جماعت احمدیہ کے سپوت، محترم راجہ غالب احمد صاحب
پاکستان کے شہرہ اۤفاق تخلیقی ادیب، شاعر اور دانشور
اللہ تعالیٰ نے لاہور کی جماعت میں خلافت کے ساتھ انتہا کی وفا اور محبت کرنے والی شخصیات پیدا کی ہیںجن کی خلیفہ وقت، خلافت اور نظام سلسلہ سے عقیدت زبان زد عام ہے۔ لاہور کے ایسے ہی مخلصین میں مکرم و محترم راجہ غالب احمد صاحب کی شخصیت بھی شامل ہے۔ اۤپ ایسے پاک اور نیک وجودوں میں سے تھے جو حقیقی معنوں میں خلیفہ وقت کے سلطان نصیر، جماعتی تعلیمات کا عملی نمونہ، ہمیشہ تقویٰ کی راہوں پر چلنے والے، نظام جماعت کے کامل اطاعت گزاراور اپنے قول و فعل کے ساتھ اس کی حفاظت کرتے کرتے زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوکر دوسروں کے لیے مشعل راہ بن جانے والے ہوتے ہیں۔
اۤپ نے4؍جون2016ءکو88 برس کی عمر میں لاہور میں وفات پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مکرم امیر صاحب لاہور نے آپ کی نماز جنازہ بیت النور ماڈل ٹاؤن لاہور میں پڑھائی جنازے کے بعد آپ کا جسد خاکی ربوہ لایا گیا جہاںنماز عصر کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ نےآپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ دارالفضل میں تدفین کے بعد محترم صاحبزادہ صاحب موصوف نے ہی دعا کرائی۔ (روزنامہ الفضل ربوہ 8؍جون2016ء صفحہ8)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جون 2016ءمیں مکرم راجہ غالب احمد صاحب کے بارے میں ان کے خاندانی تعارف اور خدمات دینیہ کا ذکر کیا اورفرمایا: ’’ان کے والد حضرت راجہ علی محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ انہوں نے 1905ء میں بیعت کی اور سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے والد کو قادیان میں بطور ناظر مال اور ناظر اعلیٰ خدمت کی توفیق ملی۔ راجہ غالب صاحب کے نانا ملک برکت علی صاحب تھے اور حضرت ملک عبدالرحمٰن خادم صاحب جو خالد احمدیت تھے آپ کے ماموں تھے۔ … 1974ء کے بعد آپ کو بطور ترجمان جماعت احمدیہ کئی بار پریس کانفرنسیں اور پریس ریلیزیں اور بیانات جاری کرنے کا موقع ملا۔ خطوط لکھنے والے تھے۔ اخبارات کو ذاتی بیان دینے کا موقع ملا۔ 1992تا 97ء ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن۔ 74ء تا 85ء ڈائریکٹر وقف جدید اور اس کے علاوہ نائب صدر ناصر فاؤنڈیشن بھی رہے۔ بڑے سادہ مزاج اور بڑے دھیمے مزاج کے تھے۔ خلافت سے ان کا بڑا تعلق تھا اور جماعتی عہدیداروں کی بھی بڑی عزت اور احترام کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی اولادنہیں تھی۔ ان کی ایک لَے پالک بیٹی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍جولائی2016ءصفحہ8)
خاکسار کی حیثیت نہیں ہے کہ ان جیسی شخصیت پر اظہار کروں لیکن مدعا محض یہی ہے کہ اۤپ کا ذکر خیر ہو جاوے اور احباب اۤپ کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کریں اور ان کی خدمات کو نئی نسل کے سامنے رکھا جائے۔
رابطہ پریس کمیٹی کے قیام سے پہلے ہی اۤپ بے انتہا خدمت کی توفیق پا چکے تھے۔ اۤپ کی جماعتی خدمات کا سلسلہ بہت طویل اور وسیع ہے، سیکرٹری تعلیم کے علاوہ اۤپ لمبا عرصہ تک جماعت احمدیہ لاہور کے جنرل سیکرٹری رہے تھے۔ اۤپ بےشمار خوبیوں کے مالک تھے، فرشتہ صفت انسان تھے، عاجزی اور انکساری کا پیکر تھے۔ مرکز، سلسلہ اور خلافت سے وفا، محبت اور وفا کا گہرا تعلق تھا، اۤپ ایک صائب الرائے اور منکسر المزاج انسان تھے۔ اۤپ ایک دانشور، شاعر، لکھاری اور بہترین نقادتھے۔ بہت سے قومی اخبارات و جرائد میں اۤپ کی تحریریں اور نظمیں شائع ہوتی رہیں۔ انگریزی زبان میں بھی اۤپ نے انسانی حقوق کے موضوع پر لکھا ہے۔ اۤپ کے کلاس فیلوز اور رفقائےکار میں حنیف رامے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، شہزاد احمد، صوفی تبسم اور ڈاکٹر نذیر احمد شامل تھے۔ اۤپ نے ادب کی دنیامیں بہت محترم مقام پایا تھا۔ جماعت سے باہر اۤپ کے وسیع رابطے تھے جن میں نامور کالم نگار، ادیب، شاعر، سیاست دان شامل تھے جو اۤپ کا عزت و احترام کرتے تھے۔
اب خاکسار مکرم راجہ غالب احمد صاحب کے حالات زندگی پر ایک نظر ڈالتا ہے۔ اۤپ1928ء میں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔ سنٹرل ماڈل سکول لاہور سے میٹرک کیا، قادیان سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ 1951ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے نفسیات فرسٹ پوزیشن کے ساتھ پاس کیا اور یونیورسٹی میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یونیورسٹی میں لکھے گئے ان کے مقالے کا عنوان’’مشرق وسطیٰ میں ختنہ کا رواج‘‘ تھا جو بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوا۔ اس مقالے کے حوالے سے محترم راجہ صاحب نے ایک واقعہ کا خاکسار سے مختلف مواقع پر کئی بار ذکر کیا جس کا یہاں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ محترم راجہ صاحب کے مطابق ان کا لکھا مقالہ جب قاہرہ مصر کی یونیورسٹی میں بھیجا گیا تو وہاں سے انہوں نے صد فیصد نمبر لگا ئے۔ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے واپس بھیجا کہ دوبارہ چیک کریں شاید غلطی لگ گئی ہے۔ مصر سے پھر صد فیصد نمبر کے ساتھ مقالہ واپس اۤگیا۔ اس پر پنجاب یونیورسٹی نے دوبارہ قاہرہ یونیورسٹی کو بھیجا اور لکھا کہ اس مضمون میں صد فیصد نمبر نہیں مل سکتے برائے کرم ایک دو نمبر کم کریں۔ اس پرقاہرہ یونیورسٹی نے جواب دیتے ہوئے کہا ایسا ممکن نہیں ہے، نمبر کم نہیں ہوسکتے البتہ بڑھ سکتے ہیں اور مقالہ واپس پاکستان بھیج دیا۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ پنجاب یونیورسٹی کا ریکارڈ ہے جو ابھی تک ٹوٹا نہیں اۤپ نے دس سال تک پاکستان ایئرفورس میں بطور سائیکالوجسٹ خدمات سرانجام دیں پھر محکمہ تعلیم میں ملازمت شروع کردی اور کلیدی عہدوں پر کام کی توفیق پائی جن میں بطور سیکرٹری لاہور سیکنڈری بورڈ، سرگودھا سیکنڈری بورڈ اور پھر چیئرمین پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ گرانقدر خدمات شامل ہیں۔ 1974ء میں جب قومی اسمبلی کی طرف سے غیر مسلم قرار دینے کا سیاہ قانون پاس ہوا تو اۤپ کوجماعت مخالفت میں او ایس ڈی(OSD)بنا دیا گیا اور1974ءسے1988ءتک ایسے ہی رکھا گیا جو کہ مذہبی بنیاد پر کیے جانے والے امتیازی سلوک کا سیاہ باب ہے۔
بحیثیت ممبر جماعت احمدیہ لاہور خاکسار بھی محترم راجہ غالب احمد صاحب سے بخوبی واقف تھا لیکن ان کے ساتھ باقاعدہ تعلق2000ء میں قائم ہوا جب مکرم چودھری حمید نصراللہ خاں صاحب امیر جماعت لاہور کی نگرانی میں مرکز کی منظوری و راہ نمائی سے ’’رابطہ پریس کمیٹی ‘‘کی تشکیل ہوئی ۔ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں جو لجنہ اماء اللہ کے دفتر دارالذکر میں منعقد ہوا تھا مکرم راجہ غالب احمد صاحب کو صدر کمیٹی مقرر کیا گیا اور عاجز کو سیکرٹری کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ اس اجلاس میں ذیلی تنظیموں کے صدور کے علاوہ لاہور کے وکلاء اور دیگر صاحب علم اور سرکردہ احباب نے بھی شرکت کی تھی بعد کے سالوں میں کمیٹی کے اراکین میں حسب ضرورت ردوبدل ہوتا رہا تھا۔ بحیثیت سیکرٹری ان کی رفاقت اور صحبت میں جہاں بہت کچھ سیکھا، وہیں خدمت دین کے مزید مواقع بھی میسر اۤئے۔ خاکسار کو ’’شاہد‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے تھے اور میٹنگ میں ہوتے تو منور شاہد کہہ کر بات کرتے تھے۔ مکرم امیر صاحب لاہور کی طرف سے کوئی بھی ہدایت ملتی تو مجھے فون پر بتادیتے اور کبھی گھر بلا کر سمجھا دیتے اور بعد میں رپورٹ ضرور لیتے۔ متعدد بار اہم رپورٹوں کے ساتھ خاکسار کو ربوہ بھی بھجوایا۔ دارالذکر میں جمعہ کے دن ہمیشہ پہلی صفوں پر نماز جمعہ پڑھا کرتے۔ میں رپورٹوں اور دیگر خطوط پر دستخط کروانے یا کسی اور معاملے میں نماز جمعہ کے بعد وہیں ان سے مل لیا کرتا تھا۔ سہ ماہی رپورٹ کو ناظرصاحب اعلیٰ و امیر مقامی کی خدمت میں (اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ تھے) پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیاجو بعد ازاں لندن بھی بھجوائی جاتی رہی۔ اۤپ نے اس دوران یہی بتایا اور سمجھایا کہ مرکز خط لکھتے وقت ہر لفظ اور سطر میں ادب و احترام کوملحوظ خاطررکھنا چاہیے۔ تمام عرصے میں خاکسار نے دیکھا کہ آپ خلافت سے گہراعشق رکھتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے بہت وفا کا تعلق تھاجسے خاکسار نےاس وقت بھی نوٹ کیا جب حضور ابھی ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ تھے۔ اسی طرح خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ والہانہ عقیدت ان کی شخصیت میں نمایاں تھی۔ خاندان حضرت مسیح موعود ؑمیں سےکوئی فرد لاہور تشریف لاتا تو اۤپ سے ضرور ملاقات ہوتی تھی ۔ سب کے ساتھ بہت ہی محبت اور احترام کا تعلق خاکسار نے دیکھا۔ اسی طرح تمام مرکزی عہدیداران کا بہت احترام کرتے تھے۔ مجھے اۤپ نے کہہ رکھا تھا کہ مرکز سے جو بھی مہمان لاہور اۤئیں اور رابطے میں ہوں تو بغیر پوچھے گھر لے اۤیا کرو۔چنانچہ خاکسار ایسا ہی کرتا اورمحض فون کرکے اۤنے کی اطلاع کردیتا ۔ بہت سی سیاسی، ادبی اور صحافتی شخصیتوں کے ساتھ خاکسار کی ملاقاتیں اۤپ ہی کی توسط سے ہوئی تھیں ان میں منو بھائی خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کی رہائش ریوارز گارڈن میں تھی۔
مکرم راجہ غالب احمد صاحب اپنی فہم و فراست اور تدبر کے باعث جماعت کے اندر اور باہر ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ایک ایسا ہی واقعہ محترم اعجاز احمد صاحب(سابق قائد خدام الاحمدیہ ضلع لاہور) نے ان کے بارے میں لکھ کر بھیجا جس سے اۤپ کی شخصیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اۤپ لکھتے ہیں کہ دسمبر1984ءمیں حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ پاکستان تشریف لائے تو اۤتے ہی بیمار ہوگئے۔جب حضرت چودھری صاحبؓ کی بیماری لمبی ہوئی اور آپ صاحب فراش ہوگئے تو امیر صاحب لاہور نے ایک میٹنگ بلائی جس میں زیادہ تر وکلاء تھے۔ مکرم راجہ غالب احمد صاحب بھی میٹنگ میں موجود تھے۔ اس میٹنگ میں مکرم راجہ غالب احمد صاحب نے محترم امیر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ایک تجویز پیش کی کہ حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کی مسلم ممالک اور خاص طور پر فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے لیے بہت خدمات ہیں اب اگر حضرت چودھری صاحبؓ گمنامی میں فوت ہو گئے تو وہ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے لہٰذا ہمیں پاکستان کے تما م اخبارات اور اسلامی سفارت خانوں کو ان کی علالت کےبارے میںخط لکھ دینے چاہئیں۔ محترم راجہ صاحب کے اس مشورے کو بہت سراہا گیا اور پھر امیر صاحب نے انہی(مکرم راجہ صاحب) کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ خط تحریر کریں اور پھر اگلے دو دنوں میں وہ خط مکرم امیر صاحب لاہور کی طرف سے اسلامی ممالک کے سفارت خانوں اور قومی اخبارات کو ارسال کردیے گئے ۔حضرت چودھری صاحبؓ کی علالت کی خبر کی اشاعت کے ساتھ ہی آپ کی خیریت معلوم کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ان میں اسلامی ممالک کے سفراء، ملکی سیاست دان اور دیگر شخصیات شامل تھیں۔ بعد میں ضیاء الحق کو بھی عیادت کے لیے اۤنا پڑا۔ یوں مکرم راجہ صاحب کے ایک مشورے کے نتیجے میں حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی خدمات کا ایک بار پھر اقوام عالم میں چرچا ہوا ۔
اسلامی اصول کی فلاسفی کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں لاہور میں مکرم امیر صاحب نے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی کے اجلاسات میں بھی اۤپ نے صائب مشورے دیے۔ کمیٹی نے دیگر تحقیقی کام کرنے کے علاوہ لاہور میں دو سیمینارز بھی منعقد کرائے گئے جس میں مرکزی اور مقامی صاحب علم احباب کی طرف سے ’’جلسہ اعظم مذاہب‘‘کے بنیادی پانچ سوالات پر علمی و تحقیقی مقالے پیش کیے گئے۔ مکرم راجہ غالب احمد صاحب نے پہلے سیمینار منعقدہ مارچ1996ء بمقام مسلم ٹاؤن لاہور میں ’’جلسہ مذاہب عالم1896ءایک تعارف‘‘کے عنوان سے ایک سیر حاصل مقالہ پڑھا جس کا کئی ہفتوں تک لاہور جماعت میں چرچا رہا ۔
مارچ 2005ء میں خاکسار لاہور میں منعقدہ دس روزہ ایشیائی انسانی حقوق کی ورکشاپ میں شریک تھا جس میں ایشیا کے 8 ممالک سے مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے35مرد و خواتین شامل تھے۔ مکرم راجہ غالب احمد صاحب نے مرکزی اجازت سےانگریزی زبان میں جماعت کے پاکستان میں حالات اور مخلوط انتخاب کے بارے انتہائی مدلل تقریر کی اور شرکاءکوحقائق بتائے کہ کس طرح جماعت احمدیہ کو سیاسی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ بعد میں شرکاء کی جانب سے سوالات بھی پوچھے گئے اس موقع پر مکرم حمید نصراللہ خان صاحب امیر لاہور اور مرکزی نمائندہ بھی وہاں موجود تھے۔ ایم ٹی اے لاہور نے ریکارڈنگ بھی کی تھی۔ اگلے دن خاکسار کو راجہ صاحب کا فون اۤیا ۔ آپ نے مجھے کہا کہ کوشش کرو کہ کانفرنس کے شرکاء کادارالذکر کا بھی دورہ ہو جائے۔ خاکسار نے انتظامیہ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ پینتیس افراد کی ٹرانسپورٹ اور بجٹ سے ہمارا شیڈول خراب ہو سکتا ہے لیکن اگر کمیونٹی بندوبست کر دے تو ہم شرکا کی مرضی پوچھ کرجانے کافیصلہ کر سکتے ہیں ۔ جب سب نے جانے کی رضامندی ظاہر کردی تو پھر الحمد للہ35 رکنی غیر ملکی مہمانوں کا وفددورہ کے لیے دارالذکر پہنچا۔
2008ءمیں مکرم راجہ صاحب علیل ہوگئے اوران کا ایک آپریشن ہوا جس پرخاکسار نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں اطلاع و دعا کی غرض سے فیکس کردی۔ کچھ ہفتوں بعد حضور انور کی طرف سےاس کا جواب موصول ہوا ۔ خط میں دعاؤں کے بعد تحریر تھا کہ’’میری طرف سے ان کی عیادت کریں اور انہیں محبت بھرا سلام پہنچائیں۔‘‘خاکسار اسی وقت راجہ صاحب کے گھر پہنچا اور حسب ارشاد عیادت کرنے کے بعد خط بھی پڑھنے کو دیا، جسے پڑھنے کے بعد اۤپ کے چہرہ پر اطمینان و سکون کی لہر پھیل گئی کہ خلیفہ وقت کی کیسی شفقت ہے جو الفاظ سے بھی ٹپکتی ہے۔
مکرم فخرصاحب مربی سلسلہ، لاہور میں بھی کچھ عرصہ تعینات رہے جوعلمی اور قلمی پروگراموں میں بہت سرگرمی سے شامل ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے مکرم راجہ غالب احمد صاحب کے حوالے سے اپنی ملاقاتوں اور ان کی خدمات بارے جو کچھ خاکسار کو بتایا وہ درج ذیل ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ’’محترم راجہ غالب احمد صاحب بہت منکسرالمزاج تھے اتنی خوبیوں پر انہوں نے کبھی تکبر نہیں کیا اور کبھی یہ باور نہیں کرایا کہ میں اۤفیسر رینک کا اتنا بڑابندہ ہوں، بڑا ادیب ہوں۔جب بھی میں ان سے ملنے گیا، انہوں نے گلبرگ میں اپنے گھر میں چہرہ پر کوئی شکن لائے بغیر مجھے ویلکم کیا۔جب تک میں بیٹھا رہا، انہوں نے کبھی اشارہ نہیں کیا کہ میں مصروف ہوں اۤپ جائیں اور میں نے ہی اجازت لی تو اۤپ اٹھے اور مجھے گیٹ تک تشریف لاکر الوداع کیا۔ 1990ءکی دہائی کے شروع میں ہم نے ’’کاروان علم و اۤشتی‘‘کے نام سے ایک علمی تنظیم بنائی تھی جس کے تحت ہم اخبارات میں لکھا کرتے تھے۔ اس تنظیم کے خیال کو عملی جامہ پہنانے اور قواعد و ضوابط لکھنے میں محترم راجہ غالب صاحب کا بہت کردار تھا آپ نےبہت محبت سے اس بارے میں میری راہ نمائی کی تھی۔ اسی طرح ’’کاروان علم و اۤشتی ‘‘کے زیر اہتمام کڑک ہاؤس میں مکرم چودھری محمد علی صاحب کے ساتھ ایک شام منائی گئی تھی۔ اس کی کامیابی میں محترم راجہ صاحب کا بہت کردار تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے1990ءمیں ’’حقوق انسانیت‘‘کے حوالے سے ایک سال منانے کی تحریک فرمائی تھی۔ جس پر ہماری علمی وادبی تنظیم کے تحت ایک بڑا پروگرام ’’ایوان محمود‘‘ربوہ میں منعقد ہوا جس میں ایک ہزار سے زائد مقامی احباب نے شرکت کی تھی۔ لاہور سے محترم راجہ غالب احمد صاحب کےتوسط سے منو بھائی کو ہم بذریعہ کار ربوہ لے کر اۤئے جنہوںنے پروگرام کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے اس میںشرکت کی۔ اس پروگرام میں مقالے پڑھنے والوں میں مکرم سید قمر سلیمان احمد صاحب اور مکرم عبد السمیع خان صاحب بھی شامل تھے۔ منو بھائی نے اۤخر پر اپنے صدارتی خطاب میں جماعت احمدیہ کی حقوق انسانی کے بارے میں خدمات پر خوشنودی کا اظہار کیا اور اس پروگرام کو بہت پسند کیا۔اس پروگرام کی خبریں جنگ اور نوائے وقت سمیت بڑے اخبارات میں شائع ہوئیں۔ اس سیمینار کی کارروائی اور اس کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں کوبعد میں کتابی شکل میں بھی شائع کردیا گیا تھا۔
اسی طرح فلیٹیز ہوٹل لاہور میں ایک علمی نشست کروائی گئی جس کا عنوان ’’ اۤج کے دور میں لکھا پڑھا کون ہے؟ ‘‘ رکھا گیا۔ اس پروگرام کے مہمانِ خصوصی حنیف رامے تھے، ان کے علاوہ منو بھائی، انتظار حسین، شہزاد احمد سمیت دیگر بڑی علمی و ادبی شخصیات اوردانشور شامل تھے اور ہر ایک نے ایک سے بڑھ کر ایک انداز میں موضوع پر اظہار خیال کیا۔ پروگرام کے دوران محترم راجہ صاحب بھی منبر پر اۤتے اور اپنے مخصوص انداز میں مقررین کی باتوں کا مدلل اور موثر انداز میں جواب دیتے رہےاورمزے کی بات یہ تھی کہ اۤپ نے کسی کو موضوع سے ہٹنے کی اجازت نہیں دی اوراپنے میٹھے اور پرحکمت انداز میں پروگرام کو قابو میں رکھا۔ مزید یہ کہ ماحول کو گل و گلزار بنائے رکھا اور محفل کو بہت کامیاب بنایا۔ بلاشبہ راجہ غالب صاحب ایک محفل، سٹیج اور میٹھی پر حکمت باتوں کے بندے تھے، گویاماہر ابلاغیات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر ایک خوبی پیدا کر رکھی تھی کہ وہ کسی سے ڈرتے نہیں تھے۔
2013ءمیں روزنامہ الفضل ربوہ کے قیام کو 100سال پورے ہوئے تو اس حوالے سے ایک ’’صد سالہ سوونیئر‘‘ کی اشاعت کی گئی ۔مکرم راجہ غالب احمدصاحب کی مشاورت سے غیر احمدی صاحب علم افراد کی فہرست برائے انٹرویوز تیار کی گئی اور بعد ازاں انٹرویوز کیے گئے جو شائع بھی ہوئے ۔مکرم راجہ صاحب کا انٹرویو ان کے گھر میں مکرم فخرصاحب نے لیا تھا۔ خاکسار بھی اس موقع پر موجود تھا۔ اس انٹرویو میں اۤپ نے بتایا تھا کہ1937ءمیں قراۤن پاک ختم کرنے پر ان کی تقریب اۤمین کی رپورٹ روزنامہ الفضل میں شائع ہوئی تھی۔ نیز یہ کہ راولپنڈی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بچپن میں اۤپ کو قاعدہ یسرناالقراۤن کا سبق پڑھایا تھا۔ (روزنامہ الفضل ربوہ صد سالہ جوبلی سوونیئر2013ءصفحہ285)
لاہور میں پریس کمیٹی کو اۤپ کی شاعری کے مجموعہ کلام ’’رخت ہنر‘‘کی اشاعت کے بعد اس کی تقریب رونمائی کرانے کی توفیق بھی ملی۔ کتاب کی اشاعت کے دوران بھی راجہ صاحب بار بار استفسار کیا کرتے اور اشاعت کے بعد اس تقریب کا انعقاد ان کی دلی خواہش تھی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری ہو گئی۔ یہ تقریب30؍اکتوبر2008ءکو پنجاب انسٹیٹیوٹ اۤف لینگوئج، اۤرٹ اینڈ کلچر قذافی سٹیڈیم لاہور میں منعقد ہوئی جس کی صدارت ملک کی معروف ادبی شخصیت اور نقاد انتظار حسین صاحب نے کی تھی جبکہ دیگر مقررین میں منو بھائی، اصغر ندیم سید، مسعود اشعر، حسن کاظمی، ڈاکٹر قاضی منور احمد اور پروفیسر عبد الکریم خالد شامل تھے جنہوں نے راجہ غالب احمد کی شاعری پر اظہار خیال کیا۔ احباب لاہور جماعت کی بڑی تعداد نے بھی تقریب میں شرکت کی۔
28؍مئی2010ء کودارالذکر پر حملے کے بعد اۤپ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ پریس کانفرنس اور گورنر پنجاب کی اۤمد کے موقع پر ساتھ تھے۔
محترم راجہ غالب احمد صاحب نے اپنی اہلیہ کی وفات کا صدمہ بھی انتہائی صبر اور ہمت کے ساتھ برداشت کیا۔ اہلیہ کی وفات پر اۤپ بالکل اکیلے رہ گئے تھے۔ میں جب بھی ان کے گھر جاتا تو ان کو گہری سوچ میں پاتا۔ ان کے گھر پالے طوطے کی اۤواز سے ہی کسی اور کے ہونے کا پتہ چلتا تھا۔ انہی دنوں یہ ہدایت ملی کہ کوئی نہ کوئی ان کے پاس جا کر کچھ وقت گزارا کرے ۔ایک بار نصراللہ بلوچ صاحب کے ہمراہ ان کو باہر لے گئے اور ریسٹورنٹ میں وقت گزارا اور آپ سے فیض حاصل کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اۤپ کی یادداشت میں بھی فرق پڑنا شروع ہو گیا تھا اور خاکسار کے لاہور چھوڑنے کے وقت(مئی2013ء) میں ان کی یادداشت بہت متاثر ہوچکی تھی۔ اۤخری بار جب خاکسار ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے بھی پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ ان کی لےپالک صاحبزادی نے بتایا تھا کہ اب وہ کسی کو نہیں پہچانتے۔ جرمنی پہنچ کر بھی ایک دو بار فون کیا لیکن پہچان نہیں سکے تھے۔ لیکن میں دوستوں سےان کی خیریت دریافت کرتا رہتا تھا۔ اسی طرح اۤپ کی نظر بھی کمزور ہوگئی تھی لہٰذا جماعت کی طرف سے مکرم نصراللہ بلوچ صاحب کوانہیں جمعہ کی نماز کے لیے دارالذکر لانے، لےجانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی جنہوں نے کئی سال تک یہ ذمہ داری احسن طریق سے نبھائی۔ میں جرمنی میں تھا جب مجھے مکرم راجہ غالب احمد صاحب کی وفات کی اطلاع ملی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کئی دن تک اۤپ کی وفات کے غم کے زیر اثر رہا۔ ہجرت کی کڑی آزمائشوں میں ایک یہ بھی ہے کہ اۤپ اپنے پیاروں کے اۤخری دیدار سے محروم رہ جاتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو اۤپ کی وفات پر تعزیت اور اظہار افسوس کا خط لکھا جس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہمیشہ ان پر اپنے پیار کی نظریں ڈالتا رہے۔ اللہ اۤپ کے ساتھ ہو اۤمین۔‘‘
٭…٭…٭