تمام قرآن شریف میں کہیں یسوع کا لفظ نہیں ہے۔ مگر میری نسبت مِنْکُمْ کا لفظ موجود ہے
پیشگوئی کا ماحصل یہ تھا کہ ہم دونوں فریق میں سے جو جھوٹا ہے وہ سچے سے پہلے مریگا۔ سُو مدّت ہُوئی کہ آتھم مر گیا۔ اور یہ فقرہ جو اِس پیشگوئی میں موجود تھا کہ آتھم پندرہ مہینہ کے اندر مریگا۔ اس کے ساتھ یہ شرط بھی شائع کی گئی تھی کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ مگر آتھم نے اُسی مجلس بحث میں اپنی بے ادبی سے رجوع کر لیا تھا۔ کیونکہ جب مَیں نے اُس کو کہا کہ یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے کہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کتاب میں دجاّل لکھا ہے۔ تو سُنتے ہی اُس کا چہرہ زرد ہوگیا اور نہایت تضرع سے اُس نے اپنی زبان منہ سے باہر نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لئے اور کہا کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہرگز ایسا نہیں کہا۔ اور بڑی عاجزی اور تضرع ظاہر کی اُس وقت ساٹھ سے زیادہ مسلمان اور عیسائی وغیرہ موجود تھے۔ کیا یہ ایسا لفظ نہیں تھا۔ جس کو شوخی اور بے ادبی سے رجوع سمجھا جائے اور پھر وہ پندرہ مہینہ تک مخالفت سے بالکل چُپ رہا اور اکثرگریہ وبکا میں رہا اور اپنی حالت اُس نے بالکل بدل لی۔ پس ایک نیک دل ایماندار کیلئے یہ کافی ہے کہ اُس نے پندرہ مہینہ کے اندر کسی حد تک اپنی تبدیلی کرلی تھی۔ اور چونکہ اُس نے خدا تعالیٰ سے خوف کھا کر نرمی اور تضرع اختیار کیا اور قطعاً شوخی اور گستاخی چھوڑ دی۔ بلکہ امرتسر میں جو ایسے لوگوں کی صحبت اُسے میسّر تھی۔ اُس صحبت کو ترک کرکے اور وہ مکان چھوڑ کر وہ فیروزپور میں جاکر مقیم ہوگیا۔ پس ضرور تھا کہ وہ اس قدر خوف سے فائدہ اُٹھاتا۔ پس اگرچہ اِس بات سے محفوظ نہ رہا کہ میرے پہلے بہت جلد انہیںدنوں میں مرگیا۔ مگر کسی قدرشرط کے پورا کرنے سے فائدہ اُٹھالیا۔ اس کے مقابل لیکھرام تھا۔ جس نے پیشگوئی کی میعاد میں کوئی تضرع اور خوف ظاہر نہ کیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ گستاخ ہو کر بازاروں اور کوچوں اور شہروں اور دیہات میں توہین اسلام کرنے لگا۔ تب وہ میعاد کے اندر ہی اپنی اس بداعمالی کی وجہ سے پکڑا گیا اور وہ زبان اُس کی جو گالی اور بدزبانی میں چھُری کی طرح چلتی تھی اُسی چھُری نے اس کا کام تمام کردیا۔
رہا احمدبیگ کا داماد پس ہر ایک شخص کو معلوم ہے کہ یہ پیشگوئی دو شخصوں کی نسبت تھی۔ ایک احمد بیگ کی نسبت اور دُوسری اُسکے داماد کی نسبت۔ سو ایک حصّہ اس پیشگوئی کا میعادکے اندر ہی پُورا ہوگیا۔ یعنی احمد بیگ میعاد کے اندر مر گیا اور اس طرح پر ایک ٹانگ پیشگوئی کی پوری ہوگئی۔اب دوسری ٹانگ جو باقی ہے اس کی نسبت جو اعتراض ہے۔ افسوس کہ وہ دیانت کے ساتھ پیش نہیں کیا جاتا اور آج تک کسی معترض کے مُنہ سے مَیں نے یہ نہیں سُنا کہ وہ اس طرح پر اعتراض کرے کہ اگرچہ اس پیشگوئی کا ایک حصّہ پورا ہو چکا ہے اور ہم بصدق دل اعتراف کرتے ہیں کہ وہ پورا ہوا۔ مگر دوسرا حصہ اب تک پُورا نہیں ہوا۔ بلکہ یہودیوں کی طرح پورا ہونے والا حصہ بالکل مخفی رکھ کر اعتراض کرتے ہیں۔ کیا ایسا شیوہ ایمان اور حیا اور راستبازی کے مطابق ہے؟ اب قطع نظر ان کی خائنانہ طرز گفتگو کے جواب یہ ہے کہ یہ پیشگوئی بھی آتھم کی پیشگوئی کی طرح مشروط بشرط ہے یعنی یہ لکھا گیا تھا کہ اس شرط سے وہ میعاد کے اندر پوری ہوگی کہ ان دونوں میں سے کوئی شخص خوف اور خشیت ظاہر نہ کرے۔ سو احمد بیگ کو یہ خوفناک علامت پیش نہ آئی اور وہ پیشگوئی کو خلاف واقعہ سمجھتا رہا۔ مگر احمد بیگ کے داماد اور اُس کے عزیزوں کو یہ خوفناک حالت پیش آگئی کیونکہ احمد بیگ کی موت نے ان کے دلوں پر ایک لرزہ ڈال دیا جیسا کہ انسانی فطرت میں داخل ہے کہ سخت سے سخت انسان نمونہ دیکھنے کے بعد ضرور ہراساں ہو جاتا ہے۔ سو ضرور تھا کہ اس کو بھی مہلت دی جاتی۔ سو یہ تمام اعتراضات جہالت اور نابینائی اور تعصب کی وجہ سے ہیں نہ دیانت اور حق طلبی کی وجہ سے جس شخص کے ہاتھ سے اب تک دس لاکھ سے زیادہ نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور ہورہے ہیں۔ کیا اگر ایک یا دو پیشگوئیاں اُس کی کسی جاہل اور بدفہم اور غبی کو سمجھ میں نہ آویں تو اِس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ وہ تمام پیشگوئیاں صحیح نہیں۔ مَیں یہ بات حتمی وعدہ سے لکھتا ہوں کہ اگر کوئی مخالف خواہ عیسائی ہو خواہ بگفتن مسلمان۔ میری پیشگوئیوں کے مقابل پر اس شخص کی پیشگوئیوں کو جس کا آسمان سے اُترنا خیال کرتے ہیں۔ صفائی اور یقین اور بداہت کے مرتبہ پر زیادہ ثابت کرسکے تو مَیں اُس کو نقد ایک ہزار روپیہ دینے کو طیار ہوں۔ مگر ثابت کرنے کا یہ طریق نہیں ہوگا۔ کہ وہ قرآن شریف کو پیش کرے کہ قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مان لیا ہے اور یا اس کو نبی قرار دیدیا ہے۔ کیونکہ اس طرح پر تو مَیں بھی زور سے دعویٰ کرتا ہوں کہ قرآن شریف میری سچائی کا بھی گواہ ہے۔ تمام قرآن شریف میں کہیں یسوع کا لفظ نہیں ہے۔ مگر میری نسبت منکمکا لفظ موجود ہے اور دوسری بہت سی علامات موجود ہیں۔ بلکہ اس جگہ میرا صرف یہ مطلب ہے کہ قرآن شریف سے قطع نظر کر کے محض میری پیشگوئیوں اور یسوع کی پیشگوئیوں پر عدالتوں کی عام تحقیق کے رنگ میں نظر ڈالی جائے اور دیکھا جائے کہ ان دونوں میں سے کونسی پیشگوئیاں یا اکثر حصّہ اُن کا بحکم عقل کمال صفائی سے پورا ہوگیا اور کونسا اس درجہ پر نہیں۔ یعنی یہ تحقیقات اور مقابلہ ایسے طور سے ہونا چاہئے کہ اگر کوئی شخص قرآن شریف سے منکر ہو تو وہ بھی رائے ظاہر کر سکے کہ ثبوت کا پہلو کس طرف ہے۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ42تا 44)