بستی کتنی دور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط سوم)
(2)استاذی المحترم حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مفتی سلسلہ
اب اپنے ایک اور مہربان استاد حضرت ملک سیف الرحمان صاحب کا تذکرہ کرنے لگا ہوں۔ آپ سے پہلی ملاقات تو یاد نہیں لیکن ظاہر ہے کہ جامعہ کی کلاس میں ہی انہیں پڑھاتے دیکھا اور سنا۔ آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ فقہ پر پورا عبور حاصل تھا۔ آپ نے کئی دفعہ اپنے احمدی ہونے کے واقعات بھی سنائے۔ آپ احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے مجلس احرار کی ذیلی تنظیم ’’انجمن سیف الاسلام‘‘ کے جنرل سیکرٹری تھے۔ احرار کانفرنس کے موقع پر قادیان آئے۔ اس دوران حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر حاضری بھی دی۔ اور پھر اللہ نے ایسی کایا پلٹی کہ 1935ء کے جلسہ سالانہ میں شرکت کر کے یکم جنوری 1936ء کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے جون 1947ء میں حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ کی وفات کے بعد آپ کا تقرر بطور مفتی سلسلہ فرمایا اور تا حیات آپ کے سپرد یہ خدمت رہی۔ حضرت سید میر داؤد احمد صاحب کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کو 1973ء میں جامعہ احمدیہ کا قائمقام پرنسپل مقرر فرمایا اور بعد ازاں آپ مستقل پرنسپل جامعہ احمدیہ مقرر ہوئے۔
آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے عالم باعمل، نہایت ہمدرد، مشفق اور مہمان نواز استاد تھے۔ آپ کے ساتھ جو وقت گزرا اس کی چند یادیں استفادہ کی غرض سے لکھتا ہوں۔
جامعہ میں پڑھانے کا انداز اور طریق
خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے بھی درجنوں شاگرد اس وقت دنیا میں پیغام حق پہنچانے میں مصروف عمل ہیں۔ آپ ایک پُرکشش، دل ربا اور وجیہ شخصیت کے مالک تھے۔ آپ باقاعدگی کے ساتھ اپنی کلاسز میں فقہ پڑھاتے تھے۔ وقت کی بھی خوب پابندی کرتے۔ چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی۔ پڑھائی کے دوران اگر کسی نے پوچھ لیا کہ اس بارے میں فتویٰ دیں تو فرماتے تھے کہ اس وقت میں آپ کی کلاس میں آپ کے استاد کی حیثیت سے ہوں۔ فتویٰ لینا ہے تو سوال لکھ کر دفتر افتاء میں دیں۔ ہاں یہاں سوال کریں اور خوشی سے کریں میں اس کا جواب دوں گا۔ لیکن فتویٰ نہیں۔ اس وقت میری رائے ہوگی، فتویٰ نہیں ہو گا۔
بظاہر یہ ایک معمولی بات ہے مگر اس میں بھی اصول اور عاجزی کےپہلو نمایاں ہیں۔ آپ ہمیں دراصل یہ سکھارہے ہوتے کہ فتویٰ لینے کا اَور طریق ہے اور استاد کی حیثیت سے آپ کے سوال کا جواب دے کر اپنی رائے دینااَور امر ہے۔ بہرحال یہ آپ کا ایک طریق تھا۔ جو سبق پڑھاتے اس پر مکمل عبور حاصل ہوتا۔ ہمیں تو اس وقت آپ کے علم کی گہرائی کا پتہ نہ تھا۔ نہ ہی پتہ تھاکہ ان علوم میں کس قدر گہرائی ہے۔ صرف مضمون کے نوٹس لے کر پاس ہونے کا خیال ہی غالب رہتا تھا۔
آپ کی مہمان نوازی
استاذی المحترم میں مہمان نوازی کا وصف بھی نمایاں تھا۔ مجھے نہیں یاد کہ آپ کے گھر گیا ہوں اور کبھی کچھ کھائے پیے بغیر واپس آیا ہوں۔ آپ کی بیگم صاحبہ بھی مہمان نوازی میں اول درجہ پر تھیں پھر صرف یہی نہیں بعض اوقات 5، 6 طلبہ (دوست) اکٹھے بھی ملنے جاتے تھے۔ کبھی پڑھائی کے لیے، کبھی کسی مسئلہ کے لیے۔ اس وقت بھی یہی عالم ہوتا تھا کہ آپ دل کھول کر مہمان نوازی کرتے۔ اور اگر ہم اصرار بھی کرتے کہ نہیں ہم نے جلدی واپس جانا ہے۔ تب بھی خشک میوہ مونگ پھلی اور ریوڑیاں سامنے ہوتی تھیں۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔
اعتکاف میں
خاکسار نے رمضان المبارک کے ایک مضمون میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ میں ایک دفعہ مسجد مبارک میں اعتکاف کرنا چاہتا تھا مگر کھانے کی دقت تھی۔ یعنی اس وقت دارالضیافت سے کھانا نہ آتا تھا اور جامعہ کے ہوسٹل سے منگوانا بھی مشکل تھا۔ خاکسار نے اس دقت کا آپ سے یوں ہی ذکر کر دیا کہ اعتکاف کی خواہش ہے لیکن یہ مشکل درپیش ہے۔ آپ نے فرمایاکہ اعتکاف کریں کھانے کی فکر چھوڑ دیں۔ ہمارے گھر سے آجایا کرے گا۔ میں نے اس پر کہا کہ پھر ایک اور درخواست بھی ہے۔ میری دادی جان نے مجھے دیسی گھی بھجوایا ہوا ہے۔ آپ کو وہ دے دیتا ہوں۔ اس گھی کے پراٹھے بنوا دیا کریں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اعتکاف کیا۔ اور کھانا آپ کے گھر سے آنے لگا۔ اعتکاف کے بعد خاکسار آپ کے گھر شکریہ ادا کرنے گیا۔ تو آپ نے واپسی پر دیسی گھی کی وہی بوتل کاغذ میں لپیٹ کر واپس کر دی۔ میں نے پوچھا یہ کیا؟ آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’شاہ جہاں ! ثواب لینا ہو تو پھر پوراہی لینا چاہیے۔‘‘
مکرم ملک صاحب خاکسار کو ہمیشہ ’’شاہ جہاں ‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔ آپ کے پیار کا یہ بہت نرالا انداز تھا۔ کہاں ملک صاحب کی شخصیت اور کہاں یہ عاجز۔ مگر آپ کا یہ پیارا انداز اور پیارا لقب ہمیشہ کانوں میں رس گھولتا تھا اور آپ سے جدا ہو کر کافی دیر تک اس کی لذت محسوس ہوتی تھی۔ ان بزرگوں کی ملاقات سے واقعی ایک روحانیت میں اور علم میں ترقی ملتی تھی۔
خط کا جواب
مجھے یاد نہیں کہ خاکسار نے محترم ملک صاحب کو خط لکھا ہو اور اس کا جواب نہ ملا ہو۔ ہر خط کا جواب دیتے تھے۔ اور بعض اوقات تفصیل بھی لکھتے۔ میدان عمل میں کئی سوالات درپیش آتے ہیں۔ اس وقت خاکسار جامعہ کے اساتذہ کی طرف ہی رجوع کرتا تھا۔ جن میں سے ایک مکرم ملک سیف الرحمان صاحب بھی تھے۔ آپ کینیڈا بھی تشریف لاتے۔ اپنے بچوں کے پاس قیام ہوتا تو اس وقت وہاں سے بھی خطوں کا جواب دیتے۔
فقہی مسائل پر بھی سوالات خاکسار بھیج دیتا تھا۔ لیکن یہ خیال رکھتا تھا کہ خط میں یہ نہ لکھوں کہ اس بارے میں اپنا فتویٰ دیں۔ ورنہ وہ خط دفتر چلا جاتا اور پھر وہاں سے جواب آتا۔ اس لیے خاکسار سیدھا آپ ہی کو لکھ دیتا۔ ایک دفعہ سود کے بارے میں لکھا۔ ایک دفعہ لاٹری کے بارے میں، ایک دفعہ تربیتی نقطہ ٔنگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ اگرچہ سفرکے دوران نماز قصر کی جاتی ہے۔ کیا مبلغ کو جب وہ تربیت کی خاطر اپنی جماعتوں کا دورہ کرتا ہے نمازیں قصر کرنی چاہئیں؟ آپ نے اس کا بڑا جامع و مانع جواب ارسال فرمایا۔
آپ ربوہ ہوتے، کینیڈا یا کہیں بھی خط کا جواب دینے کے بعد سب سے نیچے یہ بھی لکھتے کہ آپ میرے لیے دعا کرتے ہوں گے۔ میرے بیٹے ملک مجیب اور ان کی اہلیہ کے لیے خاص دعا کریں۔ اور باقی بچوں کے لیے بھی۔
سائیکل کی خریداری
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جامعہ کے تمام طلبہ کا اپنے تمام اساتذہ کے ساتھ جہاں دوستانہ تعلق تھا وہاں ان کی شفقت کی وجہ سے ان سے بے تکلفی بھی تھی۔ اور اپنی سب باتوں کو ہم بلاتکلف کہہ دیتے تھے۔ کیونکہ اساتذہ نے اپنی شفقتوں کی وجہ سے طلبہ کے دل میں اپنا احترام والدین جیسا بنا لیا تھا۔ کیونکہ ربوہ کے طلبہ تو اپنے گھروں میں رہتے تھے۔ جو لوگ باہر کی جماعتوں سے آئے ہوئے تھے وہ ہوسٹل میں رہتے تھے۔ اور اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور عزیزوں سے دور تھے۔ جب کبھی جامعہ میں چھٹیاں ہوتیں ان میں وہ جا کر اپنے والدین اور عزیزوں سے ملتے۔ اس وجہ سے ایسے طلبہ جو دوسرے شہروں سے آئے ہوئے تھے وہ اپنے ان بزرگ اساتذہ کرام کو اپنے والدین کی جگہ ہی سمجھتے تھے۔ یہ ایک بہت بڑی بات ہے جو ہر ادارے میں میسر نہیں اور نہ ہی کسی اور سکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ میں یہ بات پائی جاتی ہے۔ شاذ و نادر کے طور پر اگر ایسا ہو توالگ بات ہے۔
ہم اپنے اساتذہ کو جامعہ کے ماحول میں اساتذہ اور باہر والدین کے درجہ پر سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ بلاتکلف اپنی بات کہہ دیتے تھے۔
ایک دفعہ جب کہ خاکسار درجہ رابعہ میں تھا۔ اُن دنوں پڑھائی بھی بہت زیادہ ہوگئی تھی۔ ادھرپرنسپل صاحب کی طرف سے بڑی کلاسز کے طلبہ کو مسجد مبارک میں کم از کم ایک نماز جا کر پڑھنے کی ہدایت بھی تھی۔ جامعہ ہوسٹل سے روزانہ پیدل جانا قدرے مشکل لگ رہا تھا۔ اس کے علاوہ جامعہ کی اور بھی کئی مصروفیات ہوتی تھیں۔ تو وقت بچانے کی خاطر ایک دن بلاتکلف محترم ملک سیف الرحمان صاحب سے خاکسار نے ذکر کیا کہ وقت بالکل نہیں ہے اور مسجد مبارک بھی ایک نمازکے لیے جانا ہوتا ہے۔ پڑھائی بھی بہت زیادہ ہے۔ ایسے میں تو سائیکل ہونا چاہیے۔ فرمانے لگے کل میرے پاس آجائیں۔ میں اگلے دن گیا تو فرمانے لگے کہ میرا ایک ذاتی سائیکل کل سے ہی فارغ ہوا ہے کیونکہ دفتر نے مجھے نیا سائیکل دے دیا ہے۔ آپ اسے بازار لے جائیں اور دو تین سائیکل کی دکانوں پر جا کر دکھادیں اور جو قیمت وہ بتائیں مجھے آکر بتا دیں۔ میں وہ سائیکل دو دکانوں پر لے گیا۔ ایک سائیکل والے نے اس کی قیمت 100 روپے بتائی۔ دوسرے نے 80 روپے قیمت لگائی۔ میں نے جا کر محترم ملک صاحب کی خدمت میں بتا دیا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ آپ اسّی (80روپے)دے دیں۔ چنانچہ اس طرح آپ نے میری یہ مشکل بھی حل کر دی۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
علمی کارنامے
آپ کے شاگرد جو دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت اسلام بجا لارہے ہیں آپ کی کئی علمی تصانیف سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جن میں ’’فقہ احمدیہ‘‘(حصہ اول، دوم ) کی تدوین ہے۔ روزمرہ کے مسائل، فقہی مسائل کا حل ان میں موجود ہے۔ اور ایک عام احمدی بھی ان کتب سے فائدہ حاصل کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ آپ کا ایک اور علمی شاہکار ’’تاریخ افکار اسلامی‘‘ہےجو2018ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کے شروع میں ہی ناشر کی طرف سے جو نوٹ شائع ہوا ہے اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی آپ کی نسبت یہ بات درج ہے۔ حضوؒر فرماتے ہیں: ’’ملک صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی علم عطا فرمایا۔ غیر معمولی فراست عطا فرمائی۔ غیر معمولی اطاعت کی روح عطا کی اور ایسا حسین ذہن اور قلب کے درمیان توازن عطا کیاکہ جو شاذ و نادر بندوں میں پایا جاتا ہے۔ ایک بہت ہی دلربا وجود تھے…ملک صاحب کی زبان سے کبھی کسی نے ساری زندگی ایسا کلمہ نہیں سنا جس کے متعلق آپ کہہ سکیں کہ اس نے دل پر بوجھ ڈالا ہے…ایسے متبحر علماء دنیا میں کم کم پیدا ہوتے ہیں۔ ‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ3؍نومبر 1989ء )
آپ نے اسی کتاب میں نظام شریعت، شریعت اور فقہ کے مأخذ، فتاویٰ صحابہ، اجماع، اجتہاد کے ذرائع، اصول اور شرائط، قیاس، مقاصد شریعت اور مصالح، شرعی اور فقہی نظام کی تدوین کے لحاظ سے اہل سنت و الجماعت کی شاخوں کا ذکر، ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ کے بارے میں تفصیل، شیعہ فرقہ کے بارے میں، اس زمانے کی تحریکات، تین عظیم انسان موعود کے بارے میں (اول عظیم موعود حضرت عیسیٰ بن مریمؑ۔ دوسرے عظیم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور تیسرے عظیم موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام )۔ ختم نبوت، صداقت حضرت مسیح موعودؑ، آخری زمانے سے متعلق پیشگوئیاں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پاک جماعت کاقیام اور جماعت کی ترقی جیسے عناوین پر مشتمل ہے۔
آپ نے احادیث کا ایک بہترین مجموعہ ’’حدیقۃ الصالحین ‘‘کے نام سے بھی مرتب کیا۔ یہ ایک بلند پایہ حدیث کی کتاب ہے جو کہ مبلغین اور معلمین کے علاوہ ہر احمدی کے لیے بہت مفید اور مستند ہے۔ جس میں شریعت کے سب بنیادی احکامات آگئے ہیں۔ اور جماعت کے عقائد کے بارے میں احادیث اور ان کی مختصر تشریح ہے۔
مکرم محمد زکریا خاں صاحب آف ڈنمارک خاکسار کے کلاس فیلو ہیں۔ ان سے حضرت ملک سیف الرحمان صاحب کے بارے میں پوچھ رہا تھا تو وہ کہنے لگے کہ جب ملک صاحب کوئٹہ تشریف لاتے تو شیخ محمد حنیف صاحب کی کوٹھی پر قیام فرماتے تھے۔ زکریا خاں صاحب بھی چونکہ کوئٹہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ کہتے ہیں کہ مجھے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملتا۔ اور کتاب حدیقۃ الصالحین کے سلسلہ میں مجھے بھی ان کے ساتھ خدمت کرنے کا موقع ملا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک صاحب بہت مہمان نواز تھے۔ کچھ طلبہ تو ملک صاحب کے گھرصرف مٹھائی کھانے ہی جایا کرتے تھے۔ ملک صاحب نے اپنے پلنگ کے نیچے بیٹھک میں مٹھائی کے ڈبے رکھے ہوتے تھے اور جب یہ طلبہ جاتے تو انہی ڈبوں سے مٹھائی سے ہماری ضیافت ہوتی تھی۔ اور ہم مزے لے لے کر کھاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ (آمین)
(3)استاذی المکرم مولانا محمد احمد صاحب جلیل۔ مفتی سلسلہ احمدیہ
مکرم استاذی المحترم کا شمار ہمارے جامعہ کے ہر دلعزیز اساتذہ میں ہوتا ہے۔ آپ جہاں بہت بڑے عالم تھے۔ وہاں ہی عجز و انکسار کا بھی مجسمہ تھے۔ ہمیں آپ نے بخاری شریف پڑھائی ہے۔ ہر طالب علم آپ کی گھنٹی کا منتظر رہتا تھا۔ کیونکہ آپ سے علم حاصل کرنے کی جستجو کے علاوہ آپ کا مزاح، مسکرا کر ملنا، آہستگی اور ملائمت سے بات کرنا، بر موقع اشعار سنا دینا، لطائف وغیرہ سے ہر قسم کی بوریت دور ہوجاتی تھی۔ آپ کے اندر خشکی نام کی بھی نہ تھی۔ ایک اور بات بھی خاکسار نے یہ مشاہدہ کی کہ اگر کسی طالب علم کو مضمون سمجھنے میں دقت ہوتی تو آپ اسی وقت جہاں بھی ہوتے۔ اس کو بٹھا کر پڑھانا شروع کر دیتے تھے۔ تاکہ اس کی پڑھائی میں ہرج نہ ہو اور طالب علم کے وقت کا خاص خیال رکھتے۔
نماز باجماعت کا اہتمام
آپ کی منجملہ خوبیوں میں سے ایک بہت بڑی خوبی اور وصف جو نمایاں تھا وہ نماز باجماعت کا ہے۔ اگر کسی وجہ سے آپ کی نماز باجماعت رہ گئی ہے تو ایسے کسی شخص (عموماًطالب علم )کی تلاش رہتی کہ جس نے ابھی نماز باجماعت نہ پڑھی ہو۔ اور اس میں آپ بہت حد تک کامیاب بھی ہوجاتے۔ اُسے کہتے کہ وہ امامت کرائے اور اس کی اقتدا میں آپ نماز باجماعت پڑھتے۔ کوشش بھی ہوتی تھی کہ نماز کا فریضہ باجماعت ہی ادا کریں۔ رمضان المبارک میں مَیں نے بہت اہتمام کے ساتھ آپ کو نہ صرف پانچوں نمازوں کا باجماعت قیام کرتے دیکھا بلکہ نماز تراویح کا بھی اہتمام فرماتے۔ آپ کی رہائش جامعہ کے آخری کوارٹر میں ہوتی تھی۔ آپ پیدل مسجد مبارک جاتے۔ باوجود پیرانہ سالی کے روزانہ نماز تراویح میں شریک ہوتے۔ اور کھڑے ہو کر ساری نماز ادا کرتے۔ کبھی بیٹھ کر نماز پڑھتے میں نے آپ کو نہیں دیکھا۔ تراویح کے بارے میں فرماتے تھے کہ ایک تو قرآن سننے کا موقعہ ملتا ہے۔ قرآن کریم سننا رحمت کا باعث ہے۔ دوسرے پیدل چل کر آنے کا ثواب ہے۔
مہمان نوازی
آپ کی مہمان نوازی بلاتفریق و امتیاز ہوتی۔ آپ کا گھر ہر کسی کے لیے کھلا رہتا۔ لیکن جامعہ کے طلبہ تو آپ کی اس صفت اور وصف سے زیادہ حصہ لیتے تھے۔ اس میں آپ کے ساتھ آپ کی اہلیہ صاحبہ کا بھی خاص حصہ تھا۔ آپ تو طلبہ کو گھر لے جاتے تھے اور اندر جا کر بیگم صاحبہ کو کہتے تھے کہ اتنے لڑکے آئے ہیں بس پھر ان کا کام شروع ہوجاتا تھا۔ ہم سردیوں کے دنوں میں اکثر جامعہ کی تعلیم کے دوران وقفے میں آپ کے ساتھ گھر گئے۔ جس میں زکریا خان صاحب، حامد کریم صاحب، رشید ارشد صاحب اور خاکسار کے علاوہ کچھ اور دوست بھی ہوتے تھے۔ 15، 20 منٹ کے اندراندرکبھی سادہ پراٹھے اور کبھی مولیوں والے پراٹھے، چائے کے ساتھ ناشتہ کرتے تھے۔ ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا ہے۔ نہ ہی آپ نے اور نہ ہی آپ کی بیگم صاحبہ نے کبھی اس پر ملال یا غصے کا اظہار کیا۔ ایک دفعہ تو لطیفہ ہوا کہ ہم جب پراٹھے اور چائے کا ناشتہ کر رہے تھے تو تھوڑی دیر میں مولوی صاحب ایک نیا کپ ہاتھ میں لیے نمودار ہوئے۔ اور کہنے لگے کہ ’’منڈیو اے نہ سمجھیو ساڈے گھر نویں نویں کپ چا دے نئیں۔ اے ویکھ لوو۔ نویں کپ وی ہیں نیں۔‘‘
’’منڈیو‘‘ پیار سے آپ لڑکوں کو کہتے تھے کہ ہمارے گھر چائے کے نئے کپ بھی ہیں۔ یہ دیکھ لو۔ اور ہم کہتے کہ چلو ٹھیک ہے اگلی دفعہ نئے کپوں میں چائے پئیں گے۔ اور سب مسکرا دیتے اور آپ مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیتے۔
آپ ایک دفعہ ہوسٹل جامعہ کے سپرنٹنڈنٹ بھی بنے۔ محترم میر داؤد احمد صاحب کا اس سے منشا یہ ہوگا کہ محترم مولوی جلیل صاحب بزرگ اساتذہ میں سے ہیں۔ اس طرح طلبہ کو بزرگ کی صحبت میسر آنے کے ساتھ ساتھ انہیں علمی ماحول بھی میسر آجائے گا۔ آپ بعض اوقات پڑھانے کی غرض سے اور بعض اوقات ایسے ہی لڑکوں کو ٹک شاپ پر لے جاکر چائے وغیرہ بھی پلا دیتے تھے۔ گویا مہمان نوازی صرف گھر تک ہی محدود نہ تھی۔ باہربھی آپ اس کا اہتمام کرتے تھے۔ ایک دفعہ جب خاکسار نے جامعہ کا ہوسٹل چھوڑا جس کا ذکر گذشتہ قسط میں کرچکا ہوں تو خاکسار نے آپ کو اپنے گھر دعوت پر بلایا۔ ان کے ساتھ شام سے آئے ہوئے ایک اور دوست تھے جن کے ساتھ خاکسار کو عربی بولنے کا شوق تھا۔ منیر الحصنی صاحب بھی تھے۔ ہم نے بکری کے پائے بھی بنائے۔ وہ بہت شوق سے کھائے۔ اور پھر جب کبھی بھی ملنا ہوتا تو آپ اس کا ذکر ضرور کرتے۔ جامعہ کے طلبہ کے ساتھ بہت بے تکلفی تھی۔ انہیں ساتھ بٹھاتے علمی مجلس کرتے۔ صحابہ کرام کے واقعات بھی سناتے رہتے تھے۔
خطوں کا جواب
خاکسار نے جامعہ سے فراغت کے بعد اپنے اکثر اساتذہ کرام کے ساتھ تعلق رکھا۔ اس زمانے میں خط ہی لکھا جاسکتا تھا۔ چنانچہ پاکستان میں جہاں جہاں بھی کام کرنے کی سعادت ملی افریقہ اور پھر امریکہ میں جب بھی خاکسار نے خط لکھا آپ نے بڑی تفصیل کے ساتھ جواب لکھا۔ اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ بعض اوقات ربوہ کے لیل و نہار بھی لکھ دیتے تھے۔ جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں خط میں مجھے عزیزم’’معصوم شاہ‘‘ کے لقب سے یاد کرتے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ آمین
(4)استاذی المحترم جناب قریشی نور الحق تنویر صاحب
جامعہ احمدیہ کے ایک اور محسن و مشفق استاد مکرم جناب قریشی نور الحق تنویر صاحب تھے۔ آپ اکثر اچکن پہن کر جامعہ تدریس کے لیے سائیکل پر تشریف لاتے تھے۔ بہت سنجیدہ لیکن ہنس مکھ تھے۔ آپ کے چہرے پر متانت کے ساتھ بہت لطافت اور معصومیت اور مسکراہٹ رہتی تھی۔
اکثر اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ طلبہ کی فلاح و بہبود اور انہیں مؤثر اور مفید وجود بنانے کی ہر وقت فکر رہتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے زمانے میں خدام الاحمدیہ کی مرکزی عاملہ اور انصار اللہ میں بھی خدمات بجا لاتے رہے۔
طلبہ جامعہ احمدیہ آپ کا بہت ادب اور احترام کرتے تھے۔ آپ کو عربی زبان پر بہت عبور حاصل تھا۔ ہم نے آپ سے عربی ادب ہی پڑھا ہے۔ اپنی گھنٹی میں ہمیں (جو کہ قریباً 6سال کا عرصہ بنتا ہے) آپ عربی بولنے پر مجبور کرتے تھے۔ عربی نہ بولنے پر ہمیں جرمانہبھی ہوتا تھا۔ اپنے پڑھانے میں بھی بہت سنجیدہ تھے۔ ہمدرد تھے اور تدریس کے دوران ادھر ادھر کی گپیں مارنا یا وقت ضائع کرنے کے بہت خلاف تھے اور ہمیشہ ہمیں یہی تعلیم بھی دی اور یہی انہوں نے خود بھی کر کے دکھایا۔
بیک وقت جامعہ میں تدریس کے علاوہ اور بھی بہت ساری خدمات آپ کے سپرد تھیں۔ ناظم امتحانات بھی تھےجو اپنی ذات میں ایک بہت بڑا کام ہے۔ پھر جامعہ ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہےجواور بھی مشکل کام تھا۔ ہر بچےکی نگرانی کرنا۔ آپ کی تحریر بھی کمال کی تھی جیسے موتی پرو دیے گئے ہوں۔ پڑھانے کا انداز بھی ایسا تھا کہ طالب علم اکتاہٹ محسوس نہ کرتے۔ اور یہی طریق سمجھانے کا بھی تھا۔
بہت صبر کرنے والے وجود
آپ کی ایک صفت جس نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا وہ آپ کی قوتِ برداشت اور صبر تھا۔ جو مرضی ہوجائے ہمیشہ خاموشی سے صبر کر لیتے تھے۔ غصے کا اظہار نہ الفاظ میں اور نہ ہی چہرے سے ہونے دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عجیب خلقت سے نوازا تھا۔ میں نے شاذکے طور پر ہی ایسے بزرگ دیکھے ہیں جن میں اس قدر غصےکو برداشت، صبر اور کوئی ردّعمل نہ دکھانےکے اوصاف پائے جاتے ہوں۔
چند سال پہلے میں ربوہ گیا تو آپ کی اہلیہ محترمہ سے بھی ملا۔ کیونکہ میری عادت میں یہ بات شامل ہے کہ میں اپنے فوت شدہ اساتذہ کے احترام میں ان کے اہل خانہ سے ملتا ہوں۔ اور بہشتی مقبرہ میں اپنے ہر استاد کی قبر پر جا کر دعا بھی کرتا ہوں۔
آپ کی اہلیہ صاحبہ نے مجھے ان کی چند باتیں بتائیں، کام کا طریق بتایا نیز ان کے اسی خلق کی تعریف بھی کی۔ آپ کے بیٹے مکرم فرحان قریشی صاحب سے ملاقات کی انہوں نے بتایا کہ ابا جان قاضی بھی تھے۔ ایک دفعہ کسی مقدمہ کا فیصلہ کیا۔ جس شخص کے خلاف فیصلہ ہوا۔ اس نے کہیں سے ہمارے گھر کا بھی پتہ نکال لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ابا جان ابھی جامعہ سے آئے ہی تھے گرمیوں کے دن تھے۔ وہ شخص جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا اس نے آپ کو دیکھتے ہی شدید غصہ کا اظہار کیا۔ مگر مجال ہے کہ ابا جان نے کسی رد عمل کا اظہار کیا ہو۔ آپ اسے یہی کہتے رہے کہ آؤ اندر آؤ؟ پانی پیو، شربت پیو۔ آپ اتنی دور سے آئےہیں آپ اندر آجائیں اور آرام سے بات کریں مگر وہ غصہ کا اظہار کرکے تو خود ہی چلا گیا ابا جان نے انہیں کچھ نہیں کہا سوائے اس کے کہ وہ اندر آجائے اور کچھ کھا پی لے۔
میں جب آپ کی اہلیہ صاحبہ سے ملنے گیا تو انہوں نے میرے آنے سے پہلے اپنے بچوں کو بھی بلا لیا۔ ساری فیملیز اکٹھی ہوگئیں اور ہم سب قریشی صاحب کی باتیں کر کے بہت محظوظ ہوئے۔ میرے لیے تو یہ سب جذباتی منظر ہوگئے کہ سب پیار سے اکٹھے ہوئے اور خاکسار کے ساتھ محفل لگائی۔
مکرم سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے آپ کواپنے گروپ کا انچارج بھی بنایا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ آپ طلبہ جامعہ کی اخلاقی حالت کی بھی نگرانی کیا کرتے تھے۔ طلبہ کو کلاس میں جو نصائح کرتے ان میں ایک یہ بھی تھی کہ سر پر ٹوپی لے کر بازار جانا ہے۔ اس کی نگرانی بھی کرتے اگر آپ کسی طالب علم کو بازار میں ننگے سر دیکھتے تو اگلے دن اس کو تنبیہ بھی کرتے تھے۔
بعض اوقات ہوسٹل میں نمازوں کے بعد آپ اخلاقیات پر درس دیتے، طلبہ کو ان کی ذمہ داریاںکو بھی سمجھاتے کہ جب میدان عمل میں جانا ہے تو تمہارا وطیرہ اور کارکردگی کا لوگ گہری نظر سے جائزہ لیں گے اس لیے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرو۔
آپ کو پڑھاتے پڑھاتے اگر جمائی لینے کی ضرورت پڑتی تو فوراً اپنے دائیں ہاتھ کاپچھلا حصہ منہ کے سامنے کر لیتے تاکہ آپ کا منہ اور دانت کسی کو نظر نہ آئیں۔
آپ ایک عظیم انسان تھے۔ انتہائی ہمدردی کرنے والے استاد اور مایہ ناز عربی دان، قرآن و سنت کے عامل۔ امام وقت کی باتوں اور احکامات پر کما حقہ عمل کرنے والے تھے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اپنے نام ’’نور الحق‘‘ کے اسم بامسمیٰ تھے۔ اور ان کی یہی خواہش ہمیشہ جوان رہتی تھی کہ طلبہ بھی نورالحق بنیں یعنی حق کاپیغام اس رنگ میں لوگوں تک پہنچائیں کہ وہ واقعی ایک نور کی حیثیت رکھتا ہو۔
آپ کے پڑھانے کا میں نے ذکر کیا۔ وہ گھر سے اپنے مضمون کی تیاری کر کے آتے تھے۔ بلکہ یہ بیان کرتے تھے کہ خواہ میں نے یہ اسباق کتنی دفعہ کیوں نہ پڑھائے ہوں پھر بھی جب میں کلاس میں آتا ہوں اور میں نے وہی سبق پڑھانا ہوتا ہے تب بھی اسے دیکھ کر، سمجھ کر اور خود پڑھ کر آتا ہوں۔
اپنے مضمون کے الفاظ کی وضاحت بھی عربی زبان میں ہی کیا کرتے تھے۔ طلبہ کے اندر عربی بولنے کی مشق اور انہیں اگر عربی بولنے کا شوق پیدا ہوا تو اس میں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اور یہ آپ کا کارنامہ بھی ہوتا تھا کہ طلبہ عربی بولنے لگ جائیں۔ بےشک کوئی طالب علم دوران تدریس بار بار کوئی سوال کرتا توآپ کبھی بُرا نہ مناتے۔
رمضان المبارک میں درس القرآن
آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بھی دی ہوئی تھی کہ مسجد مبارک میں رمضان کے دنوں میں اصلاح و ارشاد کی طرف سے تین دن تک ایک ایک پارے کا روازنہ درس دیتے تھے۔ تلاوت نہایت سریلی اور پیارے انداز میں کرتے۔ ترجمہ اردو میں بہت سلیس کرتے تاکہ ہر ایک کو بات سمجھ آجائے۔ آپ بھی وقت کے بہت پابند تھے۔ لیٹ آنا یا لیٹ ہونا بالکل پسند نہ تھا۔ آپ ہائیکنگ پر بھی جاتے تھے۔ مکرم میر داؤد احمد صاحب آپ کو ہائیکنگ کا نگران بھی بناتےتھے۔ دو تین ہفتے اس طرح طلبہ کو آپ کی تربیت میں رہ کر مزید سیکھنے کا موقعہ مل جاتا تھا۔
بے شک آپ مربیان اور واقفین زندگی کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔ اور انہوں نے اپنے لیے طلبہ کے دل میں ایک مقام پیدا کیا ہواتھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین۔
(جاری ہے)
اگلی قسط: بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط چہارم)
گذشتہ قسط: بستی کتنی دُور بسا لی دل میں بسنے والوں نے (قسط دوم)