پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مرتبہ: مطہر احمد طاہر۔ جرمنی)

اکتوبر2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

ایک اَور احمدی کو عقیدے کی بنیاد پر قتل کردیا گیا

پشاور (اکتوبر 2020ء):اس ماہ کے آغاز ہی میں ایک اور احمدی کو پشاور میں عقیدے کی بنیاد پر قتل کردیا گیا۔ مرحوم کا نام پروفیسر ڈاکٹر نعیم الدین خٹک تھا۔آپ کی عمر 56 سال تھی اور پیشے کے اعتبار سے آپ سپیریئر سائنس کالج میں استاد تھے۔آپ نے Zoologyمیں پی ایچ ڈی کررکھی تھی۔5؍ اکتوبر 2020ء کو آپ گھر واپس آرہے تھے کہ ڈیڑھ بجے کے قریب نامعلوم افراد نے آپ پر گولیوں سے حملہ کرکے آپ کو شہید کردیا۔ڈاکٹر نعیم الدین کو پانچ گولیاں لگیں۔ آپ نے لواحقین میں ایک بیوہ ، تین بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔

گذشتہ چند ماہ کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ پشاور ان دنوں احمدیہ مخالف سرگرمیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ مختلف وزرا، سیاسی لیڈر اور میڈیا پرسن دھڑلے سے احمدیوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے پائے گئے ہیں۔

مفروضے کی بنیاد پر پولیس کیس!

راجن پور (یکم اکتوبر 2020ء):یاد رہے کہ مورخہ 23؍جولائی 2020ء کو اس علاقے کے چھ احمدیوں کے خلاف سکول چلانے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔اب اسی تناظر میں یہاں ایک اور احمدی کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔پولیس نے ’’ملزم‘‘ کی تلاش میں احمدیوں کے گھروں پر چھاپے مارے۔دو گھرانوں میں پولیس کو کوئی مرد نہیں مل سکا البتہ تیسرے گھر میں ، جو کہ اس کیس میں نامزد ملزم لئیق احمد طاہر کا تھا، پولیس کو ان کا بیٹا رحیق احمد مل گیا جو کہ ایک معلم ہے۔ پولیس نے اسی کو گرفتار کرلیا۔

اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ بھاگنےمیں اپنے والد کی معاونت کررہا تھا۔ چنانچہ رحیق احمد کو جیل بھیج دیا گیا۔

تین احمدیوں کو جعلی مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا

شوکت آباد کالونی ، ضلع ننکانہ (اکتوبر 2020ء):تین احمدی مسمی شرافت احمد(صدر جماعت) اکبر علی (سیکرٹری مال) اور طاہر نقاش کے خلاف 2؍مئی 2020ء کو تعزیرات پاکستان دفعات (298-B) اور (298-C) کے تحت پولیس سٹیشن مانگٹاںوالہ ضلع ننکانہ میں ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

نامزد ملزمان نے ایڈیشنل سیشنز جج عاصم محمود کی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔ بعد ازاں 7؍اگست 2020ء کو ضمانت کی تصدیق کے موقع پر مخالفین نے کمرہ عدالت کے اندر اور باہر شر انگیزی کی کوشش کی، جس کی وجہ سے تینوں ملزمان نے پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ جج نے ان کی ضمانت کی درخواست خارج کردی جس پر ملزمان نے ضمانت کے لیے ہائی کورٹ میں ایک اَور درخواست دائر کردی۔

2؍اکتوبر 2020ء کو جسٹس اسجد جاوید نے ملزمان کی ضمانت مسترد کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے خلاف بےسروپا تبصرے کیے۔ جسٹس اسجد نے کہا کہ احمدی اپنے ٹی وی پر قرآن کریم کے غلط تراجم نشر کرتے ہیں۔حالانکہ اس بات کا مقدمہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ضمانت کے خارج ہونے کے بعد ان تینوں احمدی ملزمان کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرکے شیخوپورہ جیل منتقل کردیا گیا۔

مذہب کے اعلان میں حائل مشکلات

بستی شکرانی ضلع بہاولپور (اکتوبر 2020ء):لقمان احمد کے چار بچے سکول میں پڑھتے ہیں۔وہ اوچ شریف میں واقع ایک سرکاری سکول کی نہم جماعت میں اپنے بیٹے کا داخلہ کروانے گئے تو داخلہ فارم کے ساتھ ہی ایک تصدیق نامہ منسلک تھا جس کی عبارت کے مفہوم کے مطابق، دستخط کنندہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل یقین رکھتا ہے اور حضور ﷺ کے بعد کسی کو ظلی یا بروزی طور پر نبی یا رسول تسلیم نہیں کرتااور یہ کہ دستخط کنندہ کا تعلق کسی طرح بھی احمدی، لاہوری، یا قادیانی گروپ سے نہیں ہے اور یہ کہ دستخط کنندہ حضور اکرم ﷺکے بعد دعویٰ نبوت کرنے والوں کو کافر، کاذب اور دھوکے باز سمجھتا ہے۔

اب اگر کوئی احمدی اس سکول میں داخلہ لینا چاہے تو اس کو اس فارم پر دستخط کرنا ہوں گے جو کہ ایک احمدی کے لیے کسی صورت ممکن نہیں۔چنانچہ احمدی طالب علم یہاں داخلہ نہیں لے سکیں گے۔اور اگر کسی نے داخلہ لے بھی لیا تو اسے کسی صورت اسلامیات پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس بات کا خطرہ بھی بہرحال موجود ہے کہ اساتذہ اور دیگر طلبہ احمدی طالب علم کو اس کے عقیدے کی وجہ سے ہراساں کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ فارم انتظامیہ کی ذاتی اختراع معلوم ہوتی ہے کیونکہ آئین و قانون کی رو سے طالب علموں سے اس قسم کی تصدیق کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔

احمدی طالب علم کو یونیورسٹی میں ہراسگی کا سامنا

لاہور (22؍ستمبر 2020ء):سفیر احمد لاہور کی معروف یوایم ٹی میں بی بی اے کے طالب علم ہیں۔ مورخہ 22؍ستمبر 2020ء کو وہ اسلامیات کی کلاس لے رہے تھے کہ اچانک ان کے پروفیسر نے انہیں کمرہ جماعت سے باہر چلے جانے اور بعد میں ان کے دفتر میں آکر ان سے ملنے کا کہا۔ لیکچر کے بعد جب سفیر احمد پروفیسر کے کمرے میں گئے تو وہاں پروفیسر کے علاوہ دو تین افراد اور بھی موجود تھے۔

ان کی موجودگی میں پروفیسر نے سفیر احمد سے پوچھا کہ کیا وہ مرزائی ہیں؟ جس پر سفیر احمد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’جی ہاں، میں احمدی ہوں۔‘‘

اس پر لیکچرار نے بلند آواز سے سفیر احمد کو متنبہ کیا کہ ’’تم جو بھی ہو، آئندہ میری کلاس میں مت آنا۔ میں تمہیں امتحان میں پاس نہیں کروں گا۔‘‘اس کے بعد جب سفیر احمد اپنے کلاس روم میں واپس گئے تو وہاں جماعت اسلامی کے سٹوڈنٹ ونگ اسلامی جمعیت کے طلبہ نے انہیں کمرہ جماعت میں داخل نہ ہونے دیا اور کہا کہ یونیورسٹی سے چلے جاؤاور یہاں کبھی واپس مت آنا۔

سفیر احمد اس واقعے کے بعد سے یونیورسٹی نہیں جا سکے۔

کالج میں احمدیوں کا بائیکاٹ

اسلام آباد (اکتوبر 2020ء):تہمینہ مبارکہ مارگلہ میں ماس کمیونیکیشن ماسٹرز کی طالبہ ہیں۔ کورونا کے لاک ڈاؤن کے بعد جب کالج دوبارہ کھلا تو ان کی ایک ہم جماعت نے، جنہیں ان کے احمدی ہونے کا گذشتہ پانچ برسوں سے علم تھا، موبائل پر پیغام بھجوایا کہ وہ غلط راستے پر جارہی ہیں اور ان کی دوست کی حیثیت سے ان کا فرض تھا کہ وہ انہیں صحیح راستے کی طرف بلائیں۔ ان کی دوست نے یہ بھی کہا کہ اس نے باقی طلباء کو اس کی مذہبی شناخت نہ بتا کر غلطی کی ہے۔ مزید برآں، اس دوست نے احمدیوں کے خلاف زبان زد عام الزامات کا اعادہ کیا۔

اس پیغام کے بعد جب تہمینہ مبارکہ کالج میں گئیں تو کمرہ جماعت کا ماحول یک سر بدل چکا تھا۔ ان کے تمام ہم جماعت ان کے مخالفین میں بدل گئے تھے۔

اگلے دن ان کی ہم جماعت لڑکیوں جن میں اہل تشیع اور سنی لڑکیاں تھیں نے کہا کہ انہوں نے اپنے علماء سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ احمدیوں سے بات کرنا منع ہے اور یہ کہ احمدیوں کے ساتھ کھانا کھانا حرام ہے۔ ان لڑکیوں نے پھر نام لیے بغیر اسلامیات کے استاد سے قادیانیوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کے بارے میں پوچھا۔ استاد نے جواب دیا کہ قادیانیوں کے ساتھ میل جول منع ہے۔

اس کے بعد تہمینہ مبارکہ خود کو سہمی ہوئی اور خطرے میں گھرا ہوا محسوس کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button