قرآن سیمینار بعنوان ’’قرآنی سزاؤں کا فلسفہ‘‘
مورخہ 27؍نومبر 2021ء کو جامعہ احمدیہ جرمنی میں مجلس ارشاد کے تحت قرآن سیمینار کا انتظام کیاگیا۔ اس پروگرام لیے مکرم امتیاز شاہین صاحب مربی سلسلہ کو دعوت دی گئی۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم کبیر ظہیر سنوری صاحب نے کی۔ عزیزم راحیل احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام ترنم سے پڑھا۔ بعد ازاں مقرر مہمان نے ’’قرآنی سزاؤں کا فلسفہ‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔
آج کے دور میں اسلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآنی سزائیں آج کے دور میں نافذ العمل نہیں۔ آپ نے جسم کی مثال دیتے ہوئے سمجھایا کہ جس طرح اچھا کھانا کھانے سے صحت اچھی ہوتی ہے اور خراب کھانا کھانے سےصحت خراب ہوجاتی ہےیعنی غذا کا جسم پر اثر ہوتا ہے اور یہ چھوٹا نظام ہے اس سے آگے ترقی کر کے معاشرے اور حکومت کا نظام آتا ہے جس میں جزاسزا کا وجود لاز م ہے۔
مزید بیا ن کیا کہ انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ جہاں تک حقوق اللہ کا سوال ہے تو اس کے متعلق جرائم کی سزا اللہ تعالیٰ آخرت میں دے گا لیکن حقوق العباد کے متعلق جرائم کی سزا اسی دنیا میں ملتی ہے۔
اسلام میں سزا دینے کی دو اغراض ہیں:
1۔ افادیت یعنی کس چیز میں زیادہ فائدہ ہے۔ سزا دینے میں یا عفو میں۔
2۔ انتقامی یعنی انتقام کے طور پر سزادہی ۔
قرآن کریم میں 4 جرائم کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ زنا، بہتان، قتل اور چوری۔ ان چار جرائم سے معاشرے کی حفاظت مقصود ہے۔
آپ نے ذکر کیا کہ جرم کی تعریف کا پتہ ہو نا بھی ضروری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص جہالت سے کوئی برائی کر بیٹھے مگر اس کے بعد توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ یعنی سزا کا دارو مدار نیت پر ہے جیسا کہ بخاری کی ایک حدیث میں ہےکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
اسلام میں سزا دینے کا اصل مقصد اصلاح ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی ایک خطبہ جمعہ میں یہی فرمایا کہ بعض دفعہ معاف کرنا نیکی بن جاتا ہے جس سے اصلاح ہو گئی لیکن بعض دفعہ معاف کرنا برائی بن جاتا ہے کہ غلطی کرنے والا اپنی غلطیوں پر اَور بھی شیر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ سزا دینا نیکی بن جاتا ہے۔ یہ اس شخص پر نیکی کرنا بھی ہے کیونکہ سزا کے ذریعہ سے اسے برائیوں سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ برائیوں سے بچ کر اپنی آئندہ زندگی کو برباد ہونے سے بچائے۔
(خطبہ جمعہ22؍جنوری 2016ء)
قرآن کریم میں جن سزاؤں کا ذکر ہے اس حوالے سے آپ نے بیان کیا کہ زنا کے لیے 100 کوڑے مقرر ہیں ۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جو میاں بیوی کے تعلق کے علاوہ بچوں کی زندگی اور معاشرے کو برباد کردیتا ہے۔ جرمنی میں 2020ء میں ایک سروے کیا گیا جس سے پتہ چلا کہ ہر تیسرے شخص نے اپنے ساتھی کے ساتھ بے وفائی کی ہے جس کی وجہ سے طلاقوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
قرآن کریم میں جہاں اس سزا کا حکم دیا گیا ہے وہاں الزانی اور الزانیۃ لکھا ہوا ہے ، ال کا اضافہ ہے یعنی ایک تخصیص ہے۔ یہ سزا اس کے لیے ہے جو عادی زانی ہو یا اعلانیہ طور پر زنا کرے۔ یہ سزا اس وقت واجب ہو گی جب چار گواہ موجود ہوں۔
دوسرا جرم بہتان لگانے کا ہے کہ اگر کوئی کسی پر بہتان باندھے مثلاً مندرجہ بالا کیس میں تو اسے 80کوڑے پڑیں گے۔
تیسرا جرم قتل ہے اس کے متعلق قرآن میں قصاص کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ ایک تو یہ کہ قاتل کا قتل ہو نا ضروری ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ کل کو وہ کسی اور کو قتل کردے۔ دوم یہ کہ مقتول کی فیملی میں جو بغض پیدا ہوجاتا ہے اس کا اس کے ذریعہ سے علاج ہو جاتا ہے۔
چوتھا جرم جس کی سزا قرآن نے بیا ن کی وہ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ بعض کہہ دیتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اسے جیل میں ڈال دینا یا معاشرے سے نکال دینا۔ یہ بھی اس کے معانی بن سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ واقعی میں ہاتھ کاٹنا سزا ہے۔ لیکن سزا کے لیے یہ شرط ہے کہ ہر شخص کی بنیادی ضروریات حکومت پوری کر رہی ہو۔ اس کے باوجود ،پھر بھی اگر کوئی چوری کرے تو سزا کا مستحق ہے۔ قرآن کریم میں السارق کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ عادی چور مراد ہے۔
تقریر کے آخر پر حضرت مسیح موعودؑ کا ایک اقتباس پیش کیا جس میں آپ علیہ السلام نے حدیث الدنیا سجن للمؤمن کی تشریح یوں فرمائی کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مومن اپنے آپ کو شریعت کی حدود کے اند ر ڈال دیتا ہے اور شروع میں تکلیف اٹھاتا ہے مگر رفتہ رفتہ اس سے ایسا انس پکڑتا ہے کہ وہی مقام اس کے لیے بہشت ہو جاتا ہے۔
(ملفوظات جلد1 صفحہ 509)
آخر پر دعاکے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔