تعارف کتاب

سبز اشتہار

(ابو سلطان)

تعارف

یہ اشتہار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان نکتہ چینیوں کے جواب میں لکھا جو بعض مخالفین نے بشیر اوّل کی وفات پر کیں۔ مثلاً یہ کہ یہ وہی بچہ تھا جس کی نسبت اشتہار 20؍فروری 1886ء اور 8؍اپریل 1886 اور 7؍اگست 1887 میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ اس اشتہار میں مصلح موعود کے نام اور اس سے متعلقہ پیشگوئی کی وضاحت کی گئی ہے۔

اس اشتہار کا اصل نام ’’حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر‘‘ ہے لیکن اس کے سبز کاغذ پر طبع ہونے کی وجہ سے سبز اشتہار کے نام سے موسوم ہو گیا۔

سبز اشتہار

مضامین کا خلاصہ

فرمایا :’’واضح ہو کہ اس عاجز کے لڑکے بشیر احمد کی وفات سے جو 7؍اگست 1887ء میں پیدا ہوا تھا اور 4نومبر 1888ء کو اپنی عمر کے سولہویں مہینے میں اپنے معبود حقیقی کی طرف واپس بلایا گیا ۔ مخالفین نے اس بچے کی وفات پر انواع و اقسام کی افترا گھڑی اور طرح طرح کی نا فہمی اور کج دلی کی راہیں ظاہر کیں۔ اگرچہ ابتدا میں ہمارا ارادہ تھا کہ اس پسر معصوم کی وفات پر کوئی اشتہار یا تقریر شائع کریں اور نہ کوئی ایسی ضرورت تھی مگر جب یہ شور و غوغا انتہا کو پہنچ گیا اور ہم نے محض للہ یہ تقریر شائع کرنا مناسب سمجھا ۔‘‘

پھر فرمایا:’’بعض مخالفین پسر متوفی کی وفات کا ذکر کر کے اپنے اشتہارات و اخبارات میں طنز سے لکھتے ہیں کہ یہ وہی بچہ ہے جس کی نسبت اشتہار 20 فروری 1886ء اور 8؍ اپریل 1886ءاور 7؍اگست 1887ء میں ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ ‘‘

لیکھرام پشاوری مفتری کی افترا

اس نے تینوں اشتہارات اپنے اشتہار میں اپنے دعویٰ کے اثبات کے لیے پیش کیے ہیں ۔ اور سراسر خیانت سے کام لیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ اس عاجز پر اس قدر کھل گیاہےکہ لڑکا بہت قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا لیکن اس عبارت سے اگلی عبارت ظاہر نہیں کی کہ جو اب پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہوگا۔ اس فقرے کو اس نے عمداً نہیں لکھا۔ پھر دوسری خیانت یہ ہے کہ لیکھرام کے اس اشتہار سے قبل آریوں کی طرف سے ہمارے اشتہارات مطبع چشمہ نور امرتسر میں شائع ہو چکاہے جس میں انہوں نے صاف اقر ار کیا ہے کہ ان تینوں اشتہارات کے دیکھنے سے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لڑکا جو پید اہو ا ہے یہ وہی مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا کوئی اور ہے۔ اس اقرار کا لیکھرام نے کہیں ذکر نہیں کیا۔ اب ظاہر ہے کہ آریوں کا پہلا اشتہار لیکھرام کے اس اشتہار کی خود بیخ کنی کرتا ہے۔

اصل حقیقت بابت پسر موعود

فرمایاکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ماہ اگست 1887ءتک جو پسر متوفی کی پیدائش کا مہینہ ہے جس قدر اشتہارات اس عاجز کی طرف سے چھپے ہیں …ان میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا تھا جو فوت ہو گیا ہے۔ بلکہ 8؍اپریل 1886ء اور 7؍اگست 1887ء صاف بتلا رہاہے کہ ہنوز الہامی طور پر تصفیہ نہیں ہوا کہ آیا یہ لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا کوئی اور ہے۔

پسر متوفی کی پیدائش پر استفساری خطوط اور جوابات

فرمایا:’’جب یہ لڑکا جو فوت ہوا ہے ، پیدا ہوا تھا تو اس کی پیدائش کے بعد صد ہا خطوط اطراف مختلفہ سے بدیں استفسار پہنچے تھے کہ کیا یہ وہی مصلح موعود ہے جس کے ذریعہ لوگ ہدایت پائیں گے تو سب کی طرف یہی جواب لکھا گیا کہ اس بارے میں صفائی سے اب تک کوئی الہام نہیں ہوا ۔ ہاں اجتہادی طور پر یہی گمان کیا جاتا ہے کہ کیاتعجب کہ مصلح موعود یہی لڑکا ہو۔‘‘

متشابہات وحی کو سمجھنا ایک غبی اور کور دل انسان کےلیے بہت مشکل ہے

فرمایاکہ سو تعجب ہے کہ جس حالت میں ہم اب تک متوفی کی نسبت الہامی طور پر کوئی قطعی رائے ظاہر کرنے سے بکلی خاموش اور ساکت رہے اگرچہ ہم اپنی رائے لکھتے کہ شاید مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا ہو گا تب بھی صاحبان بصیرت کی نظر میں یہ اجتہادی بیان ہمارا قابل اعتراض نہ ٹھہرتا۔ کیونکہ ہر چند ایک غبی اور کور دل انسان کو خدا تعالیٰ کا وہ قانون قدرت سمجھنا بہت مشکل ہے جو قدیم سے اس کے متشابہات وحی اور رؤیا اور کشوف اور الہامات کے متعلق ہے۔ لیکن جو عارف اور با بصیرت آدمی ہیں وہ خود سمجھے ہوئے ہیں کہ پیشگوئیوں میں اگر کوئی اجتہادی غلطی بھی ہو جائے تو وہ محل نکتہ چینی نہیں ہو سکتی کیونکہ اکثر نبیوں اور اولوالعزم رسولوں کو بھی اپنے مجمل مکاشفات اور پیشگوئیوں کی تشخیص و تعیین میں ایسی ہلکی ہلکی غلطیاں پیش آتی رہتی ہیں۔ جیسے توریت کی بعض عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بعض پیشگوئیوں کے سمجھنے اور سمجھانے میں اجتہادی طور پر غلطی کھائی تھی اور وہ امیدیں جو بہت جلد اور بلاتوقف نجات یاب ہونے کے لئے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی وہ اس طرح ظہور میں نہیں آئیں۔ عجیب تر یہ ہے کہ بائیبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے چار سو نبی نے ایک بادشاہ کی فتح کی خبر دی اور وہ غلط نکلی یعنی بجائے فتح کے شکست ہوئی۔ (سلاطین اوّل)

مگر اس عاجز کی کسی پیشگوئی میں کوئی الہامی غلطی نہیں ، الہام نے پیش از وقوع دو لڑکوں کا پید اہونا ظاہر کیا اور بیان کیا کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت ہوں گے۔ سو بمطابق پیشگوئی ایک لڑکا پیدا ہوا پھر فوت بھی ہو گیا اور دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود بھی ہے وہ اگرچہ اب تک یعنی یکم دسمبر 1888 تک پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدوں کے موافق اپنی میعاد میں ضرور پیدا ہوگا۔ زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔

بشیر اول (متوفی) کے چند الہامی نام یوں مذکور ہیں کہ مبشر، بشیر، نور اللہ ، حبیب، چراغ دین، باران رحمت، یداللہ بجلال و جمال۔ چنانچہ ان الہامی صفات کو مد نظر رکھ کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بشیر اول کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ لڑکا جو فوت ہو گیاہے ذاتی استعدادوں میں اعلیٰ درجہ کاہے اور دنیوی جذبات سے اس کی فطرت بکلی مسلوب اور دین کی چمک اس میں بھر ی ہوئی ہے اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدیقی روح اپنے اندر رکھتا ہے۔

بشیر اوّل کی لخت جگر آنحضرت ﷺ سے عمر میں مماثلت

فرمایا :’ابراھیم لخت جگر آنحضرت ﷺ جو خورد سالی میں یعنی سولہویں مہینے میں فوت ہو گئے اس کی صفائی استعداد کی تعریفیں اور اس کی صدیقانہ فطرت کی صفت و ثنا احادیث کی رو سے ثابت ہے۔ ایسا ہی وہ بچہ جو خورد سالی میں حضرت خضر نے قتل کیا تھا اس کی خباثت جبلی کا حال قرآن شریف کے بیان سے ظاہر و باہر ہے۔ ‘

اجتہادی غلطی سے کسی نبی کی شان میں فرق نہیں آتا

فرمایا’اگرچہ بشیر اول (متوفی) کو ہی مصلح موعود سمجھنے کے حوالہ سے ہم سے کوئی اجتہادی غلطی نہیں ہوئی تاہم یہ مسئلہ بالاتفاق مانا گیاہے اور قبول کیا گیاہے کہ ہر ایک نبی اور ولی سے اپنے ان مکاشفات اور پیشگوئیوں کی تشخیص و تعیین میں جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے بخوبی تفہیم نہیں ہوئی غلطی واقع نہیں ہو سکتی ہے اور اس غلطی سے ان انبیاء اور اصفیاء کی شان میں کچھ بھی فرق نہیں آتا۔ اجتہادی غلطی محض ابتلاء کے طور پر وارد ہوتی ہے اور پھر اس کثرت سے سچائی کے نور ظہور پذیر ہوتے ہیں اور تائیدات الٰہیہ اپنے جلوے دکھاتے ہیں کہ گویا ایک دن چڑھ جاتا ہے اور مخاصمین کے سب جھگڑے تصفیہ پا جاتے ہیں۔ ‘

پھر تحریر فرماتے ہیں ’یہی سنت اللہ ہے جو قدیم سے خداتعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آرہاہے ۔ زبور میں حضرت داؤد کی ابتدائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تضرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قدرت کی تصریح کرتے ہیں۔ اگر یہ ابتلا ء درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء ان مدارج عالیہ کوہرگز نہ پا سکتے جو ابتلاء کی برکت سے انہوں نے پائے۔ ‘

مزید تحریر فرمایا کہ ’اللہ جل شانہ جس پودے کو اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے اس کی شاخ تراشی اس غرض سے نہیں کرتا کہ اس کو نابود کردیوے۔ بلکہ اس غرض سے کرتا ہے کہ تا وہ پودا پھول اور پھل زیادہ لاوے اور اس کے برگ اور بار میں برکت ہو۔ ‘

متعدد بار اس بات کا اعادہ فرمایا کہ بشیر اول کی وفات کے متعلق متعدد الہامات نے خبر دی تھی۔

خدا تعالیٰ کی انزال رحمت اور روحانی برکت کے بخشنے کے دو عظیم الشان طریقے

اول یہ کہ کوئی مصیبت اور غم و اندوہ نازل کرکے صبر کرنے والوں پر بخشش اور رحمت کے دروازے کھولے۔

دوسرا طریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و نبیین وائمہ وا ولیاء و خلفاء ہے تا ان کی اقتداء سے لوگ راہ راست پر آجائیں۔ سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آجائیں۔

پس اول اس نے قسم اول کے انزال رحمت کے لئے بشیر اول کو بھیجا تا بشر الصابرین کا سامان مومنوں کے لئے طیار کرکے اپنی بشریت کا مفہوم پورا کرے۔

دوسری قسم رحمت کی جو ابھی ہم نے بیان کی ہے اس کی تکمیل کے لئے خداتعالیٰ دوسرا بشیر بھیجے گا ۔ خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیاہے کہ دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے اور وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا۔

26؍فروری 1886ءکی پیشگوئی دو سعید لڑکوں کی پیدائش سے متعلق تھی

اس عبارت تک کہ ’مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے‘ پہلے بشیر کی نسبت پیشگوئی تھی اور اس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیر کی نسبت ہے۔ جیساکہ الہام

انا ارسلنہ شاھدا و مبشرا و نذیرا کصیب من السماء فیہ ظلمات و رعد و برق کل شیء تحت قدمیہ

سے ظاہر ہوتا ہے یعنی ہم نے اس بچے کو شاہد اور مبشر اور نذیر ہونے کی حالت میں بھیجا ہے اور یہ اس بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں اور رعد اور برق بھی ہو۔ یہ سب چیزیں اس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں یعنی اس کے قدم اٹھانے کے بعد جو اس کی مو ت کی طرف اشارہ ہے ، ظہور میں آجائیں گی۔ سو تاریکیوں سے مراد آزمائش اور ابتلاء ہیں جو لوگوں کی اس حالت سے پیش آئے اور ایسے سخت ابتلاء میں پڑ گئے جو ظلمات کی طرح تھا۔

پھر اسی ترتیب سے اس پیشگوئی کو پورا ہونا شروع ہوا یعنی بشیر اول کی موت کی وجہ سے ابتلاء کی ظلمت وارد ہوئی اور پھر اس کے بعد رعد اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے جب وہ روشنی آئے گی تو ظلمت کے خیالات کو بالکل سینوں اور دلوں سے مٹا دے گی۔

یوں بشیر اول کی موت نے جیساکہ اس پیشگوئی کو پورا کیا ایسا ہی اس پیشگوئی کو بھی جو 20؍فروری 1886ء کے اشتہار میں ہے کہ بعض بچے کم عمری میں فوت ہو ں گے۔ اشتہار 20؍فروری 1886ء میں بشیر اول کی وفات کی طرف اشارہ موجود تھا جیساکہ لفظ ’ایک خوبصورت لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے ‘ میں مہمان کے لفظ میں ا سکی کم عمری کی طرف اشارہ تھا۔ پھر یہ الفاظ کہ وہ رجس سے بکلی پاک ہے یہ بھی اس کی صغر سنی پر دلالت کرتا ہے۔

مصلح موعود کے الہامی نام

پیشگوئی کے الفاظ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا سے مصلح موعود کا ذکر شروع ہو تا ہے اور اس پسر موعود کے الہامی نام فضل، محمود ، بشیر ثانی اور فضل عمر ہیں۔

اسلام میں ایک روحانی اور اعلیٰ ردجہ کی خاصیت پائی جاتی ہے

کہ سچائی سے اس پر قدم مارنے والے مکالمات خاصہ الٰہیہ سے مشرف ہو جاتے ہیں اور قبولیت کے انوار ان کے وجود میں پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یہ ایک واقعی صداقت ہے جو بے شمار راستبازوں ، اپنے ذاتی تجارب سے کھل گئی ہے ۔ ان مدارج عالیہ پر وہی لوگ پہنچتے ہیں کہ جو سچی اور حقیقی پیروی رسول اللہ ﷺ کی کرتےہیں اور نفسانی وجود سے نکل کر ربانی وجود کاپیراہن پہن لیتے ہیں۔

اشتہار بابت بیعت: (یکم دسمبر 1888ء)

میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیاہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کی راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں ۔ میں ان کا غمخوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ا ن کے لئے برکت دے گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button