائیات میں خصوصاً بیوہ ومطلقہ کی تاریخ بڑی دردناک اور کربناک ہے۔ وہ معاشرے میں بے یارو مددگار در بدرٹھوکریں کھانے پر مجبورتھی مگر اس کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔اس کو ظلم کے گرداب سے نکال کراس کے ساتھ انصاف کیا، اسے انسانی حقوق دیے، عزت وسربلندی بخشی، اور تمام پرانے دقیانوسی خیالات کا خاتمہ کر کے پوری قوت کے ساتھ اپنے دامن حمایت کے سایہ میں لیا اور اس کی عائلی زندگی کو خوشگوار ماحول کے قالب میں ڈھال کر معاشرے کو اس کا احترام سکھایا اوراسے وہ بلند مقام عطا کیا جس کی وہ مستحق تھی۔
اسلام نےبیوہ عورتوں کےحقوق کے باب میں اتنا زیادہ خیال رکھا ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب اور معاشرہ اس کی نظیر نہیں دے سکتا۔عام طور پر کمزور کو جائز حقوق تب ملتے ہیں جب حقوق حاصل کرنے کے لیے کافی محنت وکوشش کی جائے ورنہ تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ موجودہ دَورمیں احتجاج کے بعد عورت کے کچھ بنیادی حقوق تسلیم کیے گئے حالانکہ اس پر یہ احسان اسلام کا ہے۔یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیے کہ بیوہ عورت اس کامطالبہ کررہی تھی، بلکہ اس لیے کہ یہ اس کے فطری حقوق تھے جو اسے ملنا ہی چاہیے تھے۔یہاں پر ان حقوق کاذکر کیاجاتا ہے جو اسلام نے بیوہ اور مطلقہ عورت کو دیےبلکہ اسے ادا کرنے کا حکم بھی صادر کر کے واضح فرمایا کہ کسی صورت میں بھی ان کی اہانت اور دل آزاری برداشت نہیں کی جاسکتی جو دین اسلام سے قبل برتی جارہی تھی۔
بیوہ کی میعاد عدت
ترقی یافتہ ممالک تو آج عورت کے حقوق کا نعرہ لگا رہے ہیں لیکن ہمیں تو قرآن کریم نے چودہ صدیاں پہلے ہی ان حقوق کی طرف توجہ دلا دی اور قرآن کریم نے بیواؤں کے حقوق قائم کیے بلکہ اُس معاشرے میں جہاں بالکل حقوق ادا نہیں کیے جاتے تھے صحابہؓ نے ان تعلیمات پر عمل کیا اور ان کی کایاپلٹ گئی۔
چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا ۚۖ وَّصِیَّۃً لِّاَزۡوَاجِہِمۡ مَّتَاعًا اِلَی الۡحَوۡلِ غَیۡرَ اِخۡرَاجٍ ۚ فَاِنۡ خَرَجۡنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡ مَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ مِنۡ مَّعۡرُوۡفٍؕ وَاللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ۔(البقرہ:241)
اور تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں پیچھے چھوڑ رہے ہوں، اُن کی بیویوں کے حق میں یہ وصیت ہے کہ وہ (اپنے گھروں میں) ایک سال تک فائدہ اٹھائیں اور نکالی نہ جائیں۔ہاں! اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں اس بارہ میں جو وہ خود اپنے متعلق کوئی معروف فیصلہ کریں۔ اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔
اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے بیوہ کا ایک مدت تک اپنے خاوند کے گھر میں رہنے کا حق قائم کر دیا۔ عورت کے بارے میں یہ تو حکم ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں بیوگی کی صورت میں اپنی عدت پوری کرے جو 4ماہ 10دن تک ہے لیکن اس کے بعد بھی ایک سال تک رہ سکتی ہے اگر وہ چاہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کا رجحان رکھتے تھے اور اس سے یہ استنباط کرتے تھے کہ عدّت کی مدت کے علاوہ جو چار ماہ دس دن ہے، ایک سال کی اجازت ہے۔ آپ کا یہ رجحان تھا کہ عورت کو جتنی زیادہ سے زیادہ سہولت دی جا سکتی ہے اس آیت کی رُو سے دینی چاہئے۔ بعض دفعہ جب جائیداد کی تقسیم ہو تو اگر مرنے والے کا مکان ہو تو جو مکان ورثے میں چھوڑ کر جاتا ہے وہ اگر کسی اور کے حصے میں آ گیا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تب بھی وہ صبر کرے اور ایک سال تک عورت کو تنگ نہ کرے، بیوہ کو تنگ نہ کرے۔ کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی یہ لکھا ہے اور آج بھی یہ اسی طرح ہو رہا ہے کہ اگر مثلاً عورت کے اولاد نہیں ہے یا کسی کے دو بیویاں ہیں یا تھیں تو پہلی بیوی کی اولاد یا اگر عورت کے اولاد نہیں تو مرد کے والدین یا اور دوسرے رشتہ دار، بیوہ، جس کے حصے میں مکا ن کی جائیداد نہ آئی ہو، اسے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ایک سال تک اس کا حق ہے اور کسی وارث کا حق نہیں بنتاکہ اس معاملے میں بیوہ پر دباؤ ڈالا جائے اور اسے تنگ کیاجائے ہاں اگر وہ خود جانا چاہیں تو بیوگی کی عدّت پوری کرکے جا سکتی ہیں۔ یہ فیصلہ عورت کے اختیار میں دیا گیا ہے۔ عورت کو حق دیا گیا ہے کہ وہ معروف فیصلہ کرے یعنی ایسا فیصلہ جو قانون اور شریعت کے مطابق ہو۔ پس ہمیشہ یاد رکھو کہ یہ عزیز اور حکیم خدا کا حکم ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم عورتوں کو ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجبور کرو گے اور اس کے رشتہ داروں اور قریبیوں میں بھی اگر اس کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہو گا تو اس کی مجبوری سے کوئی دوسرا ناجائز فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہر چھوٹے سے چھوٹے اور دُور کے امکان کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی پُر حکمت حکم فرمایاہے۔ عورت کے خاوندکے قریبیوں کو بھی تنبیہ کی ہے کہ ہمیشہ یاد رکھو کہ خدا کی ذات عزیز اور غالب ہے۔ اگر اس کے حکموں پر عمل نہیں کرو گے تو اس کی پکڑ کے نیچے آؤ گے۔
اس میں ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ایک تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ عورت کو ایک سال تک گھر میں رہنے دو، دوسرے بیوہ کو حق دیاہے کہ اگر وہ شادی کرکے یا کسی وجہ سے ایک سال سے پہلے بھی گھر چھوڑ دیتی ہے تو یہ اس کا معروف فیصلہ ہے۔ پھر عزیز وں رشتہ داروں کو اس میں روک نہیں بننا چاہئے کہ اب یہاں ضرور ایک سال رہو۔ بعض تنگ کرنے کے لئے بھی کہہ دیتے ہیں۔ بعض دفعہ رشتہ دار چاہتے ہیں کہ بیوہ شادی نہ کرے حالانکہ بیوہ کی شادی بھی ایک مستحسن عمل ہے۔
تو ایسے روک ڈالنے والوں کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ کی بڑی لطیف تشریح فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ’’بعض لوگ بیوہ کی شادی کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ہماری عزت کے خلاف ہے۔‘‘ خاص طور پر ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے میں، بعض خاندانوں میں بہت زیادہ شدت پسندی ہے کہ یہ ہماری عزت کے خلاف ہے کہ بیوہ شادی کرے۔ ’’میرا نام عزیز ہے اور مَیں سب سے زیادہ عزت والا ہوں۔‘‘ مَیں حکم دیتا ہوں کہ شادی کرے۔ کیونکہ حکمت کے تقاضے کے تحت یہ حکم ہے اس لئے وہ سب جو میرے حکم سے ٹکرانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ مَیں عزیز اور غالب ہوں۔ سب عزتیں میری طرف منسوب ہیں اس لئے میرے حکموں کی پابندی کرو اور جھوٹی عزتیں تلاش نہ کرو تاکہ تم بھی اللہ تعالیٰ کی صفات سے فیض پانے والے ہو۔ (حقائق الفرقان جلد اول صفحہ375)‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍ نومبر 2007ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍دسمبر2007ءصفحہ7)
بیواؤں کو اپنے بارے میں معروف فیصلے کا اختیار
بیواؤں کو ان کے شوہر کی وفات کے بعد معروف کے مطابق فیصلے کا اختیار دیتے ہوئے فرمایا:
وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ عَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَاللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ۔ (البقرہ :235)
اور تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ تو وہ (بیویاں) چار مہینے اور دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ پس جب وہ اپنی (مقررہ) مدت کو پہنچ جائیں تو پھر وہ (عورتیں) اپنے متعلق معروف کے مطابق جو بھی کریں اس بارہ میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
اس اختیار کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ ایک روایت میں آتا ہے۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شادی کے معاملہ میں بیوہ اپنے بارے میں فیصلہ کرنے میں اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ اور کنواری سے اجازت لی جائے گی اور اس کا خاموش رہنا اجازت تصور کیا جائے گا۔
(سنن الدارمی۔ کتاب النکاح۔ باب استئمار البکر والثیب)
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس آیت کی روشنی میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ تو بیوگان کو یہ اجازت دیتا ہے کہ بیوہ ہونے کے بعد اگر کسی کا خاوند فوت ہو جائے تو اس کے بعد جو عدت کا عرصہ ہے، چار مہینے دس دن کا، وہ پوراکرکے اگر تم اپنی مرضی سے کوئی رشتہ کرلو اور شادی کرلو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ کوئی ضرورت نہیں ہے کسی سے فیصلہ لینے کی یا کسی بڑے سے پوچھنے کی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ معروف کے مطابق رشتے طے کرو۔ معاشرے کو پتہ ہو کہ یہ شادی ہو رہی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ تو بیواؤں کو تو اپنے متعلق اپنے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے کا خود اختیار دے دیا گیا ہے یا اجازت ہے اور لوگوں کو یہ کہا ہے کہ تم بلا وجہ اس میں روکیں ڈالنے کی کوشش نہ کرو اور اپنے رشتوں کا حوالہ دینے کی کوشش نہ کرو۔ اگر یہ بیواؤں کے رشتے جائز اور معروف طور پر ہورہے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی اجازت دیتا ہے۔ تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ تم اپنے آپ کو خاندان کا بڑا سمجھ کر یا بڑے رشتے کا حوالہ دے کر روک نہ ڈالو کہ یہ رشتہ ٹھیک نہیں ہے، نہیں ہونا چاہئے یا مناسب نہیں ہے۔ بیوہ کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ تم کسی بھی قسم کی ذمہ داری سے آزاد ہو۔ اللہ تمہارے دل کا بھی حال جانتا ہے۔ اگر تم کسی وجہ سے نیک نیتی سے یہ روک ڈالنے یا سمجھانے کی کوشش کررہے ہو کہ یہ رشتہ نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ جو تمہارے دل میں ہے ظاہر کردو اس کو بتا دو اور اس کے بعد پیچھے ہٹ جاؤ اور فیصلے کا اختیار اس بیوہ کے پاس رہنے دو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دل کا حال جانتا ہے اس کو تمہاری نیت کا پتہ ہے تمہارے سے بہر حال باز پرس نہیں ہوگی۔ اگر نیک نیت ہے تو نیک نیتی کا ثواب مل جائے گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ دسمبر 2004ء
مطبوعہ7؍جنوری2005ءصفحہ5تا6)
حضرت زینب ؓاپنی والدہ حضرت ام سلمہؓ سے روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت کا شوہر فوت ہوگیا لوگوں کو اس کی آنکھ کے متعلق خطرہ محسوس ہوا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور سرمہ لگانے کی اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سرمہ نہ لگائے، عورتیں (جاہلیت کے زمانہ میں تو خاوند کی وفات کے بعد)خراب قسم کے گھر اور کپڑوں میں رہتی تھیں جب ایک سال گزر جاتا پھر ایک کتا گزرتا اور وہ مینگنی پھینکتی تھی (تب عدت ختم ہوتی تھی) اس لیے وہ سرمہ نہ لگائے جب تک کہ چار مہینے دس دن نہ گذر جائیں اور میں نے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے سنا کہ نبی کریم ؐنے فرمایا کہ کسی مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں جو اللہ اور یوم آخرت پرایمان رکھتی ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے جس پر چار ماہ دس دن سوگ کرسکتی ہے۔
(بخاری کتاب الطلاق باب الکحل للحادۃ)
حق ازدواج
قرآن کریم میں واضح طور پر بیوہ عورت کی میعاد عدت پوری ہونے کے بعد معاشرے کو اس کے نکاح کا حکم دیا گیا ہے بلکہ بیوہ کی مرضی اس میں شامل ہوگی۔چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ
وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَاِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ۔(النور:33)
اور تمہارے درمیان جو بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کراؤ اور اسی طرح جو تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے نیک چلن ہوں ان کی بھی شادی کراؤ۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی بنا دے گا اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
ہمارے پیارے آقا جناب رسول اللہﷺ کی عائلی اور نجی زندگی پورے اقوام عالم کے لیے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے اور جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں قندیل روشن کی طرح تھی اور ہے۔ ان سارے ظالمانہ تعصبانہ رویوں کے بر عکس محسن انسانیت سرورکائناتﷺ نے اپنے اسوۂ حسنہ کے ذریعہ عملی طور پرنکاح بیوگان کی ابتدا اپنی ذات مبارکہ سے کی، آپﷺ نے اپنا نکاح ایک بیوہ چالیس سالہ خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے کیا، جن کی پہلے دو شادیاں ہو چکی تھیں اور اُن کے پہلے شوہروں سے بچے بھی تھےاورآپ سے عمر میں پندرہ سال بڑی بھی تھیں۔ایک عالی النسب،خوبروشخص جس کےلیے جوانی میں معاشرتی اور معاشی لحاظ سےمتعدد شادیاں کرنے میں کوئی ممانعت بھی نہ ہواور نہ ہی اس زمانے میں متعدد شادیوں کو کوئی عیب ہی سمجھا جاتاہو پھربھی اپنی پوری جوانی (25 سے 50 سال کی عمر) صرف ایک بیوہ عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ گزاردی۔آپؐ کی عمر پچاس برس ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا۔ان کے انتقال کے بعد پھر جس خاتون کو شرف زوجیت بخشا وہ پچاس سالہ بیوہ تھیں۔اس کے بعد آٹھ دیگر بیواؤں میں حضرت سودہ، حضرت حفصہ، حضرت زینب ام المساکین، حضرت ام سلمہ، حضرت جویریہ، حضرت ام حبیبہ، حضرت میمونہ، اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنھن سے نکاح کیا، صرف ایک کنواری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں یہ وہ خواتین مبارکہ ہیں جو امہات المومنین کے درجہ پر فائز ہوئیں۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مندرجہ بالا آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ
’’ ایسی بعض بیوائیں ہوتی ہیں جو شادی کی عمر کے قابل ہوتی ہیں یا بعض ایسی جو اپنے تحفظ کے لئے شادی کروانا چاہتی ہیں ان کے رشتوں کے مسائل ہیں۔ لیکن ایسی بیوائیں بعض دفعہ معاشرے کی نظروں کی وجہ سے ڈر جاتی ہیں اور باوجود یہ سمجھنے کے کہ ہمیں شادی کی ضرورت ہے، وہ شادی نہیں کرواتیں۔ تو بہرحال مختلف طبقوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں ہمارے بعض مشرقی ممالک میں، بیواؤں کے ضمن میں بات کروں گا، اس بات کو بہت برا سمجھا جاتا ہے بلکہ گناہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت اگر بیوہ ہو جائے تو دوسری شادی کرے۔ اور بعض بیچاری عورتیں جو اپنے حالات کی وجہ سے شادی کرنا چاہتی ہیں ان کے بعض دفعہ رشتے بھی طے ہو جاتے ہیں لیکن ان کے عزیز رشتہ دار اس بات کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا۔ اور اس طرح ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں اور بیچاری عورت کو اتنا عاجز کردیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے ہی بیزار ہوجاتی ہے۔ اور حیرت اس بات کی ہے کہ یہاں یورپ میں آکر جہاں اور دوسرے معاملات میں روشن خیالی کا نام دے کر بہت سارے معاملات میں ملوث ہوجاتے ہیں جن میں سے بعض کی اسلام اجازت بھی نہیں دیتا لیکن یہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بیواؤں کی شادی کرو اس بارے میں بڑی غیرت دکھا رہے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ یہ جو مَیں نے آیت تلاوت کی ہے کہ تمہارے درمیان جو بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کراؤ۔ اور اسی طرح تمہارے درمیان جو تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے نیک چلن ہوں ان کی بھی شادیاں کراؤ۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی بنا دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔
یہ ہے اللہ تعالیٰ کا حکم جس پر ہر ایک کو عمل کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تو بڑا واضح طور پر کھل کر فرماتا ہے کہ معاشرے میں اگر نیکیوں کو فروغ دینا ہے تو معاشرے میں جو شادیوں کے قابل بیوائیں ہیں ان کی بھی شادیاں کرانے کی کوشش کرو بلکہ یہاں تک کہ اُس زمانے میں جو غلام تھے اور لونڈیاں تھیں ان میں سے بھی جو نیک فطرت ہیں ان کی بھی شادیاں کروا دو تا کہ برائی نہ پھیلے۔ یہ قوم بھی جو غریب لوگ ہیں یہ بھی مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ تو یہ حکم شادی کی پابندی کا ہے۔ اس زمانے میں غلام تو نہیں ہیں لیکن بہت سے ممالک میں غربت ہے اور غربت کی وجہ سے شادی نہیں ہوتی تو جماعت ان لوگوں کی مدد بھی کرتی ہے۔ اس لئے انفرادی طور پر بعض لوگ مدد کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہئے۔ تو فرمایا یہ نہ سمجھو کہ ان کی غربت ہے اس لئے شادی نہ کراؤ۔ اگر مرد کام نہیں کرتا یا ملازمت اس کے پاس نہیں ہے یا کوئی کمائی کا ایسا بڑا ذریعہ نہیں ہے تو ان کی شادیاں بھی کرواؤ اور پھر جماعت میں جو ایک نظام رائج ہے ایسے لوگوں کی ملازمت یا کاروبار کی کوشش بھی کی جاتی ہے اور کرنی بھی چاہئے۔ تو الّا ماشاء اللہ جب ایسی کوشش ہوتی ہے تو سوائے چند ایک کے شادی کے بعد احساس بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو سنبھالنا ہے اس لئے کوئی کام کریں، کوئی کاروبار کریں، کوئی نوکری کریں، کوئی ملازمت کریں۔ پھر اکثر بیوی بھی اپنے خاوند کے لئے کوئی کام کرنے کے لئے یا ملازمت حاصل کرنے کے لئے ترغیب دلانے کا باعث بن جاتی ہے۔ بیوی بھی اس پر دباؤ ڈالتی ہے تو اس سے بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اور کئی مثالیں ایسی ہیں کہ شادی کے بعد ایسے غریبوں کے حالات بہتر ہو گئے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ علم رکھتا ہے کہ کس کے کیا حالات ہونے ہیں۔ معاشرے کا یہ کام ہے کہ چاہے وہ بیوائیں ہوں، چاہے وہ غریب لوگ ہوں ان کی شادیاں کروانے کی کوشش کرو۔ اس طرح معاشرہ بہت سی قباحتوں سے پاک ہو جائے گا، محفوظ ہو جائے گا۔ بیواؤں میں سے بھی اکثر جو ایسی ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ شادی کرانے کی خواہش رکھتی ہوں، ضرورت مند ہوں اور ان میں سے ایسی بھی بہت ساری تعداد ہوتی ہے جو خاوند کی وفات کے بعد معاشی مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔ معاشرے کے بعض مسائل ہیں جن سے دوچار ہوتی ہے تو ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کو کوئی ٹھکانہ ملے۔ ان کو تحفظ ملے بجائے اس کے کہ وہ مستقل تکلیف اٹھاتی رہے۔ اس لئے فرمایا کہ پاک معاشرہ کے لئے بھی اور ان کے ذاتی مسائل کے حل کے لئے بھی پوری کوشش کرو کہ ان کی شادیاں کروادو۔ تو یہ ہے حکم اللہ تعالیٰ کا جبکہ جیسا کہ مَیں نے کہا بعض معاشرے اس کو ناپسند کرتے ہیں۔ اسلامی اور احمدی معاشرہ کہلاتے ہوئے بعض لوگ ناپسند کرتے ہیں۔ تو ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مقابلے میں ہماری روایات یعنی وہ جھوٹی روایات جو دوسرے مذاہب یا غیر مسلموں کے بگڑے ہوئے مذہب کا حصہ بن کر ہمارے اندر جڑ پکڑ رہی ہیں، ہمارے اند رداخل ہو رہی ہیں ان کو نکالنا چاہئے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ دسمبر 2004ء
مطبوعہ7؍جنوری2005ءصفحہ5)
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو تین مرتبہ فرمایا: اے علی! جب نماز کا وقت ہو جائے تو دیر نہ کرو۔ اور اسی طرح جب جنازہ حاضر ہو یا عورت بیوہ ہو اور اس کا ہم کفو مل جائے تو اس میں بھی دیر نہ کرو۔
(ترمذی۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب فی الوقت الاوّل)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ’’بیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے۔ چونکہ بعض قومیں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے۔اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے۔لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر بیوہ کا نکاح کیا جائے۔نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے۔ بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہوتی ہیں۔ بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں۔ مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یا ایک کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کرسکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے۔ ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرایا جائے۔ ہاں اس بدرسم کو مٹا دینا چاہئے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 320،ایڈیشن1988ء)
(جاری ہے)
٭…٭…٭