امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ کینیڈا میں مقیم عرب احمدی خواتین کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 12؍دسمبر 2021ء کو کینیڈا میں مقیم عرب خواتین سے آن لائن ملاقات فرمائی جن کی اکثریت حال ہی میں کینیڈا ہجرت کرکے آئی ہے۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ ملاقات کے لیے خواتین نے اس آن لائن ملاقات میں ایوان طاہر، پیس ویلج، ٹورانٹو سے شرکت کی۔
ملاقات کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہواجس کے بعد جملہ خواتین کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ حضور انور گھر کے کام کاج میں مدد کرتے ہیں ؟ خاص کر کھانا پکانے وغیرہ میں اور حضور کیا اچھا پکا لیتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ کیا اچھا پکا لیتا ہوں؟ یہ تو جو کھانے والا ہے وہی بتا سکتا ہے کہ میں اچھا پکاتا بھی ہوں کہ نہیں۔ ہر چیز تو میں نہیں کہتا پکا سکتا ہوں لیکن کبھی کبھی پکایا کرتا تھا اب تو مدتیں ہو گئیں، کبھی نہیں پکا سکا، وقت ہی نہیں ملتا۔ نہ آپ لوگوں سے فرصت ملتی ہے نہ دفتری کاموں سے فرصت ملتی ہے نہ لوگوں کے خطوط پڑھنے سے فرصت ملتی ہے کہ کر سکے۔ لیکن پھر بھی کبھی موقع مل جائے کوئی چھوٹے موٹے کام کرنے کا اور اگر ضرورت ہو تو کر دیتا ہوں۔ اس لیے اکثر وہ مرد جو مصروفیت کا بہانہ کرتے ہیں ان کے بہانے ہوتے ہیں ان کو اپنے گھروں میںمدد کرنی چاہیے ۔
ایک دوسری ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ کیا ہم پُرامن احتجاج یا مظاہروں میں شامل ہو سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ یہ گارنٹی اگر ہو کہ پر امن احتجاج ہو گا اور آخر میں آکے وہ توڑ پھوڑ اور شدت پسندی میں نہیں بدل جائے گا تو کر سکتے ہیں اس کے کرنے میںکوئی حرج نہیں ہے۔کشمیریوںکے حق میں بھی ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثانیؓ کے زمانے میں احتجاج ہوا تھا اس وقت اور حضرت خلیفہ ثانیؓ نے اس میں اجازت دی تھی، شامل ہو جاتے تھے تو اگر پر امن احتجاج ہو اور کوئی توڑ پھوڑ نہ ہو، سرکاری املاک کا نقصان نہ پہنچایا جائے اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے۔ یہاں ان ملکوں میں قانون بھی احتجاج کی اجازت دیتا ہے۔اور پر امن جلسوں اور جلوسوں کی اس حد تک آپ کر سکتے ہیں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس ممبر لجنہ نے مزید عرض کی کہ میری ایک عیسائی فیملی ڈاکٹر جو مصر سے ہیں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ وٹامن ڈی لیتی ہیں تو میں نے کہا ہاںمیں لیتی ہوں۔ انہوں نے کہا لیکن آپ کو عام لوگوں سے زیادہ لینی چاہئیں کیونکہ آپ حجاب پہنتی ہیں اور اس کی وجہ سے سورج کی شعاعیں آپ کی جلد تک نہیں پہنچ سکتیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا خداتعالیٰ کوئی ایسا حکم دے سکتا ہے جوہماری صحت کے اصول کے خلاف ہو۔
حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ سردیوں میں تو جب وٹامن ڈی کی زیادہ کمی ہو جاتی ہے عموماً دن بھی وہاں چھوٹے ہیں یورپ وغیرہ مغربی ممالک میں اس وقت تو ان لوگوں نے بھی اپنے جسم کو ڈھانکا ہوتا ہے اور سورج نکلتا بھی نہیں اتنا زیادہ۔ اس وقت تو یہ لوگ بھی وٹامن ڈی لے رہے ہوتے ہیں باقی رہ گئی گرمیوں کی باتیں اس میں ہمارا جو چہرہ ہے آپ کا عموماً کافی حد تک ننگا ہوتا ہے اور سورج کی شعاعیں ایسی تو نہیں ہیں جو ڈائریکٹ جلد پر پڑیں تو پھر ہی ہے۔ اب یہ لوگ وٹامن ڈی لینے کے نام پہ اور سن باتھ (sunbath)کے نام پہ beachesپہ جا کے سمندروں کے کنارے گرمیوں میں جا کے ننگے ہو کے لیٹ جاتے ہیں کہ ہم وٹامن ڈی لے رہے ہیں اور سورج کی شعاعیں لے رہے ہیں تویہ تو بے حیائی پھیلنے والی اور پھیلانے والی باتیں ہیں اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ سورج کی جتنی requirementہے وہ سورج میں کپڑوں سمیت بیٹھنے سے بھی پوری ہو جاتی ہے۔آپ کا چہرہ تو ننگا ہوتا ہے،آپ کے ہاتھ بازو ننگے ہوتے ہیں، پاؤںآپ ننگے رکھتی ہیں اور اسی میں وٹامن ڈی کی جتنی requirementہے وہ پوری ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا نظام ایسا رکھا ہوا ہے۔ یہ صرف دنیاداری والی اور دجالی چال ہے کہ جی تم اگر یہ اس طرح کرو گی تو پھر تمہارے اندر وٹامن ڈی نہیں جائے گی وہی شیطان کا ابھی ذکر ہو رہا تھا ناں شیطان کے وسوسے ڈالنے والی بات۔ تو یہ شیطانی وسوسے ہیں جو پڑھے لکھے لوگ بھی ڈالتے ہیں۔ تو یہ باہر کے شیطان ہیں۔ اس لیے جتنی requirementآپ کی ہے وہ پوری ہوتی ہے باقی سارا دن آپ گھر میں تو حجاب پہن کے نہیں بیٹھی ہوتی۔ گھر میں آپ کا کمرہ ہے اس کی کھڑکیوں سے شیشوں سے دھوپ آ رہی ہوتی ہے، جب دھوپ آ رہی ہے وہاں آپ بیٹھ کے دھوپ لے سکتی ہیں۔ لائٹ کپڑے پہنے ہوتے ہیں اس میں آپ بیٹھی ہوتی ہیں جب باہر جانا ہے،حجاب لینے کا یا کوٹ پہننے کا یا پردہ کرنے کا حکم تو باہر کے لیے ہے گھر میں اگر کوئی نامحرم ہے تو اَور بات ہے otherwise تو یہی ہے کہ عام relaxکپڑوں میں پھر سکتی ہیں اور بیشک اپنے سروں سے جو اوڑھنیاں بھی اتاری ہوتی ہیں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ تو ڈھیلے لباس بھی ہوتے ہیں گھروں میں اور وہ جو لباس ایک آدھی قمیص پہنی ہوتی ہے وہ کافی ہوتی ہے سورج کی شعاعوںکو لینے کے لیے۔ یہ بالکل غلط طریقہ ہے جو کہہ دیا کہ جی سورج کی شعاعیں نہیں جاتیں وٹامن ڈی لیں۔ ان لوگوں میں وٹامن ڈی کی زیادہ کمی ہوتی ہے بلکہ یہ بھی لیتے ہیں بہت زیادہ۔ اور جو گرم ممالک ہیں وہاں ویسے ہی ملتی رہتی ہے وہاں کوئی ایسا مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے۔
ایک دوسری ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ ہم اپنے بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی اور نماز کی محبت کیسے ڈال سکتی ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ ان کے سامنے نمازیں پڑھیں اور نمازوں کی جو اپنی حالت ہے اس کو اتنا سنوار کر پڑھیں کہ بچوں میں شوق پیدا ہو کہ ہم نے بھی نماز پڑھنی ہے۔ میں نے دیکھا کئی ماں باپ ہیں جو خود بچوں کے سامنےنماز پڑھتے ہیں ۔ بچے جب دیکھتے ہیں تو خود بھی لڑکیاں ہیں تو وہ سر پہ سکارف رکھ کے یا دوپٹہ رکھ کے اپنی ماں کے ساتھ نماز پڑھنے لگ جاتی ہیں یا لڑکا ہے تو وہ سر پہ ٹوپی رکھ کے نماز پڑھنے لگ جاتا ہے یا ویسے کھڑا ہو جاتا ہے نماز پڑھنے کے لیے تو بچپن سے جب یہ شوق پیدا ہوگا ان کو یہ احساس پیدا ہو گا کہ ہاں یہ ایک فرض ہے جو میری ماں اور میرے باپ ادا کر رہے ہیں اور ان کو اس میں مزہ آ رہا ہے، آپ کے چہروں کو دیکھ کے ان کو بھی پتہ لگ رہا ہو گا کہ ان میں ایک شوق اور ذوق ہے نمازپڑھنے کے لیے اور ایسی حالت طاری ہے جس کو کبھی انہوں نے چھوڑا نہیں۔ تو بچوں کو بھی بچپن سے ہی شوق پیدا ہوتا جائے گا۔ یہ تو انسان کا اپنا نمونہ ہے عملی نمونہ دکھائیں گے بچوں کے سامنے تو ان میں شوق پیدا ہو جائے گا اور پھر اس شوق کو بڑے ہوتے تک رکھیں سات سال کی عمر تک ان میں شوق پیدا ہو جائے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات سے دس سال کی عمر تک بچوں کو پھر نمازیں پڑھانے کی طرف توجہ دلاتے رہو۔ اس سے پہلے تو نہیں نمازیں پڑھانے کے لیے کہا لیکن اپنے نمونے دکھانے کے لیے کہا ہے۔ اس کے بعد تین سال نماز پڑھنے کے لیے کہو یا ایک دو تین چار نمازیں پڑھ لیں۔ اس کے بعد دس سال کے بعد فرمایا کہ فرض ہو گیا اب ان سے کہو تمہارے پہ فرض ہے اب تم بڑے ہو گئے ہو اب تم نے نماز پڑھنی ہے تو یہ نمونے ہیں ماں اور باپ کے۔ کس حد تک آپ کو خود اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف رغبت ہے اور کس طرح آپ اس کا حق ادا کرتی ہیں؟ جب خود حق ادا کر رہی ہوں گی اور بچے کا باپ بھی کر رہا ہو گا تو خود ہی عادت پڑ جائے گی۔ ٹھیک ہے سمجھ آ گئی ناں میری بات کی۔ یا کچھ رہ گیا ہے سوال تو پوچھ لیں دوبارہ۔
ممبر لجنہ نے عرض کیا کہ میرے بیٹے کی عمر گیارہ سال ہے وہ ہمارے ساتھ نماز پڑھتا ہے اور بیٹی کی عمر تین سال ہے تو وہ حجاب وغیرہ بھی پہنتی ہے لیکن کبھی وہ وضو وغیرہ کا اہتمام نہیں کرتی ویسے کھڑی ہو جاتی ہے تو میں بیٹے کو کہتی ہوں کہ کوئی بات نہیں اس کو پڑھنے دو لیکن وہ کہتا ہے کہ آپ اس کو ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہیں مجھے نہیں اجازت دیتی۔
حضور انور نے فرمایا کہ اس کو کہہ دیں کہ تمہاری جو بیٹی ہے اس پہ ابھی نمازیںفرض ہی نہیں ہوئی ۔ وہ اگر آ کے شوق سے شام ہو رہی ہے تو اس کو شوق سے شامل ہونے دو۔ اس پہ ہم نے ابھی اس عمر میں سختی نہیںکرنی اسلام دین یسر ہے تنگی نہیں دیتا لیکن تم کیونکہ گیارہ سال کے ہو گئے ہو تمہارے پہ جو بھی قوانین ہیں جو بھی پروٹوکول ہے نماز کے ادا کرنے کے لیے اس کے لوازمات ہیں، اس سے پہلے کیا کرنا ہے وضو کرنا ہے اور پھر نماز کے لیے کس طرح کھڑا ہونا ہے تم پر چونکہ فرض ہو چکا ہے اس لیے تمہیں ہم کہتے ہیں کہ تم یہ کرو۔ بیٹی پہ فرض نہیں ہوا جب وہ گیارہ سال کی ہوگی یا سات سال کی ہو گی یا دس سال کی ہو گی تو ہم اس کو بھی کہیں گے۔ سات سال کی عمر میں اس کو عادت ڈالنا شروع کریں گے اور دس سال کی جب انشاء اللہ ہو گی تو اس کو بھی ہم کہیں گے۔ فکر نہ کرو۔ یہ نہیں کہ اس سے کوئی امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔ وہ بچپن میں تمہیں بھی نہیں ہم کہتے تھے اور اس کو بھی نہیں کہتے۔ جب یہ تمہاری عمر کی آئے گی اس کو بھی ہم کہیں گے۔ اس طرح بتا دیں پیار سے بتا دیں بچے کو۔
ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ مربی کی بیوی میں کون کون سی خوبیاں ہونی چاہئیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ مربی کی بیوی میں؟ پہلی بات تویہ ہے کہ مربی کی بیوی کو سمجھنا چاہیے کہ وہ بھی مربی ہے اور اس سے پہلے مربی کو خود سمجھنا چاہیے کہ وہ مربی ہے اور مربی کا مطلب تربیت کرنے والاہے۔ اور تربیت وہی اچھی طرح کر سکتا ہے جس کی خود تربیت اچھی ہوئی ہو۔ جو اپنے نمونے نیک قائم کرنے والا ہو۔ جب مربی نیک نمونے قائم کرے گا تو اس کی بیوی بھی اس کے نمونے پہ چلے گی اور نیک نمونہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی اور جب نیک نمونہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی تو پھر اس کا کام یہ ہو گا کہ عورتوں میں اپنے اس نیک نمونے کی وجہ سے ان کی تربیت کے لیے اہم کردار ادا کرے۔ مربی کی بیوی کو پانچ وقت کی نمازوں کی پابندی، سنوار کے نمازیں پڑھنا بہت ضروری ہے۔ مربی کی بیوی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کرنا اس کے معنی جاننا اور اس کی تفسیر جاننا ضروری ہے۔ مربی کی بیوی کو جماعت کا لٹریچر، اسلام کا لٹریچر اور کچھ وقت نکال کے تفسیریں پڑھنا بھی چاہیے تا کہ اس کو جہاںموقع ملے تبلیغ کر سکے۔ مربی کی بیوی کے اخلاق اچھے ہونے چاہئیں۔ لوگوں سے ملے تو وہ کہیں کہ ہاں بڑی بااخلاق عورت ہے۔ مربی کی بیوی کا جو نمونہ ہے وہ ایسا ہو کہ دوسرے دیکھ کر اس پہ عمل کرنے کی کوشش کریں اور یہ ساری باتیں جو ہیں یہ خصوصیات جو ہیں مربی کی بیوی میں ہونی چاہئیں اور عاجزی اور انکساری ہونی چاہیے مربی کی بیوی میں۔ یہ نہیں کہ مربی کی بیوی ہوں تو میں کچھ چیز ہوں بلکہ عاجزی سے ہر کام کرنے والی ہو تو پھر وہ بہترین بیوی ہے۔
ایک ممبر لجنہ نے سوال کیا کہ کیا حضور انور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کووڈ19- کے بارے میں پہلے سے بتایا گیا تھا؟
حضور انور نے فرمایا کہ جس طر ح یہ کووڈ 19- بڑھ رہاہے اور اس کے نئے variants پھیل رہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو ہوشیار کر رہا ہے کہ وہ عقل کرے اور لوگ ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور زندگی کے مقصد کے حصول کی طرف توجہ کریں اور خدا تعالیٰ کو پہچانیں۔ تاہم مجھے کسی طرح سے بھی کووڈ 19- کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں دی گئی تھی نہ الہام کے ذریعہ اور نہ ہی خواب کے ذریعہ۔ ہاں ہم یہ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے بعد سے آسمانی اور زمینی آفات بہت بڑھ گئی ہیں ۔
حضور انور نے مزیدفرمایا کہ ابھی حال ہی میں امریکہ کی چھ سٹیٹس میں طوفان آئے ہیں اور لوگ پھر بھی خدا کی طرف رجوع نہیں کر رہے…یہ آفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کے بعد سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ گزشتہ 100 سالوں میں یہ آفات کئی گنا بڑھ گئی ہیں اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف لوٹیں۔
حضور انور نے مزید وضاحت فرمائی کہ یہ وبا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں طاعون کے نشان سے مختلف ہے اور احمدی مسلمانوں کو ویکسین لگوانی چاہیے اور اس وبا کے خلاف جملہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔
٭…٭…٭