متفرق مضامین

رحمةللعالمین رسول اللہﷺ کاحالت امن اورحالت جنگ میں دشمنوں کے حقوق کاقیام اور ان کی حفاظت (قسط سوم۔ آخری)

(‘ابو فاضل بشارت’)

شب خون کی ممانعت

عرب میں شب خون کا عام رواج تھا اورغفلت کی حالت میں اپنے دشمن پرحملہ کیا کرتے تھے۔ دوران جنگ آپﷺ نے دشمنوں کے حقوق کا خیال رکھتےہوئے ان پر غافل ہونے کی حالت میں حملہ کرنے اورشب خون مارنے کی ممانعت فرمائی تاکہ ان پر کسی قسم کی کوئی زیادتی نہ ہو۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر رات کے وقت پہنچے۔ آپؐ کا قاعدہ تھا کہ جب کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے رات کے وقت موقع پر پہنچتے تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتے تھے بلکہ صبح ہو جاتی تب کرتے۔ چنانچہ صبح کے وقت یہودی اپنے کلہاڑے اور ٹوکرے لے کر باہر نکلے لیکن جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو شور کرنے لگے کہ محمد،اللہ کی قسم! محمد لشکر لے کر آ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیبر برباد ہوا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوة خیبر)

عورتوں،بچوں،بوڑھوں کے قتل کی ممانعت

تاریخ مذاہب اورتاریخ سلاطین کا مطالعہ کیاجائے تو قبل از اسلام کسی مذہب میں یاکسی بادشاہ کے بارے میں یہ ذکر نہ ملے گا جس نے اپنی فوج کو مفتوح قوم کے نہتے لوگوں، بچوں،عورتوں،بوڑھوں،معذوروں کے قتل عام سے منع کیاہو۔ بلکہ فتح کے بعد تین دن تک فوجوں کو کھلی چھٹی ہوتی تھی کہ وہ جو چاہیں مفتوح قوم کے ساتھ کریں۔ لیکن اسلام واحد ایسا مذہب ہے جس نے دشمنوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے ان کے نہتوں،بچوں،عورتوں،بوڑھوں،ضعیفوں، معذورں وغیرہ کے قتل کی سخت ممانعت فرمائی۔

حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے(صحابہ کو رخصت کرتے وقت)فرمایا: ’’تم لوگ اللہ کے نام سے، اللہ کی تائید اور توفیق کے ساتھ، اللہ کے رسول کے دین پر جاؤ اور بوڑھوں کو جو مرنے والے ہوں نہ مارنا، نہ بچوں کو، نہ چھوٹے لڑکوں کو، اور نہ ہی عورتوں کو، اور غنیمت میں خیانت نہ کرنا، اور غنیمت کے مال کو اکٹھا کر لینا، صلح کرنا اور نیکی کرنا، اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘(سنن ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی دعاء المشرکین)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہےکہ ایک عورت رسول اللہﷺ کے زمانے میں کسی غزوہ میں مقتول پائی گئی تو نبی کریمﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔ (صحيح البخاري کتاب الجہاد والسیر باب قتل النساء فی الحرب)

حضرت حنظلہ الکاتبؓ کہتے ہیں ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے، ہمارا گزر ایک مقتول عورت کے پاس سے ہوا، وہاں لوگ اکٹھے ہو گئے تھے،آپؐ کو دیکھ کر لوگوں نے آپ کے لیے جگہ خالی کر دی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ تو لڑنے والوں میں نہ تھی پھر اسے کیوں مار ڈالا گیا‘‘۔ اس کے بعد ایک شخص سے کہا: خالد بن ولید کے پاس جاؤ، اور ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ عورتوں، بچوں، مزدوروں اور خادموں کو ہرگز قتل نہ کرنا۔‘‘

(ابن ماجہ کتاب الجہاد بَابُ الْغَارَةِ، وَالْبَيَاتِ، وَقَتْلِ النِّسَاءِ، وَالصِّبْيَانِ)

جنگ احد میں ابوسفیان کی بیوی ہندہ اورچودہ خواتین قریش اپنے لشکرکوجوش اور عار دلاکر مسلمانوں سے بدرکے مقتولین کاانتقام لینےکےلیےاکسانے کےلیے شامل ہوئیں۔ دوران جنگ وہ مرثیےاوررجزیہ اشعار پڑھ کر جوش دلارہی تھیں کہ اسی دوران حضرت ابودجانہؓ جن کے ہاتھ میں رسول اللہﷺ نے تلوار یہ تاکید کرتے ہوئے تھمائی کہ اس تلوار کا حق ادا کرنا اور وہ حق یہ ہے کہ اس سے کسی مسلم کو قتل نہ کیا جائے اور کوئی کافر بھاگ کر بچنے نہ پائے،مشرکین کو پاش پاش کرتے ہوئے ان عورتوں کے پاس جاپہنچے۔ پہلے حضرت ابودجانہؓ نے انہیں مارنےکےلیے تلوار اٹھائی مگر پھر رک گئے اور چھوڑدیا۔ حضرت زبیرؓ جو یہ سارا معاملہ دیکھ رہے تھے انہوں نے جب بعد میں ان سے پوچھا کہ عورت پر تلوار اٹھا کر پھر تم نے اسے کیوں چھوڑدیاتو ابودجانہ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کی تلوار کو اس سے برتر سمجھا کہ اس سے عورت کو قتل کروں۔ (تاریخ طبری جلد دوم حصہ اول صفحہ180)

اسی طرح صوفی، درویش صفت،گرجوں میں رہنے والے تارک الدنیا مذہبی لوگوں کے قتل سے بھی آپﷺ نےمنع فرمایا۔ (الرحیق المختوم اردوترجمہ صفحہ527)

دوران جنگ دشمنوں کے مال کی حفاظت

جیساکہ اوپر ذکرہوچکا ہے کہ قبل از اسلام عربوں کا پیشہ لوٹ مار تھااوردوران جنگ وہ دشمن کی ہر چیز کو اپنے لیے حلال سمجھتے تھے۔ لیکن رسول اللہﷺ نے آکر ان کی عملی تربیت کی اور انہیں باورکرایا کہ لوٹ مار کا مال حلال نہیں اور اس طرح دشمن کے مال پر قبضہ کرنا درست نہیں۔

چنانچہ ایک دفع دوران سفر خوراک کی قلت کی وجہ سے کافی پریشانی ہوئی۔ اتفاق سے بکریوں کا ایک ریوڑوہاں سے گزرتا نظر آیا۔ سب نےوہ بکریاں لے کر ذبح کرلیں۔ آپﷺ کو جب علم ہوا تو دیکھاکہ ہنڈیوں میں گوشت پک رہا ہے۔ آپ کے ہاتھ میں کمان تھی آپ نے اس سے ہنڈیاں الٹ دیں اور گوشت کو مٹی میں لت پت کرنے لگے، اور پھر فرمایا لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں، یا فرمایا: مردار لوٹ کے مال سے زیادہ حلال نہیں۔

(ابو داؤد کتاب الجہاد باب فِي النَّهْىِ عَنِ النُّهْبَى، إِذَا كَانَ فِي الطَّعَامِ قِلَّةٌ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ)

ابو لبید کہتے ہیں کہ ہم عبدالرحمٰن بن سمرہؓ کے ساتھ کابل میں تھے وہاں لوگوں کو مال غنیمت ملا تو انہوں نے اسے لوٹ لیا، عبدالرحمٰن نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو سنا کہ آپ لوٹنے سے منع فرماتے تھے، تو لوگوں نے جو کچھ لیا تھا واپس لوٹا دیا، پھر انہوں نے اسے ان میں تقسیم کر دیا۔

(ابوداؤد کتاب الجہاد باب فِي النَّهْىِ عَنِ النُّهْبَى، إِذَا كَانَ فِي الطَّعَامِ قِلَّةٌ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ)

غزوۂ خیبر کے محاصرے کے وقت یہود کے ایک حبشی چرواہے نے اسلام قبول کرلیاتوآپؐ نےاسے حکم دیا کہ وہ اپنےسپرد یہود کی بکریوں کا منہ قلعے کی طرف کر کےہانک دے۔ چنانچہ نومسلم غلام نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس پہنچ گئیں جہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کرلیا۔ (سیرت ابن ھشام جزء2صفحہ344)

یہ تھا اسوۂ امانت و دیانت کے پیکر رسولﷺ کا جنہوں نے تمام بنی نوع انسان کو یہ نمونہ دیا کہ کس مپرسی کی حالت میں بھی اپنے دشمنوں کے حقوق کو ادا کرو۔

عصمت کی حفاظت

ازمنہ ماضیہ میں جنگ کے بعدفاتح قوم مفتوح قوم کی عورتوں کی بے دریغ عصمت دری کو اپنا حق سمجھتی تھی۔ اور اس میں فخر محسوس کرتی تھی۔ لیکن بانیٔ اسلامﷺ نے اس قبیح فعل کو جتنا حالت امن میں قابل سزا جرم قرار دیا ہے اتنا ہی میدان جنگ میں بھی اور جنگ کے بعد بھی قرار دیا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے ایک نبی(یوشع علیہ السلام)نے غزوہ کرنے کا ارادہ کیا تو اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا شخص جس نے ابھی نئی شادی کی ہو اور بیوی کے ساتھ رات بھی نہ گزاری ہو اور وہ رات گزارنا چاہتا ہو اور وہ شخص جس نے گھر بنایا ہو اور ابھی اس کی چھت نہ رکھی ہو اور وہ شخص جس نے حاملہ بکری یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور اسے ان کے بچے جننے کا انتظار ہو تو(ایسے لوگوں میں سے کوئی بھی)ہمارے ساتھ جہاد میں نہ چلے۔ پھر انہوں نے جہاد کیا۔ (بخاری کتاب فرض الخمس،کتاب النکاح باب من احب البناء)

بالفاظ دیگر آپﷺ نے اپنے اصحاب کو بھی ان باتوں کی تاکید فرمائی تاکہ میدان جنگ میں یا اس کے بعد ایسی نوبت پیش نہ آئے۔ نیزآپﷺ نے اس معصیت سے بچنے کےلیے فرمایا کہ جو نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتاہو تو اسے روزے رکھنے چاہئیں کیونکہ روزہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔ (بخاری کتاب الصوم لمن خاف علی نفسہ العزوبة)

اسی لیےخلیفۂ راشد حضرت عمرؓ نے فوجیوں کےلیے چار ماہ بعداپنے گھر جانےکےلیے رخصت کی اجازت دی تھی اور افسروں کوحکم دیا کہ کوئی شخص چار مہینے سے زیادہ باہر رہنے پر مجبور نہ کیاجائے۔ (الفاروق حصہ دوم صفحہ 113)

جنگ کے بعد دشمنوں کے حقوق کا خیال

دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی اور مثلہ کرنےسے اجتناب

شروع میں ذکر ہوچکا ہے کہ عرب میں اپنے دشمنوں کی لاشوں کے ساتھ بہت بہیمانہ سلوک کیاجاتا تھا۔ اس کی باقاعدہ نذریں مانی جاتی تھیں۔ عہد نبویؐ میں اس تشددپسندی کی مثال جنگ احد میں کفار مکہ کا مسلمان شہداکے ناک کان کاٹ دینا اورہندہ زوجہ ابوسفیان کا جنگ احد میں حضرت حمزہؓ کا کلیجہ سینے سے نکلوا کر چبانا ہے۔ یہ دردناک نظارہ دیکھ کررسول اللہﷺ نے فرمایا: کفّار نے خود اپنے عمل سے اپنے لیے اُس بدلےکو جائز بنا دیا ہے جس کو ہم ناجائز سمجھتے تھے۔ مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس وقت آپ کو وحی ہوئی کہ کفّار جو کچھ کرتے ہیں اُن کوکرنے دو تم رحم اور انصاف کادامن ہمیشہ تھامے رکھو۔ (سیرت ابن ہشام جزء3صفحہ196)

آپﷺ نے اپنے متبعین کو ایسی اخلاق سوز اور وحشیانہ کارروائیوں سے منع فرمایا۔ حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صدقہ پر ابھارتے تھے اور مثلہ(یعنی ناک،کان و دیگر اعضا کاٹنے)سے روکتے تھے۔

(ابوداؤد کتاب الجہاد بَابٌ فِي النَّهْيِ عَنِ المُثْلَةِ)

جنگ بدر کے قیدیوں میں سہیل بن عمرو بھی شامل تھا جو قریش کا خطیب تھا اور آپﷺ کے خلاف تقریریں بھی کیا کرتا تھا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر سفیر قریش بن کر آیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ سہیل بن عمرو کے سامنے کے دو دانت تڑوا دیں تاکہ اس کی زبان نہ چل سکے اور یہ پھر آئندہ کسی جگہ آپ کی مخالفت میں تقریر نہ کرسکے۔ آپؐ نے فرمایا میں ایسا نہیں کرتا کیونکہ اگر میں اس کے دانت تڑوادوں تو اللہ تعالیٰ مجھے یہی سزا دے گا اگرچہ میں نبیؐ ہوں۔ (تاریخ طبری جلد دوم حصہ اول اردو ترجمہ صفحہ 152)

رسول اللہﷺ نے اپنے دشمنوں کی لاشوں کو بھی احترام کا حق دیا اورجنگ بدر کے موقع پر24مشرک سرداروں کی لاشوں پر مٹی ڈلواکردفنادیا۔ اسی طرح جنگ خندق میں مشرکین کا سردار نوفل بن عبداللہ مخزومی عمروبن عبدودوغیرہ کے ساتھ خندق عبور کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ حضرت زبیربن العوامؓ اس کےمقابلہ میں آئے اور اسے زیر کرلیا۔ اسی دوران حضرت علیؓ نے بھی نیزہ مارا اور وہ دشمن رسولؐ خندق میں گرکر ہلاک ہوگیا۔ مشرکین مکہ نے رسول اللہﷺ کو پیغام بھجوایاکہ دس ہزاردرہم لے لیں اور نوفل کی نعش واپس کردیں،رسول کریمؐ نے فرمایا:ہم مُردوں کی قیمت نہیں لیا کرتے۔ تم اپنی نعش واپس لے جاؤ۔ یہ کیا ہی بدترین دیت ہے۔ (سنن الترمذي جزء4صفحہ 214، دلائل النبوہ للبیہقی جلد3صفحہ437تا438)

جوش انتقام سے اجتناب

دنیاوی بادشاہ جب کسی پر غالب آتے ہیں تواپنے جوش انتقام کو مختلف طریقوں سے ٹھنڈا کرتے ہیں۔ جیسے اپنے حریف کے معززین کو رسوا کرنا،عوام کا قتل عام کرنا،دشمن کوآگ میں جلانا،باندھ کر قتل کرنا،املاک کو تباہ کرنا،عبادتگاہوں کی بے حرمتی کرناوغیرہ۔ قرآن کریم میں بھی ان دنیاوی بادشاہوں کے اس طریق کا یوں ذکر ہے:

اِنَّ الۡمُلُوۡکَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡیَۃً اَفۡسَدُوۡہَا وَ جَعَلُوۡۤا اَعِزَّۃَ اَہۡلِہَاۤ اَذِلَّۃً ۚ وَ کَذٰلِکَ یَفۡعَلُوۡنَ۔ (النمل: 35)

یقیناً جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کر دیتے ہیں اور اس کے باشندوں میں سے معزز لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور وہ اسی طرح کیا کرتے ہیں۔

لیکن رسول اللہﷺ جو تمام جہانوں کےلیے رحمت بناکر بھیجے گئے اور تمام بادشاہوں کے بادشاہ اور مادی و روحانی شہنشاہیت کے مالک تھے۔ آپﷺ نےجنگوں کے بعد اپنے مفتوحین سے نہایت رأفت و نرمی کا سلوک فرمایا اوران کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ پیش آئے۔ ان کے تمام حقوق کا خیال رکھا اور ان کے معززین کی عزت افزائی کی حتیٰ کہ ابوسفیان کے گھرپناہ لینے والے کو بھی امان دی۔

جنگ بھی صرف ان سے کی جو مقاتل یعنی لڑنے والے تھے۔ رسول اللہﷺ نے اپنوں اور دشمنوں کی کم سے کم خونریزی سے اپنا اصل مقصد یعنی فتح حاصل کی جو ایک عظیم اور رحم دل جرنیل کی خاصیت ہوتی ہے۔ آپﷺ نے دوران جنگ غیرمقاتل یعنی نہ لڑنے والے اور نہتی عوام سے اعراض کیا اور ان کی حفاظت کی مکمل یقین دہانی کرائی۔ فتح کے بعد قتل عام کو گناہ عظیم قرار دیا۔ جس کے نتیجے میں فریقین کا جانی نقصان بہت کم ہوا۔ آپﷺ کی حیات مبارکہ میں قریباً84 غزوات و سرایا ہوئے جن میں سے 9غزوات ایسے ہیں جو باقاعدہ جنگ کی صورت میں ہوئے جن میں شہدا مسلمین اور مقتولین کفار کی تعدادایک ہزار سے بھی زائد نہیں بنتی کیونکہ آپﷺ کی جنگوں کا مقصد محض ازالہ فتنہ و فساد تھا نہ کہ خون ریزی۔

پھر جہاں تک نذرآتش کرنے کا معاملہ ہے تو آپﷺ نے کسی بھی دشمن کو آگ کا عذاب دینے سے منع فرمایا: کیونکہ آگ اللہ کاعذاب ہے اور آگ کا عذاب دینا اللہ کے سوا کسی کےلیے سزاوار نہیں۔ (بخاری کتاب الجہاد والسیر باب لا یعذب بعذاب اللہ)

اسی طرح قتل صبر یعنی باندھ کر تیراندازی کے ذریعہ قتل کرنے سے بھی منع فرمایا۔ (بخاری کتاب الجہادوالسیر)

کھیتوں اور باغات، درختوں، عمارات کی تباہ کاری سے ممانعت

دَورجاہلیت میں شکست خوردہ قوم کی املاک کو تباہ کرکے مقام عبرت بنانا عام شیوہ تھاتاکہ دوسروں میں اس کی دہشت پھیلے اور کوئی مقابلہ پر نہ آسکے۔ جیساکہ قرآن کریم میں ہے:

وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الۡاَرۡضِ لِیُفۡسِدَ فِیۡہَا وَ یُہۡلِکَ الۡحَرۡثَ وَ النَّسۡلَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡفَسَادَ۔ (البقرة: 206)

اور جب وہ صاحبِ اختىارہوجائے تو زمىن مىں دوڑا پھرتا ہے تاکہ اس مىں فساد کرے اور فصل اور نسل کو ہلاک کرے جبکہ اللہ فساد کو پسند نہىں کرتا۔

لیکن اسلام نے دشمنوں کی املاک کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا اور یہ حق بھی اپنے دشمنوں کو دیا۔ رسول اللہﷺ نےجنگ موتہ کی طرف لشکر روانہ کرتے ہوئے وصیت فرمائی کہ’’جس مقام پر حضرت حارث بن عمیرؓ قتل کیے گئے تھے وہاں پہنچ کر اس مقام کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو بہتر، ورنہ اللہ سے مدد مانگیں، اور لڑائی کریں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نام سے، اللہ کی راہ میں، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے غزوہ کرو۔ اور دیکھو بد عہدی نہ کرنا، خیانت نہ کرنا، کسی بچے اور عورت اور فنا کے قریب بڈھے کو اور گرجے میں رہنے والے تارک الدنیا کو قتل نہ کرنا۔ کھجور اور کوئی درخت نہ کاٹنا اور کسی عمارت کو منہدم نہ کرنا۔‘‘(الرحیق المختوم اردو صفحہ527)

دشمن کی عبادت گاہوں کی حفاظت کاحق

اسی طرح مفتوح اقوام کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی بھی انتقامی کارروائی کا حصہ ہوتی تھی۔ ان عبادت گاہوں کو فاتح اقوام اپنے گھوڑوں کےاصطبل وغیرہ کے طور پر استعمال کیاکرتے تھے۔ لیکن رسول اللہﷺ نے جس طرح اپنے معاہدات میں غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا ذمہ لیا اسی طرح آپﷺ کے خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ نے لشکر اسامہ کوبھجواتے ہوئےجو دس نصائح فرمائیں،ان میں ایک دشمن کے معابد کا خیال رکھنے کی تاکید تھی۔ (تاریخ طبری جزء3 صفحہ226)

جانی دشمنوں سے عفوو درگزرکا حق

رسول اللہﷺ نے دشمنوں پر فتح پانے کے بعد ان سے عفوو درگزرکرنے کا اہم حق قائم فرمایا۔ ایک غزوہ کے موقع پر فرمایا:

اِذَا مَلَکْتَ فَاسْجَحْ

کہ جب دشمن پر قدرت حاصل ہوجائے تو پھر عفو سے کام لیا کرتے ہیں۔ (مسلم کتاب الجہاد والسیر)

8ھ میں دشمنوں کے حقوق کے قیام کا عظیم الشان نظارہ فتح مکہ کے موقع پر دیکھنے کو ملا۔ لیکن یہاں یہ بات وضاحت طلب ہے کہ 6ھ کو دس سال کےلیے معاہدۂ صلح حدیبیہ کے مقام پر ہوا تو دو سال بعد ہی ایسے کیا اسباب ہوگئے کہ اس غزوہ کی نوبت آئی۔ رسول اللہﷺ جو پابندیٔ عہد میں اپنی مثال آپ تھے اور دشمنوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔ تو کیا محرکات ہوئے کہ مسلمان غزوہ فتح مکہ کےلیے نکل پڑے۔

تاریخ کے مطالعے سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ صلح حدیبیہ میں ایک شق یہ تھی کہ جو کوئی قبیلہ محمدﷺ کے ساتھ شامل ہونا چاہے وہ ہوسکتا ہے اسی طرح جو قریش کے ساتھ شامل ہونا چاہے وہ ہوسکتا ہے اور شامل ہونےوالے اسی فریق کا حصہ سمجھے جائیں گے اور ان سے کسی قسم کی زیادتی اور حملہ اس فریق پر حملہ اور زیادتی کےمترادف ہوگا۔ چنانچہ اس موقع پر بنوخزاعہ نے رسول اللہﷺ کے ساتھ اور بنوبکرنے قریش کے ساتھ الحاق کرلیا۔

لیکن 8ہجری میں بنوبکر نے اپناپرانا بدلہ لینے کےلیے بنوخزاعہ پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا اورقریش نے عہدشکنی کرتے ہوئے ان کی مددکی۔ بنوخزاعہ کے باقی افرادنے مکہ جاکر پناہ لی اور پھرمدینہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا سانحہ بتایا۔ تو رسول اللہﷺ نے اپنا سفیر کفار مکہ کی طرف تین شرائط کے ساتھ بھیجا کہ بنوخزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کرو یا بنو بکرکی حمایت سے الگ ہوجاؤ وگرنہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ جائے گا۔ جس پر قریش نے پہلی دونوں باتوں کو نہ مان کرمعاہدہ صلح حدیبیہ توڑڈالا۔ (المواھب اللدنیۃ للزرقانی جزء 2صفحہ292)

جب قریش کو اپنی عہدشکنی کا احساس ہوا توانہوں نے باہمی مشاورت سےابوسفیان کو اپنا نمائندہ مقرر کرکے تجدید صلح کے لیے رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ لیکن آپﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا اور ابوسفیان وہاں سے مایوس ہوکر واپس آگیا۔ چنانچہ10 رمضان 8 ہجری کو مدینہ سے دس ہزار صحابہ کے ساتھ آپﷺ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اوراپنے سالاروں کو حکم دیا کہ حملے میں پہل نہ کرنا۔ چنانچہ خداتعالیٰ کے خاص فضل اورآپؐ کی کمال حکمت عملی سےمعمولی مزاحمت کے بعد مکہ فتح ہوگیا۔ اس عظیم غزوے میں کفار کی مزاحمت کی وجہ سےصرف دس سے اٹھائیس افراد قتل ہوئے۔ (سیرت الحلبیہ جزء4 صفحہ97تا98)

رسول اللہﷺ کی مکہ میں آمد اور عام معافی کا اعلان

فتح مکہ کے بعدآپﷺ مسجد حرام میں داخل ہوئے،حجراسود کو چوما اوربیت اللہ کا طواف کیا۔ اس وقت آپؐ اونٹنی پر سوار تھے اورآپؐ کے ہاتھ میں ایک کمان تھی اس سے بیت اللہ کے گرد اور اس کی چھت پر موجود تین سو ساٹھ بتوں کو توڑدیا ساتھ فرماتے جاتے کہ

جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ۔

پھر آپؐ نے کعبہ کی کنجی منگوائی اور اسے شرکیہ تصاویر سے پاک کیا اور وہاں نفل نمازادا کی۔ اس سے فارغ ہوکرکعبہ کی چابی عثمان بن طلحہ اور اس کے خاندان کے ہی سپردکردی۔ جب باب کعبہ کے پاس تشریف لائے تو آپؐ کے تمام جانی دشمن آپؐ کے سامنے تھے۔ آپؐ نے اس جگہ عظیم الشان خطبہ ارشادفرمایاجو اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ اس خطبہ میں خونی دشمنوں کے لیے معافی اورمساوات انسانی کا اعلان تھا، کسی غرور کی بجائے فخرو مباہات کے خاتمہ کا اعلان تھا۔ یہ معرکہ آرا خطبہ بھی دراصل آپؐ کےاخلاق فاضلہ کاکمال اظہار تھا۔ اس خطاب کے بعد آپؐ نے فرمایا: ’’اے مکّہ والو! اب تم خود ہی بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں ؟‘‘ اورپھر خودہی نہایت عفوو کرم کا سلوک فرماتے ہوئے فرمایا:

’’اِذْ ھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ‘‘

کہ جاؤ تم سب آزاد ہو صرف میں خود تمہیں معاف نہیں کرتا ہوں بلکہ اپنے رب سے بھی تمہارے لیے عفو کا طلب گار ہوں۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 4صفحہ94)

ساتھ ہی یہ احکام جاری فرمائے کہ جو شخص ہتھیار پھینک دے اسے قتل نہ کیا جائے، جو خانہ کعبہ کے اندر پہنچ جائے اسے قتل نہ کیا جائے،جو شخص ابوسفیان یا حکیم بن حزام کے گھر میں پناہ لے لے اسے بھی قتل نہ کیاجائے،معذور کا تعاقب نہ کیا جائے، بوڑھوں،بچوں،عورتوں ا ور زخمیوں کو قتل نہ کیاجائے۔ (مسلم کتاب الجہاد والسیر باب فتح مکہ)

اس کے بعدمہاجرین مکہ نے رسول اللہﷺ سے مطالبہ کیا کہ انہیں ان کی مملوکہ جائیدادیں واپس دلا دی جائیں جن پر قریش قابض ہوگئے تھے جس پر آپﷺ نے فرمایا کہ ’’جو چیز اللہ کی راہ میں چھوڑ چکے ہو اب اس کا مطالبہ نہ کرو۔‘‘چنانچہ مہاجرین نے آپ کے اس ارشاد کے سامنے برضا و رغبت سرتسلیم خم کردیا۔ (سیرت النبیﷺ از علامہ شبلی نعمانی جلد 1صفحہ 348)

پس رسول رحمتﷺ نے چندواجب القتل مجرموں کی بجائےاپنے تمام جانی دشمنوں سے عفوودرگزر فرماتے ہوئے انہیں معاف کردیا۔ واجب القتل مجرموں کی تعداد مورخین نے دس بتائی ہے جن میں سے صرف تین عبداللہ بن ہلال بن خطل،حویرث بن نقیذاور مقیس بن ضبابہ وغیرہ اپنے انجام کو پہنچے۔ عبداللہ بن ابی سرح کو حضرت عثمان بن عفانؓ نے پناہ دے دی۔ باقی سب جب معافی کے طلبگار ہوئے تو رحمةللعالمینﷺ نے معاف فرماتے ہوئے انہیں امان دے دی جیسے ہندہ زوجہ ابوسفیان جس نے جنگ احد میں حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بعد ان کا کلیجہ چبایا،وحشی جس نے حضرت حمزہؓ کو شہید کیا،عکرمہ بن ابوجہل، صفوان بن امیہ،حارث اورزہیروغیرہ۔

فتح مکہ کے موقع پر دشمنوں کے ساتھ اس حسن سلوک اور ان کے حقوق کی حفاظت کی بے نظیر مثال کو مستشرقین میں سے سرولیم میور نے اپنی کتاب ’’دی لائف آف محمد‘‘،آرتھرگمن نے ’’دی ساراسیئس‘‘ میں،مستشرقہ پروفیسر ڈاکٹروگلیری نے ’’اسلام پر نظر‘‘ میں ذکر کرکے حیران ہوتے ہوئےبےحدتعریف کی ہے۔

جنگی قیدیوں سے حسن سلوک

قدیم زمانے سے جنگی قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیاجاتا تھا۔ لیکن رسول اللہﷺ نےدشمن کے جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا اوران کےحقوق قائم کرکے ان کی ادائیگی فرمائی۔ قرآن کریم میں جنگ کے بغیر قیدی بنانےکی ممانعت ہے جیساکہ فرمایا:

مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ(الانفال: 68)

کسى نبى کے لئے جائز نہىں کہ زمىن مىں خونرىز جنگ کئے بغىر قىدى بنائے۔ اور جنگ کے نتیجے میں دشمنوں میں سےجو قیدہوجائیں ان کے بارے میں قرآن کریم نے اصولی حکم یہ دیاہے:

فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَثۡخَنۡتُمُوۡہُمۡ فَشُدُّوا الۡوَثَاقَ ٭ۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعۡدُ وَ اِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَہَا ۬ۚ۟ۛ ذٰؔلِکَ…(محمد: 5)

پس جب تم ان لوگوں سے بِھڑ جاؤ جنہوں نے کفر کیا تو گردنوں پر وار کرنا یہاں تک کہ جب تم ان کا بکثرت خون بہالو تو مضبوطی سے بندھن کسو۔ پھر بعد ازاں احسان کے طور پر یا فدیہ لے کر آزاد کرنا یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ …

جنگی قیدیوں کے بارے میں یہ ایک بنیادی آیت ہے جس میں قیدیوں کے ساتھ معاملہ کے تین طریق بیان کیے گئے ہیں۔ 1۔ پہلا یہ کہ بطور احسان آزادکردیاجائے۔ 2۔ دوسرا یہ کہ فدیہ لےکرچھوڑدیاجائے۔ 3۔ تیسرا یہ کہ جب جنگ مکمل طور پر ختم ہوجائے تو آزادکردیاجائے۔

رسول اللہﷺ نے اس آیت میں مذکور صورتوں پر حسب حالات کماحقہ عمل کرکے ہمیں قیدیوں کے ساتھ معاملات نبھانے کا نمونہ دیا۔ اوّل تو آپ ازراہ احسان ہی قیدیوں کو آزادکردیا کرتے تھے جیساکہ سریہ نخلہ میں 2قیدیوں،غزوہ بنومصطلق میں 19،سریہ جموم میں 10، سریہ عیص میں 9، سریہ ضمی میں 100، غزوہ حنین میں 6000،سریہ عیینیہ میں 63،سریہ بنوطے میں حاتم طائی کی بیٹی سنانہ پراحسان کرتے ہوئے پورے قبیلے کو آزاد کردیا۔ یعنی آپﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں کل چھ ہزار سے زائدقیدیوں کو ازراہ احسان آزاد فرمایا۔

جہاں تک فدیہ لےکر آزاد کرنے کی صورت ہے تو رسول اللہﷺ نے فدیہ یکمشت بھی لیا اور مکاتبت کے طور پر بھی۔ اور فدیہ کی ایک صورت مسلمان قیدیوں کے ساتھ تبادلہ بھی تھاجیساکہ ترمذی کی روایت کے مطابق رسول اللہﷺ نے دو مسلمانوں کے بدلہ ایک مشرک کو رہا کیا۔ اور تیسری صورت جو سنت رسولﷺ سے ثابت ہے کہ قیدیوں سے ان کی قابلیت کے مطابق کوئی خدمت بطور فدیہ لےکر آزادکردینا جیساکہ جنگ بدر کے قیدیوں کے ساتھ کیا کہ مسلمانوں کے بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھانا۔

اور جنگی قیدیوں کے ساتھ جو تیسرا معاملہ ہے کہ جنگ کے اختتام تک قید میں رکھا جائے تو فتح مکہ کے موقع پر تمام دشمنوں کو جنہیں قید کیاجاسکتا تھا اختتام جنگ پر قید کرنے سے قبل ہی آزاد کرتے ہوئے فرمایا:

اذْھَبُوْا اَنْتُمْ الطُّلَقَاءُ

کہ جاؤتم سب آزاد ہو۔

جو قید میں رہے ان سے نہایت احسان کا سلوک فرمایا۔ اسیران بدر کو آپ نے صحابہ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو کھانے کی کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ صحابہ خود کھجوروں پر گزارا کرتے لیکن اپنے قیدیوں کو کھانا کھلاتے۔ (سیرت ابن ہشام جزء1 صفحہ394)اسی طرح رسول اللہﷺ نے غزوہ حنین کے چھ ہزار قیدیوں کو چھ ہزار کپڑے کے جوڑے عطا فرمائے۔ (طبقات ابن سعد جزء2 صفحہ110-112)

غرضیکہ رسول کریمﷺ نے جنگ کے بعد بھی دشمنوں کے حقوق کا خیال رکھا کہ غیر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

ارشادحضرت خلیفةالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اسلام کی تعلیم تو ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جس کی خوبصورتی اور حسن سے ہر تعصب سے پاک شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

قرآن کریم میں متعدد جگہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا ذکر ملتا ہے جس میں غیر مسلموں سے حسن سلوک، ان کے حقوق کا خیال رکھنا، ان سے انصاف کرنا، ان کے دین پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا، دین کے بارے میں کوئی سختی نہ کرنا وغیرہ کے بہت سے احکامات اپنوں کے علاوہ غیرمسلموں کے لئے ہیں۔ ہاں بعض حالات میں جنگوں کی بھی اجازت ہے لیکن وہ اس صورت میں جب دشمن پہل کرے، معاہدوں کو توڑے، انصاف کا خون کرے، ظلم کی انتہا کرے یا ظلم کرے لیکن اس میں بھی کسی ملک کے کسی گروہ یا جماعت کا حق نہیں ہے، بلکہ یہ حکومت کا کام ہے کہ فیصلہ کرے کہ کیا کرنا ہے، کس طرح اس ظلم کو ختم کرنا ہے نہ کہ ہر کوئی جہادی تنظیم اٹھے اور یہ کام کرنا شروع کردے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی جنگوں کے مخصوص حالات پیدا کئے گئے تھے جن سے مجبور ہو کر مسلمانوں کو جوابی جنگیں لڑنی پڑیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ آج کل کی جہادی تنظیموں نے بغیر جائز وجوہات کے اور جائز اختیارات کے اپنے جنگجوآنہ نعروں اور عمل سے غیرمذہب والوں کو یہ موقع دیا ہے اور ان میں اتنی جرأت پیدا ہو گئی ہے کہ انہوں نے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر بیہودہ حملے کئے ہیں اور کرتے رہے ہیں جبکہ اس سراپا رحم اور محسن انسانیت اور عظیم محافظ حقوق انسانی کا تو یہ حال تھا کہ آپؐ جنگ کی حالت میں بھی کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے جو دشمن کو سہولت نہ مہیا کرتا ہو۔ آپؐ کی زندگی کا ہر عمل، ہر فعل، آپؐ کی زندگی کا پل پل اور لمحہ لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپؐ مجسم رحم تھے اور آپ کے سینے میں وہ دل دھڑک رہا تھا کہ جس سے بڑھ کر کوئی دل رحم کے وہ اعلیٰ معیار اور تقاضے پورے نہیں کر سکتا جو آپؐ نے کئے، امن میں بھی اور جنگ میں بھی، گھر میں بھی اور باہر بھی، روزمرہ کے معمولات میں بھی اور دوسرے مذاہب والوں سے کئے گئے معاہدات میں بھی۔ آپؐ نے آزادی ضمیر، مذہب اور رواداری کے معیار قائم کرنے کی مثالیں قائم کر دیں۔ اور پھر جب عظیم فاتح کی حیثیت سے مکّہ میں داخل ہوئے تو جہاں مفتوح قوم سے معافی اور رحم کا سلوک کیا، وہاں مذہب کی آزادی کا بھی پورا حق دیا…۔

کہتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں بھی نرم دلی اور رحمت کے اعلیٰ معیارقائم فرمائے۔ مکّہ سے آئے ہوئے ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا تمام تکلیفوں کے زخم ابھی تازہ تھے۔ آپؐ کو اپنے ماننے والوں کی تکلیفوں کا احساس اپنی تکلیفوں سے بھی زیادہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن پھر بھی اسلامی تعلیم اور اصول و ضوابط کو آپؐ نے نہیں توڑا۔ جو اخلاقی معیار آپؐ کی فطرت کا حصہ تھے اور جو تعلیم کا حصہ تھے ان کو نہیں توڑا۔ آج دیکھ لیں بعض مغربی ممالک جن سے جنگیں لڑرہے ہیں ان سے کیا کچھ نہیں کرتے۔ لیکن اس کے مقابلے میں آپؐ کا اُسوہ دیکھیں جس کا تاریخ میں، ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔

جنگ بدر کے موقع پر جس جگہ اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہیں تھی۔ اس پر حُبابؓ بن منذر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جہاں آپ نے پڑاؤ ڈالنے کی جگہ منتخب کی ہے آیایہ کسی خدائی الہام کے ماتحت ہے۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے ؟ یا یہ جگہ آپؐ نے خود پسند کی ہے، آپ کا خیال ہے کہ فوجی تدبیر کے طور پر یہ جگہ اچھی ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو محض جنگی حکمت عملی کے باعث میرا خیال تھا کہ یہ جگہ بہتر ہے، اونچی جگہ ہے تو انہوں نے عرض کی کہ یہ مناسب جگہ نہیں ہے۔ آپ لوگوں کو لے کر چلیں اور پانی کے چشمے پر قبضہ کر لیں۔ وہاں ایک حوض بنا لیں گے اور پھر جنگ کریں گے۔ اس صورت میں ہم تو پانی پی سکیں گے لیکن دشمن کو پا نی پینے کے لئے نہیں ملے گا۔ تو آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے چلو تمہاری رائے مان لیتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ چل پڑے اور وہاں پڑاؤ ڈالا۔ تھوڑی دیر کے بعد قریش کے چند لوگ پانی پینے اس حوض پر آئے تو صحابہ نے روکنے کی کوشش کی تو آپؐ نے فرمایا: نہیں ان کو پانی لے لینے دو۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ذکر رؤیا عاتکہ بنت عبد اللہ …صفحہ 424 دارالکتب العلمیۃ الطبعۃ الاولیٰ)

تو یہ ہے اعلیٰ معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا کہ باوجود اس کے کہ دشمن نے کچھ عرصہ پہلے مسلمانوں کے بچوں تک کا دانہ پانی بند کیا ہوا تھا۔ لیکن آپؐ نے اس سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے دشمن کی فوج کے سپاہیوں کو جو پانی کے تالاب، چشمے تک پانی لینے کے لئے آئے تھے اور جس پر آپؐ کا تصرف تھا، آپ کے قبضے میں تھا، انہیں پانی لینے سے نہ روکا۔ کیونکہ یہ اخلاقی ضابطوں سے گری ہوئی حرکت تھی۔‘‘(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍مارچ 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍مارچ2006ءصفحہ5تا6)

لیا ظلم کا عفو سے انتقام

عَلَیْکَ الصَّلٰوةُ عَلَیْکَ السَّلَام

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button