احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
ظاہری اور باطنی مناروں کا ورثہ(حصہ دوم)
قارئین کرام!یہ مذکورہ بالادودرجن کے قریب نکات وہ ہیں کہ جوحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے دست مبارک سے لکھے گئے صرف دو اشتہارات سے لیے گئے ہیں۔ ان کوپڑھ کرکون کہہ سکتاہے کہ اینٹ اورپتھرکامینارتوکچھ معنی نہیں رکھتااورنہ ہی حضوراقدسؑ ایساچاہتےتھے۔ اورنہ ہی احادیث اس خیال کی تائیدکرتی ہیں۔ حق تویہ ہے کہ تمام تراحادیث کودرج کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ یہ تحریر فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کامنشائے مبارک ہی یہ تھا کہ مسیح موعودجہاں مبعوث ہوگا اس کے قریب ہی ایک منارہ بھی ہوگا۔ اور یہ کہ امت مسلمہ نے اس ظاہری منارہ کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے دومرتبہ میناربھی بنائے لیکن مشیت ایزدی ان کے ساتھ نہ تھی کیونکہ وہ جگہ جہاں منارہ بنایاگیا وہ مسیح موعودؑکی جائے نزول نہ تھی اس لیے قضا و قدرسے وہ جلادیے گئے۔ اب اگرنبی اکرمﷺ کی منشائے مبارک اور پیشگوئی ایسے ظاہری مینارکی بابت تھی ہی نہیں تو حضورؑیہ فرماتے کہ امت مسلمہ کے ان لوگوں کی غلطی تھی وہ ان احادیث مبارکہ کے منشاء کوہی نہیں سمجھے کہ کوئی ظاہری مینارمقصودنہ تھا۔ جبکہ حضورؑ اس کی بجائے یہ لکھتے ہیں کہ وہ جگہ وہ نہیں تھی کہ جہاں مسیح موعودؑ کوآناتھا۔ اس لیے ان جگہوں کے مینارزمین بوس کردیے گئے۔ پھران تحریرات میں آپؑ اس مینارکی تعمیرکی ضرورت اور اہمیت اور افادیت تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اس کام کوایک عظیم الشان کام قراردیتے ہوئے ان لوگوں کی سعادت اور نصیبے کی خوشخبری دیتے ہیں کہ جواس کی تعمیرمیں حصہ لیں گے۔ پھراس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ خداکے حکم سے بنا رہا ہوں۔ ایک روایت میں تویہ بھی ہے کہ حضور ؑنے کاغذ پر نقشہ مینار کھینچا اور فرمایا کہ ’’مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ اِس قِسم کا مینار تم تیار کراؤ۔ ‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہؓ (غیر مطبوعہ)رجسٹر نمبر7صفحہ 345) پھر اس مینارکی تعمیرپراعتراض کرنے والوں کوگستاخ قراردیتے ہیں اور ایسے ناخلف اور بدنصیب قراردیتے ہیں کہ جوچاہتے ہی نہیں کہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئی پوری ہو۔ سوال تویہ ہے کہ حضورؑ توفرمارہے ہیں کہ مجھے خدانے یہ میناربنانے کاحکم دیاہے۔ اور 1905ء کے بدرمیں ایک بار پھراشتہارشائع ہوتاہے کہ مینارکی تعمیرکے لیے مزیدچندہ بھیجاجائے۔ لیکن مجدداعظم کے مصنف یہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی اشارۂ غیبی اورالقائے ربانی تھاکہ جس کی بنا پرآپؑ کومینارکی تعمیرسے روکا گیاتھا۔ یہ کون سا اشارہ غیبی تھا کہ جوآج تک صرف انہیں مصنف کے علم میں آیاہے۔ اورظاہرہے کہ یہ ایک مفروضہ ہے جومصنف کے اپنے ذہن کی ایک اختراع ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ اس مینارکوبننا تھاکہ خداکے حکم سے اس کوبنایاجارہاتھا۔ حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی پیشگوئی تھی کہ میرامہدی اور مسیح جس جگہ ہوگا اس کی نشانی یہ ہے کہ وہاں ایک سفیدمنارہ ہو گا۔ آج تک جومیناربھی اس پیشگوئی کوپوراکرنے کے لیے بنایاگیاوہ جلاکرراکھ کردیاگیا لیکن یہ وہ منارہ تھا کہ جس نے خودبن کرحاسدین ومخالفین کوجلاکرراکھ کردیا۔ اس مینار کومسیح موعودکے زمانۂ مبارک کی یادگار قراردیاگیاتھا۔ اس لیے اس یادگارنے بنناہی تھا۔ اور بدقسمتی ہے اس گروہ کی کہ جوان تمام مقدس ومتبرک یادگاروں سے محروم ہی ہوتا چلا گیا۔ سب سے پہلے وہ اس مقدس بستی سے محروم ہواکہ جواس کے رسول کا تخت گاہ(دافع البلاء، روحانی خزائن جلد18صفحہ 230)تھا۔ اس جنت نظیرقادیان کے ماحول سے محروم ہوئے تو اس بہشتی مقبرہ سے بھی محروم ہوگئے کہ جو خداکی وحی میں مثل الجنۃقراردیاگیااور جسے خدانے فرمایا کہ کل مقابر الارض لاتقابل ھذہ الارض، وہ گروہ ان برکات سے بھی محروم ہوگیا جواس مینارکی تعمیرکے ساتھ وابستہ تھیں جن کاظہورمینارکے بننے کے بعد سے شروع ہوناتھاوہ مینارکہ جس پر صدق نیت سے چڑھنے والے کے لیے خداکے مسیح نے رحمتوں کی نویدسنائی تھی۔ قادیان کے جن گلی کوچوں کے ذروں نےمسیحا کے قدم چومے تھے اس خاک سے محروم ہونے والے کہیں کے بھی نہیں رہے۔
بیٹھنے کون دے ہے پھراس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتاہے
خداکاوہ مسیح جوچودہ سوسال کے انتظارکے بعد آیا اس نے اپنی تمام تربرکات کواس مینارکے ساتھ وابستہ کردیاتھا۔ اس لیے اس مینارکوتوبنناہی تھا کیونکہ خداکے مسیح نے اس کے بارے میں یہ کہاتھاکہ ’’ابتداء سے یہ مقدرہے کہ حقیقت مسیحیہ کانزول جونوراور یقین کے رنگ میں دلوں کوخداکی طرف پھیرے گا منارہ کی طیاری کے بعدہوگا…اسی زمانہ میں جبکہ منارہ طیارہوجائے گا مسیحی برکات کا زوروشورسےظہوروبروزہوگا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ425-426)
جولوگ اس مینارسے ہی منکرہیں۔ جواس کواینٹ پتھرکی ایک تعمیرقراردے رہے ہیں وہ ان برکات کے وارث کیسے بن سکتے ہیں۔ اور قادیان کوچھوڑکرچلے جانے والے کون سی روح ساتھ لے کرگئے۔ قادیان کے منارۃ المسیح کی برکات، اس کی روشنی، اس کا نور دنیابھرکے دوسوسے زائدممالک میں پھیل رہاہے۔ مسیح موعودؑ کی یہ تمام تربرکات اور فیوض اسی محمودخلیفہ کے ذریعہ سے دنیامیں پھیلنی شروع ہوئیں جس نے خلیفۃ المسیح بنتے ہی سب سے پہلے منارۃ المسیح کی تعمیرکومکمل کیا۔ اور اس تعمیروتکمیل نے ثابت کردیا کہ خداکے اس بھیجے ہوئے فرستادے اور رسول کاجانشین یہ محمودہی تھا کہ خداکے مامورکے بتائے ہوئے اور چھوڑے ہوئے کام اس کے ہاتھوں سے مکمل کروائے کہ اب خداکی فعلی تائید بھی اس کے ساتھ ہے جیساکہ قولی تائیدونصرت۔
اصل بات یہ ہے کہ ہرکام کے لیے ایک وقت مقدر ہواکرتاہے۔ اوروہ اپنے وقت پرہی ہوتاہے۔ اوراس کی باتوں کے رازکوئی پابھی نہیں سکتا۔ بہت سے کام وہ علیم و حکیم خدااپنے رسولوں کے ہاتھ سے شروع کرواتاہے لیکن کبھی ان کی تکمیل ان کی زندگیوں میں ہونہیں پاتی۔ نبی اکرمﷺ کوقیصروکسریٰ کے محلات کی چابیاں عطاکی گئیں لیکن اس کی تکمیل آپؐ کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ میں ہی ہوئی۔ کچھ ایسی ہی تاریخ سلسلہ احمدیہ میں بھی دہرائی گئی۔ تصنیف وتالیف ہویاتجویزوتعمیر بہت سے کام ایسے تھے جوخداکے اس مسیح نے تجویزفرمائے یاشروع فرمائے لیکن ان کی تعمیل و تکمیل مَثِیْلُہٗ وَ خَلِیْفَتُہٗ (الموعود، انوارالعلوم جلد 17صفحہ 558)کے ذریعہ ہوئی۔ جوکہ حسن واحسان میں اس کانظیربھی تھا۔ اوراس کی ایک مثال یہ منارۃ المسیح بھی ہے کہ جو1903ء میں شروع توہوگیا لیکن اس کی تعمیرمیں التوا ہوگیا۔
اب یہ التوا کیوں ہوا؟ وہ علیم وحکیم ہستی مقدم ومؤخربھی ہے۔ جب چاہے کسی کام کوپہلے کردے جب چاہے پیچھے ڈال دے۔ وہ مبدء ومعیدبھی ہے۔ وہ جب چاہے جوچاہے فیصلہ کرتاہے اور جب چاہے اپنے اس حکم اور فیصلہ کومنسوخ کردے یااس سے بھی بہترلے آئے وہ زمین وآسمان کامالک اور بادشاہ ہے۔
مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ(البقرۃ: 107-108)
الٰہی مصالح اور حکمتوں کی قائل اور مشاہدہ کرنے والی قومیں مطہردلوں اور پاکیزہ عقلوں کے ساتھ تدبروتفکرکرتے ہوئے ایسے وجوہات اور اسباب کی جستجوکرتے ہوئے ان حکمتوں کوکبھی پابھی لیاکرتی ہیں لیکن اگرکچھ سمجھ نہ بھی آئے تو ملائکہ صفت دل اطاعت و فرمانبرداری اور تسلیم ورضا کے سجدےبجالاتے ہوئے یہ کہاکرتے ہیں کہ
سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ
اس لیے منارۃ المسیح کی تعمیروتکمیل میں روک اور التوا ہوایہ تو مسلمہ حقیقت ہے۔ لیکن کیوں ہوااس کے اسباب ووجوہات مختلف ہوسکتے ہیں۔ کسی کوکسی وجہ سے اتفاق ہوسکتاہے اور اختلاف بھی ہوسکتاہے۔ مثال کے طورپراگرکوئی یہ کہتاہے کہ مالی مشکلات کی بنا پرمنارۃ المسیح کی تعمیرعارضی طورپرالتوا کاشکارہوئی تو کہنے، سوچنے اور غورکرنے میں کوئی حرج تونہیں۔
ہاں اس توجیہ سے اختلاف کی گنجائش بھی ہے۔ کیونکہ دس ہزارروپے کاتخمینہ تھا ساڑھے چارہزارروپے تو خرچ بھی ہوچکے تھے۔ اور حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہدمبارک کے اس عرصہ میں بڑی بڑی عمارتیں تعمیربھی ہورہی تھیں اور ہوچکی تھیں۔ کئی دوسرے منصوبے رسالہ ریویو اور کارپردازمصالح قبرستان، بورڈنگ، سکول کالج وغیرہ بڑی شان کے ساتھ شروع کیے جاچکے تھے۔ مسجدمبارک کی توسیع جیساپراجیکٹ بھی پایہ تکمیل کوپہنچ چکاتھا۔ الدار کی توسیع، مہمان خانہ، مہمانوں کے لیےایک اورکنواں وغیرہ یہ سب وہ پراجیکٹ ہیں جو اسی آخری آٹھ دس سالوں کے بعد ہی شروع ہوئے اور مکمل بھی ہوئے۔ اس لیے منارۃ المسیح کی تعمیرکے لیے چندہ کی رقم مہیاہونا ایک مشکل امر تو کہا جا سکتاہے لیکن مسیح محمدی کے ان جاں نثاروں کے لیے ناممکن اور محال امرنہ تھا۔ اگر سیالکوٹ کاایک غریب لکڑی فروش اپنے گھرکی چارپائیاں اور مال ومتاع فروخت کرکے دو سوروپے سے زائد منارۃ المسیح کے لیے دے سکتاتھا، ایک غریب پٹواری اپنی عمربھرکی جمع پونجی منارہ کی تعمیرکے لیے پیش کرسکتاہے۔ حضرت ام المومنین اپنا مکان بیچ کرایک ہزارروپے دے سکتی ہیں تو نواب محمدعلی خان صاحبؓ، سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ، چودھری رستم علی صاحبؓ۔ شیخ رحمت اللہ صاحبؓ، اور حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ جیسے مخلصین کے لیے کہ جواپنی جانیں ہاتھوں میں لیے اس شمع کاطواف کرتے ہوئے یہ ورد کرتے رہتے تھے کہ جان ومال وآبروحاضرہیں تیری راہ میں ان مخلصین کے لیے ا ب باقی صرف سات آٹھ ہزارروپے کی رقم پیش کردیناکوئی مشکل امرنہ تھا۔ لیکن اصل بات یہی ہے کہ الٰہی مصلحتیں ہواکرتی ہیں۔ کوئی ایسی مصلحت آڑے آئی۔ ہاں یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ ایک امتحان تھا خالص اور ناخالص کا، کھرے اور کھوٹے کا۔
أَلَا إِنَّ الْمَدِيْنَةَ كَالْكِيرِتُخْرِجُ الْخَبِيْثَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَنْفِيَ الْمَدِيْنَةُ شِرَارَهَا، كَمَا يَنْفِي الْكِيْرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ
(مسلم کتاب الحج باب المدینہ تنفی شرارھا حدیث نمبر3352) قادیان وہ مدینۃ المسیح تھا کہ جس نے بھٹی کی مانندشریروں اوربدنصیبوں کونکال باہرکیا۔ 14؍مارچ 1914ء کو اس فضل عمرؓ، مصلح موعودؓ، خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خلافت کی مسندپرقدم رکھا۔ انجمن کاخزانہ جس میں کہ صرف چندآنے کی رقم تھی تقریباً سارے صیغے ہی مقروض تھے کہ 27؍نومبر1914ء میں اس اولوالعزم خلیفہ نے اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھ کر اس کام کو دوبارہ شروع کردیا اور1916ء کے ابتدا تک شروع رہ کر پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اس سے یہ بھی اشارہ ملتاہے کہ صرف روپے کی کمی ہی بنیادی وجہ نہیں ہوسکتی تھی۔
بہرحال اس دفعہ تعمیر کی نگرانی کے فرائض حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ کے فرزندحضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی نے سرانجام دیے۔ اس کے لیے اجمیر شریف سے بہترین سنگ مرمر مہیا کیا گیا۔ یہ خوش نما اوردلکش اورشاندار مینار (جو فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے )ایک سوپانچ فٹ اونچا ہے۔ اس کی تین منزلیں ایک گنبد اور بانوےسیڑھیاں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیر ینہ خواہش کے مطابق اس پر مخلصین چندہ دہندگان کے نام درج ہیں جنہوں نے منارہ کے لیے ایک ایک سوروپیہ چندہ دیا۔ اس پر ایک خوبصورت گھڑیال بھی نصب ہے اوربجلی کے قمقمے بھی آویزاں ہیں جو میلوں تک کے حلقہ کو روشنی پہنچاتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’جب مینارہ کاکام بندپڑارہا۔ ایک دن ایک شخص نے سوال کیا۔ حضوریہ مینارہ کب تیارہوگا۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایا۔ اگرسارے کام ہم ہی ختم کرجاویں تو پیچھے آنے والوں کے لئے ثواب کہاں سے ہوگا۔ ‘‘
(سیرت احمدؑ، مرتبہ قدرت اللہ سنوری صاحب صفحہ143)
(باقی آئندہ)