الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

مکرم میاں محمد یحییٰ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اپریل 2013ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم ڈاکٹر محمود احمد ناگی صاحب نے اپنے والد محترم میاں محمد یحییٰ صاحب آف لاہور کا تفصیلی ذکرخیر پیش کیا ہے۔

مکرم میاں محمد یحییٰ صاحب 28؍دسمبر 1920ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ (سائیکلوں والے) اور حضرت رحمت بی بی صاحبہؓ کو صحابہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل تھا۔ اپنے والد کے کاروبار میں مندی کی وجہ سے آپ ساتویں کلاس سے ہی تعلیم ترک کرکے اپنے والد محترم کے ساتھ کام میں لگ گئے اور بعدازاں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اپنی دکان میں ہی ویلڈنگ کا کام شروع کردیا۔ یہ وہی دکان ہے جس کے باہر حضرت مسیح موعودؑ بھی تشریف لائے تھے۔ اگرچہ حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ کی خواہش اور اصرار کے باوجود حضورؑ دکان کے اندر نہیں گئے اور فرمایا کہ نبی دکانوں کے اندر نہیں جاتے۔ اس پر حضورؑ کے لیے دکان کے باہر درخت کے نیچے کرسی بچھادی گئی اور حضورؑ اُس پر تشریف فرما ہوئے۔ حضرت حاجی صاحبؓ نے نذرانے کے طور پر چاندی کا ایک روپیہ پیش کیا جو حضورؑ نے قبول فرمایا۔ اسی درخت کے نیچے غلام رسول نامی ایک شخص عرصے تک چنے بیچتا رہا۔ وہ احمدی نہیں تھا لیکن اپنے کاروبار میں برکت کو حضورؑ کے صدقے سمجھتا تھا اور ساری زندگی احمدیت کا معتقد رہا۔

مکرم میاں محمد یحییٰ صاحب کی شادی مکرمہ فردوس بیگم صاحبہ بنت حضرت میاں جان محمد صاحبؓ آف پھڈیار کے ساتھ 1936ء میں ہوئی۔ 1938ء میں آپ بنگال چلے گئے اور ایک جرمن کمپنی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ دو سال بعد واپس لاہور آئے۔ آپ جماعت کے لیے وقف تھے ہمیشہ کسی نہ کسی خدمت میں مصروف رہے۔

آپ کو کتب بینی کا شوق بھی تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے پہلے ایڈیشن تلاش کرکے جمع کیے اور اُن کی حفاظت کے لیے چمڑے کی جلدیں کروائیں۔ ہر جلد پر کتاب اور حضرت اقدسؑ کا نام سنہری حروف میں کندہ کروایا۔ بچوں کی تربیت کی طرف بھی توجہ دیتے۔ انہیں اجلاسات میں پڑھنے کے لیے مضمون لکھ کر دیتے۔ لطیف مزاح بھی کرتے لیکن اس کی دروغ گوئی نہ ہوتی۔ ناشتہ اور رات کا کھانا سب اکٹھے کھاتے۔ آپ کوئی نہ کوئی ایسی بات سناتے جس سے جماعت سے وابستگی میں اضافہ ہو۔ ایک دن مجھے فرمایا: آجکل تمہاری قرآن پڑھنے کی آواز نہیں آرہی۔ اُن کا اتنا کہنا ہی کافی ہوتا تھا اور گھر میں قرآن پڑھنے کی آوازیں آنے لگیں۔ مجھے قرآن کریم ناظرہ پڑھنے پر اتنا انعام ملا جس سے اُس وقت قریباً ڈیڑھ تولہ سونا آسکتا تھا۔ اسی طرح سب سے نماز باترجمہ سنتے اور دس روپے انعام دیتے۔

1953ء میں فسادیوں نے ہمارے گھر اور دکانیں نذرِآتش کردیں تو ہم نے بےسروسامانی میں ماڈل ٹاؤن میں پناہ لی۔مکرم میاں صاحب کو اپنی لائبریری کے ضائع ہونے کا ہی دکھ تھا ورنہ کسی دوسرے نقصان پر کسی کی آنکھ میں کبھی آنسو نہیں دیکھا۔ ہمارے ہمسایوں نے جلوس آنے سے پہلے ہی بہت سا سامان گھر میں داخل ہوکر لُوٹ لیا تھا۔ جب جلوس گھر کو نقصان پہنچائے بغیر آگے بڑھ گیا تو ہمسائے جلوس کو واپس لائے اور باقی اشیاء لُوٹ کر آگ لگوائی۔ جب مارشل لاء لگا تو اس ہمسائے کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ مکرم میاں صاحب اُس کے لیے جیل میں کھانا لے جاتے اور کہتے کہ اُس نے ہمسائیگی کا حق ادا نہیں کیا مگر میرا فرض بنتا ہے کہ اُس کی مدد کروں۔ بعد میں اُس شخص کا انجام بہت بد ہوا، اولاد بھی برباد ہوگئی۔ دیگر ہمسایوں کا بھی ایسا ہی انجام ہوا۔ ہماری دکان بھی لُوٹ لی گئی تھی اور باقی سامان کو آگ لگادی گئی تھی۔ لوہے کا سامان جلا تو نہیں لیکن اُس کا رنگ اُتر گیا۔ بعد میں مکرم میاں صاحب نے اُسے دوبارہ رنگ کروایا اور دکانداری شروع کردی۔ اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی برکت دی۔

آپ کہا کرتے تھے کہ آپ نے زندگی میں صرف ایک بار اپنی والدہ کی حکم عدولی کی جب انہوں نے آبائی مکان کو آپ کے نام لگانے پر اصرار کیا۔ آپ نے کہا کہ مَیں اپنے بہن بھائیوں کا حق نہیں مارسکتا۔ چنانچہ والدہ کی وفات پر مکان کی قیمت لگواکر سب میں شریعت کے مطابق تقسیم کردی۔

آپ اپنے حلقہ کے صدر اور سیکرٹری مال بھی رہے۔ آپ پان کھاتے تھے اور ایک احمدی دکاندار سے پان خریدتے تھے۔ وہ مزاج کے سخت تھے۔ اگر مَیں والد صاحب کو کہتا کہ کسی اَور سے پان لے لیں تو آپ کہتے کہ یہ صاحب چندے میں کمزور ہیں۔ مَیں ان سے پان خریدتا ہوں اور مہینے بعد چندے کی رسید کاٹ کر بھجوادیتا ہوں۔ اس طرح ہم دونوں کا کام بن جاتا ہے۔بعد میں معلوم ہوا کہ یہی انداز کئی دوسرے دکانداروں کے ساتھ بھی اُنہوں نے اپنایا ہوا تھا۔

مَیں نے اپنی پہلی تنخواہ اُن کے ہاتھ پر رکھی تو انہوں نے حساب کرکے اس میں سے چندے منہا کیے اور باقی رقم مجھے دیتے ہوئے کہا کہ باقی کا خود خیال رکھو اور ہر تنخواہ ملنے پر چندہ اداکردیا کرو۔ اسی طرح سب کی تربیت کرتے۔ بچوں کے جیب خرچ سے کچھ حصہ کاٹ لیتے اور تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں میں ادا کرتے۔ جب مَیں اسلام آباد میں مقیم تھا تو ایک بار لاہور آنے پر معلوم ہوا کہ کسی نے والد صاحب کو شکایت کی ہے کہ مَیں چندہ نہیں دیتا۔ آپ اتنے ناراض تھے کہ میری بات کا جواب بھی نہ دیتے۔ مَیں نے واپس جاکر اپنی گزشتہ سال کی رسیدیں آپ کو بذریعہ ڈاک بھجوادیں جو آپ نے اُن صاحب کو دکھائیں تو وہ شرمندہ ہوئے۔ اور یوں ہم باپ بیٹے کی صلح ہوگئی۔

حضرت حاجی موسیٰ صاحبؓ نے لاہور سے باہر ایک بڑا قطعہ اراضی خریدا تھا جو بعد میں کسی ہندو کو بیچ دیا۔ ابھی زمین کا انتقال نہیں ہوا تھاکہ کچھ لوگ مکرم میاں صاحب کے پاس آئے کہ ہم اُس سے کہیں زیادہ قیمت دیتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ ہم وہ زمین بیچ چکے ہیں اور اس پر ہمارا اب کوئی حق نہیں آئندہ اس سلسلے میں ہم سے رابطہ نہ کریں۔

محترم میاں محمد یحییٰ صاحب سادہ لباس زیب تن کرتے۔ گلاب کا عطر لگاتے۔ ہمیشہ ٹوپی کا استعمال کرتے۔ داڑھی تب سے رکھی ہوئی تھی جب آنا شروع ہوئی تھی۔بہت خوش خط تھے۔ گفتگو بھی بہت سلجھی ہوئی کرتے۔ ایک بار مجھے اپنے خط میں یہ زرّیں نصائح لکھ کر بھیجیں:

٭…عمل علم کا محتاج ہے اور علم عمل کا حاجتمند۔

٭…ہر کام کی ابتدا میں نیک نیت کرلینا اس کا حق ادا کرنا ہے۔

٭…سب سے اچھی خیرات معاف کردینا ہے۔

٭…سب سے بڑا بہادر بدلہ نہ لینے والا ہے۔

٭…سب سے اعلیٰ شغل ذکرالٰہی اور استغفار ہے۔

٭…تواضع سے درجہ بلند ہوتا ہے۔

٭…تدبیر جیسی کوئی دانائی نہیں۔

٭…عقل سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔

٭…خیرات سے مال میں کمی نہیں آتی۔

٭…مرد کی خوبصورتی اس کی فصاحت ہے۔

٭…سب سے اچھا نشہ خدمت خلق ہے۔

جب لاہور میں خدام الاحمدیہ کی ایک ہی مجلس تھی تو آپ دو بار قائد مجلس مقرر ہوئے۔ بعدازاں قائد ضلع اور قائد علاقہ بھی رہے۔ دستور اساسی پر نظرثانی کے لیے قائم کی جانے والی مرکزی کمیٹی کے رُکن رہے۔ 1954ء میں آنے والے شدید سیلاب کے دوران خاص خدمت خلق کی توفیق پائی۔حضرت مصلح موعودؓ نے کئی بار آپ کے کام پر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ آپ لاہور کی عیدکمیٹی کے لمبا عرصہ رُکن رہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر کھالیں جمع کرنے کی ڈیوٹی دیتے رہے۔ سائیکل پر (قریباً گیارہ کلومیٹر فاصلہ طے کرکے) روزانہ دارالذکر پہنچتے اور شعبہ مال میں مغرب کے بعد تک کام کرکے گھر واپس آتے۔ ساری زندگی جماعت سے کبھی آنے جانے کا کرایہ نہ لیا اور سٹیشنری بھی اپنی استعمال کرتے۔ کارکنان کے لیے چائے تیار ہوتی تو وہ بھی نہ پیتے۔ اگر کبھی ضرورت ہوتی تو اپنی جیب سے بازار سے چائے یا کھانا منگوالیتے۔

ستمبر 1997ء میں آپ کی اہلیہ اکسٹھ سالہ رفاقت کے بعد وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔ آپ نے اس غم کو بہت محسوس کیا لیکن جماعتی خدمت میں کمی نہ آئی۔ جب ایک سال بعد آپ پر فالج کا حملہ ہوا اور آہستہ آہستہ کمزوری بڑھتی گئی تو آپ بستر پر پہنچ گئے۔ بیماری کے دوران ہر وقت تسبیح کرتے رہتے اور ایم ٹی اے کے پروگرام سنتے رہتے۔ بیماری کے دوران خدمت دین سے محرومی پر بےحد دکھ محسوس کرتے۔ 29؍ستمبر 2002ء کو (رمضان المبارک کے دوران) 82 سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔

………٭………٭………٭………

میجر جنرل اختر حسین ملک کو کمانڈ سے ہٹانے کی وجوہات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍اپریل 2013ء میں مکرم رفیع رضا قریشی صاحب کا مرسلہ ایک اقتباس شائع ہوا ہے جو معروف محقّق و ادیب جناب قدرت اللہ شہاب کے ’’شہاب نامہ‘‘ سے منقول ہے۔ شہاب صاحب رقمطراز ہیں:

’’کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ (1965ء کی) یہ جنگ قادیانیوں کی سازش کا نتیجہ ہے اسی لیے فوج کے ایک نہایت قابل قادیانی افسر میجر جنرل اختر حسین ملک نے مقبوضہ کشمیر پر تسلّط قائم کرنے کے لیے ایک پلان تیار کیا جس کا کوڈ ’’جبرالٹر‘‘ تھا۔ صاحبانِ اقتدار کے کئی افراد نے ان کی مدد کی جن میں مسٹر ایم۔ ایم۔ احمد سرفہرست بتائے جاتے ہیں جو خود بھی قادیانی تھے اور عہدے میں بھی پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ہونے کی حیثیت سے صدر ایوب کے نہایت قریب تھے۔ جنرل اختر ملک نے اپنے پلان کے مطابق کارروائی شروع کی اور اکھنور کو فتح کرنے کے قریب ہی تھے کہ فوج میں جنرل موسیٰ سمیت کئی اَور جرنیل بھی تشویش میں پڑگئے کہ اگر اختر ملک کی مہم کامیاب ہوگئی تو وہ ایک فوجی ہیرو کی حیثیت سے ابھریں گے۔ صدر ایوب سمیت غالباً باقی بہت سے فوجی اور غیرفوجی صاحبانِ اقتدار یہ نہیں چاہتے تھے کہ میجر جنرل اختر ملک اس جنگ کے ہیرو بن کر ابھریں اور فوج کے اگلے کمانڈر انچیف کے عہدے کے حقدار بن سکیں۔ کیونکہ یہ عہدہ صدر ایوب نے ذہنی طور پر پہلے ہی سے جنرل یحییٰ خاں کے لیے محفوظ کررکھا تھا۔ چنانچہ عین اس وقت جب میجر جنرل اختر حسین ملک انتہائی کامیابی سے چھمب اکھنور سیکٹر پر تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے، انہیں معاً اُن کی کمانڈ سے ہٹادیا گیا اور ان کی جگہ جنرل یحییٰ خاں کو یہ کمانڈ سونپ دی گئی۔ غالباً اس لیے کہ وہ پاکستانی فوج کو اکھنور فتح کرنے کی کوشش سے باز رکھ سکیں۔ یہ فریضہ انہوں نے نہایت کامیابی سے سرانجام دیا۔‘‘ (صفحہ930)

………٭………٭………٭……

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button