میری سارہ (قسط نمبر 3)
(رقم فرمودہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ھُوَ النَّاصِرُ
میری سارہ
مرحومہ ادب کے مقام پر کھڑی تھیں
بیوی میاں کے تعلقات ایسے ہیں کہ کبھی نہ کبھی ان میں بعض امور کے متعلق رنجش بھی ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے کبھی کوئی چھوٹی موٹی رنجش مرحومہ کوبھی مجھ سے ہوئی ہو، ممکن ہے کبھی کسی امر میں انہوں نے کامل فرمانبرداری نہ کی ہو لیکن عام طور پر ان کا طریق نہایت فرمانبرداری کا تھا۔ وہ مجھے تکلیف سے بچانے کیلئے دوسری بیویوں کے مقابل میں خود تکلیف برداشت کر لیتی تھیں اور کبھی اونچی آواز سے یا بے ادبانہ لہجہ میں وہ مجھ سے ہمکلام نہیں ہوئیں ۔ ادب کا یہ مقام ایسا اعلیٰ تھا کہ ان کے رشتہ داروں کی طرف سے بھی ہمیشہ مجھ سے ادب کا ہی معاملہ رہا۔ میری کوئی بیوی ایسی نہیں جسے میں اس امر میں ان کے مقابل پر رکھ سکوں ۔ بعض نے خوداس نظریہ کو نظر انداز کر دیا کہ ان کا خاوند صرف ان کا خاوند نہیں بلکہ خلیفہ وقت بھی ہے اور یہ کہ ان کی بے ادبی دوسرے لوگوں کے دلوں میں بھی بے ادبی کے احساسات پیدا کرسکتی ہے، بعض کے رشتہ داروں کی حرکات میرے لئے تکلیف کا موجب ہوئی ہیں اور بعض دفعہ تو ایسی سخت کہ دشمن سے دشمن کا فعل ان کے افعال کے مقابل میں حقیر ہو گیا ہے لیکن سارہ بیگم کا اپنا رویہ یا ان کے رشتہ داروں کا رویہ نہایت اعلیٰ اور ہمیشہ مقام ادب پر قائم رہنے والا رویہ تھا۔ ان کی طرف سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جس میں گستاخانہ یا بے ادبا نہ رنگ ہو اور ان کے رشتہ دار کبھی مجھے اپنا عزیرسمجھ کر گستاخ نہیں ہوئے ۔ وہ مجھے خلیفہ ہی سمجھتے رہے اور اسی رنگ میں انہوں نے مجھ سے ہمیشہ سلوک کیا۔ اس خاندان کا یہ فعل ایسا قابل قدر ہے کہ میں سمجھتا ہوں انہیں ضرور اس دنیا اور آخرت میں اعلیٰ مدارج پر فائز کرے گا اور ان کی نسلیں اس عمل کا نیک بدلہ پائیں گی ۔ میرا علم یہی ہے آگے اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔ سارہ بیگم کے استاد ماسٹرمحمدحسین صاحب کی گواہی بھی اس کے عین مطابق ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’ایک بات جس نے میرے دل پر گہرا اثر کیا، وہ یہ تھی کہ آپ کی عظمت اور جبروت کے گہرے نقوش وہ اپنے دل پر لئے ہوئے تھیں اور کبھی پڑھنا نہیں شروع کیا جب کہ کسی نہ کسی رنگ میں اس بات کا اثر مجھ پر نہ پڑا ہو کہ ان کو خدا نے وہ نظر تعمق بخشی ہے جس سے انہوں نے حضور کی شخصیت کے عمق کو ناپا ہے اور آپ کی وسعت کا نظارہ کیا ہے اور جب بھی بیماری کی حالت میں انہوں نے پڑھنا تو میں نے کہنا کہ آپ کیوں نہیں پڑھنا چھوڑ دیتے تو ہمیشہ یہ جواب ملتا کہ میں حکم کی بندی ہوں ، میری کوئی چیز بھی اپنی نہیں‘‘۔
حضور! میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میری عقیدت جو آپ کی ذات سے ہے، اگر اس میں شعور بخشا تو مرحومہ کے اس علم نے جو اس کو خدا نے آپ کے متعلق عطا فرمایا تھا ’’۔پھر لکھتے ہیں کہ جب امتحان کے سنٹر کا سوال تھا تو میں نے ان سے جب تاکید سے کہا کہ وہ حضور سے کہیں تو کہنے لگیں۔
’’ماسٹر صاحب! آپ کو کیا علم ہے کہ میری طبیعت پر حضرت صاحب کا رعب کتنا غالب ہے۔ میں تو ان کی موجودگی میں مرعوب رہتی ہوں جب میں اپنے آپ کو دیکھتی ہوں اور پھر ان پر نظر ڈالتی ہوں تو شرمندہ ہو جاتی ہوں‘‘۔ پھر لکھتے ہیں کہ
’’وہ فیل ہونے سے بڑی گھبراتی تھیں ۔ میرے پوچھنے پر کہ وہ آخر اتنا کیوں گھبراتی ہیں؟ تو اس کا جواب بھی یہی دیتیں کہ میرے فیل ہونے سےحضرت صاحب کی تجاویز فیل ہوتی ہیں۔‘‘
مرحومہ کا علم سیکھنے کا شغف اور اخلاق
مرحومہ کو علم کے حصول کے لئے جوشغف تھااس کے متعلق انہی ماسٹر صاحب کا ایک اور فقرہ درج کرتا ہوں وہ لکھتے ہیں۔
’’میں نے ہمیشہ دیکھا کہ مطالعہ میں خود فراموشی کی سی حالت رہتی تھی اور ایسا احساس ہوتا تھا کہ واقعی وہ ایک مشین ہیں اور کوئی چلانے والا ہے جس کے اشارہ پر وہ چل رہی ہیں۔‘‘
ان کے ایک اور استاد چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے چھوٹے بھائی چوہدری عبداللہ خاں صاحب بی ۔ اے لکھتے ہیں ۔
’’آج چوہدری فضل داد صاحب کلرک قبلہ برادرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے خط سے معلوم ہوا ہے کہ محترمہ سیدہ آپا جان سارہ بیگم صاحبہ اپنے خالق و مالک حقیقی سے جاملی ہیں ۔ انا لله وإنا إليه راجعون حضور ! جس قد رصدمه حضور کے گنہ گار خادم اور آ منه (ان کی اہلیہ ) کو ہوا ہے وہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ آمنہ نے جس وقت سے سنا ہے وہ پڑی ہوئی ہے اور رورہی ہے۔ حضور کا خادم فوراً حاضر ہوتا اور محترمہ سیدہ موصوفہ مرحومہ خلد اللّٰه مکانھا کے مزار مبارک پر پہنچتا مگر یہ گناہ گار شومئی قسمت سے اس وقت فمِ معدہ کے دورہ میں مبتلاء بستر پر پڑا ہے اور اسی حالت میں یہ عریضہ لکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔ آمین ۔ جنازہ غائب انشاء اللّٰه پڑھا جائے گا ۔ حضور ! حضور کی ازواج مطہرات تمام کی تمام ہم گنہ گاروں کیلئے بے حد قابلِ عزت و تکریم ہیں اور مجھ گنہ گار کے دل میں مرنے تک یہ عزت قائم رہے گی مگر آ پامحترمہ سیدہ حضرت امۃ الحی مرحومہ خلد اللّٰه مكانها کے بعد آپا جان محترمہ سیدہ سارہ بیگم صاحبہ مرحومہ خلد اللّٰه مكانها ایک لعلِ بے بہا اور درخشنده گوہر تھیں، وہ ایک انمول موتی تھیں، وہ سلسلہ عالیہ میں ایک بہت بڑا رکن تھیں ۔ الحمدللّٰه على ذالک کہ مجھے اُن کی خدمت کا شرف تھوڑا سا عرصہ حاصل ہوا ہے۔ (چوہدری صاحب انہیں فلاسفی پڑھاتے رہے ہیں۔ جزاهم اللّٰه احسن الجزاء) اور اس قلیل عرصہ میں مَیں نے ان میں ایسی خوبیاں دیکھیں کہ تمام عمر فراموش نہیں ہوسکیں گی اور تمام عورتوں کےلئے ان کی زندگی مشعلِ راہ ہے۔ امور خانہ داری ، بچوں کی دیکھ بھال، لجنہ کا کام پھر تعلیم حاصل کرنے کا اِس قدر شوق یہ سب کچھ اُن کی ذات ہی سے ہوسکتا تھا۔‘‘
یہ تو دو استادوں کے خطوط ہیں ۔ ایک غیر مذہب کی معزز خاتون جو ایف ۔ اے کے امتحان کی نگران ہو کر آ ئی تھیں، یعنی مسز سنگھا جو مسٹر سنگھا کنٹرولر آف اگزیمینیشن پنجاب یونیورسٹی کی اہلیہ صاحبہ ہیں تحریر فرماتی ہیں:۔
’’سارہ بیگم ایک نہایت ہی با اخلاق عورت تھیں ۔ مجھے انہیں صرف چند دن دیکھنے کا موقع ملا۔ (یعنی جب وہ امتحان کی نگرانی کیلئے تشریف لائی تھیں) لیکن انہوں نے میرے دل میں اس حد تک اپنا گھر بنا لیا کہ میرے لئے یہ خیال کرنا بھی ناممکن ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔‘‘
سارہ بیگم کی عادات
وہ خاموش منکسر المزاج اور ہمدردانہ رنگ رکھنے والی تھیں، لیکن ہنسی اور مزاح کی عادی نہ تھیں، وہ مزاح کو سمجھنے کی بھی اہلیت نہ رکھتی تھیں اور مولویانہ سا رنگ ان پر غالب تھا۔ چونکہ ہمارا خاندان مزاح کا زبردست میلان رکھتا ہے اور باوجود سنجیدگی کے خوش مزاج ہے کئی دفعہ اس وجہ سے غلط فہمی ہو جاتی میں کبھی ان سے ہنسی مذاق کی بات کرتا تو وہ اسے سنجیدگی پر محمول کرتیں اور کئی دفعہ انہیں یہ یقین دلانے میں کہ یہ ہنسی تھی، اچھی خاصی دقت ہوتی۔ جب وہ شروع میں آئیں تو چندہ دینے پر اس قدردلیر نہ تھیں یعنی ماہوار چندہ کے علاوہ دوسرے چندوں میں زیادہ دلیری سے حصہ نہیں لیتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ یہ نقص دور ہو گیا تھا ۔ ہاں تكلّف ان کی طبیعت میں نہ تھا، نمائش نہ تھی ، وہ جو کچھ دیتیں، خدا کیلئے دیتیں تھیں ۔ اُن کی وفات پر درد صاحب کی ہمشیرہ نے مجھے پیغام بھجوایا کہ بیماری کی حالت میں کہتی تھیں کہ میں نے توسیع مسجد اقصیٰ کے لئے ایک سَو روپیہ چندہ دینے کی نیت کی ہوئی ہے اور اپنا گلو بند بیچ کر اس میں سے اس رقم کو ادا کرنا ہے اگر میں مر گئی تو حضرت صاحب سے کہنا کہ میری طرف سے میراگلو بند فروخت کر کے سو روپیہ چندہ تو سیع مسجد اقصیٰ میں دے دیں ۔ چونکہ اُن کے پاس دو تین سَو کی مالیت کے دو تین زیور تھے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا طريق عمل یاد آ گیا ۔ ایک دفعہ آپ کے ایک داماد ایک جنگ میں قید ہو کر آئے آپ نے دوسرے قیدیوں کی طرح اُن سے بھی فد یہ طلب کیا انہوں نے اپنی بیوی آ نحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم فداہ جسمی و قلبی کی صاحبزادی کو کہلا بھیجا کہ روپیہ کا انتظام کرو۔ ان کے پاس اور تو کچھ نہ تھا والدہ کا دیا ہوا ایک ہار تھا، وہی بجھوا دیا ۔ جس وقت وہ ہار رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے آیا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور آپؐ نے صحابہ کو بلا کر کہا کہ یہ ہارخدیجہ مرحومہ نے اپنی بیٹی کو دیا تھا اگر چاہوتو بِن ماں کی بچی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دو ۔ صحابہ جو اپنی جان و مال آپؐ پر فدا رکھتے تھے، اِس نظارہ کو دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہمارے مال و جان آپ پر فدا ہوں زینب کو اُن کا ہار واپس فرمائیے اور اُن کے خاوند کو آزاد۔ ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ ان سے کوئی فد یہ لیا جائے۔ مجھے بھی یہ واقعہ یاد آیا اور میں نے کہا ۔ ماں کی کوئی یادگار تو اس چھوٹی سی بچی کے پاس رہنی چاہئے جو بڑی ہو کر اپنی ماں کی صورت بھی یاد نہ کر سکے گی اور روپیہ اپنے پاس سے ادا کر کے گلوبند عزیزہ امۃ النصیر سلمها الله تعالیٰ کیلئے رکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ اِس ہار کو اس کے لئے دنیا کی محبت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ اسے یہ سبق دیتا رہے کہ جس طرح اس کی ماں نے یہ ہار خدا کی راہ میں قربان کرنا چاہا تھا اُسی طرح اسے بھی چاہئے کہ جو کچھ بھی خدا اسے دے، وہ اسے نیکی کی راہ میں خرچ کرتی جائے۔ اللّٰهم آمین۔
مرحومہ نہایت کم گو تھیں لیکن تقریر کرسکتی تھیں، مضمون اچھا لکھ سکتی تھیں، آیاتِ قرآنیہ سے استدلال کر سکتی تھیں، بحث مبا حثہ بھی کر لیتی تھیں ، طبیعت میں ضدنہ تھی ، اگر معقول بات کی جائے تو اسے تسلیم کر لیتی تھیں، فضول خرچ نہ تھیں ہمیشہ اپنی آمد کے مطابق خرچ کرتیں ، بعض ہم عصر کنجوسی وغیرہ کا الزام لگاتیں لیکن اس کی پرواہ نہ کرتیں، ہمیشہ اپنی آمد کے اندر خر چ رکھتیں۔
امة الحی اس کے مقابل پر آمد سے زیادہ خرچ کر بیٹھتی تھیں ۔ ان کی وفات پرسینکڑوں روپیہ قرض نکلا جو میں نے فوراً ادا کر دیا لیکن سارہ بیگم کی وفات پر ایک پیسہ کا قرض بھی جواُن کے حساب میں ہو اب تک میرے سامنے نہیں آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب انتہا درجہ کا تھا اور اس سبب سے حضرت (اماں جان) اور میری ہمشیرگان کا بھی بےحد ادب کرتی تھیں ۔وفات سے آدھا گھنٹہ پہلے اُن کی کمزوری کو دیکھ کر حضرت (اماں جان) پر رقّت طاری ہوگئی تو با وجوداس کے کہ جان کنی کا وقت شروع ہونے والا تھا بے تاب ہو کر آپ کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور رو کر کہا کہ اماں جان ! آپ روئیں نہیں، میں تو اب اچھی ہوں ۔طبیعت میں جو ایک قسم کی خشکی تھی اس کی وجہ سے بیویوں کی طرح سے بے تکلفانہ بات نہیں کر سکتی تھیں ۔ وفات سے چند دن پہلے میں لاہور سے آیا اور بچوں کیلئے کچھ مٹھائی لایا اس میں سے دو چار ڈلیاں میرے ہاتھ میں تھیں دو بیویاں سامنے تھیں انہیں مَیں نے ایک ایک ڈلی دی پھر خود ایک ڈلی کھا لی اور اس کی تعریف کی کہ یہ بہت اچھی ہے۔ میری ایک بیوی نے ایک اور ڈیلی میرے ہاتھ سے لے لی کہ یہ میں کھاؤں گی۔ ایک ڈلی رہ گئی تھی وہ میں نے پاس میز پریہ دیکھنے کیلئے رکھ دی کہ کیا سارہ بیگم وہ ڈلی لیتی ہیں۔ وہ آگے بڑھیں کہ یہ میں کھاؤں گی اور میری طرف دیکھا۔ چونکہ میں تو ان کا امتحان ہی کر رہا تھا میں خاموش ہور ہا ۔ پاس جا کر یہ کہتی ہوئی لوٹ آئیں کہ اچھا میں نہیں لیتی ۔ ان کے چہرہ سے صدمہ معلوم ہوتا تھا کہ میں نے کیوں نہیں کہا کہ تم شوق سے کھا لو اور میرا دل غمگین تھا کہ انہوں نے کیوں خود اٹھا کر نہیں کھائی ۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا تھا ہم دونوں دل شکستہ تھے۔ آہ! محبت بھی عجیب شے ہے۔ وہ ایک کے دل میں کچھ خیال پیدا کرتی ہے اور دوسرے کے دل میں کچھ ۔ وہ دو دھاری تلوار ہے جو دو طرف وار کرتی ہے مگر وہ دن گئے اب تو ان پرحقیقت کھل چکی ہوگی ۔ اب امتحانوں کا زمانہ گیا نتیجے نکل چکے۔ اب وہاں انہیں معلوم ہو چکا ہو گا کہ مجھے ان سے کس قدر محبت تھی۔ غم تو میرے دل کیلئے ہے جس پر اس رنگ میں حقیقت اب تک نہیں کھلی ۔ امۃ الحی مرحومہ اس میں ان سے مختلف تھیں وہ ایسے موقع پر ناز سے لیکن ادب کے ساتھ اپناحق لئے بغیر نہ رہتیں۔ سلسلہ کےلئے ان کے دل میں بڑی غیرت تھی۔ وہ کبھی پیغا میت کی روح کو سمجھ ہی نہیں سکیں۔ سلسلہ کی کامیابیوں پر جوانہیں خوشی ہوتی وہ دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔
(باقی آئندہ)