اسلام میں مساوات کا تصور (قسط پنجم)
کوئي انسان خواہ وہ کسي بھي طبقے يا معاشرے سے تعلق رکھتا ہو ، وہ امير ہو يا غريب اُسے اپني عزت بہت پياري ہوتي ہے ۔
عزت نفس کي حفاظت
اللہ تعاليٰ نے ہر انسان کو عزت وتکريم بخشی ہے اور اسے ديگر مخلوقات ميں ممتاز مقام عطا فرمايا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ انسان روحاني وجسماني ترقي کي منازل طے کرے اورايک بلند مقام حاصل کرلے ۔ اسي ليے اُس نے انسان کو دوسري مخلوقات کی نسبت عزت وشرف کا مقام عطا فرمايا ہے اور اس کي تخليق ميں ترقي کرنے اورروحاني مدارج حاصل کرنے کي صلاحيت رکھ دي ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۔(التين:5)
يقيناً ہم نے انسان کو بہترين ارتقائی حالت ميں پيدا کيا۔
قرآن کريم کے ايک اور مقام پرفرمايا :
وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا ۔(بنی اسرائيل:71)
اور يقيناً ہم نے ابنائے آدم کو عزت دي اور انہيں خشکي اور تَري ميں سواري عطا کي اور انہيں پاکيزہ چيزوں ميں سے رزق ديا اور اکثر چيزوں پر جو ہم نے پيد اکيں انہيں بہت فضيلت بخشي ۔
حضرت مصلح موعود رضي اللہ تعاليٰ عنہ اس آيت کي تفسيربيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں : ’’اس ميں بتايا ہے کہ اللہ تعاليٰ نے سب انسانوں کو عزت بخشي ہے نہ کہ خاص اقوام کو۔ پس قوموں کو ايک دوسرے پر تفاخر نہيں کرنا چاہئے ۔ اس سے يہود اور قريش کو نصيحت کي ہے جو اپنے اۤپ کو دوسروں سے معزز سمجھتے تھے ۔ اور بتايا ہے کہ اللہ تعاليٰ نے ہر اک قوم کو عزت دي ہے ۔ مگر بعض اقوام اس عزت سے فائدہ نہيں اٹھاتيں اور خدا تعاليٰ کے کھولے ہوئے راستوں کو اپنے لئے بند کرليتي ہيں ۔وَ حَمَلْنٰھُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِکہہ کر اس طرف اشارہ کيا ہے کہ سمندر اور خشکي کو يکساں طور پر اللہ تعاليٰ نے انساني ترقي کے لئے مقرر کيا ہے ۔ پس اگر کوئي قوم عزت حاصل کرنا چاہے تو اسے يکساں طورپر دونوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔‘‘ (تفسير کبير جلد چہارم ،صفحہ 365)
کوئي انسان خواہ وہ کسي بھي طبقے يا معاشرے سے تعلق رکھتا ہو ، وہ امير ہو يا غريب اُسے اپني عزت بہت پياري ہوتي ہے ۔ اگر بلاوجہ اُس کي عزت کو مجروح کيا جائے تو وہ لڑائي جھگڑے پر تيار ہوجاتا ہے ۔ جس سے فتنہ و فساد پھيلتا ہے اور معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے ۔ اس ليے کسي انسان کو يہ حق حاصل نہيں کہ کسي بھي انسان کو اپنے معيار اور اپنے پيمانے پر تولنے کي کوشش کرے بلکہ دوسرے کے جذبات و احساسات اور اُس کي خواہشات کا احترام کرنا ضروري ہے ۔
اسلام نے انسان کے اس بنيادي حق کو تسليم کرتے ہوئے اپنے ماننے والوں کو ہر انسان کي عزت نفس کا خيال رکھنے کي طرف متوجہ فرمايا ہے۔قرآن کريم نے کسي انسان کے بارے ميں بري باتيں کرنے اور انہيں پھيلانے سے منع کرتے ہوئے فرمايا ہے:
لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا ۔(النساء:149)
اللہ سرِ عام بُری بات کہنے کو پسند نہیں کرتا مگر وہ مستثنیٰ ہے جس پر ظلم کیا گیا ہو۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
قرآن شريف کي ايک اورآيت ميں فرمايا:
وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ قُلۡتُمۡ مَّا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَکَلَّمَ بِہٰذَا ٭ۖ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ۔ یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنۡ تَعُوۡدُوۡا لِمِثۡلِہٖۤ اَبَدًا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ۔(النور: 17تا 18)
اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اسے سُنا تو تم کہہ دیتے ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم اس معاملے میں زبان کھولیں۔ پاک ہے تُو (اے اللہ!)۔ یہ تو ایک بہت بڑا بہتان ہے۔ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے مبادا تم آئندہ کبھی ایسی بات کا اِعادہ کرو، اگر تم مومن ہو۔
پس ان آيات کريمہ کے ذريعہ اللہ تعاليٰ نے اپنے بندوں کو اس طرف متوجہ فرمايا ہے کہ کسي کے بارے ميں الزام سن کر اُس پر باتيں کرنا اور اُسے آگے پھيلانااللہ تعاليٰ کي نگاہ ميں سخت ناپسنديدہ فعل ہے ۔انسان کے اسي حق کے تحفظ کے لیے غيبت کي سختي سے ممانعت فرمائي ہے يعني کسي شخص کي غير موجودگي ميں کسي ايسي سچي بات کو پھيلانے سے بھي منع فرمايا جو اُسے ناگوار گزرے ۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ۔(الحجرٰت:13)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے ۔
رسول اللہ ؐنے غيبت کو بہت بڑا گناہ قرار ديا ہے ۔معراج کے موقع پر آپ نے حالتِ کشف ميں غيبت کرنے والوں کو تانبے کے ناخنوں سے اپنے چہروں اور سينوں کو نوچتے ہوئے ديکھا۔
عَنْ اَنَسٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّي اللّٰہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: لَمَّا عُرِجَ بِيْ مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَھُمْ اَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ يَخْمِشُوْنَ وَجُوْھَھُمْ وَ صُدُوْرَھُمْ ، فَقُلْتُ: مَنْ ھٰوئُلَاۤءِ يَا جِبْرِيْلُ؟قَالَ:ھٰوئُلَاۤءِ الَّذِيْنَ يَاْکُلُوْنَ لَحُوْمَ النَّاسِ، وَ يَقَعُوْنَ فِيْ اٰعْرَاضِھِمْ۔(ابوداؤد،کتاب الادب، باب في الغيبة بحوالہ حديقة الصالحين حديث:874)
حضرت انسؓ بيان کرتے ہيں کہ آنحضرتؐ نے فرمايا:جب مجھے معراج ہوا تو حالتِ کشف ميں مَيں ايک ايسي قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سينوں کو نوچ رہے تھے ۔ ميں نے پوچھا : اے جبرئيل! يہ کون ہيں تو انہوں نے بتايا کہ يہ لوگوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھايا کرتے تھے اور ان کي عزّت و آبرو سے کھيلتے تھے يعني ان کي غيبت کرتے اور ان کو حقارت کي نظر سے ديکھتے تھے۔
شخصي آزادي کا حق
آزادي بہت بڑي نعمت ہے ۔اللہ تعاليٰ نے ہر انسان کو آزاد پيدا کيا ہے۔اس ليے وہ چاہتا ہے کہ ہر انسان کو اپني زندگي پر مکمل اختيار حاصل ہو اور وہ اپني مرضي سے زندگي گزارسکے ۔اسلام نے غلاموں کي آزادي کي طرف خاص توجہ دلائي ہے اور اسے نيک عمل قرار ديا ہے ۔اسلام سے پہلے دنيا ميں انسان کي شخصي آزادي کو سلب کرنے کا عام رواج تھا۔ دنيا کا شايد ہي کوئي خطہ ايسا ہو جہاں انسانوں کو غلام بنا نے کا رواج عام نہ ہو ۔ يہي حال عرب معاشرے کا تھا جہاں غلامي کو نہ صرف پسنديدگي کي نگاہ سے ديکھا جاتا تھابلکہ جس شخص کے پاس جس قدر زيادہ غلام ہوتے وہ اتنا ہي زيادہ معزز سمجھا جاتا۔گويا پوري دنيا کي طرح عرب معاشرے ميں بھي غلامي پوري طرح رچي بسي تھي۔ اسلام نے ہر شخص کي انفرادي آزادي کا اعلان کرتے ہوئے گردنوں کو آزاد کروانے والوں کے ليے اجرو ثواب کا اعلان کيا تاکہ اُس کے ماننے والے جلد جلد اس بري رسم سے باہر نکل آئيں ۔ دنيا ميں ايک نبي کا مقام سب سے بلند ہے ليکن اللہ تعاليٰ نے کسي نبي کو بھي يہ اجازت نہيں دي کہ وہ کسي انسان کي انفرادي آزادي کے حق کو سلب کرے سوائے اس صورت کے کہ اس کومدافعانہ جنگ لڑنے کي ضرورت پيش آوے اور اس خونريز جنگ کے نتيجے ميں دشمنوں کو اپنا قيدي بنالے۔اللہ تعاليٰ فرماتا ہے :
مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا ٭ۖ وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ۔(الانفال:68)
کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ زمین میں خونریز جنگ کئے بغیر قیدی بنائے۔ تم دنیا کی متاع چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت پسند کرتا ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔
اللہ تعاليٰ کو انسانوں کي آزادي اس قدر پسند ہے کہ اُس نے اپني آخري شريعت ميں اللہ تعاليٰ ،يوم آخرت ، اللہ کي کتابوں اور نبيوں پر ايمان لانے کے بعد غلاموں کي آزادي کي طرف متوجہ کرتے ہوئے ايسے لوگوں کو اجرو ثواب کا مستحق ٹھہرايا تاکہ وہ اللہ کي رضا کے ليے گردنوں کو غلامي کے طوقوں سے آزاد کرديں۔
لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ(البقرة:178)
نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو۔ بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر اور مال دے اس کی محبت رکھتے ہوئے اقرباءکو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو نیز گردنوں کو آزاد کرانے کی خاطر۔
حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز اس آيت کريمہ کي روشني ميں فرماتے ہيں :’’اصل آزادي انبياء کے ذريعہ سے ہي ملتي نظر آتي ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے سامنے جو آزادي کا سورج ہے ، جس کي کرنيں دور دور تک پھيلي ہوئي اور ہر قسم کي آزادي کا احاطہ کئے ہوئے ہيں، وہ آنحضرت ؐ کي ذات ہے جنہوں نے ظاہري غلامي سے بھي آزادي دلوائي اور مختلف قسم کے طوق جو انسان نے اپني گردن ميں ڈالے ہوئے تھے ، اُن سے بھي آزاد کروايا۔ بلکہ آپؐ کے ساتھ حقيقي رنگ ميں جڑنے سے آج بھي آپ ؐکي ذات آزادي دلوانے کا ايک بہت بڑا ذريعہ ہے ۔ جب آپ کو اللہ تعاليٰ نے خاتم النبيين کے خطاب سے نوازا تو آپؐ کي خاتميت تمام ديني و دنياوي حالات کا احاطہ کرتے ہوئے اُس پر مہرثبت کرگئي ۔ پس اس ميں کوئي شک نہيں اور اللہ تعاليٰ کي گواہي اور اعلان کے بعد کسي سعيد فطرت کے ذہن ميں يہ شک پيدا بھي نہيں ہوسکتا کہ صرف اور صرف مُہرِ محمدي ہي ہے جو تمام قسم کے کمالات پر مہر ثبت کرنے والي اور ان کمالات کي انتہا آپ کي ذات ميں ہي پوري ہوتي ہے ۔ پس جب ہر کام اور ہر معاملے کي انتہاآپ صلي اللہ عليہ وسلم ہيں تو کسي بھي رنگ ميں آزادي دلوانے کے کمالات بھي آپؐ کي ذات سے ہي پورے ہونے تھے اور ہوئے …اللہ تعاليٰ قرآن کريم ميں ايک جگہ فرماتا ہے
فَکُّ رَقَبَةٍ (سورة البلد:14)
گردن چھڑانا۔ يا اس طرح بھي کہہ سکتے ہيں کہ غلام کوآزاد کرنا يا آزادي ميں مدد کرنا۔ پھر اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:
…وَاٰتَي الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰکِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَالسَّاأِلِيْنَ وَ فِي الرِّقَابِ(سوة البقرة:178)
اور مال دے اُس کي محبت رکھتے ہوئے ، اقرباء کو ، اور يتاميٰ کو اور مساکين کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے آزاد کرنے کے لئے ، يعني غلاموں کے آزاد کروانے کے لئے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍نومبر2011ءمطبوعہ الفضل انٹرنيشنل 16؍دسمبر 2011ء صفحہ 5تا6)
قرآن شريف سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعاليٰ نے انسان کو مسلسل محنت کے ليے پيدا کيا ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَاالْاِنْسَانَ فِيْ کَبَدٍ (البلد:5)
يقيناً ہم نے انسان کو ايک مسلسل محنت ميں (رہنے کے لئے) پيدا کيا۔تاکہ اس محنت کے نتيجہ ميں وہ بلنديوں کا سفر اختيار کرے اور اللہ کي رضا کو حاصل کرنے کے لیے کوشش اورسعي کرتا رہے ۔ سورت البلد ميں روحاني بلندي حاصل کرنے کا ايک اہم ذريعہ غريب قوموں کي بھوک مٹانا اور اُنہيں ہر طرح کي غلامي سے نکالنا قرار ديا ہے ۔اس طرح قرآ ن کريم نے اپنے ماننے والوں کو غلامي جيسي قبيح رسم سے نکالنے کے ليے عملي اقدامات کا آغاز فرماديا۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:
وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ۔ فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ۔ وَ مَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا الۡعَقَبَۃُ ۔ فَکُّ رَقَبَۃٍ۔ اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ۔ یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ۔اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ۔ ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ۔اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡمَیۡمَنَۃِ۔(البلد:11تا19)
اور ہم نے اُسے دو مُرتَفع راستوں کي طرف ہدايت دي۔ پس وہ عَقَبَہ پر نہيں چڑھا۔ اور تجھے کيا سمجھائے کہ عَقَبَہ کيا ہے؟ گردن کا آزاد کرنا۔ يا ايک عام فاقے والے دن ميں کھانا کھلانا۔ ايسے يتيم کو جو قرابت والا ہو۔ پھر وہ اُن ميں سے ہوجائے جو ايمان لے آئے اور صبر پر قائم رہتے ہوئے ايک دوسرے کو صبر کي نصيحت کرتے ہيں اور رحم پر قائم رہتے ہوئے ايک دوسرے کو رحم کي نصيحت کرتے ہيں۔ يہي ہيں دائیں طرف والے ۔
حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہما بيان کرتے ہيں کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمايا: جبريل ؑ مجھے مسلسل غلاموں کے بارے ميں نصيحت کرتے رہے يہاں تک کہ مجھے يہ خيال گزرا کہ وہ کوئي ايسي حد مقرر نہ فرماديں کہ جس پر پہنچ کر غلام کو آزاد کرديا جائے۔ (بيہقي شعب الايمان )پس اسلام کے ابتدائي زمانے ميں ہي رسول کريم ؐ نے غلاموں کو اس لعنت سے نجات دلانے کے ليے کئي طريق اختيار فرمائے ۔ آپؐ نے مختلف مواقع پر غلاموں کی آزادي کے ليے تحریکات جاري فرمائيں اور اُسے نيکي اور ثواب کا ذريعہ قرار ديا تاکہ مسلمان خوش دلي سے غلاموں کي آزادي کي طرف متوجہ ہوں ۔
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ:أَيُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا اسْتَنْقَذَ اللّٰهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ۔(صحيح البخاري کتاب العتق بَاب فِي الْعِتْقِ وَ فَضْلِہِ حديث:2517)
نبي کریم ؐ نے فرمايا: جس شخص نے بھي کسي مسلمان شخص کو آزاد کيا تو اللہ تعاليٰ اس کے ہر عضو کے بدلے ميں آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو آگ سے بچائے گا۔
ايک اور موقع پر آنحضور ؐ نے غلام کو آزاد کرنے والوں کو ان الفاظ ميں جنت کي خوشخبري سنائی۔
حضرت ابوہريرہ رضي اللہ تعاليٰ عنہ کي روايت ہے کہ آنحضرت ؐفرماتے تھے کہ جو کوئي مسلمان غلام آزاد کرے گا، اللہ تعاليٰ اُسے دوزخ سے کُلّي نجات عطا کرے گا۔(صحيح بخاري کتاب کفارات الايمان باب قول اللّٰہ تعاليٰ:تحرير رقبة …حديث:6715)
حضرت اسماء بنت ابي بکر رضي اللہ عنہما سے روايت ہے کہتي ہيں :نبي کریمؐ نے سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم ديا ۔(صحيح البخاري کتاب العتق۔بَاب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الْعَتَاقَةِ فِي الْکُسُوْفِ وَالْاۤيَاتِ۔حديث:2519)
چنانچہ صرف خسوف وکسوف، زلازل، قحط اور ديگر مواقع پر غلاموں کي آزادي کي تحریکات سے سينکڑوں ہزاروں غلام اور لونڈياں آزاد ہوئيں ۔رسول کريم ؐکا درد مند دل نبوت سے پہلے بھي غلامي کو سخت ناپسند کرتا تھا ۔ حضرت خديجہ رضي اللہ تعاليٰ عنہا سے شادي کے بعد جو غلام آپؐ کو ملے آپؐ نے اُن سب کو آزاد کرديا۔ اُن ميں ايک غلام حضرت زيدبن حارثہ ؓتھے، اُن کو اپنا منہ بولا بيٹا بنايا اور ان کے ساتھ ايسا شفقت آميز سلوک فرمايا کہ جب اُن کے حقيقي والدين اُنہيں لينے کے ليےمکہ آئے تو زيد ؓنے رسول کريم ؐکے حسن سلوک کي وجہ سے اُن کے ساتھ جانے سے انکار کرديا۔(اسد الغابہ في معرفة الصحابہ جلد نمبر 2۔زيد بن حارثہ صفحہ 141تا142۔دارالفکر بيروت2003ء)
پس باني اسلام ؐنے بتدريج انسان کو انسان کي قيد سے آزاد کرنے کا ايسا مناسب اور معقول انتظام فرماياکہ نہ صرف لاکھوں لوگوں کو آزادي جيسي نعمت نصيب ہوئي بلکہ اسلام ميں غلامي کا ہميشہ ہميش کے ليےخاتمہ ہوگيا ۔غلاموں کي آزادي کا ايک اور طريق بيان کرتے ہوئے اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:
وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ اَنۡ یَّقۡتُلَ مُؤۡمِنًا اِلَّا خَطَـًٔا ۚ وَ مَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَـًٔا فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ…(النساء:93)
اور کسي مومن کے لئے جائز نہيں کہ کسي مومن کو قتل کرے سوائے اس کے کہ غلطي سے ايسا ہو ۔ اور جو کوئي غلطي سے کسي مومن کو قتل کرے تو ايک مومن غلام کا آزاد کرنا ہے ۔
ايک طريق يہ بيان فرمايا:
فَاِنۡ کَانَ مِنۡ قَوۡمٍ عَدُوٍّ لَّکُمۡ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَتَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ…(النساء:93)
اور وہ (مقتول) تمہاري دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو اور وہ مومن ہو تب (بھي) ايک مومن غلام آزاد کرنا ہے ۔
غلامي کو ختم کرنے کاايک يہ طريق فرمايا :
وَ اِنۡ کَانَ مِنۡ قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ وَ تَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ مُّؤۡمِنَۃٍ…(النّساء:93)
اور اگر وہ ايسي قوم سے تعلق رکھنے والا ہو کہ تمہارے اور ان کے درميان عہدوپيمان ہوں تو اس کے اہل کو (طے شدہ) ديت دينا لازم ہے اور ايک مومن غلام کا آزاد کرنا بھي ۔
اسلام نے صرف مسلمان ہوجانے والے غلاموں کي آزادي کے ليے ہي کوشش نہيں کي بلکہ تمام غلاموں کو آزادي دلانے اور انہيں اس تکليف دہ گرداب سے نکالنے کے ليے عملي اقدامات اُٹھائے ۔جيسا کہ درج ذيل آيت کريمہ ميں ہر طبقے کے غلاموں کو شامل کرليا گيا تاکہ انہيں بھي آزادي جيسي نعمت نصيب ہو
لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ ۚ فَکَفَّارَتُہٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیۡنَ مِنۡ اَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُوۡنَ اَہۡلِیۡکُمۡ اَوۡ کِسۡوَتُہُمۡ اَوۡ تَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ…(المائدة:90)
اللہ تمہيں تمہاري لغو قَسموں پر نہيں پکڑے گا ليکن وہ تمہيں ان پر پکڑے گا جو تم نے قسميں کھا کر وعدے کئے ہيں ۔ پس اس کا کفارہ دس مسکينوں کو کھانا کھلانا ہے جو اوسطاً تم اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو ، يا انہيں کپڑے پہنانا ہے يا ايک گردن آزاد کرنا ہے۔
اسي طرح نبي کريم ؐ کے متعدد ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ ہر قسم کي غلامي سے نجات دلانے کے ليے تشريف لائے ہيں ۔ اسي طرح غلاموں کي آزادي ميں بھي آپؐ نے مسلم غير مسلم کي تخصيص نہيں فرمائي ۔ اگر آپؐ نے کسي جگہ مسلمان غلاموں کي آزادي کا ذکر فرمايا ہے تو وہ اُس اخوت ،ہمدردي اور بھائي چارے کي بنا پر ہے جو ايک مسلمان ميں دوسرے مسلمان کے ليے پائي جاتي ہے اور وہ اپنے بھائي کي خاطر فيصلے کرتے وقت زيادہ سوچ بچار نہيں کرتا۔
حضرت عقبہ بن عامر رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمايا: جو شخص ايک غلام کو آزاد کرتا ہے اللہ تعاليٰ اس کے ہر عضو کے بدلے اس کے عضو کو دوزخ سے آزاد کرے گا۔(المستدرک کِتَابُ الْعِتَقحديث:2841)
اسلام نے غلاموں کو ايک دم آزاد کرنے کي بجائے تدريجاًآزادي دلائي ہے تاکہ اُن کي رہائش،معاش اورتربيت کا مناسب بندوبست کيا جاسکے۔اگراُس وقت ايک دم بےشمار غلاموں کي آزادي کا اعلان کرديا جاتا تو اس سے کئي طرح مسائل پيدا ہوسکتے تھے۔جيسا کہ حاليہ دَور ميں بظاہر ايک مہذب کہلانے والے ملک امريکہ ميں ايک دم غلاموں کي آزادي کا اعلان ہوا ،تو بجائے اس کے وہ آزادي جيسي نعمت سے لطف اندوز ہوتے ،يہ آزادي اُن کے ليے زحمت بن گئي۔کيونکہ اُنہيں آزاد تو کرديا گيا ليکن اُن کي رہائش ، معاش اور مناسب تربيت کے بارے ميں کسي نے کچھ نہ سوچا۔ چنانچہ ايک دم دي گئي اس آزادي کے نتيجے ميں اَن گِنت لوگ در بدر ٹھوکريں کھانے پر مجبور ہوگئے اوربے شمارانسان اپني جانيں گنوا بيٹھے۔ پس اسلام نے بتدريج غلامي کي لعنت کو ختم کيا تاکہ آزاد ہونے والے لوگوں کے ليے مناسب بندوبست ہوسکے اور وہ معاشرے کا مفيد وجود بن کر عزت اور وقار کے ساتھ زندگي گزار سکيں ۔
اسلام ميں غلاموں کي آزادي کا ايک طريق يہ مقرر کيا گيا کہ آزادي کے بدلے اُن سے مناسب معاوضہ ليا جائے اور اگر کسي ميں يکمشت ادائيگي کي استطاعت نہ ہو تي تو اُسے قسطوں ميں ادائيگي کي سہولت دے دي گئي۔
وَ الَّذِیۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَکَاتِبُوۡہُمۡ اِنۡ عَلِمۡتُمۡ فِیۡہِمۡ خَیۡرًا …(النّور:34)
اور تمہارے جو غلام تمہيں معاوضہ دے کر اپني آزادي کا تحريري معاہدہ کرنا چاہيں اگر تم ان کے اندر صلاحيت پاؤ تو اُن کو تحريري معاہدہ کے ساتھ آزاد کردو۔
رحمة للعالمينؐ نے اس کے علاوہ بھي غلاموں کي آزادي کے ليے مختلف طريق بيان فرمائے تاکہ اللہ کے ان بندوں کو آزادي جيسي نعمت نصيب ہو۔
رسول اللہؐ نے فرمايا ہے کہ جس نے اپنے غلام کو تھپڑ مارا يا اسے سزا دي تو اس کا کفارہ يہ ہے کہ وہ اسے آزاد کرے۔
(صحيح مسلم کتاب الايمان بَاب صُحْبَةِ الْمَمَالِيکِ وَکَفَّارَةِ مَنْ لَطَمَ عَبْدَہُ حديث:3116)
حضرت ابو مسعود ؓ انصاري سے روايت ہے وہ کہتے ہيں کہ ميں اپنے ايک غلام کو مار رہا تھا ميں نے اپنے پيچھے سے آواز سني۔ ابو مسعود ! جان لو يقيناً اللہ تم پر اس سے زيادہ قدرت رکھتا ہے جتني تم اس پر (رکھتے ہو)۔ميں مُڑا تو رسول اللہ ؐ تھے ۔ ميں نے عرض کيا يارسول اللہؐ ! يہ خدا کي خاطر آزاد ہے۔ آپؐ نے فرمايا: ’’اگرتم ايسا نہ کرتے تو آگ تمہيں جھلس ديتي‘‘ يا فرمايا:آگ تمہيں چھوتي ۔
(صحيح مسلم کتاب الايمان بَاب صُحْبَةِ الْمَمَالِيکِ وَکَفَّارَةِ مَنْ لَطَمَ عَبْدَہُ حديث:3122)
ايک مرتبہ نبي کريمؐ نے فرمايا: جس مسلمان نے کسي مسلمان کو آزاد کيا تو اللہ تعاليٰ اس کي ايک ايک ہڈي کو اس آزاد کردہ کي ايک ايک ہڈي کے بدلے جہنم سے تحفظ اور بچاؤ کا ذريعہ بنا دے گا۔ اور جس عورت نے کسي مسلمان عورت کو آزاد کيا تو يقيناً اللہ تعاليٰ اس کي ايک ايک ہڈي کو اس کي آزاد کردہ کي ايک ايک ہڈي کے بدلے جہنم سے تحفظ اور بچاؤ کا ذريعہ بنادے گا۔
(سنن ابوداؤد کتاب لعتق بَابٌ:أيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ)
حضرت ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمايا: ’’جس شخص نے بھي کسي مسلمان شخص کو آزاد کيا تو اللہ تعاليٰ اس کے ہر ايک عضو کے بدلے ميں آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو آگ سے بچائے گا۔‘‘
(صحيح البخاري کِتَابُ الْعِتْقِ بَاب: فِي الْعِتْقِ وَفَضْلِہِ)
آنحضور ؐ کا ارشاد مبارک ہے : ’’جس نے کسي مسلمان گردن کو آزاد کيا تو وہ اس کے ليے آگ سے بچاؤ کے ليے فديہ ہوگي ۔‘‘
(سنن ابوداؤد کتاب لعتق بَابٌ:أَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ)
حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز غلاموں کي آزادي کے مختلف طريق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں: ’’مختلف موقعوں پر غلاموں کي آزادي کا جو ذکر ہے يہ اس لئے ہے کہ اسلام آہستہ آہستہ غلامي کے سلسلہ کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔ اُس زمانے ميں جو آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کا يا آپ سے پہلے کا زمانہ تھا ،غلام رکھنے کا عام رواج تھا۔ اسلام نے آکر اس غلامي کے طريق کو ختم کرنے کے لئے مختلف موقعوں پر زور دياہے …ايک روايت اسماء بنت ابي بکر سے ہے کہ آنحضرت ؐ مسلمانوں کو فرمايا کرتے تھے کہ سورج گرہن کے موقع پر بھي غلام آزاد کيا کرو۔ (بخاري کتاب العتق باب ما يستحب من العتاقة في الکسوف والاياتحديث نمبر 2520) يعني جو صاحبِ حيثيت ہيں جن کو توفيق ہے وہ ايسا ضرور کريں ۔پھر غلام کي عزت اور اُس کے حق کي آپ نے اس طرح بھي حفاظت فرمائي کہ ايک روايت ميں آتا ہے ۔ سات بھائي تھے اور اُن کے پاس ايک مشترک غلام تھا۔ ايک موقع پر ايک بھائي کو غلام پر غصہ آيا تو اُس نے اُس کو غصے ميں زور سے ايک طمانچہ مار ديا ، چپيڑ ماردي ۔ آنحضرت ؐکے علم ميں جب يہ بات آئي تو آپؐ نے فرمايا: اس غلام کو آزاد کرو۔ (مسلم کتاب الايمان باب صحبة المماليک و کفارة من لطم عبدہ حديث :4304) ۔تمہيں يہ حق نہيں پہنچتا کہ اس غلام کو رکھو کيونکہ تمہيں غلام سے حسنِ سلوک ہي نہيں کرنا آتا…حضرت عثمان ؓ بن عفان کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے ايک ہي موقع پر بيس ہزار غلام آزاد کئے اور اس کے علاوہ اور بھي بہت سارے کئے ۔ جن کو جتني جتني توفيق تھي انہوں نے اتنے کئے ۔ بعضوں نے درجنوں کئے اور بعضوں نے ہزاروں کیے ۔ جن کے پاس کام کاج کے ليے بھي غلام تھے اُنہيں بھي اسلامي تعليم يہ ہے کہ ان سے بھائيوں جيسا سلوک کرو، جو خود پہنو، اُنہيں پہناؤ ، جو خود کھاؤ ، اُنہيں کھلاؤ۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍نومبر 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنيشنل 16؍دسمبر 2011ء صفحہ 6)
غلام بنانا،انسانوں کي خريدوفروخت کرنا ياکسي کوحبس بے جا ميں رکھنا ۔ يہ ايسي باتيں ہيں جن کا تعلق انساني تمدن کي ادنيٰ حالت سے ہے ۔ اسلام کا مطمح نظر يہ ہے کہ اُس کے ماننے والے ادنيٰ حالت سے اعليٰ مراتب پر فائز ہوں اور وہ صفات الٰہیہ سے متصف ہوکر فطرت کے منشاء کے مطابق زندگي بسر کريں ۔ يہي وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائي دَور ميں مجبوراً لڑي گئي جنگوں ميں بھي رسول کريم ؐنے جنگي قيديوں کے متعلق نہايت نرمي کا طريق اختيار فرمايا اور جنگي قيديوں کواحسان کے طورپر يا فديہ لے کرآزادي دے دي گئي ۔جيسا کہ اللہ تعاليٰ کا حکم ہے :
فَاِمَّامَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۤءً (محمد:5)
پھر بعدازاں احسان کے طورپر يا فديہ لے کر آزاد کرنا ۔
تاريخ اسلام ميں قيديوں کے ساتھ حسن واحسان کے بے شمار واقعات درج ہيں۔جنگ بدر کے کچھ قيديوں نے مسلمانوں کے بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا ديا تواس بنا پر اُنہيں آزادي کا پروانہ تھما ديا گيا۔
رسول کريم ؐ نے حضرت جويريہؓ سے شادي کرلي تو صحابہؓ نے قبيلہ بنو مصطلق کے ايک سو گھرانوں کو اس ليے آزاد کرديا کہ وہ نبي کريم ؐ کے سسرالي ہيں۔(سنن ابوداؤد کتاب العتق بَابٌ: فِي بَيْعِ الْمُکَاتَبِ اِذَا فُسِخَتِ الْمُکَاتَبَةُ)۔ رسول کريم ؐ نے کسي موقع پر مناسب سمجھا تو ايک ہي وقت ميں ہزاروں جنگي قديوں کوآزاد کرکے حسن و احسان کا اعليٰ نمونہ قائم فرماديا۔
چنانچہ غزوہ حنين ميں بنوہوازن کے چھ ہزار قيديوں کو اُن کے عزيزو اقارب کي درخواست پربلا معاوضہ آزاد کرديا، (صحيح بخاري ،کتاب المغازي ، باب غزوہ حنين)
حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں : ’’اسلام اس بات کا حامي نہيں کہ کافروں کے قيدي غلام اور لونڈياں بنائي جائيں بلکہ غلام آزادکرنے کے بارہ ميں اس قدر قرآن شريف ميں تاکيد ہے کہ جس سے بڑھ کر متصور نہيں ۔ غرض ابتداء غلام لونڈي بنانے کي کافروں سے شروع ہوئي اور اسلام ميں بطور سزا کے يہ حکم جاري ہوا اور اس ميں بھي آزاد کرنے کي ترغيب دي گئي۔‘‘
(چشمہ معرفت،روحاني خزائن جلد 23صفحہ 254تا255)
(جاری ہے)
٭…٭…٭