کہانیاں …بچوں کی تربیت کا ایک نہایت شاندار ذریعہ
تربیت کی غرض سے کہانی یا حکایت سنانا ہمیشہ سے لوگوں کا طریق رہا ہے۔ کہانی یا حکایت ایک خود ساختہ یا حقیقت پر مبنی ایسا واقعہ ہوتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ ہو اور لوگ اس سبق کو ہمیشہ کے لیے مطمح نظر بنا لیں۔ بچوں کو اچھی کہانی یا اچھے قصے سنانا نہایت ضروری ہے تا کہ وہ ان کہانیوں اور ضرب الامثال کو ہمیشہ کے لیے راہ نما بنا لیں۔ یہ انبیاء کا طریق بھی ہے کہ امت کی اصلاح کی غرض سے حکایات و واقعات یا عمدہ مثالوں سے تربیت کرتے رہے۔ حضرت مسیحؑ کی انگورستان والی تمثیل ایک نہایت دلکش اور حسین مثال ہے۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ خیر الرسل حضرت محمدﷺ نے بھی اس طریق کا استعمال کر کے ہمارے لیے عمدہ مثلا قائم کی۔ جیسے کہ آپﷺ نے تین اشخاص کے غار میں پھنسے والا اور پھر دعا کے ذریعہ خلاصی پانے والا قصہ بیان فرمایا۔
ایک دفعہ آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو تیرہ عورتوں کی کہانی بھی سنائی جنہوں نے ایک دوسرے کو اپنے خاوندوں کے کچے چٹھے خوب کھول کر سنائے، مگر ایک عورت ام زرعہ جسے کہانی کے مطابق اس کے خاوند ابو زرعہ نے بعدمیں طلاق دے کر اور شادی کر لی تھی۔ اس نے اپنے خاوند کی جی بھر کر تعریف کی کہ اس نے مجھے ہرقسم کا آرام پہنچایا اور کھانے کے لیے وافر دیا اور کہا خود بھی کھاؤ اور اپنے والدین کو بھی بھجواؤ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں پھر رسول کریمؐ نے فرمایاکہ میری اور عائشہؓ کی مثا ل ابو زرعہ کی سی ہے۔ تم میری ام زرعہ ہو اور میں تمہارا ابو زرعہ ہوں۔ (بخاری کتاب النکاح باب حسن المعاشرۃ مع الاھل: 4790)
کہانی سنانا گناہ نہیں
ملفوظات حضرت مسیح موعودؑ میں درج ہے کہ ایک روز کسی بیمار بچے نے کسی سے کہانی کی فرمائش کی تو اس نے جواب دیا کہ ہم تو کہانی سنانا گناہ سمجھتے ہیں۔ (اس پر ) حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’گناہ نہیں۔ کیونکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ بھی کبھی کبھی کوئی مذاق کی بات فرمایا کرتے تھے اور بچوں کو بہلانے کے لیے اس کو روا سمجھتے تھے۔ جیساکہ ایک بڑھیا عورت نے آپؐ سے دریافت کیا کہ حضرت کیا میں بھی جنت میں جاؤں گی؟ فرمایا نہیں۔ وہ بڑھیا یہ سن کر رونے لگی۔ فرمایا۔ روتی کیوں ہے؟ بہشت میں جوان داخل ہوں گے۔ بوڑھے نہیں ہوں گے یعنی اس وقت سب جوان ہوں گے۔
اسی طرح سے فرمایا کہ ایک صحابی کی داڑھ میں درد تھا۔ وہ چھوہارہ کھاتا تھا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ چھوہارہ نہ کھا کیونکہ تیری داڑھ میں درد ہے۔ اس نے کہا کہ میں دوسری داڑھ سے کھاتا ہوں۔
پھر فرمایا کہ ایک بچہ کے ہاتھ سے ایک جانور جس کو حُمَیر کہتے ہیں چھوٹ گیا۔ وہ بچہ رونے لگا۔ اس بچہ کا نام عُمَیر تھا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ عُمَیرُ مَا فَعَلَتْ بِکَ حُمَیْرُ؟ اے عمیر حمیر نے کیا کیا؟ ‘‘(ملفوظات جلد 5صفحہ9، ایڈیشن1988ء)
اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء نے بھی اس روایت کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ بچوں کی تربیت کے لیے اہم طریق بھی قرار دیا۔ مشعل راہ جلد چہارم پہلی تین جلدوں میں سے صرف اطفال الاحمدیہ کے لیے زرّیں ہدایات کے انتخاب پر مشتمل جلد ہے۔ جس میں خلفائے کرام کے مختلف خطبات، خطابات اور پیغامات سے اقتباسات شامل کیے گئے ہیں۔ اس کے مطالعہ میں یہ بات دیکھنے میں آئی کہ علاوہ دیگر تربیتی امور کے کہانی سنانا بھی ایک تربیتی امر کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ اس میں سے ایک انتخاب ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا طرزِ عمل
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مخدوم الملت رضی اللہ عنہ نے بچوں کے متعلق آپ کے طرز عمل کا ذکر کرتے ہوئے لکھاہے۔ کہ’’بارہا میں نے دیکھاہے۔ اپنے اور دوسرے بچے آپ کی چار پائی پر بیٹھے ہیں۔ اور آپ کو مضطر کر کے پائینتی پر بٹھادیاہے۔
اور اپنے بچپنے کی بولی میں مینڈک اور کوے اور چڑیا کی کہانیاں سنارہے ہیں۔ اور گھنٹوں سنائے جارہے ہیں۔ اور حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جارہے ہیں۔ گویا کوئی مثنوی ملائے روم سنارہاہے۔ حضرت بچوں کو مارنے اور ڈانٹنے کے سخت مخالف ہیں۔ بچے کیسے ہی بسوریں شوخی کریں سوال میں تنگ کریں۔ اور بے جا سوال کریں۔ اور ایک موہوم اور غیر موجودشے کے لئے حد سے زیاد ہ اصرار کریں۔ آپ نہ تو کبھی مارتے ہیں نہ جھڑکتے ہیں۔ اور نہ کوئی خفگی کا نشان ظاہر کرتے ہیں۔‘‘(مشعلِ راہ جلد چہارم صفحہ 27)
پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ’’عام طور پر بچوں میں کہانیاں کہنے اور سننے کا شوق ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بچے بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہ تھے۔ خصوصاً حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ؓکو کہانیاں سننے کا بہت شوق ہوتا تھا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ان کی دلداری نہیں بلکہ تربیت کے خیال سے کہانیاں سننے کی اور دوسروں کو سنانے کی اجازت ہی نہ دیتے تھے بلکہ خود بھی بعض اوقات سنادیا کرتے تھے۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح حیات احمد جلداوّل کے صفحہ نمبر197پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کہی ہوئی دو کہانیاں درج کی ہیں۔ پہلی کہانی ایک گنجے اور اندھے کی تھی اس کہانی سے آپ کو یہ تعلیم دینامقصود تھا کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر اور ان کی قدر کرو۔ سوالی کو جھڑکی نہ دو۔ خیرات کرنا اچھی بات ہے۔ اور سوالی کو کچھ نہ کچھ دیناچاہئے۔ اس سے خدا تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ اور اپنی دی ہوئی نعمتوں کو بڑھاتاہے۔
دوسری کہانی ایک بزرگ اور چور کی تھی اس کہانی سے آپ کو یہ تعلیم دینی تھی کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو۔ اور تقویٰ اختیار کرو۔ کہانی کا نتیجہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنے سے کیا کیا نعمتیں ملتی ہیں۔ اور تقویٰ اختیار کرنے سے کیا دولت نصیب ہوتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ پر ایمان بڑھتاہے۔ کہ دیکھو وہ خدا تعالیٰ جو زمین و آسمان کے رہنے والوں کی پرورش کرتا ہے۔ وہی پاک اور سچا خدا ہے۔ جو ہم تم سب کو پالتا ہے۔ پس اسی سے ڈرو۔ اور اسی پر بھروسہ کرو۔ اور نیکی اختیار کرو۔
بہت ممکن ہے کہ آپ نے متعدد کہانیاں سنائی ہوں۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓلکھتے ہیں کہ ایک برے بھلے آدمی کی کہانی بھی آپ سناتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک براآدمی تھا۔ اور ایک اچھا آدمی تھا۔ آخر کار برے آدمی کا انجام برا ہوا۔ اور اچھے کا اچھا۔ لیکن میرے علم میں اس وقت تک یہی دو آئی تھیں۔ جو بچوں کو سنائی تھیں اسی باب کے تحت اوپر میں بیان کر آیا ہوں۔ کہ کبھی کبھی بچے بھی آپ کو کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ اور آپ بیٹھے ہوئے کہانیاں سنتے اور اکتاتے نہ تھے۔ آپ کا یہ فعل شوق سے نہ تھا۔ بلکہ محض بچوں کی دلداری اور تربیت کا ایک پہلو اپنے اندر رکھتا ہے۔
میری مونس زندگی اورغم گسار بیوی شروع 1898ء میں جب میرے ساتھ قادیان آگئی۔ اور مجھے مطبع اور اخبار کی ضرورت کی وجہ سے کبھی امرتسر جانا پڑتا تو ایک یا دو دن کے لئے حضرت اقدس کے گھر میں اسے میری غیر حاضری میں رہنے کی سعادت حاصل ہوتی۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب میرے پاس پڑھنے کے لئے بھی آیا کرتے تھے۔ اور اس لئے وہ میری اہلیہ کو استانی کہتے۔ اور کبھی کبھی اس کو کہانی سنانے کے لئے سپارش کراتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مرتبہ فرمایا کہ’’ اچھی کہانی سنا دینی چاہئے اس سے بچوں کو عقل اور علم آتا ہے۔‘‘
میری غرض اس واقعہ کے لکھنے سے یہ ہے کہ حضور بچوں کی دلداری اور تربیت کو بہت مد نظر رکھتے تھے۔ چونکہ کہانیوں کا ذکر آگیا ہے۔ میں ایک اور امرکاا ظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کہانی کہنے کی کثرت اور عادت کو آپ پسند نہ فرماتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات نہایت لطیف پیرایہ سے روک دیتے تھے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب بحوالہ صفحہ 34 و 35)
اصل تاریخی واقعات کی کہانی
اس ضمن میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اصل تاریخی واقعات بھی بچوں کو سنا کر اہم تاریخی و مذہبی شخصیات سے ان کو روشناس کروایا جائے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ’’تربیت کا ایک اور انداز ہمیں حضور کی زندگی میں نظرآتا ہے۔ ایک دفعہ محرم کا مہینہ تھا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے باغ میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے بچوں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں۔ پھرآپ نے بچوں کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور خاندان نبوت کے دیگر افراد کی شہادت کے واقعات سنائے۔ آپ یہ واقعات سنا رہے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جار ی تھے اورآپ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ جب آپ یہ واقعات سنا چکے تو آپ نے بڑے درد سے فرمایا: یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبیﷺ کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔‘‘(سیرت طیبہ مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ36تا37)
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
بچپن میں تعلیم کا ایک بہترین ذریعہ سبق آموز کہانیاں بھی ہیں
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’پہلے تو جب وہ بہت چھوٹا ہو، کہانیوں کے ذریعہ اس کی تربیت ضروری ہوتی ہے۔ بڑے آدمی کے لئے تو خالی وعظ کافی ہوتا ہے لیکن بچپن میں دلچسپی قائم رکھنے کے لئے کہانیاں ضروری ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ کہانیاں جھوٹی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ کبھی حضرت یوسفؑ کا قصہ بیان فرماتے۔ کبھی حضرت نوحؑ کا قصہ سناتے اور کبھی حضرت موسیٰؑ کا واقعہ بیان فرماتے مگر ہمارے لئے وہ کہانیاں ہی ہوتی تھیں گو وہ تھے سچے واقعات۔ ایک حاسد و محسود کا قصہ الف لیلہ میں ہے وہ بھی سنایا کرتے تھے۔ وہ سچا ہے یا جھوٹا بہرحال اس میں ایک مفید سبق ہے۔ اسی طرح ہم نے کئی ضرب الامثال جو کہانیوں سے تعلق رکھتی ہیں، آپ سے سنی ہیں۔ پس بچپن میں تعلیم کا بہترین ذریعہ کہانیاں ہیں۔ گو بعض کہانیاں بے معنی اور بیہودہ ہوتی ہیں مگر مفید اخلاق سکھانے والی اور سبق آموز کہانیاں بھی ہیں اور جب بچہ کی عمر بہت چھوٹی ہو تو اس طریق پر اسے تعلیم دی جاتی ہے۔ پھر جب وہ ذرا ترقی کرے تو اس کے لئے تعلیم و تربیت کی بہترین چیز کھیلیں ہیں۔ کتابوں کے ساتھ جن چیزوں کا علم دیا جاتا ہے، کھیلوں سے عملی طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے مگر کہانیوں کا زمانہ کھیل سے نیچے کا زمانہ ہے لیکن کوئی عقلمند کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بچوں کو کہانیاں سنانا یا کہانیاں بتانا کلی طور پر کسی جاہل کے سپرد کر دیا جائے یا بچوں ہی کے سپرد کر دیا جائے بلکہ اس کام پر ہر قوم کے بڑے بڑے ماہرین فن لگے رہتے ہیں۔ دنیا کے بہترین مصنف جو لاکھوں روپے سالانہ کماتے ہیں وہ کہانیاں ہی لکھتے ہیں گو اب بہت سی کہانیاں بڑے لوگوں کو مدنظر رکھ کر لکھی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہانیاں اگر بڑے لوگوں کے لئے ہوں تو وہ بھی بچپن ہی سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ درحقیقت وہ انسان کی بچپن کی حالت سے ہی تعلق رکھتی ہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان پر بڑی عمر میں بھی بچپن کے زمانہ کے دورے آتے رہتے ہیں اور اسی وقت وہ کہانیوں کی طرف راغب ہوتا ہے یعنی اس کا دماغ تھک کر سنجیدہ اور مشکل طریق پر دنیا سے سبق حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتا اورا س وقت وہ چاہتا ہے کہ کہانیوں کے ذریعہ سے دنیا کے تجارب اور علوم حاصل کرے۔
ابتدائی زمانہ میں بچوں کو اچھے دماغوں کے سپردکریں
پس وہ بھی بچپن کے مشابہ ایک حالت ہے اور اس کام کے لئے قوموں کے بہترین دماغ لگے رہتے ہیں اور یہ کافی نہیں سمجھا جاتا کہ کم علم اور جاہل لوگ اس کام کو کریں لیکن تعجب ہے کہ اس کے بعد کے زمانہ کی تعلیم کے انتظام کے لئے جو کھیل کا زمانہ ہے اور جس میں کھیل کے ذریعہ علم کا سکھانا ضروری ہوتا ہے اور اس عمر کے لئے جب بچہ علم کی سب سے مضبوط بنیاد قائم کر رہا ہوتا ہے، ایسے جاہلوں پر بچوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جو انسانی فطرت کا مطالعہ کرنے کی قابلیت ہی نہیں رکھتے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے بچہ کے لئے جب وہ بہت چھوٹی عمر کا ہو اعلیٰ درجہ کے درزی سے سوٹ سلوائے مگر جب وہ بڑا ہو کر سوسائٹی میں ملنے جلنے لگے تو اس کے لئے کپڑے کسی گاؤں کی درزن سے سلوائے حالانکہ چھوٹا بچہ تو جیسے بھی کپڑے پہن لے، کوئی حرج نہیں ہوتا لیکن بڑا ہو کر کپڑوں کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بعض پابندیاں بڑے آدمیوں کے لباس کے لئے قانون کی طرف سے ہوتی ہے۔ بعض اصول صحت کی طرف سے اور بعض سوسائٹی کی طرف سے اور وہ ان کا خیال رکھنے کے لئے مجبور ہوتا ہے مگر کس قدر عجیب بات ہوگی کہ اس زمانہ کا لباس تو کسی اناڑی کے سپرد کر دیا جائے مگر جب وہ بہت چھوٹا بچہ ہو تو اس کے لئے اعلیٰ درجہ کے درزی سے سوٹ سلوائے جائیں۔
بچپن کے زمانہ میں پہلا زمانہ وہ ہوتا ہے جب بچے کو کہانیوں کے ذریعہ دلچسپی پیدا کی جاتی اور تعلیم دی جاتی ہے۔ اس زمانہ کے متعلق دنیا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کی دماغی قابلیت رکھنے والوں کے سپرد یہ کام ہونا چاہئے اور اس بات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور اس بات کو نہایت ضروری اور مناسب سمجھتے ہیں کہ کہانیوں کو ایسے رنگ میں بچہ کے سامنے پیش کیا جائے کہ جس سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ اسے ایسی کہانیاں سنائی جائیں جو اس کے اخلاق کو بلند، نظر کو وسیع اور اس کے اندر ہمت پیدا کرنے والی ہوں اور اس کے اندر قومی ہمدردی کا مادہ پیدا کریں مگر اس کے بعد کا زمانہ جو زیادہ اہم ہوتا ہے اور جو کھیل کود کا زمانہ ہے، حیرت ہے کہ بنی نوع نے اس کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس ہی نہیں کیا کہ وہ بھی اسی طرح اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی نگرانی میں ہونا چاہئے۔
کہانی اور کھیل میں تناسب ہو
کہانیوں کے متعلق تو یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کے دماغوں اور فاضل لوگوں کی تیارکردہ ہوں اور ایسے رنگ کی ہوں کہ جس سے بچوں کو فائدہ پہنچے مگر کھیل کے زمانہ کا کوئی خیال ہی نہیں رکھا جاتا اور یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کھیل کود بچوں کا کام ہے، بڑوں کا اس میں دلچسپی لینا مناسب نہیں حالانکہ اگر کھیل کود بچوں کا کام ہے تو کہانیاں بھی تو بچوں سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ پھر جب ابتدائی عمر کی کھیل یعنی کہانیوں کے متعلق احتیاط کی جاتی ہے تو کیوں بڑی عمر کی کھیل میں اس سے زیادہ احتیاط نہ برتی جائے۔ اس زمانہ میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ تو کہانیوں کے زمانہ سے بہت زیادہ اہم ہوتی ہے۔
اچھے کھیل کی تین خصوصیات
پس مَیں خدّام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ بچوں کے کھیل کُود کے زمانہ کو وہ زیادہ سے زیادہ مُفید بنانے کی کوشش کریں اور کوشش کریں کہ کھیلیں ایسی ہوں کہ جو نہ صرف جسمانی قوتوں کو بلکہ ذہنی قوتوں کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں اور آئندہ زندگی میں بھی بچہ اِن سے فائدہ اُٹھا سکے۔ اِن میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے۔ ایک تو جسم کو فائدہ پہنچے، دوسرے ذہن کو فائدہ پہنچے اور تیسرے وہ آئندہ زندگی میں ان کے کام آسکیں۔ جس کھیل میں یہ تینوں باتیں ہوں گی وہ کھیل کھیل ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم بھی ہو گی اور وہ طالب علم کے لئے ایسی ہی ضروری ہو گی جیسی کتابیں۔ جب مَیں یہ کہتا ہوں کہ کھیلیں ایسی ہوں جو ذہنی تربیت کے لئے مُفید ہوں تو میرا مطلب یہ ہے کہ اِن کے ساتھ بچوں کی دلچسپی بھی قائم رہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ایک فلسفہ بن جائے اور بچوں کو زبردستی کھلانی پڑیں۔ ایسی کھیل ذہنی نشوونما کا موجب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی جسم اِس سے پورا فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مَیں نے بار ہا اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ یہ کام نہایت آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور ورزش کے شعبہ کو مفید بلکہ مفید ترین بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ اِس میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے۔ ایک تو یہ کہ وہ آئندہ زندگی میں بھی مفید ثابت ہونے والی ہوں نہ صرف بچپن میں بلکہ بڑے ہو کر بھی فائدہ دینے والی ہوں۔
بچپن کے کھیل اور کہانی کا مقصد
بچپن میں کھیل کا جو فائدہ ہوتا ہے وہ بھی حاصل ہو، جسم بھی مضبوط ہو اور ذہن بھی ترقی کرے۔ بچپن میں جو کہانیاں بچوں کو سنائی جاتی ہیں اُن کا مقصد ایک تو یہ ہوتا ہے کہ بچہ شور نہ کرے اور ماں باپ کا وقت ضائع نہ کرے لیکن اگر وہ کہانیاں ایسی ہوں جو آئندہ زندگی میں بھی فائدہ دیں تو یہ کتنی اچھی بات ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ کہانیاں سنانے کا جو فائدہ اس وقت ہوتا ہے وہ بھی ان سے حاصل ہوتا تھا۔ اگر اُس وقت آپ وہ کہانیاں نہ سناتے تو پھر ہم شور مچاتے اور آپ کا م نہ کر سکتے۔ پس یہ ضروری ہوتا کہ ہمیں کہانیاں سنا کر چپ کرایا جاتا اور یہی وجہ تھی کہ رات کے وقت ہماری دلچسپی کو قائم رکھنے کے لئے آپ بھی جب فارغ ہوں کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ تاہم سو جائیں اور آپ کام کر سکیں۔ بچہ کو کیا پتہ ہوتا ہے کہ اِس کے ماں باپ کتنا بڑا کام کر رہے ہیں۔ اُسے تو اگر دلچسپی کا سامان مہیا نہ کیا جائے تو وہ شور کرتا ہے اور کہانی سنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچے سوجاتے ہیں اور ماں باپ عمدگی سے کام کر سکتے ہیں اور کہانیوں کی یہ ضرورت ایسی ہے جسے سب نے تسلیم کیا ہے گو وہ عارضی ضرورت ہوتی ہے اُس وقت اِس کا فائدہ صرف اتنا ہوتا ہے کہ بچہ کو ایسی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ محو ہو کر سو جاتا ہے۔ ماں باپ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو اِس لئے وہ اُسے لٹا کر کہانیاں سناتے ہیں یا اُن میں سے ایک اسے سلاتا ہے اور دوسرا کام میں لگا رہتا ہے یا پھر ایک سناتا ہے اور باقی خاندان آرام سے کام کرتا ہے اگر اِس وقت فضول اور لغو کہانیاں بھی سنائی جائیں تو یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے مگر ہم اِس پر خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ایسی کہانیاں اُسے سنائیں کہ اُس وقت بھی فائدہ ہو یعنی ہمارا وقت بچ جائے اور پھر وہ آئندہ عمر میں بھی اُسے فائدہ پہنچائیں اور جب کہانیوں کے متعلق یہ کوشش کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کھیل کے معاملہ میں بچوں کو یونہی چھوڑ دیں کہ جس طرح چاہیں کھیلیں۔ اگر یہ طریق کھیلوں کے متعلق درست ہے تو کہانیوں کے متعلق کیوں اِسے اختیار نہیں کیا جاتا اور کیوں نہیں بچوں کو چھوڑ دیا جاتا کہ جیسی بھی کہانیاں ہوں سُن لیں۔ جب کہانیوں کے متعلق ہمارا یہ نظریہ ہے کہ وہ ایسی ہوں جو اُسے سلا بھی دیں اور عمدہ باتیں بھی سکھائیں تو کھیلوں کے متعلق یہی نظریہ کیوں پیش نظر نہ رکھا جائے کیوں نہ بچوں کو ایسی کھیلیں کھلائی جائیں جن سے اُن کا جسم بھی مضبوط ہو، ذہن بھی ترقی کرے اور پھر وہ آئندہ زندگی کے لئے سبق آموز بھی ہوں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍مارچ 1939ءبحوالہ مشعل راہ جلد چہارم صفحہ107تا109)
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ ایک قصہ سنا کر اس کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ایک قصّہ ہے کہ ایک شخص تھا جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادیاد نہیں تھا کہ ہر کام سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر خداتعالیٰ کی مدد اور نصرت طلب کیا کرو۔ اس کی جیب میں پیسے تھے اور ان کی وجہ سے وہ اترارہا تھا۔ ایک دفعہ اسے ایک گدھاخریدنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ قریب شہر میں منڈی لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ گدھا خریدنے کے لئے گھر سے نکلا لیکن گھر سے باہر نکلتے ہوئے اس نے خدا تعالیٰ کو یاد نہ کیا۔ نہ اس نے خدا تعالیٰ سے دعا کی۔ وہ شہر کی طرف جارہا تھا کہ رستہ میں اس کا ایک دوست ملا۔ اس نے اس سے دریافت کیا۔ تم اس وقت کدھر جارہے ہو؟ اس نے کہا۔ میں منڈی سے ایک گدھا خریدنے جارہا ہوں۔ منڈی میں بہت سے گدھے ہوں گے۔ ان میں سے مَیں اپنی پسند کاایک گدھا خریدلوں گا۔ ایک دوست نے کہا۔ بھئی تم نے یہ فقرے بڑے آرام سے کہہ دیئے ہیں لیکن خدا تعالیٰ سے دعا نہیں کی۔ تم خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں تمہاری پسند کا او ربرکت والا گدھا مہیا کردے۔ اس جاہل آدمی نے جواب دیا۔ مجھے دعا کی کیا ضرو رت ہے۔ روپے میری جیب میں ہیں اور گدھا منڈی میں موجود ہے اور پھر میری مرضی بھی گدھا خریدنے کی ہے۔ سو مَیں منڈی کی طرف جارہا ہوں۔ وہاں سے میں اپنی پسند کا ایک گدھا خریدلوں گا۔ اس کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرنے اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے یا انشاء اللہ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال اس نے ایک بڑہانکی، کبروغرور کا مظاہرہ کیا۔ خداتعالیٰ کے مقابلہ میں ایک رنگ میں اِباء کا پہلو اختیار کیا۔ منڈیوں میں ایسے لوگوں کی تلاش میں اور ان کو سبق دینے کے لئے جیب کترے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ شخص منڈی گیا تو ایک جیب کترے نے اس کی جیب کترلی اور اس کا سارا روپیہ نکال لیا اور اُسے اس کا علم بھی نہ ہوا۔ اس نے منڈی میں گھوم پھر کر اپنی پسند کا ایک گدھا منتخب کیا۔ وہ بڑا خوش تھا کہ اسے اس کی پسند کا گدھا مل گیا ہے۔ اس نے سودا چکایا۔ گدھے کا مالک بھی اس کے ہاتھ وہ گدھا فروخت کرنے پر تیار ہوگیا۔ لیکن جب اس نے رقم نکالنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ رقم چوری ہو چکی تھی۔ اس نے اپنا سر نیچے گرایا اور بغیر گدھا خریدے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوگیا۔ رستہ میں اس کا دوست ملا تو وہ کہنے لگا۔ میاں تم منڈی سے گدھا خریدنے گئے تھے لیکن خالی ہاتھ واپس آرہے ہو۔ کیا بات ہے۔ اس نے جواب دیا۔ انشاء اللہ میں منڈی سے گدھا خریدنے گیا تھا۔ انشاء اللہ ایک جیب کترے نے میری جیب کترلی۔ انشاء اللہ میری ساری رقم چوری ہوگئی۔ انشاء اللہ میں اپنی پسند کا گدھا نہیں خریدسکا۔ اس لئے انشاء اللہ مَیں بغیر گدھا خریدے اپنے گھر واپس جارہا ہوں۔
اس واقعہ میں بتایا گیا ہے کہ اس شخص نے چونکہ کبر اور غرور کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنے اس کبر اور غرور کی وجہ سے اس نے خدا تعالیٰ سے دعا اور مدد ونصرت مانگنے کی ضرورت نہ سمجھی تھی۔ اس نے خیال کیا تھاکہ جب روپے میرے پاس ہیں اور گدھے منڈی میں موجود ہیں تو بسم اللہ ا لرحمٰن الرحیم پڑھنے، خداتعالیٰ سے دعا مانگنے اور اس کی مدد ونصرت چاہنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن خدا تعالی نے اسے ایک سبق سکھا دیا اور اگر یہ واقعہ سچا ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس شخص کی یہ حقیر سی ناکامی اُسے آئندہ کے لئے عبودیت کے مقام پر قائم رکھنے والی ثابت ہوئی ہو۔‘‘(مشعل راہ جلد چہارم صفحہ213 و 214)
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے خطاب بر موقعہ سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ منعقدہ 16؍اکتوبر 1982ء میں محمودؔ اور ایازؔ کی کہانی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ’’محمودؔ اور ایازؔ کی کہانی آپ نے سنی ہوگی۔ یہ کہانی بہت عام ہے اور بڑی مشہور ہے۔ محمودؔ آقا تھا اور ایازؔ غلام تھا۔ محمود بادشاہ تھا۔ ایاز اس کے دربار کا ایک نوکر، اور اتنی محبت تھی ایاز کو اپنے محمود سے اور محمود کو اپنے ایاز سے کہ وہ اس زمانہ میں بھی ضرب المثل بن گئی اور آج تک ضرب المثل بنی چلی آ رہی ہے۔ کہتے ہیں ہر محمود کا ایک ایاز ہوتا ہے۔ ہر ایاز کو ایک محمود ملتا ہے یعنی محمود اور ایاز کی محبت اور وفا کا قصہ ایک قوم میں محدود نہیں رہا۔ کئی قوموں میں پھیل چکا ہے۔ اس محبت کی حقیقت کیا تھی؟ اس کا راز ایک چھوٹے سے واقعہ سے ہمیں سمجھ آ جاتا ہے۔ تمام درباری جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ جانتے تھے کہ ہم سب سے زیادہ اس غلام زادہ سے ہمارا آقا محبت کرتا ہے۔ وہ خود بڑے بڑے لیڈر، بڑے بڑے نواب اور بڑے بڑے سردار تھے۔ اور کئی شاہی خاندانوں سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ ان کی نسلوں میں پشتیں ایسی تھیں جو معززین کی پشتیں سمجھی جاتی تھیں۔ ان کے خون میں معزز خون شامل تھا۔ ان کی رگوں میں معزز خون دوڑ رہا تھا۔ اس شان کے وہ لوگ تھے۔ اگرچہ ان سے بھی حسن سلوک تھا۔ مگر جب محمود کی ایاز پر نظریں پڑتی تھیں۔ تو محبت سے پگھل جایا کرتی تھیں۔ کیفیت ہی اور ہوتی تھی۔ وہ سمجھدار لوگ تھے۔ جانتے تھے کہ کیا قصہ ہے۔ وہ جلنے لگ جاتے تھے۔ کچھ پیش نہیں جاتی تھی۔ بڑی بڑی سکیمیں بناتے تھے۔ لیکن کوئی بس نہیں چلتا تھا۔ محمود کو بدظن کرنے کے لئے انہوں نے یہاں تک بھی کوششیں کیں کہ ایک دفعہ ایاز کے متعلق مشہور کر دیا کہ یہ رات کو چھپ کر کسی جگہ جاتا ہے۔ بادشاہ نے کہا آپ تو سمجھتے ہیں بڑا دیانت دار ہے مگر ہے اتنا بددیانت کہ ملک کی ساری دولت سمیٹ سمیٹ کر ایک جگہ چھپائے جا رہا ہے۔ اگر چھاپہ مار کر پتہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کی مدد کرتے ہیں۔ آپ کو ساتھ لے جائیں گے یعنی بغض تو ہر وقت سکیمیں سوچتا ہے کہ کس طرح اس کو نیچا دکھاؤں۔ چنانچہ انہوں نے سکیم بنائی۔ ایاز واقعۃً چھپ کر کہیں جایا کرتا تھا۔ اور اس کمرے میں جہاں وہ جاتا تھا بڑے بڑے بھاری تالے پڑے ہوتے تھے کسی اور کی جرأت نہیں تھی۔ پہرے تھے۔ کوئی اور داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ تو بادشاہ نے کہا چلو میں چلتا ہوں۔ جو آزمائش چاہتے ہو مَیں اُس میں اُس کو ڈالنے کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ وہاں گئے۔ ایاز کو بھی ساتھ لیا۔ اس کو حکم دیا گیا کہ تالے کھولو۔ اس نے کوشش کی کہ صرف بادشاہ اندر آئے باقی نہ آئیں۔ لیکن بادشاہ نے کہا۔ نہیں۔ ان کا الزام ہے۔ مجھے ان کو دکھانا پڑے گا کہ کیا واقعہ ہے۔ چنانچہ جب تالے کھولے گئے تو اس کمرہ میں سوائے پھٹے پرانے کپڑوں کے کچھ بھی نہیں تھا۔ بوسیدہ کپڑے، پھٹی ہوئی ٹوپی، ایک پرانی جوتی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ سارے حیران رہ گئے کہ اس کو اتنے تالے لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا مصیبت پڑی تھی کہ راتوں کو چھپ کر ان چیزوں کی زیارت کے لئے یہ آیا کرے۔ تب بادشاہ نے کہا۔ میں تمہیں یہ حکم دیتا ہوں کہ اس کا راز بتاؤ۔ اس نے کہا۔ راز یہ ہے کہ آپ میرے بے حد مہربان آقا ہیں۔ آپ نے مجھ پر بے شمار احسانات کئے ہیں۔ میں ان احسانات میں کھو کر اپنی پرانی حیثیت نہیں بھولنا چاہتا تھا۔ میں ہمیشہ اپنے آپ کو یہ یاد کرانا چاہتا تھا کہ اے ایاز! تیرا یہی دو کوڑی مول ہی تو ہے۔ تو دربدر کی ٹھوکریں کھانے والا ایک عام آدمی ہی تو تھا۔ تیرے کپڑے پھٹے ہوئے تھے جوتے پھٹے ہوئے تھے۔ ٹوپی بوسیدہ تھی۔ کئی کئی وقت تجھے فاقے بھی کرنے پڑتے تھے۔ پس یاد کر اس آقا محمودؔ کے احسان کو۔ اس نے تجھے کہاں سے اٹھایا اور کہاں پہنچادیا۔ پس اس واقعہ کو بیان کر کے میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اللہ سے محبت کرنے کے لئے آپ کو ایاز والے کپڑے بھی رکھنے پڑیں گے۔ یہ یادرکھنا پڑے گا کہ ہم کیا حقیر چیز ہیں۔ پھر بھی وہ خدا جو ساری کائنات کا مالک ہے ہم سے خود محبت کا سلوک فرماتا ہے۔
سبق: اپنی اصلیت کو کبھی نہ بھولنا
پس تم نے اپنی اصلیت کو کبھی نہیں بھولنا اور ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ جب وہ انعام زیادہ کرے تو اور زیادہ جھکتے چلے جائیں اپنے رب کے حضور اور سوچیں کہ ہم تو اس قابل بھی نہیں تھے۔ اگر یہ سیکھ لیں گے تو پھر احسان کا بدلہ شکر کے طور پر ادا کرنا بھی سیکھ جائیں گے۔ اگر یہ راز سمجھیں گے تو احسان کے احساس کو نقصان پہنچے گا اور آپ کے شکر کی طاقت کمزور پڑ جائے گی۔ اگر انسان سمجھنے لگے جائے کہ ہاں مجھ پر بڑا احسان ہے مگر مَیں اس لائق ہوں، یہ میرا حق ہے، تو اس کے نتیجہ میں نفس دھوکا کھا جاتا ہے اور انسانی بڑائی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور شکر کا احساس کم ہو جاتا ہے۔
پس ایاز نے ہمیں یہ راز سکھایا کہ محبت اور وفا کا اولین تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی حیثیت کو کبھی نہ بھولے۔‘‘(مشعل راہ جلد چہارم 329تا330)
کس قسم کی کہانیاں سنائی جائیں
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ اچھے ناولز اور کہانیاں پڑھنے اور دیو مالائی کہانیوں سے بچانےسے متعلق (خطبہ جمعہ فرمودہ17؍فروری 1989ء بمقام ہالینڈ) فرماتے ہیں کہ’’مثلاً بچے کہانیاں بھی پسند کرتے ہیں۔ اور ایک عمر میں جاکر ان کو ناولز کے مطالعہ سے بھی دور نہیں رکھنا چاہئے لیکن بعض قسم کی لغو کہانیاں جو انسانی طبیعت پر گندے اور گہرے بداثرات چھوڑ جاتی ہیں ان سے ان کو بچانا چاہئے خواہ نمونے کے طور پر ایک آدھ کہانی انہیں پڑھا بھی دی جائے۔ بعض بچے (Detective Stories) یعنی جاسوسی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں لیکن اگر انہیں اسی قسم کی لغو جاسوسی کہانیاں پڑھائی جائیں جیسے آج کل پاکستان میں رائج ہے اور بعض مصنف بچوں میں غیر معمولی شہرت اختیار کر چکے ہیں جاسوسی کہانیوں کے مصنف کے طور پر تو بجائے اس کے کہ ان کا ذہن تیز ہو ان کی استدلال کی طاقتیں صیقل ہو جائیں اور زیادہ پہلے سے بڑھ کر ان میں استدلال کی قوت چمکے وہ ایسے جاہلانہ جاسوسی تصورات میں مبتلا ہو جائیں گے کہ جس کا نتیجہ عقل کے ماؤف ہونے کے سوا اور کچھ نہیں نکل سکتا۔ شرلک ہومز کو تمام دنیا میں جو غیر معمولی عظمت حاصل ہوئی ہے وہ بھی تو جاسوسی ناول لکھنے والا انسان تھا لیکن اس کی جاسوسی کہانیاں دنیا کی اتنی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں کہ آج تک کسی دوسرے مصنف کی اس طرز کی کہانیاں دوسری زبانوں میں اس طرح ترجمہ نہیں کی گئیں۔ جس طرح شیکسپیئر کے نام پر انگریز قوم کو فخر ہے۔ اس طرح اس جاسوسی ناول نگار کے نام پر بھی انگریز قوم فخر کرتی ہے یہ محض اس لئے ہے کہ اس کے استدلال میں معقولیت تھی اگرچہ کہانیاں فرضی تھیں۔ اس لئے اس قسم کی جاسوسی کہانیاں بچوں کو ضرور پڑھائی جائیں جن سے استدلال کی قوتیں تیز ہوں لیکن احمقانہ جاسوسی کہانیاں تو استدلال کی قوتوں کو پہلے سے تیز کرنے کی بجائے ماؤف کرتی ہیں۔ اسی طرح ایک رواج ہندوستان میں اور پاکستان میں آجکل بہت بڑھ رہا ہے۔ اور وہ بچوں کو دیومالائی کہانیاں پڑھانے کا رواج ہے۔ اور ہندوستان کی دیومالائی کہانیوں میں اس قسم کے لغو تصورات بکثرت ملتے ہیں جو بچے کو بھوتوں اور جادو کا قائل کریں اس قسم کے تصورات اس کے دل میں جاگزیں کریں کہ گویا سانپ ایک عمر میں جا کر اس قابل ہو جاتا ہے کہ دنیا کے ہرجانور کا روپ دھار لے اور اسی طرح جادوگرنیاں اور ڈائنیں انسانی زندگی میں ایک گہرا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ سارے فرضی قصے اگر بڑا پڑھے تو جانتا ہے کہ یہ محض دل بہلاوے کی من گھڑت کہانیاں ہیں لیکن جب بچہ پڑھتا ہے تو ہمیشہ کے لئے اس کے دل پہ بعض اثرات قائم ہو جاتے ہیں۔ جو بچہ ایک دفعہ ان کہانیوں کے اثر سے ڈرپوک ہو جائے اور اندھیرے اور انہونی چیزوں سے خوف کھانے لگے پھر تمام عمر اس کی یہ کمزوری دور نہیں کی جا سکتی۔ بعض لوگ بچپن کے خوف اپنے بڑھاپے تک لے جاتے ہیں۔ اس لئے کہانیوں میں بھی ایسی کہانیوں کو ترجیح دینا ضروری ہے جن سے کردار میں عظمت پیدا ہو، حقیقت پسندی پیدا ہو، بہادری پیدا ہو۔ دیگر انسانی اخلاق میں سے بعض نمایاں کر کے پیش کئے گئے ہیں۔ ایسی کہانیاں خواہ جانوروں کی زبان میں بھی پیش کی جائیں وہ نقصان کی بجائے فائدہ ہی دیتی ہیں۔ عربی کہانیاں لکھنے والوں میں یہ رجحان پایا جاتا تھا کہ وہ جانوروں کی کہانیوں کی صورت میں بہت سے اخلاقی سبق دیتے تھے اور الف لیلیٰ کے جو قصے تمام دنیا میں مشہور ہوئے ہیں ان میں اگرچہ بعض بہت گندی کہانیاں بھی شامل ہیں لیکن ان کے پس پردہ روح یہی تھی کہ مختلف قصوں کے ذریعہ بعض انسانی اخلاق کو نمایاں طور پر پیش کیا جائے مثلاً یہ قصہ کہ ایک بادشاہ نے اپنی ملکہ کو ایک کتے کی طرح باندھ کر ایک جگہ رکھا ہوا تھا اور جانوروں کی طرح اس سے سلوک کیا جا رہا تھا اور کتے کو بڑے اہتمام کے ساتھ معزز انسانوں کی طرح محلات میں بٹھایا گیا تھا اور اس کی خدمت پر نوکر مامور تھے۔ یہ قصہ ظاہر ہے کہ بالکل فرضی ہے لیکن جو اعلیٰ خلق پیش کرنا مقصود تھا وہ یہ تھا کہ کتا مالک کا وفادار تھا اور ملکہ دغا باز اور احسان فراموش تھی۔ پس ایسی کہانیاں پڑھ کر بچہ کبھی یہ سبق نہیں لیتا کہ بیوی پر ظلم کرنا چاہئے بلکہ یہ سبق لیتا ہے کہ انسان کو دوسرے انسان کا وفادار اور احسان مند رہنا چاہئے۔ اسی طرح مولانا روم کی مثنوی بعض کہانیاں ایسی بھی پیش کرتی ہے جو پڑھ کر بعض انسان سمجھتے ہیں کہ یہ کیسے مولانا ہیں جو اتنی گندی کہانیاں بھی اپنی مثنوی میں شامل کئے ہوئے ہیں جن کو پڑھ کر انسان یہ سمجھتا ہے کہ ان کی ساری توجہ جنسیات کی طرف ہے اور اس کے باہر یہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ چنانچہ ایک دفعہ لاہور کے ایک معزز غیر احمدی سیاستدان نے مجھے مولانا روم کی مثنوی پیش کی جس میں جگہ جگہ نشان لگائے ہوئے تھے اور ساتھ یہ کہا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بزرگ انسان تھا یہ اتنا بڑا مرتبہ تھا ایسا بڑا فلسفی تھا، ایسا صوفی تھا لیکن یہ واقعات آپ پڑھیں اور مجھے بتائیں کہ کوئی شریف انسان یہ برداشت کرے گا کہ اس کی بہو بیٹیاں ان کہانیوں کو پڑھیں چنانچہ جب میں نے ان حصوں کو خصوصیت سے پڑھا تو یہ معلوم ہوا کہ نتیجہ نکالنے میں اس دوست نے غلطی کی ہے۔ یہ کہانیاں جنسیات سے ہی تعلق رکھتی تھیں لیکن ان کا آخری نتیجہ ایسا تھا کہ انسان کو جنسی بےراہ روی سے سخت متنفر کر دیتا تھا اور انجام ایسا تھا جس سے جنسی جذبات کو انگیخت ہونے کی بجائے پاکیزگی کی طرف انسانی ذہن مائل ہوتا تھا۔ پس یہ تو اس وقت میرا مقصد نہیں کہ تفصیل سے لٹریچر کی مختلف قسموں پرتبصرہ کروں۔
یہ چند مثالیں اس لئے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو جو کچھ آپ پڑھاتے ہیں اس کے متعلق خوب متنبہ رہیں کہ اگر غلط لٹریچر بچپن میں پڑھایا گیا تو اس کے بداثرات بعض موت تک ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور اگر اچھا لٹریچر پڑھایا جائے تو اس کے نیک اثرات بھی بہت ہی شاندار نتائج پیدا کرتے ہیں اور بعض انسانوں کی زندگیاں سنوار دیا کرتے ہیں۔‘‘(مشعل راہ جلد چہارم صفحہ377تا378)
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
سال 2016ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کی تحریرات سے ایسی سبق آموز حکایتیں، کہانیاں، قصے اور لطیفے بیان فرمائے جو حضرت مسیح موعودؑ نے وقتاً فوقتاً کسی امر میں بطور مثال پیش فرمائے تھے اور ان سے مناسبِ حال نتیجہ اخذ فرمایا تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کئی خطبات میں احبابِ جماعت کی تربیت کےلیےایسے واقعات پیش فرمائے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان واقعات کو پیش کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ’’گزشتہ کچھ عرصہ میں بعض جمعوں کے خطبات میں مَیں نے بعض کہاوتیں، حکایتیں یا بعض کہانیاں جو سبق آموز ہیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے بیان فرمائیں، بیان کیں۔ آج جب میں نے ان حکایتوں کو بیان کرنے کے لئے چنا تو مجھے خیال آیا کہ پاک و ہند کی پرانی کہانیاں اور روایتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں ان روایتوں کا آج تک جاری رہنا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل سے ہی ہے۔ اگر جماعت کے لٹریچر میں یہ نہ ہوتیں تو کبھی کی یہ کہیں دفن ہو چکی ہوتیں اور اِس جدید زمانے میں ان کو کوئی بھی نہ جانتا۔ آج ان باتوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا مَیں یہ دیکھ رہا تھا…یہ صرف کہانیاں ہی نہیں بلکہ بعض حقیقی واقعات بھی ہیں۔ بعض اَور طرز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نصائح بھی فرمائی ہوئی ہیں۔ بعض جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو بظاہر تو لطیفے ہیں لیکن ان لطیفوں میں سے بھی آپ اصلاح کا پہلو ہمارے سامنے پیش فرما دیتے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍مارچ2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍مارچ2016ءصفحہ5)
بچپن میں تعلیم کا بہترین ذریعہ کہانیاں ہیں
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ زمانہ ٔجدید میں سوشل میڈیا کے استعمال، والدین اور بچوں میں دوری کے حوالے سے کہانیوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کے ساتھ کس طرح تعلق رکھتے تھے اور کس طرح ان کی تربیت کا بھی خیال رکھتے تھے، اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ صحیح تربیت کا طریق وہی ہے جو اسے کھیل کود سکھائے۔ (یعنی کھیلتے کودتے ہی تربیت ہو جائے۔ ) پہلے تو جب وہ بہت چھوٹا بچہ ہو کہانیوں کے ذریعہ اس کی تربیت ضروری ہوتی ہے۔ بڑے آدمی کے لئے خالی وعظ کافی ہوتا ہے لیکن بچپن میں دلچسپی قائم رکھنے کے لئے کہانیاں ضروری ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ کہانیاں جھوٹی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ کبھی حضرت یوسفؑ کا قصہ بیان فرماتے۔ کبھی حضرت نوحؑ کا قصہ سناتے اور کبھی حضرت موسیٰؑ کا واقعہ بیان فرماتے۔ مگر ہمارے لئے وہ کہانیاں ہی ہوتی تھیں۔ گو وہ تھے سچے واقعات۔ ایک حاسد و محسود کا قصہ الف لیلہ میں ہے وہ بھی سنایا کرتے تھے۔ وہ سچا ہے یا جھوٹا بہرحال اس میں ایک مفید سبق ہے۔ اسی طرح ہم نے کئی ضرب الامثال جو کہانیوں سے تعلق رکھتی ہیں آپ سے سنی ہیں۔ پس بچپن میں تعلیم کا بہترین ذریعہ کہانیاں ہیں۔ گوبعض کہانیاں بے معنی اور بیہودہ ہوتی ہیں مگر مفید اخلاق سکھانے والی اور سبق آموز کہانیاں بھی ہیں۔ اور جب بچے کی عمر بہت چھوٹی ہو تو اس طریق پر اسے تعلیم دی جاتی ہے۔ پھر جب وہ ذرا ترقی کرے تو اس کے لئے تعلیم و تربیت کی بہترین چیزیں کھیلیں ہیں۔ (بعض والدین آ جاتے ہیں کہ یہ کھیلتا بہت ہے۔ اگر ٹی وی گیموں پر نہیں کھیل رہا اور باہر جا کر کھیلتا ہے تو بچے کو کھیلنے دینا چاہئے۔) کتابوں کے ساتھ جن چیزوں کا علم دیا جاتا ہے کھیلوں سے عملی طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے۔ مگر کہانیوں کا زمانہ کھیل سے نیچے کا زمانہ ہے۔‘‘(ماخوذ از الفضل 28؍مارچ 1939ء صفحہ نمبر 2 جلد 27 نمبر 71)
پس باپوں کو بھی بچوں کو وقت دینا چاہئے۔ اگر ماں باپ دونوں مل کر بچوں کی تربیت پر زور دیں۔ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں۔ ان کی صحیح تربیت کریں۔ ان کو اپنے ساتھ جوڑیں تو یقیناً بہت سے تربیت کے مسائل حل ہو جائیں جس کی ماں باپ کو شکایت رہتی ہے۔
پھر ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’بچپن میں جو کہانیاں بچوں کو سنائی جاتی ہیں ان کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ بچہ شور نہ کرے اور ماں باپ کا وقت ضائع نہ کرے۔ (یہ بھی ایک مقصد ہوتا ہے۔ ) اگر وہ کہانیاں ایسی ہوں جو آئندہ زندگی میں بھی فائدہ دیں تو یہ کتنی اچھی بات ہے۔‘‘
آج کل تو ماں باپ اس بات سے بچنے کے لیے کہ بچے شور نہ کریں اور علیحدہ بیٹھے رہیں ان کے ہاتھوں میں یا آئی پیڈ (iPad) پکڑا دیتے ہیں یا کمپیوٹر پہ بٹھا دیتے ہیں یا ٹی وی پہ بٹھا دیتے ہیں اور وہاں اگر تو اچھی کہانیاں کوئی آ رہی ہوں تو ٹھیک، نہیں تو بعض دفعہ صرف وقت ضائع ہو رہا ہوتا ہے۔ اور چھوٹے بچوں کو تو ویسے بھی ان پہ نہیں بٹھانا چاہیے کیونکہ ایک تو نظر پہ اثر پڑتا ہے اگر لمبا عرصہ بیٹھے رہیں۔ دوسرے دو سال سے کم بچے کو تو ویسے بھی ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کی سوچ میں فرق پڑ جاتا ہے اور پھر وہ ایک طرف لگ جاتا ہے۔ بعض دفعہ برے اثرات پیدا ہوتے ہیں۔
بہرحال حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے، کہانیاں سنانے کا جو فائدہ اس وقت ہوتا ہے وہ بھی ان سے حاصل ہوتا تھا۔ اگر اس وقت آپ وہ کہانیاں نہ سناتے تو پھر ہم شور مچاتے اور آپ کام نہ کر سکتے تھے۔ پس یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہمیں کہانیاں سنا کر چپ کرایا جاتا اور یہی وجہ تھی کہ رات کے وقت ہماری دلچسپی کو قائم رکھنے کے لئے آپ جب بھی فارغ ہوں کہانیاں سنایا کرتے تھے تا ہم سو جائیں اور آپ کام کر سکیں۔ بچے کو کیا پتا ہوتا ہے کہ اس کے ماں باپ کتنا بڑا کام کر رہے ہیں۔ اسے تو اگر دلچسپی کا سامان مہیا نہ کیا جائے تو وہ شور کرتا ہے اور کہانی سنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچے سو جاتے ہیں۔‘‘
اس زمانے میں تو یہ چیزیں نہیں تھیں۔ ماں باپ محنت بھی کرتے تھے۔ اب جیسا کہ میں نے کہا بعض چیزیں ایسی آ گئی ہیں جس کی وجہ سے ماں باپ ایک تو تربیت پہ محنت نہیں کرتے، دوسرے ان کے تعلق بچوں کے ساتھ کم ہو گئے ہیں۔ اس طرف توجہ دینی چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ29؍جنوری 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل19؍فروری2016ءصفحہ7)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس رنگ میں اولاد کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭