یورپ (رپورٹس)

اسیر راہ مولیٰ کے اعزاز میں نیشنل شعبہ تبلیغ جماعت احمدیہ جرمنی کی تقریب

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

مکرم طاہر مہدي امتيازاحمد صاحب واقفِ زندگي مينجر الفضل انٹرنيشنل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادپر الفضل کی خریداری میں اضافہ کے لیے فرانس، بیلجیم، ہالینڈ اور جرمنی کا دورہ کر رہے ہیں۔ جلسہ سالانہ جرمنی سے قبل آپ جرمني کي متعدد جماعتوں اور شہروں ميں تشريف لے گئے جہاں احباب جماعت نے آپ کا پُرجوش خير مقدم کيا ۔ مکرم طاہر مہدي صاحب کو اسيرراہ موليٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
نيشنل شعبہ تبليغ جرمنی نے مکرم طاہر مہدي صاحب کے اعزاز ميں 26؍جون کو بعد نماز عصر ايک خیر مقدمي تقريب کا اہتمام کيا جس ميں شعبہ تبليغ کے کارکنان ،شعبہ سے وابستہ مبلغين سلسلہ، بعض ممبران عاملہ اور ديگر مہمان شامل ہوئے ۔يہ تقريب بيت السبوح کے ميٹنگ روم ميں منعقد ہوئي۔

تقريب کے آغاز ميں مکرم صداقت احمد صاحب مبلغ انچارج نے معزز مہمان کا تعارف کرواتے ہوئے آپ کي ديني خدمات کا تذکرہ کيا ۔

مکرم طاہر مہدي صاحب نے ستمبر 1972ء میں اپنی زندگی وقف کی اور جامعہ احمديہ ميں داخل ہوئے جہاں سے آپ نے اپريل 1979ء ميں شاہد کا کورس کرکے بطور مربي سلسلہ خدمات ِسلسلہ کا آغاز کيا ۔ آپ کو صدر انجمن احمديہ کي منصوبہ بندي کميٹي کے دفتر میں بطور آفس سیکرٹری خدمت کی توفیق ملی۔ 1989ء سے 2006ء تک آپ کو گيمبيا اور سيراليون ميں بطور مشنري خدمت کي توفيق ملي ۔ مرکز سلسلہ ربوہ ميں بحيثيت مينجر ضيا ءالاسلام پريس، جماعتي رسائل و اخبارات کے پبلشر تھے۔ روزنامہ الفضل ربوہ کے مينجر بھي رہے اور اسي دوران آپ کو اسير راہ موليٰ بننے کا اور قرباني کے نئے دور ميں داخل ہونے کا موقع ميسر آيا۔

مکرم صداقت احمد صاحب مشنري انچارج نے اپني بات جاري رکھتے ہوئے بتايا کہ سچائي کے اظہار کي خاطر جيليں کاٹنا سنتِ يوسفيؑ ہے جس کا ذکر قرآن کريم ميں بھي ہے۔ آنحضرت ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ عليہم نے جو وقت شعب ابي طالب ميں گزارا وہ بھي ايک قيد کي زندگي تھي ۔ صليب چڑھنے سے قبل حضرت عيسيٰ عليہ السلام اپنے ساتھيوں کے ساتھ جس باغ ميں جمع ہوکر خدا سے موت کا پيالا ٹالنے کي دعا کر رہے تھے وہ بھي قيد کي حالت تھي ۔ آج کے زمانہ ميں جماعت احمديہ کے مخلصين کو انبياء کي سنتيں دہرانے کي توفيق مل رہي ہے ۔ اسيران راہ موليٰ کي تصاوير سوشل ميڈيا پر ديکھ کر دعا کي ياد دہاني ہوتي ہے۔پاکستان کي قيد کتني تکليف دہ ہے اس کا اندازہ اسي کو ہوسکتا ہے جس نے وہ قيد کاٹي ہو ليکن واقعات شاہد ہيں کہ احمدي اسيران کو خدا تعاليٰ کے فرشتے سکينت عطا کرتے ہيں۔

مہمان خصوصي مکرم طاہر مہدي امتياز احمد صاحب نے اپني تقرير ميں شعبہ تبليغ کا شکريہ ادا کرنے کے بعد حاضرين (جس ميں زيادہ تعداد نوجوانوں کي تھي ) کو بتايا کہ حکومتِ برطانيہ نے 1929ء ميں بانيانِ مذاہب کي توہين پر دو سال کي سزا کا قانون بنايا تھا۔ 1985ء تک اس قانون کے تحت 10مقدمات قائم ہوئے ليکن بعد ميں 1985ء سے اب تک 7 ہزار سے زائد توہينِ رسالت کے مقدمات قائم کيے گئے ہيں ۔ پاکستاني معاشرہ ميں لوگ ايک دوسرے سے بدلہ لينے کے ليے اس کو استعمال کرتے ہيں ۔انصاف کي کرسي پر بيٹھے لوگ دباؤ کے نتيجہ ميں مقدمات کا فيصلہ نہيں کرتے اور لوگ کئي کئي سال جيلوں ميں بغير سماعت ہوئے گزارديتے ہيں ۔ جھوٹے مقدمے قائم کرنے والوں کو لا علم سوسائٹي شہيد اور غازي کے نام دے ديتي ہے ۔ ميں ايک ايسے قيدي سے بھي ملا جو گواہان نہ ہونے کي وجہ سے 16 سال سے جيل ميں تھا ۔پاکستان کي عدالتوں سے نوجوانوں کو آگاہي دينے کے ليے مکرم طاہر مہدي صاحب نے ايک ايسے مقدمہ کي مثال دي جس ميں ڈاکٹر نسيم حسن شاہ صاحب کے والد وکيل تھے۔ وہ فوت ہوئےتو بيٹے يعني نسيم حسن شاہ صاحب نے کيس لے ليا ۔ پھر نسيم حسن شاہ صاحب جج بن گئے حتيٰ کہ چيف جسٹس آف پاکستان ہوکر ريٹائرہوگئے ليکن اس مقدمہ کا فيصلہ نہ ہو سکا ۔ 54سال کے بعد اس کيس کا ثالثي فيصلہ ہوا ۔ عدالت نے فيصلہ نہيں کيا ۔ مکرم طاہر مہدي صاحب نے اس نوعيت کي کئي مثاليں دے کر پاکستان کے حالات سے متعارف کروايا ۔ آپ نے بتایا کہ پاکستان ميں ايسا ماحول بن چکا ہے کہ توہين رسالت کي دفعات کا مقدمہ بنوا دو تو ظلم کرنے والے پر انتظاميہ، انصاف مہيا کرنے والے ادارے ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے ہيں۔

شيخو پورہ ميں ديوار پر لگے اشتہار پر سے مذہبي عبارت کھرچنے پر چار احمديوں پر مقدمہ بنايا گيا ان ميں سے ايک احمدي کو مخالفِ احمديت نے حوالات ميں آ کر شہيد کرديا۔قاتل ابھي تک قانوني گرفت سے آزاد ہے جبکہ دوسرے تين احمديوں کو اکتوبر 2017ءميں سزائے موت سنا دي گئي۔

اپنے بارے ميں مکرم طاہر مہدي صاحب نے بتايا کہ 2011ء ميں 18ويں ترميم کے بعد بہت سارے اختيارات صوبائي حکومتوں کے سپردہوئے تو پنجاب حکومت نے قرآن بورڈ تشکيل ديا۔ دوسرے صوبوں ميں اس بورڈ کا کوئي وجود نہيں ہے۔ ہمارے رسالہ جات ميں قرآن کريم کے حوالے شائع ہوتے ہيں جن پر علماء کے علاوہ قرآن بورڈ والوں کو بھي اعتراض ہوتا ہے ۔2011ء سے مخالفين کي طرف سے پنجاب انتظاميہ کو درخواستيں دينے کا سلسلہ شروع ہو گيا تھا جس پر ہميں وارننگ (warning) ليٹر جاري ہوتے تھے ۔پوسٹ آفس والوں نے الفضل لينا بند کرديا تو لاہور کي جماعت نے خدام کي وساطت سے اخبار کي تقسيم شروع کردي جس پر خاکسار اور ایڈیٹر سمیت 6 افراد کے خلاف مقدمہ قائم ہوا ۔2014ء ميں دوسرا پرچہ ہوا ۔گرفتاري کے روز ميں نے دعا کي کہ اے خدا تو بہتر جانتا ہے کہ اسيري کا عرصہ کتنا لمبا چلے گا۔ جس طرح تو نے حضرت صاحبزادہ عبد الطيف شہيد رضی اللہ عنہ کو صبر عطا کيا تھا مجھے بھي ميرے اعمال کے مطابق صبر کي طاقت ضرور عطا کرنا اور وہ بوجھ مجھ پر نہ ڈالنا جس کو اٹھانے کي طاقت مجھ ميں نہ ہو اور نہ ہي ميں کسي موقع پر کمزوري دکھاؤں۔

مجھے جيل ميں8×12 کے سيل ميں رکھا گيا ۔جس ميں 5آدمي پہلے سے موجود تھے ۔ہائي کورٹ نے ضمانت لي اور تیسرے دن مولويوں کے دباؤ ميں آکر کينسل کردي اور مقدمہ ميں دہشتگردي کي 2دفعات بھي شامل کرديں ۔اسی طرح 2014ء میں بھی میرے خلاف ايک مقدمہ بھی بنايا گيا جس ميں مقدمہ کي تاريخ اور رسالہ جو شائع ہوا اس ميں ايک سال کا فرق تھا ۔رسالہ مقدمہ قائم ہونے کے ايک سال بعد شائع ہوا ۔ سيل ميں صرف ايک گھنٹہ صبح اورايک گھنٹہ شام کو باہر نکلنے کي اجازت تھي ۔اسي کمرہ ميں 3فٹ کي ديوار کھڑي کر کے رفع حاجت کے ليے جانا پڑتا ہے۔ ايک کمرے ميں 6آدمي ہوں تو آپ اندازہ کر ليں کہ کس اذيت سے گزرنا پڑتا ہے ۔ليکن اللہ تعاليٰ نے بہت حوصلہ ديا ۔کبھي مايوس نہيں کيا۔ لاہور کي جماعت نے بہت خيال رکھا ،کھانا پينا ،پھل وغيرہ اس قدر زيادہ بھجواتے تھے کہ ميں قيديوں اور جيل کے عملہ ميں تقسيم کرديتا تھا ۔جيل کا ہر سطح کا عملہ بہت عزت سے پيش آتا تھا ۔حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزیز کے خطوط ہمت بندھاتے تھے۔ ہر چند کہ ميرے مقدمات ميں 295 اے ، بي ،سي اور دہشت گردي کي دفعات لگائي گئي تھي ۔اردگرد کے ماحول کو ديکھتا کہ بےيارو مددگار ،کئي سالوں سے قيدميں پڑے لوگ آدھے پاگل ہو چکے تھے ۔ايک قيدي پر اذان دينے پر توہين مذہب کا مقدمہ بنا ۔10سال جيل ہوئي 9ويں سال ميں فوت ہو گيا ۔توہین رسالت کے درجنوں ملزمان جیل میں اذیت ناک حالات کی وجہ سے وفات پا چکے ہیں۔ يہ سب کچھ ديکھنےکے باوجود دل ميں يقين تھا کہ خدا تعاليٰ جلد ميري رہائي کے سامان کردے گا۔ احباب جماعت ، دوستوں ، بزرگوں کي دعائيں تھيں ۔ ہر طرف سے خطوط ملتے کہ اللہ تعاليٰ آپ کي جلد رہائي کے سامان کرے۔يہ دعا ئيں قبول ہوئيں اور 5 مئي 2017ءکو مجھے رہا کر ديا گيا ۔جيل سے روانہ ہونے سے پہلے ميں نے جيل ميں مٹھائي بھي تقسيم کروائي ۔الحمد للہ

مکرم طاہر مہدي صاحب کے انتہائي دلچسپ خطاب کے بعد نيشنل سيکرٹري تبليغ مکرم فريد احمدخالد صاحب نے معزز مہمان کا شکريہ ادا کيا اور جرمني کے دوستوں سے اپيل کي کہ پاکستان ميں ہمارے دوست جو تکاليف اٹھا رہے ہيں ،جن پابنديوں کا سامنا کر رہے ہيں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہميں زيادہ سے زيادہ تبليغ کرني چاہيے ۔ مکرم ملک صفوان صاحب نے اپنا ديني کلام پيش کر کے داد وصول کي ۔ مکرم و محترم حيدر علي ظفر صاحب نائب امير نے دعا کروائي اور اس کے بعد حاضرين کي خدمت ميں کھانا پيش کيا گيا ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 2

  1. لسلام علیکم ورحمة الله وبركاته
    اللہ تعالی کے فضل سے روزنامہ الفضل انٹرنیشنل اب سہ روزہ ہو چکا ہے الحمداللہ۔مگر الاسلام کے اخبارات و رسائل کے صفحے پر ابھی تک الفضل انٹرنیشنل ہفت روزہ ہی لکھا ہوا ہے

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button