سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد

انگریزحکومت کے ساتھ وفاداری(حصہ سوم)

نقل مراسلہ

(رابرٹ کسٹ ٭صاحب بہادر کمشنر لاہور)

[٭رابرٹ کسٹ(Robert Needham Cust)۔24فروری 1821ء کو پیدا ہوئے ۔ایسٹ انڈیا کالج سے پاس کرنے کے بعد انہوں نے انبالہ اور امرتسر میں انتظام سنبھالا۔ 1861ء میں امرتسر کے جوڈیشل کمشنر مقرر ہوئے اور 1864ءمیں قانون ساز کابینہ کے ممبر بنے۔ 1867ء میں انہوں نے سو ل سروس سے ریٹائرمنٹ لے لی۔بعد ازاں ایک مستشرق کے طور پر معروف ہوئے۔1878ءسے 1899ء تک Royal Asiatic Society کے سیکرٹری رہے۔28 اکتوبر 1909ء کو لنڈن میں ان کی وفات ہوئی۔

(http://janus.lib.cam.ac.uk/db/node.xsp?id=EAD%2FGBR%2F0115%2FRCMS%2070)]

تہورو شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بعافیت باشند۔از آنجا کہ ہنگام مفسدہ ہندوستان موقوعہ 1857ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی و مدد دہی سرکار دولتمدار انگلشیہ در باب نگاہداشت سواران وبہمر سانی اسپاں بخوبی بمنصہ ظہور پہنچی۔ اور شروع مفسدہ سے آج تک آپ بدل ہوا خواہ سرکار رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا۔ لہٰذا بجلد وے اس خیر خواہی اور خیر سگالی کے خلعت مبلغ دو صد روپیہ کا سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے اور حسب منشاء چٹھی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری 576 مورخہ 10/ اگست 1858ء پروانہ ھٰذا باظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی و وفاداری بنام آپ کے لکھا جاتا ہے۔

مرقومہ تاریخ 20/ ستمبر 1858ء

Translation of Mr, Robert Cast‘s Certificate

To,

Mirza Ghulam Murtaza Khan Chief of Qadian

As you randered great help in enlisting sowars and supplying horses to Govt, in the mutiny of 1857 and maintained loyalty since its beginning up to date and thereby gained the favour of Govt, a Khilat worth Rs.200/- is presented to you in recognition of good services and as a reward for your loyalty. More over in accordance with the wishes of chief commissioner as conveyed in his No.576 Dated. 10th August 1858. This parwana is addressed to you as a token of satisfaction of Govt. for your fidelity and repute.

نقل مراسلہ

فنانشل کمشنر پنجاب مشفق مہربان دوستان مرزاغلام قادر رئیس قادیان حفظہ۔

آپ کا خط دو ماہ حال کا لکھا ہوا ملاحظہ حضور اینجانب میں گذرا۔مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا۔ مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریزی کا اچھا خیر خواہ اور وفادار رئیس تھا۔ ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح عزت کریں گے جس طرح تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی۔ ہم کو کسی اچھے موقع کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا۔

المرقوم29/ جون 1876ء

الراقم سررابرٹ ایجرٹن٭ صاحب بہادر فنانشل کمشنر پنجاب

[٭سر رابرٹ ایجرٹن (Sir Robert Eyles Egerton K.C.S.I, C.I.E, J.P, D.L., I.C.S) 1827ءمیں پیدا ہوئے۔ 1849ء سے لے کر 1882ء تک انہوں نے ہندوستان میں خدمات سر انجام دیں۔ ICSکے ممبر کے طور پر وہ انڈیا آئے اور پھر 1857ء کے نازک دور میں انہوں نے لاہور کے ڈپٹی کمشنر کے فرائض سرانجام دیے۔ 1869ء میں ناگپور کے کمشنر بنا دیے گئے اور 1871ء میں پنجاب کے فنانشل کمشنر مقرر ہوئے۔ 1871ء سے 1874ء تک گورنر جنرل کی قانون ساز کابینہ کے رکن رہے۔ 2 اپریل 1877ء کو پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مقرر ہوئے اور اس عہدہ پر 1882ء تک کام کیا۔(Governers of Punjab:Page 11)

(30؍ستمبر 1912ء کو 85 سا ل کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔)(http://www.thepeerage.com/p42693.htm#c426928.1)]

Translation Of Sir Robert Egerton

Financial Commr`s:

Murasala Dated 29 June 1876.

My dear friend Ghulam Qadir,

I have perused your letter of the 2nd instant and deeply regret the death of your father Mirza Ghulam Murtaza. who was a great well wisher and faithful chief of Govt.

In consideration of your family services. I will esteem you with the same respect as that bestowed on your loyal father. I will keep in mind the restoration and welfare of your family when a favourable opportunity occurs.”

(کشف الغطاءصفحہ1۔5،روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 179-185)

ایک کامیاب اور خوددار طبیب حاذق

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ ایک قابل اور حاذق طبیب بھی تھے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خود بیان فرمایا کہ

’’اور بعض طبابت کی کتابیں مَیں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اوروہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے…‘‘

(کتاب البریہ ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ181حاشیہ)

طبابت میں آپ کا وسیع تجربہ اورشہرہ تھا۔حضرت مسیح موعودؑ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ہمارے گھر میں مرزا صاحب (مراد اپنے والد بزرگوار مرزا غلام مرتضیٰ خان صاحب مرحوم) پچاس برس تک علاج کرتے رہے۔وہ اس فن طبابت میں بہت مشہور تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ459)

آپ نے طب کی تعلیم ایک معروف طبیب باغبانپورہ ضلع لاہور (پاکستان) کے حافظ روح اللہ صاحب سے حاصل کی تھی۔اور پھر دہلی میں شریف خان فیملی سے استفادہ کیا تھا۔

“Mirza Ghulam Murtaza was a great physician. He had studied medicine at Baghbanpura under Roohulla and at Delhi under the Sharif Khan family.”

(Life of Ahmad by A.R.Dard page : 16)

علم طبابت کے حصول کے لیے جب آپ دہلی تشریف لے گئے تووہاں کچھ کٹھن اور تنگدستی کے مراحل بھی آئے لیکن آپ نے ان مشکل اورتنگدستی کے مراحل کوانتہائی خوش اسلوبی سے طے کیا۔ حصول تعلیم کے ان مراحل کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’جب ان کے والد (یعنی حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے والد صاحبؒ۔ ناقل) کپورتھلہ میں انتقال فرما گئے تو…اس وقت بے سروسامانی کی یہ حالت تھی کہ کسی سے پانچ سیر دانے قرض لے کرگھرمیں دئے اور گھر سے پیدل ہی طبابت سیکھنے کے لئے دلی روانہ ہوگئے کہ عزت پاکر وطن واپس آؤں گا۔وہاں قیام وطعام کی بے حد مشکلات کا سامنا کرناپڑا اورفاقوں تک نوبت پہنچی۔مگروہ پوری جوانمردی ،استقلال اور دل جمعی سے تحصیل علم طب میں مشغول رہے اوردلی کے مشہور حکیم محمدشریف صاحب سے طبابت میں یہاں تک دستگاہ حاصل کرلی کہ ان کا شمار چوٹی کے حکماء میں ہونے لگا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول ص 140)

دہلی میں آپؒ کو تحصیل علم کے اس زمانے میں فاقوں تک بھی نوبت پہنچ جاتی رہی جس کا اندازہ ’’سیرت المہدی‘‘ میں موجوداس روایت سے لگایاجاسکتاہے :

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے والد صاحب اوائل میں تعلیم کے لیے باہر گئے تو شائد دلّی کی بات ہے کہ وہ ایک مسجد میں ٹھہرے ہوئے تھے چونکہ زاد ختم ہوگیا تھا کئی وقت فاقے گذر گئے تھے آخر کسی نے ان کو طالب علم سمجھ کر ایک چپاتی دی جو بو جہ باسی ہو جانے کے خشک ہو کر نہایت سخت ہوچکی تھی۔والد صاحب نے لے لی مگرابھی کھائی نہ تھی کہ آپ کا ساتھی جوقادیان کا کوئی شخص تھا اور اس پر بھی اسی طرح فاقہ تھا بولا۔’’مرزا جی ساڈا وی دھیان رکھنا‘‘ یعنی مرزا صاحب ہمارا بھی خیال رہے۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس پر والد صاحب نے وہ چپاتی اس کی طرف پھینک دی جو اس کے ناک کے اوپر لگی اور لگتے ہی وہاں سے ایک خون کی نالی بہہ نکلی۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ ساتھی بھی قادیان کا کوئی مغل تھامگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہے کہ وہ کوئی نائی یا مراثی تھا چنانچہ حضرت صاحب لطیفہ کے طور پر بیان فرماتے تھے کہ ان لوگوں کو ایسے موقعہ پر بھی ہنسی کی بات ہی سوجھتی ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 43)

ایک اہم اورقابل ذکر بات یہ ہے کہ ہرچند کہ آپ اپنے علاقہ کے مشہور و معروف طبیب حاذق تھے لیکن آپ کی سوانح سے ہمیں یہ پتہ چلتاہے کہ آپ نے طب کو کبھی بھی ذریعہ معاش نہیں بنایاتھا۔کبھی کسی سے علاج کا کوئی روپیہ پیسہ نہیں لیا۔بلکہ محض نفع رسانی مخلوق کے لیے وہ اس شغل کو رکھتے تھے۔ان کے علاج میں جو بات قابلِ قدر ہوتی تھی وہ یہ تھی کہ علاج ہمیشہ سہل الحصول تجویز کیا کرتے۔لیکن امراء اور غریب اورنادارلوگوں کے مزاج اور طبیعت کے موافق نسخہ جات تجویز فرماتے جس سے امراء کی اصلاح بھی مدنظر ہوتی۔

’’سیرت المہدی‘‘ میں پنڈت دیوی رام صاحب ولد متھراداس کی ایک تفصیلی روایت درج ہے۔یہ صاحب 1875ء میں قادیان کے سکول میں نائب مدرس تھے۔وہ اپنی روایت میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی طبابت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’مرزا صاحب قابل حکیم تھے اور پنجاب میں گیارھویں درجہ پر کرسی ملتی تھی اور ان کی جاگیر آٹھ میل چوڑی تھی۔… حکمت دھرم ارتھ کرتے تھے اور کوئی معاوضہ نہ لیتے تھے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر759)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button