آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال تعلیم تعلیم اور مبارک اسوہ کی روشنی میں عمر رسیدہ لوگوں کے حقوق
یہ نظام قدرت ہے کہ انسان بشرط زندگی بچپن، لڑکپن اور جوانی کی بہاریں دیکھنے کے بعد بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡہُ نُنَکِّسۡہُ فِی الۡخَلۡقِ ؕ اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ۔ (یٰس:69)
اور جس کی ہم بہت زیادہ لمبی عمر کرتے ہیں اس کو جسمانی طاقتوں میں کمزور کرتے جاتے ہیںکیا وہ سمجھتے نہیں۔
یعنی عمر رسیدہ افراد اپنی کمزوری، ناتوانی اور ضعیف العمری کی وجہ سے ذہنی و جسمانی لحاظ سے بچے کی مانند ہو جاتے ہیں، جو کل تک دوسروں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا کرتے تھے آج وہ خود عمر کی اس منزل پر دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور ان کی خدمت و محبت کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں حسن سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں نوکروں یا حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے ان کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کا مداوا بننے کی کوشش کی جائے۔
اسلامی معاشرے میں عمر رسیدہ افراد خصوصی مقام و مرتبہ کے حامل ہیں۔ اس کی بنیاد اسلام کی عطا کردہ وہ آفاقی تعلیمات ہیں جن میں عمر رسیدہ اَفراد کو باعثِ برکت و رحمت اور قابلِ عزت و تکریم قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بزرگوں کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو رحمۃ للعالمین کا خطاب دیا ہے آپ کی رحمت ہر شے پہ حاوی ہے عمر رسیدہ افراد کے عزت واحترام کے بارے میں آپﷺ کے ارشادات کافی تعداد میں ہیں۔ عملی طور پر بھی سیرت طیبہ کے نادر نمونے موجود ہیں۔ ایک مرتبہ ایک سن رسیدہ آپﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئے، آنے والے کے لیے لوگوں نے مجلس میں گنجائش پیدا نہ کی۔ آپﷺنے اس صورت حال کو دیکھ کر صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا:لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا کہ جو شخص چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، بڑوں کی عزت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔
اس حدیث میں بزرگوں کا ادب واحترام نہ کرنے والوں کے لیے سخت تہدید ہے۔ یعنی ایک مسلمان میں جو صفات ہونی چاہئیں ان میں سے ایک بڑوں کا اکرام بھی ہے۔ اگر کوئی اس وصف سے متصف نہیں تو گویا وہ ایک اہم مسلمانی صفت سے محروم ہے۔اگر کوئی اس اہم اسلامی صفت کا خواست گار ہے تو اسے بڑوں کے اکرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے بوڑھوں، کمزوروں اور ضعیفوں کے ساتھ بہت ہی زیادہ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا۔جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ عمر رسیدہ افراد کی قدر دانی کی تعلیم دی وہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ قدردانی کا ثبوت بھی مہیا فرمایا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سن رسیدہ افراد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی عظمت وبڑائی کا تقاضا یہ ہے کہ بوڑھے مسلمان کا اکرام کیا جائے۔‘‘ (ابوداوٴد:4843 باب فی تنزیل الناس منازلہم، )
ایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کے بال اسلام کی حالت میں سفید ہوئے ہوں اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا۔‘‘ (ترمذی: 1634 باب ماجاء فی فضل من شاب، )
کسی کی تھوڑی سی محبت اور احساس میں گوندھی ہوئی توجہ انہیں اس عمر میں جینے کی نئی راہ دے سکتی ہے اور اس کے عوض بارگاہ الٰہی سے عظیم اجر عطا ہوتا ہے۔ عمر رسیدہ افراد کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں فرامین رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے واضح اور اہمیت کے حامل ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ما أکرم شاب شیخا لسنه إلا قیض اللّٰه له من یکرمه عند سنه.(ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء فی إجلال الکبیر، 4: 327، رقم: 2022)
’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔‘‘
کہاوت مشہور ہے کہ باادب با نصیب بے ادب بےنصیب۔ جس نے بڑے بزرگوں کا ادب کیاان کی دل و جان سے عزت کی ان کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اس نے اپنی منزل پا لی وہ بامراد ہوا اور جس نے بڑے بزرگوں کی عزت نہ کی ان کا خیال نہ رکھا ان کا احترام نہ کیاان کا کہا نہ مانا وہ اپنی منزل سے نہ صرف محروم رہا بلکہ دوسرے بھی اس کی عزت و احترام نہ کریں گے۔ جس نے بڑے بزرگوں کا احترام نہ کیا آنے والی نسلیں بھی اس کو عزت کی نگاہ سے نہ دیکھیں گی۔بڑے بزرگوں کا مطلب یہ نہیں کہ صرف گھر کے افراد اوروالدین شامل ہیں۔اس میں ہروہ شخص شامل ہے جو عمر میں آپ سے بڑا ہو۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام ایک آفاقی اور ہمہ گیر دین ہے جس میں زندگی گزارنے کے تمام تر طریقے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی مکمل تفصیلات ملتی ہیں۔حقوق انسانی کی جتنی رعایت اور احترام کی تاکید ہمیں دینِ اسلام میں ملتی ہے وہ دوسرے مذاہب میں کہیں نہیں ملتی پھر حقوق انسانی میں بطور خاص معمر افراد کے حقوق کا معاملہ درپیش ہو تو اسلام کا رویہ محض عدل و انصاف تک محدود نہیں رہتا بلکہ سراسر احسان پر مبنی قرار پاتا ہے۔
اسلام میں والدین اور بزرگوں کی خدمت کرنے کی تاکید مختلف مقامات پر آئی ہے۔خود نبی اکرمﷺ نے بوڑھوں، کمزوروں اور ضعیفوں کے ساتھ بہت ہی زیادہ حسنِ سلوک کا مظاہر ہ کیا۔جہاں آپﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ عمررسیدہ افراد کی قدر دانی کی تعلیم دی وہیں آپﷺنے اپنے عمل کے ذریعہ قدردانی کا ثبوت بھی مہیا فرمایا۔ سن رسیدہ افراد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللّٰهِ إِکْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ (ابو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب فی تنزیل الناس منازلهم، 4: 261، رقم: 4843)
اللہ تعالیٰ کی عظمت وبڑائی کا تقاضا یہ ہے کہ بوڑھے مسلمان کا اکرام کیا جائے۔
انسانی زندگی کئی مراحل سے گزرتے ہوئے بڑھاپے کو پہنچتی ہے، بڑھاپا گویا اختتامِ زندگی کا پروانہ ہے۔اختتامی مراحل ہنسی خوشی پورے ہوں تو اس سے دلی تسلی بھی ہوتی ہے۔رہن سہن میں دشواری بھی نہیں لیکن آج جو صورت حال سن رسیدہ افرا د کے ساتھ روا رکھی گئی ہے اس سے عمر رسیدہ افراد کی پریشانی میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔حالانکہ والد نے بچے کی پرورش اس امید پر کی تھی کہ وہ بڑھاپے میں سہارا بنے گا، بجائے اس کے کہ یہ لڑکا بوڑھے باپ کو سہارا دیتا، کمر کو ہی توڑ دیتا ہے۔ایک جانب معاشرہ کی یہ صورت حال ہے، دوسری جانب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کے ساتھ، کمزوروں کے ساتھ، ضعیفوں کے ساتھ بہت ہی زیادہ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا۔
ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہےکہ جو لوگ بوڑھے افراد کے لیے منفی رویے رکھتے ہیں، ان میں اپنی آئندہ زندگی میں دل سے منسلک بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اس نئی تحقیق کے مطابق وہ نوجوان اور ادھیڑ عمر افراد جنہوں نے بوڑھے افراد کے لیے منفی رویوں کا اظہار کیا انہیں اپنی آئندہ زندگی میں سٹروک، دل کے حملوں اور دل کی دوسری سنگین بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ اپنے ہم عمر ان افراد کی نسبت زیادہ تھا جو بوڑھے افراد کی جانب عمومی طورپرمثبت رویہ رکھتے تھے۔
ہمارا دین اس قدر خوبصورت اور آسان ہے کہ یہ عمر رسیدہ افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات مبارکہ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عمر رسیدہ افراد کا بے حد ادب و احترام فرمایا کرتے تھے جس کی ایک جھلک ہمیں فتح مکہ کے بعد رونما ہونے والے حیرت انگیز واقعات میں نظر آتی ہے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بوڑھے والد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنے کے لیے مجلس میں لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی تعظیم میں کیا الفاظ ارشاد فرمائے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جئت بأبی أبی قحافة رضی اللّٰه عنه إلی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم فقال هلا ترکت الشیخ حتی آتیه(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3: 272، رقم: 5065)
میں اپنے والد محترم حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: آپ اپنے والدِ بزرگوار کو گھر میں ہی رکھتے، میں خود وہاں آجاتا۔
یہ عمر رسیدہ افراد کی عملی قدر دانی ہے جس کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ثبوت فراہم کررہے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیا کہ ابو قحافہ ایک طویل عرصے تک کفر کی حالت میں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سے کسی کی تعظیم وتکریم سے کتراتا ہے حالا نکہ اس میں ان لوگوں کے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ کی ہر صورت تعظیم کی جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بزرگوں کی تعظیم کو اجلال الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے۔
اسی طرح بزرگوں کی عزت و تکریم کی عظمت کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إن من إجلالی توقیر الشیخ من أمتی(هندی، کنز العمال، 3: 17، رقم: 3106)
بے شک میری اُمت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سن رسیدہ افراد کے ساتھ احساس ہمدردی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ باجماعت نماز میں عمر رسیدہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے قراءت میں تخفیف فرمانے کی تاکید فرماتے جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أن رجلا قال واللّٰه یا رسول اللّٰه إنی لأتأخر عن صلاۃ الغداۃ من أجل فلان مما یطیل بنا فما رأیت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله وسلم فی موعظۃ أشد غضبا منه یومئذ ثم قال إن منکم منفرین فأیکم ما صلی بالناس فلیتجوز فإن فیهم الضعیف والکبیر وذا الحاجۃ(بخاری، الصحیح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب تخفیف الإمام فی القیام و إتمام الرکوع و السجود، 1: 248، رقم: 670)
ایک شخص نے آنحضورﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کی کہ یا رسول اللہ! خدا کی قسم، مَیں صبح کی نماز سے فلاں کی وجہ سے رہ جاتا ہوں جو ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔مَیں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نصیحت کرنے میں اُس روز سے زیادہ ناراض نہیں دیکھا۔فرمایا تم میں سے کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھانی چاہیے کیونکہ ان میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مندبھی ہوتے ہیں۔
حضرت حسن بن مسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
من تعظیم جلال اللّٰہ تعظیم ذی الشیبۃ المسلم(بیهقی، شعب الإیمان، 7: 460، رقم: 10987)
یہ اللہ کے جلال اور بزرگوں کی تعظیم میں سے ہے کہ اس مسلمان کی تعظیم کرنا جس کے بال سفید ہو چکے ہیں۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:أتی النبی صلی اللّٰه علیه وآله وسلم بقدح فشرب منه وعن یمینه غلام أصغر القوم والأشیاخ عن یساره فقال یا غلام أتأذن لی أن أعطیه الأشیاخ (صحیح بخاری، کتاب المساقاة الشرب، باب فی الشرب وقول اللہ تعالیٰ، 2: 829، رقم: 2224)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے اُس میں سے نوش فرمایا اور آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا اور بائیں جانب عمر رسیدہ حضرات تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ عمر رسیدہ لوگوں کو دے دوں۔
اس حدیث مبارکہ میں غور طلب امر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے معمر افراد کے بائیں جانب بیٹھے ہونے کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچے سے اجازت بھی مانگی، مذکورہ احادیث مبارکہ سے عمر رسیدہ افراد کی عزت و تکریم کا درس ہمیں اسؤہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہے۔
ہر طرح کے سماجی اور معاشرتی معاملات میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بڑوں کی تکریم اور ان کے ادب و احترام کا حکم دیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود خیبر پہنچے تو وہ دونوں باغات میں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔اسی اثنا میں عبد اللہ بن سہل شہیدکر دیے گئے تو عبد الرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھی کے معاملہ میں انہوں نے گفتگو کی،جس کا آغاز عبد الرحمٰن نے کیا جبکہ وہ سب سے چھوٹے تھے، اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: کبر الکبر(بخاری،کتاب الأدب، باب إکرام الکبیر ویبدأ الأکبر بالکلام والسؤال، 5: 2275، رقم: 5791)
یعنی بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو۔
درج بالا احادیث مبارکہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہر موقع پر بوڑھوں کا لحاظ فرمایا اور ان کا اکرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انسانیت کی بنیاد پر کیا، ہر قسم کی رشتہ داری اور تعلق سے بالا تر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو تر جیح دی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جہاں اقتصادی، معاشرتی، اخلاقی اور معاشی حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے وہاں بالخصوص عمر رسیدہ افراد کو بہت سے حقوق دیے ہیں۔ انہیں قابل عزت و تکریم اور باعث برکت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
البرکة مع أکابرکم.(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1: 131، رقم: 210)
تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ مُعَمَّرٍ یُعَمَّرُ فِی الْإِسْلَامِ أَرْبَعِینَ سَنَۃً إِلَّا صَرَفَ اللّٰہُ عَنْہُ ثَلَاثَۃَ أَنْوَاعٍ مِنْ الْبَلَاءِ الْجُنُونَ وَالْجُذَامَ وَالْبَرَصَ فَإِذَا بَلَغَ خَمْسِینَ سَنَۃً لَیَّنَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْحِسَابَ فَإِذَا بَلَغَ سِتِّینَ رَزَقَہُ اللّٰہُ الْإِنَابَۃَ إِلَیْہِ بِمَا یُحِبُّ فَإِذَا بَلَغَ سَبْعِینَ سَنَۃً أَحَبَّہُ اللّٰہُ وَأَحَبَّہُ أَہْلُ السَّمَاءِ فَإِذَا بَلَغَ الثَّمَانِینَ قَبِلَ اللّٰہُ حَسَنَاتِہِ وَتَجَاوَزَ عَنْ سَیِّئَاتِہِ فَإِذَا بَلَغَ تِسْعِینَ غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ وَسُمِّیَ أَسِیرَ اللَّہِ فِی أَرْضِہِ وَشَفَعَ لِأَہْلِ بَیْتِہِ(احمد بن حنبل، المسند، 3: 127، رقم: 13303)
جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے تین طرح کی بلائیں دور کردیتا ہے، جنون، کوڑھ اور برص اورجب پچاس سال کا ہوجاتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بناتا ہے اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی زمین میں اس کا قیدی ہے اور اس کے گھر والوں کے حق میں اس کی سفارش قبول فرماتا ہے۔
اس حدیث سے غالباً یہ مراد نہیں کہ ہر کوئی محض مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ مقام حاصل کرے گا بلکہ ایسا بزرگ جو نیکی پر قائم ہو، تقویٰ کی راہ پر چلنے والا ہو اور خدا تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والا ہو، اس کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جاتا ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَنَسُ! وَقِّرِ الْكَبِيرَ وَارْحَمِ الصَّغِيرَ تُرَافِقُنِي فِي الْجَنَّةِ۔(شعب الایمان للبیہقی، باب فی رحم الصغیر وتوقیر الکبیر، الرقم: 10475)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے انس!بڑوں کی عزت کرنا اور چھوٹوں سے شفقت والا معاملہ کرنا یہ ایسا کام ہے جو تجھے جنت میں میرا پڑوسی بنادے گا۔
وہ تہذیب جس کی نقالی کرنے میں آج کا مسلمان اتراتا پھرتا ہے اس تہذیب میں سن رسیدہ افراد کو محض بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ گھریلو نظام زندگی میں ان کو یکسر بے دخل کرتے ہوئے ’’اولڈ ہومز ‘‘کے احاطے میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں یہ طبقہ پل پل جیتا اور پل پل مرتا ہے ۔بالآخر وہ اپنی محبتوں اور آرزوؤں کو حسرتوں کےبوسیدہ کفن میں دفنا دیتا ہےجبکہ دوسری طرف اسلامی تعلیمات میں بوڑھے اور سن رسیدہ افرادلائق عزت وتکریم، باعث برکت و رحمت، حصول رزق اور نصرت خداوندی کا سبب ہیں۔ اسلام اس طبقے کو قابل صد احترام بتلاتا ہے، ان کے ساتھ نرم گفتاری،حسن سلوک اورجذبہ خیرخواہی کا حکم دیتا ہے جبکہ ان کی خلاف مزاج باتوں پر صبر وتحمل سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے۔
اسلام کتنا پاکیزہ دین ہے۔ بوڑھوں کو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ نہیں دیا بلکہ ان کی تعظیم کو اللہ کی تعظیم قرار دیا۔ مگر افسوس صدافسوس کہ بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے والدین کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور بلند آواز سے بات کرنے میں ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ماں باپ کسی چیز کے متعلق دو سے تین مرتبہ پوچھ لیں تو بھنویں تن جاتی ہیں مگر یہی بچہ بچپن میں والدین سے جب ہکلاتے ہوئے کسی چیز کو بار بار پوچھتا تو والدین خوشی خوشی بتاتے۔ ماں باپ کے آگے صرف دو وقت کی روٹی رکھ دینا ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ موت کی آخری ہچکی تک ان کا ادب بجا لانا انتہائی ضروری ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ حفظ مراتب کی تفصیل میں بیان فرماتے ہیں:
’’گر حِفْظِ مَرَاتِبْ نَہ کُنِیْ زَنْدِیْقِیْ
پس جس طرح پر ہم سب اشیاء میں ایک امتیاز اور فرق دیکھتے ہیں۔ اسی طرح کلام میں بھی مدارج اور مراتب ہوتے ہیں جبکہ آنحضرتﷺ کاکلام جو دوسرے انسانوں کے کلام سے بالا تر اور عظمت اپنے اندر رکھتا ہے اور ہر ایک پہلو سے اعجازی حدود تک پہنچتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے برابر وہ بھی نہیں۔ تو پھر اَور کوئی کلام کیونکر اس سے مقابلہ کر سکتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 26)
یہاں حضرت مسیح موعود ؑ نے فارسی کا یہ مصرعہ استعمال فرمایا ہے:
گر حِفْظِ مَرَاتِبْ نَہ کُنِیْ زَنْدِیْقِیْ
اس کا ترجمہ یہ ہے: اگر تُو لوگوں کے مرتبہ کا خیال نہیں رکھتا تو، تُو بے دین ہے۔
یہ معروف صوفی شاعر مولانا نورالدین عبدالرحمن جامی کی اس رباعی کا ایک مصرعہ ہے
اے بُردہ گمان کہ صاحب تحقیقی
وندر صفت صدق و یقین صدیقی
ہر مرتبہ از وجود حکمی دارد
گر حفظ مراتب نہ کُنی زندیقی
اے وہ جو اپنے آپ کو دانشمندو عالم سمجھتے ہو اور درستی اور یقین کی صفت میں سچا۔تمہیں ہر مرتبہ کا احترام بجا لانے کا حکم ہے۔ اگر تُو لوگوں کے مرتبہ کا خیال نہیں رکھتا تو، تُو بےدین ہے۔
آج دَور حاضر کی نوجوان نسل کو دین اسلام کی تعلیمات اور عملی مثالوں کے ذریعے طبقات انسانی بالخصوص معمر افراد کی تکریم کے لیے راہ نمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر عمل پیرا ہو کر انسانیت کے اس اہم طبقے کے ساتھ نرم گفتاری، حسن سلوک اور جذبہ خیر خواہی اختیار کریں۔ ان کے حقوق احسن طریقے سے پورے کریں۔ ضعیف العمری کے باعث چڑچڑا پن فطری تقاضا ہے لہٰذا بوڑھوں کی خلاف مزاج باتوں پر تحمل اور برداشت سے صرف نظر کریں تاکہ گھر اور معاشرہ دونوں امن و آشتی کا گہوارہ بن سکیں۔
الغرض اسلام نے عمر رسیدہ و بزرگ کی عزت و احترام کا حکم دیتے ہوئے ان کی موجودگی کو معاشرہ کے لیے خیر و برکت کا بہترین ذریعہ قراردیا ہے۔ایک بوڑھا شخص، چاہے کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو،اس کا کوئی بھی وطن ہو،اس کاتعلق کسی بھی نسل و برادری سے ہو،ا س کی عزت و توقیر اور ادب واحترام کرنے کی اسلام نے تاکید کی ہے۔جو کوئی ان کی عزت واحترام کو ناقابل ِاعتناسمجھتا ہےاس کا تعلق و وابستگی کمزور ہے۔دنیا میں بوڑھے و عمر دراز ادب و احترام اور عزت ووقعت کے مستحق ہیں اور آخرت میں ان کو ایک نور سے نوازا جائے گاجوان کے لیے عزت و تکریم کا باعث ہو گا۔اللہ ہر سفید بال کے بدلے ان کو ایک نیکی عطا کرے گا اور ایک گناہ کو مٹائے گا۔
مختصر یہ کہ حقیقت یہ ہے کہ بڑھاپے کا زمانہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ قابل رحم اور لائق ترس ہوتا ہے۔اسی لیے اسلام نے بوڑھوں کی خصوصی رعایت اور ان کے احترام وتوقیر کا حکم دیا۔مغربی دنیا میں خاندانی نظام کے بکھر جانے کی وجہ سے بوڑھے اور ضعیف العمر لوگوں کے مسائل نے بڑی نازک صورت حال اختیار کرلی ہے۔اسی لیے اب عالمی سطح پر اس مسئلہ کو محسوس کیا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کی طرف سے یکم اکتوبر کو بوڑھوں کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ اسلام میں بوڑھوں کے لیے رعایت بھی ہے اور قدرومنزلت بھی۔قدم قدم پران کے لیے احکام میں سہولتیں برتی گئی ہیں۔آپﷺنے بوڑھوں کا ہر موقع پر لحاظ فرمایا۔ کسی بھی بوڑھے کا اکرام آپﷺنے انسانیت کی بنیاد پر کیا، رشتہ داری وتعلق سے بالا تر ہو کر آپﷺ نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو تر جیح دی۔
بڑھا پے کی نفسیات کا سب سے اہم پہلویہ ہےکہ اس عمر میں انسان چاہتاہے کہ اس کے چھوٹے اس کے ساتھ عزت وتوقیرکا معاملہ کریں اور اس کو سماج میں بہترمقام دیا جائے آپﷺ نے اس کا بھی پاس ولحاظ فرمایا ہے۔بزرگوں کی تعظیم اور اکرام کے عمومی احکام تو آپﷺنے دیے ہی ہیں مختلف خصوصی مواقع پر اس احترام کو بر تنے کابھی حکم دیا۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانیت کے اس ستم رسیدہ طبقے کے ساتھ احترام واکرام کا معاملہ کیا جائے۔ ان کے حقوق جان کر پورے کرنے کی کوشش کریں۔ کسی چیز کے ذریعہ انہیں تکلیف نہ دیں، ان کی ضروریات پوری کرکے ان پر احسان کرتے ہوئے ان کی دعاوٴں میں شامل ہوں۔ بوڑھوں سے ہونے والی خطاوٴں کو نظر انداز کریں۔ دنیا و آخرت کی فلاح بزرگوں خصوصاً بوڑھے والدین کی عزت و تکریم اور خدمت میں ہے۔ اگر انسان معمر اَفراد کی توقیر نہیں کرتا تو آدمى حدیث مبارک کے مصداق امت محمدیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہر لحظہ معمر اَفراد کی خدمت کریں اور ان کے حقوق ادا کریں۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنے اپنے دائرے میں اس عمل کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو مضبوط احمدی مسلمان بنائے جو اللہ اور اس کے رسولﷺکی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں۔ اللہ کرے کہ یہ تقویٰ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے بڑھ کر تھا، وہ ہم میں سے ہر ایک آپ کے دل، آپؐ کے اُسوہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حاصل کرنے کی کوشش کرے۔آمین
آج ہم میں سے ہر احمدی بچے اور بڑے کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ کبھی بھی اپنے بزرگوں سے حسن سلوک کے معاملے میں کو تاہی کا مرتکب نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان ارشادات پر عمل پیرا ہو کر عمر رسیدہ افراد کی خدمت کی توفیق عطافرمائے۔ اور دین ودنیا کی حسنات سے نوازے۔ آمین