الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
مکرم چودھری ظہور احمد صاحب باجوہ
محترم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب ایک باوقار، نفیس، خادم خلق اور خلافت کے فدائی بزرگ تھے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 13؍مئی 2013ء میں آپ کے بیٹے مکرم ظہیر احمد باجوہ صاحب نے آپ کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔
بچپن کی ابتدائی یادوں میں یہ بھی ہے کہ ربوہ میں گھر تعمیر ہوا تو مہمانوں کا ایک طرح سے تانتا بندھا رہتا۔ ایک وقت میں بیس بیس عزیز و اقارب رہائش پذیر ہوتے جو زیادہ تر ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے آئے ہوتے۔ گویا کہ یہ سب رشتہ داروں کا گھر تھا۔ گھر کے صرف دو کمروں میں چھت کا پنکھا تھا۔ گرمیوں کی دوپہر میں ایک کمرے میں مرد اور دوسرے میں خواتین آرام کرتیں۔ اسی طرح رات کو گھر کے ایک حصہ میں مرد چارپائیاں بچھا کر سوتے اور عورتیں دوسرے حصہ میں۔ گھر میں سونے کے چار کمرے تھے مگر ملحقہ غسل خانے نہیں تھے۔ گھر میں چارپائیوں کے سوا مشکل ہی سے کوئی قابل ذکر فرنیچر تھا۔ کافی بعد میں فرنیچر خریدا گیا اور کمروں کے ساتھ غسل خانے تعمیر ہوئے۔ مگر ابّا کو اٹیچ باتھ رومز اور فرنیچر وغیرہ سے ایک نوع کی تکلیف تھی اوروہ یہ تھی کہ کثرت سے ٹھہرنے والے مہمانوں کے لیے ایک طرح سے مشکل پیدا ہوگی۔ ان کی یہ بے چینی بعدہٗ درست ثابت ہوئی۔ ابّا گھر میں آنے والے مہمانوں کی خدمت کرنے میں بہت خوشی محسوس کرتے اور ان کے آرام کا ہر ممکن خیال رکھنے میں کوشاں رہتے۔ اکثر نلکے سے خود پانی نکالتے اور ٹب بھر کر مہمانوں کو نہانے کے لیے پیش کرتے۔ خدا تعالیٰ نے ابّا کو بہادری کا وصف بھی عطاکیا ہوا تھا۔ ایک دن صحن میں نہ جانے کہاں سے ایک سانپ نکل آیا۔ سب مارے خوف کے چارپائیوں پر چڑھ گئے۔ مگر ابّا نے ایک لاٹھی لے کر اس کا پیچھا کیا اور سانپ کو مار دیا۔
دفتری ذمہ داریوں کو ادا کرتے وقت دلیرانہ سچائی سے فیصلے کرتے اور جماعت کے مفاد کو پیش نظر رکھتے۔ اگر کوئی مشکل صورت حال درپیش ہوتی تو ظاہر ہے کہ ایسے واقعات کو حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور پیش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، تاہم ایسے مواقع پر اعلیٰ عہدیداران بھی آپ کی ڈیوٹی لگاتے کہ حضور انورکی خدمت میں اطلاع کریں جو آپ بغیر حیل و حجت، کمال سکون و ادب کے ساتھ پہنچا دیتے۔ آپ کی زندگی ایک سچے انسا ن کے طور پر گزری اور کام کو صرف بطور کام نپٹا دینے کے لیے انہوں نے کبھی نہیں سوچا بلکہ اس کو اس طرح کرتے کہ جو اُن کے نزدیک اس کام کی درست اور حقیقی صورت ہوتی۔ اگرکبھی غلطی ہوجاتی تو بلاجھجک تسلیم کرلیتے اور خواہ مخواہ اپنے دفاع میں توجیحات کرنے کی عادت نہ تھی۔ کئی سال تک ناظر امورعامہ کی نازک ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق پائی۔ متوازن سوچ، صاف ذہن اور معاملات کی گہری سمجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ معاملات کو طے کیا۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو غیرمعمولی بصیرت عطا فرمائی تھی۔ آپ کے بعض فیصلوں پر آپ کے بہت قریبی دوستوں کو بھی شکررنجی ہوئی۔ مگر اُن کی ناراضگی خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ یا تو کسی خواب کی بِنا پر یا صورت حال کی وضاحت پر جلد دُور ہوجاتی۔
ابّا نے گھر میں دودھ کے لیے بھینس رکھی ہوئی تھی اور اس کے لیے ایک ملازم مقرر تھا۔ جب کبھی وہ چھٹی پر چلا جاتا تو ہمارے لیے مسئلہ کھڑا ہوجاتا۔ ایک دفعہ ہم دونوں بھائی کھیلنے میں مصروف تھے۔ یہ جون کا گرم مہینہ تھا مگر بھینس اسی طرح دھوپ میں بندھی ہوئی تھی۔ اسی دوران ابّا دفتر سے آئے اور صورتحال دیکھی تو خاموشی سے کپڑے تبدیل کر کے نلکے سے پانی نکال کر بھینس کو پلایا اور اسے سایہ میں باندھ دیا۔ پھر نہاکر کھانا کھایا اور کسی ناراضگی کے بغیر صرف اتنا کہا کہ اچھے زمینداروں کے بیٹے ہو کہ جانور پیاس سے مرے جارہے ہیں۔ یہ بات آج بھی سوچ کر شرم آنے لگتی ہے۔
ایک دن خاکسارکی ناسمجھی کی وجہ سے میری زبان سے جماعت کے متعلق ایک نامناسب بات نکل گئی جو ابّا کے نزدیک خلاف واقعہ بھی تھی۔ آپ نے مجھے کچھ نہیں کہا مگر اگلے دن مکرم صدر صاحب خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے مجھے اپنے دفتر میں بلا کر بعض امور کی طرف توجہ دلائی تو مجھے ایک دن پہلے والی بات یاد آگئی۔ یہ طریق میری اصلاح کے لیے ابّا نے اختیار کیا۔
بچپن میں ابّا نے ہر ایک بات پر روک ٹوک نہیں کی۔ چند بنیادی ضابطوں کو ملحوظ رکھتے۔ ایک اصول یہ تھا کہ سکول سے سیدھا گھر آنا ہے اور نماز مغرب کے بعد ماسوائے اجلاس اورنماز عشاء کی ادائیگی کے اَور کسی کام کے لیے گھر سے باہر نہیں جانا۔ ایک دن مَیں سکول سے مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب کے بیٹے کے ساتھ اُن کے گھر چلاگیا۔ وہاں دوپہر کا کھانا کھایا اور نماز عصر مسجد مبارک میں ادا کر کے واپس گھر آیا تو گیٹ پر انتظار کررہے تھے۔ آپ کے پوچھنے پر میں نے تفصیل عرض کی تو آپ نے کہا کہ سکول سے سیدھا گھر آنے کی جو پابندی ہے اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں ہو سکتی۔ اگلے دن مجھے مکرم میر صاحب نے فرمایا کہ تم میرے گھر کے فرد ہو مگر آئندہ سکول سے چھٹی کے بعد گھر جانا ضروری ہے۔ اس کے بعد جب چاہو ہمارے گھر آؤ۔
ابا نے ساری زندگی سفید پوشی میں گزاری۔ واقف زندگی ہونے کی وجہ سے مقررہ وظیفہ ملتا تھامگر خدا تعالیٰ نے بڑا دل اور وسیع ظرف عطا کیا ہوا تھا۔ میں نے ایک دفعہ بچپن میں ضد کی کہ سائیکل لینا ہے۔ آپ نے کہا ٹھیک ہے۔ جب ہم لاہور گئے تو مَیں نے یاد کروایا۔ اس دوران مَیں نے ابّا کو امّی جان سے بات کرتے ہوئے سنا کہ اسے سائیکل کے مطالبہ سے باز کرو۔ امّی جان نے کہا کہ آپ خود کہیں۔ ابّا نے کہا کہ مَیں نے تو عہد کیا ہوا ہے کہ بچوں کے جائز مطالبات سے انکار نہیں کرنا۔ اس کے بعد مَیں نے یہ بات سننے کے باوجود اپنا مطالبہ قائم رکھا تو آپ نے یہ صورت حال دیکھ کر ایک دوست سے 300روپے اُدھار لیے اور مجھے ایگل سائیکل لے دی۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ بچپنے میں مجھ سے کیسی غلطی ہوئی کہ آپ کو ایک مشکل صورت حال سے دوچار کردیا۔
ہمارے گھر میں ایک لڑکا گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ملازم تھا۔ ایک دن میں نے اُسے اپنی سائیکل صاف کرنے کے لیے کہا مگر اس نے لاپرواہی کرتے ہوئے مکمل صاف نہ کی۔ مَیں نے طیش میں آکر ابّا کی موجودگی میں اسے ایک تھپڑ جڑ دیا۔ آپ اس وقت تو خاموش رہے مگر کچھ دیر بعد مجھے بلاکر صرف اتنا کہا کہ تم نے اُسے صرف اس لیے مارا ہے کہ تم میرے بیٹے ہو اور وہ ہمارا ملازم ہے۔ ان کی یہ بات مجھے کھا گئی اور مجھے لگا میری روح تک لرز گئی۔
1970ء میں ابّا نے اپنے گاؤں چک 33 شمالی سرگودھا میں زمین کا چارج خود سنبھال لیا اور ہر جمعہ کو گاؤں جانا شروع کر دیا۔ گاؤں 20 میل کے فاصلہ پر تھا۔ ابّا کبھی جیپ پر، کبھی بس، کبھی تانگہ، کبھی سائیکل پر اور کبھی پیدل بھی گاؤں جاتے رہے۔ آپ کا معمول تھا کہ ربوہ سے سیدھے اپنے والد صاحب کی قبر پر جاکر دعا کرتے پھر مسجد جاکر دو نفل ادا کرتے۔ اس کے بعد اراضی کا جائزہ لیتے اور پھر ڈیرے پر موجود گاؤں کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے۔ شام کو واپس ربوہ آجاتے۔ اہل دیہہ نہ صرف آپ کا غیرمعمولی احترام کرتے بلکہ محبت بھی رکھتے۔ گاؤں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ابّا اپنے تعلقات کا خوب استعمال کرتے اور لوگوں کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتے۔
ہمیں جب بھی ضرورت ہوتی اور ہم مطالبہ کرتے تو وہ کہتے کہ میری قمیص کی سامنے والی جیب سے نکال لو۔ انہوں نے کبھی نہیں پوچھا کہ کیا ضرورت ہے اور کتنی رقم چاہیے۔ مگر ہمیشہ ہماری ضرورت کے مطابق رقم مل جاتی۔
ابّا نے گورنمنٹ کالج لائل پور سے گریجوایشن کی۔ آپ آٹھ بھائیوں اورتین بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔ ابھی 13 سال کے تھے جب والدہ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ سب سے چھوٹا بھائی 6 ماہ کا تھا۔ ابّا پہلوٹھی کے ہونے کی و جہ سے اپنی ماں کے لاڈلے تھے۔ آپ بھی والدہ سے غیر معمولی محبت رکھتے تھے۔ اسی جذبہ ٔمحبت کا حق ادا کرنے کے لیے دل میں یہ عہد کیا کہ اپنے چھوٹے بھائیوں کو پالوں گا۔ بعد میں آنے والے حالات نے یہ ثابت کیا کہ آپ نے اپنے اس عہد کو خوب نبھایا۔ کم آمدنی کے باوجود کبھی بھی اپنے کسی بھائی یا عزیز کی ضرورت پورا کرنے سے انکار نہیں کیا اور خدا کے فضل سے ان کے تمام بھائیوں نے انہیں ہمیشہ عزت و احترام دیا اور بمنزلہ باپ سمجھا۔ جب میرے دادا جان کی وفات ہوئی تو میرے ابّا کی دوسری والدہ سے آپ کے مزید چار بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ ان کی پرورش بھی ابّا نے باپ بن کر کی۔
ابّا نے تقریباً 25سال کی عمر میں خدمت دین کے لیے زندگی وقف کی۔ اس سے قبل وہ سرکاری ملازم تھے۔ وقف زندگی کی سعادت ملنے پر ساری زندگی شکر ادا کرتے رہے۔ اس برکت کی وجہ سے ابّا نے اپنے وسیع خاندان میں بہت عزت و احترام پایا۔ اپنے سارے خاندان بشمول غیر احمدی افراد میں بہت صائب الرائے اور سر پرست کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی بہت گہرے اور دیرپا تعلقات ہوتے تھے۔ اُن کی ہر غمی اور خوشی میں شامل ہونا فرض سمجھے تھے۔ ایک بار سیالکوٹ کے ایک دوست نے اپنے بیٹے کی دعوت ولیمہ پر آپ کو بھی مدعو کیا۔ اُن دنوں سفر بہت مشکل ہوا کرتا تھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب سے جیپ لی جس کی حالت کوئی بہتر نہ تھی۔ اس کی کھڑکیوں کے شیشے بھی بند نہ ہوتے تھے۔ سردیوں کا موسم تھا۔ ابّا نے مجھے ساتھ لیا اور سفر شروع کردیا۔ سیالکوٹ پہنچ کر دعوت ولیمہ میں شرکت کی۔ پھر رات ہونے کی وجہ سے ربوہ کا سفر کرنے کی بجائے جیپ میں لاہور پہنچ گئے جہاں چچا کے گھر قیام کیا۔ چچا نے ہمدردی اور محبت کی راہ سے کہا کہ بھائی جان! سردیوں کا موسم ہے آپ اپنی صحت کا خیال رکھا کریں۔ ایک دعوت ولیمہ کے لیے ایسی گاڑی میں اتنا لمبا سفر مناسب نہیں تھا۔ آپ نے جواب دیا کہ دوستوں سے تعلقات نبھانے ہی سے قائم رکھے جاسکتے ہیں اور ان کا حق ادا کرنے کے لیے تکالیف کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کا جواب ہمیشہ کی طرح مختصر اور بے حد بامعنی تھا۔
ابّا کے ایک بہت گہرے دوست چودھری صلاح الدین صاحب کے ساتھ ہمارے گہرے خاندانی مراسم بھی تھے۔ وہ بھی واقف زندگی تھے اور سلسلہ کے انتھک خدمت گزارتھے۔ 1983ء میں ان کی زندگی میں ایک بہت بڑی آزمائش آئی۔ ان کی کسی غلطی کی وجہ سے انہیں وقف سے فارغ کر دیا گیا۔ ابّا کو اُن کے اس ابتلا پر بہت ہی زیادہ تکلیف تھی۔ ابتلا کے دوران 1987ء میں اُن کی وفات نے ابّا پر بہت شدید اثر ڈالا اور محض خدا کے فضل ہی سے اس صدمے کو جھیل سکے۔ پھر خدا کا کرنا کیا ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ میں چودھری صاحب مرحوم کا ذکر خیر بہت محبت کے ساتھ فرمایا اور ان کی دینی غیرت، اطاعت اور ابتلا میں ثابت قدمی کی تعریف فرمائی اور حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ نے چودھری صاحب مرحوم کا جنازہ پڑھایا۔ اس الٰہی منشاء سے ابّا کو بہت تسلی اور اطمینان قلب نصیب ہوا کہ ان کے عزیز دوست کا انجام بخیر ہوا۔
بہت سارے لوگ ابّا کے پاس امانتیں رکھوایا کرتے تھے۔ بعض امانات تو ابّا کی وفات کے بعد واپس کی گئیں۔
ابتدائی واقفین زندگی نے کن حالات میں اپنے فرائض سرانجام دیے سوچ کر حیرانی بھی ہوتی ہے اور اُن کی قربانیوں پر رشک بھی آتا ہے۔ ایک دوست بشیر لطف الرحمٰن صاحب نے بتایا کہ وہ 1952ء میں لندن کے قریب نیول اکیڈمی میں زیر تعلیم تھے کہ اپنے والد صاحب کی ہدایت پر چھٹیوں میں وہ دس دن کے لیے مسجد فضل چلے گئے جہاں اُس وقت ابّا امام مسجد تھے۔ کیونکہ وہ رات کو لیٹ پہنچ رہے تھے اس لیے راستے میں ہی کھانا وغیرہ کھا لیا تھا۔ ابّا نے سونے کے لیے انہیں کمرہ کھول دیااور بتایا کہ ساتھ والے کمرے میں اتنے بجے نماز فجر ادا کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں ابّا کافی کاایک کپ لے آئے کہ سردی بہت زیادہ ہے اس لیے آپ کافی پی لیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد ابّا آئے اور کہا چونکہ سردی بہت ہے اور ایک کمبل ہمارے پاس زائد ہے آپ وہ رکھ لیں۔ مکرم بشیر صاحب نے بتایا کہ سردی بہت تھی اور کسی قسم کی ہیٹنگ وغیرہ کا انتظام نہ تھا اس لیے ساری رات نہ سو سکا۔ صبح پہلی ٹرین چھ بجے روانہ ہوتی تھی اورنماز فجر کا ٹائم 06:45تھا۔ انہوں نے ایک خط امام صاحب کے نام لکھ کر چھوڑ دیا کہ یہاں اتنی شدید سردی ہے کہ میرے لیے ممکن نہ ہے کہ حسب پروگرام رہ سکوں اس لیے صبح کی پہلی ٹرین سے واپس جا رہا ہوں۔ وہ حیران تھے کہ ابّا ایسے حالات میں اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ابّا کے ساتھ بہت محبت کا سلوک فرمایا کرتے تھے اور آپ خلافت کے بے دام غلام تھے۔ آپ 1989ء کے جوبلی جلسہ پر چھٹی لے کر لندن آئے۔ میں امریکہ سے آپ سے پہلے پہنچ گیا۔ آپ نے لندن پہنچتے ہی کہا کہ حضور سے ملاقات کرنی ہے۔ میں نے کہا کہ کل چلیں گے آج آپ آرام کر لیں۔ مگر آپ نہ مانے تو ہم مسجد فضل پہنچے۔ معلوم ہوا کہ حضور تو اسلام آباد جاچکے ہیں۔ ابّا نے کہا کہ اسلام آباد چلتے ہیں۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ پاکستان سے آنے والے احباب کی حضور سے ملاقات جلسہ کے بعد ہوگی۔ ہم واپس آگئے۔ اگلے دن مجھے کہنے لگے کہ میرے لیے کرسی کا ٹکٹ بنوا دو۔ میں نے متعلقہ منتظمین سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ کرسی کا ٹکٹ یا تو نمائندگان کے لیے ہے یا معذور احباب جماعت کے لیے۔ اس لیے معذرت کر دی۔ میں نے ساری صورت حال ابّا کے گوش گزار کر دی۔ جلسہ شروع ہونے سے پہلے حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ سے ملاقات ہوئی۔ ابّا ان کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ پھر ابّا نے اجازت چاہی تو میاں صاحب مرحوم نے کہا کہ آپ یہیں کرسی پر بیٹھ جائیں لیکن ابّا نے کہا کہ میرے پاس کرسی کا ٹکٹ نہیں ہے اس لیے مناسب نہیں اور سامنے پنڈال میں بیٹھ گئے۔ جلسے کی کارروائی شروع ہوئی تو تلاوت کے دوران حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی نظر آپ پر پڑی۔ تلاوت ختم ہونے پر حضور نے مائیک پر فرمایا کہ چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب سٹیج پر تشریف لے آئیں۔ آپ سٹیج پر حاضر ہو گئے۔ حضورؒ نے ابّا سے معانقہ فرمایا اور ہدایت فرمادی کہ باجوہ صاحب کے آنے جانے کے لیے کار کا انتظام کر دیا جائے۔
ابّا کو مطالعہ کا بے انتہا شوق تھا۔ Reader‘s Digest اور Time میگزین باقاعدگی سے منگواتے تھے۔ اردو کے مختلف رسالے بھی لگوا رکھے تھے جن کا باقاعدہ مطالعہ کرتے۔ چنانچہ سلطان القلم کی معاونت میں خدا کے فضل سے آپ نے ہر اہم موضوع پر قلم اٹھایا۔ تعلیم و تربیت، دعوت الیٰ اللہ، اصلاحی اور علمی اَن گنت مضامین اور خطوط لکھے جو اردو اور انگریزی دونوں میں تھے۔ نماز ظہر کے بعد دوپہر کے کھانے پر گھر آتے اور بجائے سستانے کے نماز عصر تک مطالعہ کرتے اور نماز عصر کے بعد دیگر کاموں کی طرف توجہ دیتے۔ ہمیشہ نماز مغرب کے بعد رات کا کھانا کھالیتے اور نماز عشاء کے بعد کچھ دیر مطالعہ میں مصروف رہتے اور پھر جلد سونے کے لیے چلے جاتے۔ تمام نمازیں مسجد میں باجماعت ادا کرتے سوائے اس کے کہ کبھی موسم سرما میں سانس کی تکلیف کی وجہ سے نماز فجر گھر پر ادا کرتے۔
ابّا نے بے حد نفیس طبیعت پائی تھی۔ ہمیشہ صاف ستھرا لباس زیب تن کرتے۔ اگر آپ کے پاس ایک ہی قمیص ہو تو یہ بات آپ کی طبیعت میں داخل تھی کہ وہ اسے ایسے استعمال کرتے جیسے کہ نئی ہو۔ اس نفاست اور سادگی کے ساتھ ساتھ وہ بہترین چیزوں کا طبعاً ذوق رکھتے تھے۔ جب آپ امام مسجد فضل لندن تھے تو بہت غربت کا دَور تھا۔ اس وقت مسجد فضل لندن اور مشن ہاؤس میں گیس کا انتظام نہ تھا۔ کیونکہ جماعت گیس کا بل ادا نہیں کر سکتی تھی۔ انہی دنوں ایک احمدی ایک کار پاکستان بھیجنا چاہتے تھے۔ مگر نئی کار کو پاکستان بھیجنے پر زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا اس لیے یہ طے پایا کہ یہ کار امام مسجد فضل استعمال کیا کریں تاکہ جب کار پاکستان بھجوائی جائے تو استعمال شدہ ہونے کی وجہ سے کم ٹیکس ادا کرنا پڑے۔ یہ ایک غیبی مدد تھی جو کچھ دیر آسانی کی سبیل بن گئی۔
ابّاکی 1955ء میں انگلستان سے واپسی پر ربوہ میں پہلے وکالت تبشیر میں اور پھر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے ساتھ بطور نائب ناظر اصلاح و ارشاد تقرری ہوئی۔ حضرت میاں صاحبؓ نے اس وقت جو نصیحت ابّا کو فرمائی وہ یہ تھی کہ کسی کو احمدی بنانے پر سالوں لگتے ہیں اس لیے کسی کو اخراج کی سزا دینے کے لیے جلدبازی نہیں ہونی چاہیے۔ 1970ء میں ابّا کی تقرری ناظر امور عامہ کے طور پر ہوئی اور آپ نے حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب سے چارج لیا تو انہوں نے بھی ابّا کی درخواست پر یہی نصیحت کی کہ امور عامہ میں کئی قسم کے معاملات کی فائلیں ہیں مگر ہمیشہ کوشش کرنا کہ کسی کے اخراج کے لیے جلدبازی میں سفارش نہیں کرنی۔ 1994ء میں ابّا نے مجھے ایک خط لکھا اور فرمایا کہ مَیں یہ نصیحت تمہیں منتقل کرنا چاہتا ہوں۔
جب میری عمر 11 برس تھی تو حضرت نواب مبارکہ بیگم صا حبہؓ نے ایک دن میری والدہ سے کہا کہ ’’ظہیر کو واقف زندگی بنانا‘‘۔ بعد ازاں میٹرک کے کمزور نتائج کی و جہ سے جامعہ احمدیہ میں داخل نہ ہو سکا۔ چنانچہ یہ بات آئی گئی ہوگئی۔ میں نے آرٹس کے مضامین لے کر کالج میں داخلہ لے لیا اور پھر ایم بی اے کا ابھی دوسرا سمیسٹر ہی تھا کہ مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے مجھے یاد دلایا کہ تم نے کوئی وعدہ کیا ہوا ہے۔ میں نے بھی کسی توقّف کے بغیر وقف کی درخواست حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں ارسال کردی۔ دفتر سے درخواست کی منظوری کا جواب ابّا کے دفتر پہنچا۔ معمول کی ڈاک دیکھنے کی عادت میں آپ نے وہ خط کھول لیا جو میرے نام تھا۔ آپ گھر آئے تو پہلے مجھے دونوں گالوں پر چوما پھر کہنے لگے کہ معذرت خواہ ہوں کہ تمہارے نام کا خط بے دھیانی میں مَیں نے کھول لیا۔ لیکن وقف کے ساتھ ایک اَورحیرت ناک واقعہ میرے ساتھ وقوع پذیر ہونے لگا۔ میری حقیر فقیر طالب علمی کی زندگی کو چار چاند لگ گئے۔ ایم بی اے میں یونیورسٹی میں ٹاپ کیا اور قائد اعظم اسکالر شپ لے کر ڈاکٹریٹ کرنے کی توفیق بھی ملی۔
جب ابّا آخری دفعہ امریکہ تشریف لائے تو مجھے بتایا کہ میں اپنی زندگی، اپنے بچوں اور اپنے پروردگار سے بے انتہا خوش ہوں۔ ساتھ ہی مجھے اپنا وصیت سر ٹیفیکیٹ دیا جس کے مطابق تمام بقایا جات وہ ادا کر چکے تھے۔
جماعتی مقدمات کی و جہ سے آپ تین دفعہ گرفتار ہو کر جیل گئے۔ ہر دفعہ یہی کہتے کہ میں اپنے خدا کی رضا پر راضی ہوں، خدا کا شکر ہے اسیر راہ مولیٰ ہوں، کسی اخلاقی جرم کی وجہ سے قید نہیں۔ 71دن حوالات میں رہنے کی وجہ سے آپ کی صحت پر بہت بُرے اثرات مرتب ہوئے۔ وہ ان حالات کے عادی نہ تھے جن سے واسطہ انہیں جیل میں قید کے دوران پڑا۔ جیل کی صفائی کے نامناسب انتظامات، جائزسہولتوں کی عدم موجودگی اس کی وجوہات تھیں۔ میں نے آپ سے جب پوچھاکہ قید میں تو آپ نے بہت تکلیف اُٹھائی توکہنے لگے نہیں کوئی ایسی خاص نہیں۔ پھر خاموش رہنے کے بعد بہت آہستگی اور درد سے صرف یہ کہا کہ جب بارش ہوتی تو قید خانے کا صحن غلاظت سے بھرے پانی کا تالاب بن جاتا جس میں پائوں ڈوبے رہتے۔ پھر کچھ نہیں کہا۔
………٭………٭………٭………
محترمہ علم بی بی صاحبہ
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 29؍مارچ 2013ء میں مکرم چودھری عطاء الرحمٰن محمود صاحب کے قلم سے اُن کی والدہ محترمہ علم بی بی صاحبہ کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ اپنے گاؤں میں ہمارا گھرانہ اکیلا احمدی تھا لہٰذا نماز باجماعت کا اہتمام گھر پر ہی ہوتا۔ امّی نے مجھے سفید شلوار قمیص کا ایک جوڑا صرف اس غرض سے بنواکر دیا تھا کہ نماز کے وقت یہ صاف کپڑے پہننے ہیں۔ فجر کی نماز کے بعد آپ اپنی نگرانی میں مجھے اور ہمشیرہ کو قرآن کریم پڑھاتیں۔ بچوں کو خلیفہ وقت کی خدمت میں خط لکھنے کی طرف مائل کرنے کے لیے یہ طریق اختیار کیا ہوا تھا کہ اُن کو کہتیں کہ میری طرف سے حضور کی خدمت میں دعا کا خط لکھ دو اور اپنی طرف سے بھی دعا کی درخواست کرو۔
آپ مجسّم دعا تھیں۔ زبان پر ہر وقت ذکرالٰہی اور درودشریف کا ورد جاری رہتا۔ نماز تہجد کی دعاؤں میں خشوع و خضوع اور تضرّع غالب ہوتا۔ ہمارے والد محترم چودھری محمد طفیل صاحب (وفات 1992ء) کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ روزانہ کئی مہمان آتے جن کی مہمان نوازی والدہ مرحومہ بڑی بشاشت سے کرتیں۔ والد صاحب کے پاس ایک ایک وقت میں دس سے بارہ تک شاگرد بھی رہے جو مستقل کئی کئی ماہ قیام کرتے اور اُن کا کھانا پینا بھی بلامعاوضہ ہمارے ذمہ ہوتا۔
آپ مختلف دیسی ادویات تیار کرواکے مریضوں میں مفت تقسیم کیا کرتی تھیں۔ قریبی دیہات کے لوگ بھی آپ سے دوائیں لینے آتے۔ کسی مریض کو افاقہ ہوتا تو آپ خداتعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتیں۔ غرباء کی نقد مدد بھی کرتیں۔ اپنے گھر کے حصے کرکے خاندان کے دیگر افراد کو مستقل طور پر دے دیے۔ غرض اپنی حیثیت سے بڑھ کر خوش دلی کے ساتھ دوسروں کی مدد کرتیں۔ ہماری ایک خالہ 1982ء میں وفات پاگئیں۔ اُن کی شادی ہمارے چچا کے ساتھ ہوئی تھی۔ امّی نے اُن کے بچوں کو بھی ہمارے ساتھ ہماری طرح ہی پالا اور اُن کی شادیاں کروائیں۔ اگرچہ آپ پڑھی لکھی نہ تھیں لیکن بہت زیرک اور معاملہ فہم تھیں۔ معاملہ سمجھ کر بہترین حل پیش کرتی تھیں۔ 1974ء کے فسادات کے دوران ہمارے ڈیرے پر قریبی گاؤں سے مسلّح حملہ ہوا۔ ہم سب تو محفوظ رہے لیکن دو حملہ آور زخمی ہوگئے۔ اس پر میرے والد صاحب سمیت چند عزیزوں کو دو تین ہفتے اسیر راہ مولیٰ بننا پڑا۔ میری امّی نے ان حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
آپ خلافت سے بہت عقیدت رکھتیں اور خلیفہ وقت کی ہر تحریک پر خوشی سے لبّیک کہتیں۔ جمعہ والے دن خطبے سے بہت پہلے ٹی وی کے سامنے آکر بیٹھ جاتیں۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔ مرحومہ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔
………٭………٭………٭………