دسمبر اور اداسی کا چولی دامن کا ساتھ ہے
انجیلا میرکل صاحبہ نے اس تقریب کے لیے جو گانے پسند کیے کہ اس پہ گائے جائیں ان میں سے ایک Großer Gott , wir loben Dich ’’عظیم خدا ہم تیری تعریف کرتے ہیں‘‘ تھا۔
مکرمہ درثمین احمد صاحبہ جرمنی سے تحریر کرتی ہیں:
’’کہا جاتا ہے کہ دسمبر اور اداسی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ اپنے ساتھ جاڑے کی خنک شامیں، یخ بستہ ہوائیں اور بہت سی دل کو گرما دینے والی یادیں لیے چلا آتا ہے۔سال کا آخری مہینہ ہونے کے ناطے دسمبر ایک طرف جدائی اور ہجر کا استعارہ ہے تو دوسری جانب نئے آنے والے سال کی اُمید بھی۔ شاید اسی جذباتی وابستگی کے باعث دسمبر کے مہینے کو شاعروں کی کچھ زیادہ ہی توجہ حاصل رہی اور کئی ایک شعراء نے دسمبر کو اپنی شاعری میں جگہ دی مگر آج میرا موضوع سخن شاعروں اور دسمبر کے حوالے سے شاعری نہیں ہے بلکہ ہماری ایک بہن جو کہ ایک بہت ہی اچھی ڈاکٹر اور مضمون نگار ہیں ان کے سٹیٹس پر پڑھی جانے والی تحریر سے ہے جس میں انہوں نے جرمنی میں دسمبر کی اداس اور یخ بستہ شام کو ایک خاتون کے نام سے منسوب کیا جنہیں دنیا انجیلا میرکل کے نام سے جانتی ہے ۔وہ لکھتی ہیں :
’’2؍دسمبر2021ءکا دن یادگار اور اداس دن تھا۔ جب جرمن قوم نے ایسٹ جرمنی کے ایک پادری کی بیٹی ، فزکس میں ماسٹر کرنے والی ،16 سال تک بطور جرمن چانسلر کے اپنے ملک کے لیے بہت محنت، انصاف اور غیر جانب داری سے کام کرنے والی خاتون محترمہ انجیلا میرکل صاحبہ کو وزارت دفاع کی عمارت میں ایک سادہ اور پر وقار تقریب میں ان کے عہدے سے الوداع کہہ دیا۔انتہائی سادہ زندگی گزارنے والی، سرخ گلاب پسند کرنے والی ، بہت مضبوط اعصاب کی مالک انجیلا میرکل صاحبہ اپنے جذبات کو زیادہ ظاہر کرنا پسند نہیں کرتیں لیکن ان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تو تھی۔انہوں نے اپنی اس تقریب کے لیے جو گانے پسند کیے کہ اس پہ گائے جائیں ان میں سے ایکGroßer Gott , wir loben Dich ’’عظیم خدا ہم تیری تعریف کرتے ہیں‘‘ تھا۔ ایسے وقت میں جب لوگ اپنی تعریف سننا چاہتے ہیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی۔ اللہ ان کو جزا دے ۔ آمین‘‘
محترمہ کے یہ الفاظ میرے دل میں اتر گئے اور گذشتہ دو تین روز سے جو کیفیت میرے دل میں پیدا ہورہی تھی ان جذبات کو اظہار کی زبان مل گئی۔جرمنی میں مقیم مجھ سمیت بہت سے لوگ اپنی اس راہ نما کو ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔کیونکہ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو خدا کی تعریف کو ہی مقدم سمجھتے ہیں اور اس کے بندوں سے بے لوث محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی کی تاریخ میں وہ پہلی حکمران خاتون ہیں جنہیں انتہائی عزت و احترام سے فوجی اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا ہے ۔ انجیلا میرکل کا نام دنیا کی طاقتور ترین خواتین میں سر فہرست ہے۔ان کے دو جملے مقبول عام ہوئے۔ Der Islam gehört zu Deutschland یعنی ’’اسلام جرمنی سے وابستہ ہے اس کا حصہ ہے‘‘ اور Wir schaffen das ’’ہم یہ کر لیں گے‘‘۔ یہ جملہ وہ کرائسس کے موقع پہ کہتیں اور اللہ کے فضل سے وہ ہر مشکل سے با ٓسانی نمٹتی بھی رہیں ۔ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کے معاملے میں نہ صرف کھلے دل کا مظاہرہ کیا بلکہ پسند نہ کیا کہ ان کے ملک کے دروازے پہ آئے ہوئے لوگ پناہ کی تلاش میں مر جائیں اور نہایت فراخدلی سے اپنے ملک کےدروازے ان پناہ گزینوں کے لیے وا کیے۔ان کے اس عمل کو جہاں عالمی سطح پر پذیرائی ملی وہیں اپنے لوگوں میں شدید مخالفت کا سامنا بھی ہوا مگر انہوں نے یہ جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے کسی بھی قسم کے دبائو میں آنا قبول نہیں کیا ۔ اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اس مشکل وقت میں اپنا دوستانہ چہرہ دکھانے سے کترانا ہے تو پھر یہ میرا ملک نہیں ہے۔چھ برس بعد آج میرکل کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو امام حاجت مندوں،ناداروں اور غریبوں کے لیے اپنا دروازہ بند رکھتا ہے ۔اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات کے لیے آسمان کا دروازہ بند کردیتا ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو سننے کے بعد حضرت معاویہ ؓنے ایک شخص کو مقرر کردیا کہ وہ لوگوں کی ضروریات اور مشکلات کا مداوا کیا کرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے۔(حدیقۃ الصالحین حدیث :648صفحہ 614)
اللہ تعالیٰ جرمن حکومت کو اور ان تمام اداروں کو جزا دے جو دن رات مہاجرین کی بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے دل ان کے لیے دعا گو ہیں۔
جرمنی میں مقیم چالیس لاکھ مسلمان اور ان کا مذہب اس ملک کا اہم حصہ ہیں اور ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمیں انصاف اور احسان کرنے والے حکمران ملتے رہیں۔ اللہ کرے کہ ہم اس ملک کے لیے مفید وجودثابت ہوں۔ جرمنی اسلام سے وابستہ ہو۔اللہ تعالیٰ کبھی ہم پر ایسے لوگ مسلط نہ کرے جو رحم نہ کریں ۔ اللہ کرے کہ ہمارے ملک پاکستان کو بھی ایسے حکمران ملیںتاکہ وہاں کی سڑکوں پر اسلام اور انصاف کے نام پرمظالم نہ ہوں ۔آمین
(نوٹ: ادارہ الفضل انٹرنیشنل کا اس کالم کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں)
٭…٭…٭