فضائل القرآن (3) (قسط نمبر 8)
(قسط نمبر 7 کے لیے ملاحظہ فرمائیں الفضل انٹرنیشنل شمارہ 17؍دسمبر 2021ء)
صدقات میں کیا چیز دی جائے
نویں۔ اسلام نے یہ بتایا کہ کیا چیز صدقہ میں دی جائے۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کسی غریب کو اچھا کپڑا دینے کا کیا فائدہ۔ اس کی بجائے اگر دس غریبوں کو کھدر کے کپڑے بنوا دیئے جائیں تو زیادہ اچھا ہو گا۔ یا مثلاً ایک شخص کو پلائو کھانے کی بجائے دس کو آٹا دے دیا جائے تو یہ بہتر ہے۔ لیکن یہ ان کی غلطی ہے۔ اسلام فطرت کی گہرائیوں کو دیکھتا ہے۔ اسلام جانتا ہے کہ غرباء روزانہ امراء کو اچھا کھانا کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے دیکھتے ہیں اور خود بھی چاہتے ہیں کہ ویسے ہی کپڑے پہنیں اور ویسے ہی کھانے کھائیں۔ اس لئے ایسی بھی صورت ہونی چاہئے کہ ان کو اس امر کے مواقع حاصل ہو سکیں۔ اسلام لوگوں کو خشک فلسفی نہیں بناتا بلکہ لوگوں کے دلوں کے خیالات پڑھنے کا حکم دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے جسے ہم بھی بچپن میں بہت خوشی سے سنا کرتے تھے۔ قصہ یہ تھا کہ کوئی لکڑ ہارا تھا جو بادشاہ کے باورچی خانہ کے لئے لکڑیاں لایا کرتا تھا۔ ایک دن جب وہ لکڑیاں لے کر آیا تو کھانے کو بگھار لگایا جا رہا تھا۔ اس کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور باورچی سے کہنے لگا کہ کیا اس کھانے میں سے مجھے کچھ دے سکتے ہو۔ اس نے کہا۔ یہ بڑا قیمتی کھانا ہے۔ تمہیں کس طرح دیا جا سکتا ہے۔ کہتے تھے اشرفیوں کا بگھار لگاتے تھے۔ یہ معلوم نہیں کس طرح لگاتے تھے۔ لکڑ ہارے نے پوچھا۔ یہ کتنا قیمتی ہے۔ اسے بتایا گیا کہ تمہاری چھ ماہ کی لکڑیوں کی قیمت کے مساوی ہے۔ اس پر وہ لکڑیاں ڈالنے لگا۔ پہلے روزانہ ایک بوجھ لایا کرتا تھا۔ پھر دو لانے لگا۔ ایک بوجھ کھانے کی قیمت میں دیتا۔ اور ایک بوجھ کی قیمت سے گزارہ چلاتا۔ آخر چھ ماہ کے بعد اسے وہ کھانا دیا گیا۔ جب وہ اسے لے کر گھر گیا۔ تو کسی فقیر نے اس کے دروازہ پر جا کر کھانا مانگا۔ لکڑ ہارے کی بیوی نے کہا۔ یہی کھانا اسے دےدو۔ کیونکہ ہم تو چھ ماہ لکڑیاں ڈال کر یہ پھر بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ اس طرح بھی نہیں لے سکتا۔ لکڑ ہارے نے وہ کھانا فقیر کو دے دیا۔
اسی طرح ہمایوں کو جس سقہ نے دریا میں ڈوبتے ہوئے بچایا تھا۔ اسے جب کہا گیا کہ جو کچھ چاہو مانگو تو اس نے چار پہر کے لئے بادشاہت مانگی۔ یہ تھی ایک سقہ کے دل کو خواہش تو خدا تعالیٰ دلوں کو پڑھتا ہے۔ فلسفی کو ان باتوں کی کیا خبر ہو سکتی ہے پس دلوں کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے یہ حکم دیا کہ
وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ(البقرۃ:4)
کہ جو کچھ خدا نے دیا ہو اس میں سے خرچ کرو۔ روپیہ ہی صدقہ میں نہیں دینا چاہئے کبھی اچھا کپڑا بھی دو۔ اچھا کھانا بھی دو بلکہ جو کچھ تمہیں دیا جائے اس میں سے بانٹتے رہو۔
اس سے بھی واضح الفاظ میں دوسری جگہ فرمایا۔
کُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِہٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَ اٰتُوۡا حَقَّہٗ یَوۡمَ حَصَادِہٖ ۫ۖ وَ لَا تُسۡرِفُوۡا (الانعام:142)
اے باغوں والے مسلمانو! جب تمہارے باغ پھل لاتے ہیں تو تم اپنے عزیزوں سمیت بیٹھ کر ان کے پھل کھاتے ہو۔ کبھی تمہیں یہ بھی خیال آیا کہ باغ کی دیوار کے ساتھ گذرنے والے غریب کا بھی پتہ لیں کہ اس کے دل میں کیا گذرتا ہے۔
کُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِہٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ
ہےجب پھل پکیں تو خوب کھائو مگر ایک بات ضرور مدنظر رکھو۔ اور وہ یہ کہ
وَاٰتُوۡا حَقَّہٗ یَوۡمَ حَصَادِہٖ
جب پھل پک جائیں تو غریبوں کو بھی دو تاکہ وہ بھی دنیا کی نعمتوں سے حصہ پائیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ پھل بیچ کر کچھ روپے غریبوں کو دے دو کہ ان سے دال روٹی کھا لیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ
وَ لَا تُسۡرِفُوۡا
ہاں اسراف نہ کرو یہ نہ ہو کہ روز غریبوں کو سنگترے وغیرہ تو کھلاتے رہو۔ مگر ان کے کپڑوں اور کھانے پینے کا خیال نہ رکھو ہر ایک امر کی ایک حد ہونی چاہئے۔
پھر بتایا کہ جو کچھ دو حلال مال سے دو۔ فرمایا۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ(البقرۃ:268)
اے ایمان دارو! جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کے دل میں غریبوں کی مدد کے لئے جوش اٹھتا ہے تو ڈاکے مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو اخلاقی علوم سے واقف نہیں ہوتے، وہ کہتے ہیں فلاں ڈاکو بڑا اچھا آدمی ہے کیونکہ وہ غریبوں کی خوب مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ غریبوں پر رحم کرنے کا طریق نہیں بلکہ اصل طریق یہ ہے کہ
اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ
غریبوں کی ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ ڈاکے ڈال کر اور دوسروں کا مال چھین کر ان کو دے دو بلکہ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اس قدر مال جس قدر قرآن کریم نے جائز رکھا ہے دیدو اور باقی کام خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ کسی کی خاطر ناجائز فعل کرنا درست نہیں۔ لوگوں کا مال لوٹ کر غرباء کو دینا تو ’’حلوائی کی دکان اور دادا جی کی فاتحہ‘‘ کا مصداق بننا ہے۔ اگر تم یہ کہو کہ ہمارے پاس تھوڑا مال ہے مگر غریب بہت ہیں تو اس کی ذمہ داری تم پر نہیں۔ تم جتنا دے سکتے ہو دے دو باقی خدا تعالیٰ کے سپرد کرو۔
ایک تاریخی لطیفہ ہے۔ لکھا ہے کہ صلیبی جنگوں کے موقع پر ایک شخص جو فوج میں ملازم تھا بادشاہ کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا۔ میری غیرت یہ برداشت نہیں کرتی کہ میں بیت المال سے تنخواہ لوں۔ میں آئندہ تنخواہ نہیں لونگا۔ اسے کہا گیا کہ پھر تم کس طرح گذارہ کرو گے۔ اس نے کہا۔ میری ایک لونڈی ہے جو جادو ٹونے کرنا جانتی ہے۔ میں اس کی کمائی سے گذارہ کر لوں گا۔ گویا اس نے اسلام سے ناواقفیت کی وجہ سے حرام مال کو تو جائز قرار دے لیا اور جائز کو اپنے لئے حرام سمجھ لیا۔
غرباء اور امراء دونوں کو صدقہ دینا چاہئے
دسویں بات اسلام نے یہ بتاتی ہے کہ صدقہ دے کون
کیا امراء کو ہی صدقہ دینا چاہئے غرباء کو نہیں دینا چاہئے؟ اسلام کہتا ہے کہ صدقہ غرباء کو بھی دینا چاہئے۔ کیونکہ صدقہ دینے کی صرف یہی غرض نہیں کہ حاجت مند کی امداد ہو بلکہ یہ ایک درس گاہ ہے جس میں اخلاقی تربیت کی جاتی ہے اگر غریبوں کو صدقہ دینے سے محروم رکھا جائے تو وہ اس درس گاہ میں تعلیم پانے سے محروم رہ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ(اٰل عمران:135)
مومن وہ ہیں جو اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب ان کے پاس مال ہوتا ہے۔ اور اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جب آپ تنگی میں مبتلا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے غریب امیر سب کے لئے صدقہ مقرر کیا ہے تاکہ انہیں صدقہ دینے کے فوائد حاصل ہو جائیں۔ صدقہ دینے کے کئی فوائد ہیں جن میں سے دو تین میں بیان کر دیتا ہوں۔
اول ایسا انسان محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے بھی زیادہ غریب اور محتاج لوگ دنیا میں موجود ہیں۔ ایک ایسا شخص جسے خود ایک وقت کا فاقہ ہو اسے اگر کوئی چیز ملے اور وہ کہے۔ میں کسے صدقہ دوں؟ تو خدا تعالیٰ اسے کہتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں کئی کئی وقت کا فاقہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے تم ایسے شخص کو صدقہ دے سکتے ہو جو کئی وقت کا بھوکا ہو۔
دوم اسلام نہیں چاہتا کہ کسی ثواب سے کوئی بھی محروم رہے۔ اس لئے صدقہ اس نے صرف امراء پر ہی نہیں بلکہ غرباء پر بھی رکھا ہے تاکہ وہ بھی اس ثواب سے محروم نہ رہیں۔ اور پھر وہ شخص تو ثواب کا اور زیادہ مستحق ہوتا ہے جو تنگی کی حالت میں دوسرے کی مدد کرتا ہے۔
سوم خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ غریب کے دل پر زنگ لگے۔ جو خود لیتا رہے لیکن دے نہیں۔ اس کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے کہا کہ وہ بھی دے تا کہ وہ یہ سمجھے کہ میں ہی دوسروں سے امداد حاصل نہیں کر رہا بلکہ میں بھی دوسروں کی مدد کرتا ہوں۔ اس کے لئے اسلام نے ایک خاص موقع بھی رکھ دیا ہے۔ یعنی رمضان کے بعد صدقہ الفطر رکھا ہے جس سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ غریب اسی سے دے دے جو امیر اس کے گھر بھیجے لیکن صدقہ ضرور دے۔
صدقہ کے مستحقین
گیارھویں بات اسلام نے یہ بتائی ہے کہ صدقہ کسے دیا جائے۔ میں نے بتایا ہے۔ وید میں کہا گیا ہے کہ برہمن کو صدقہ دیا جائے کسی اور کو نہ دیا جائے۔ بعض مذاہب میں قومی اور خاندانی لحاظ سے صدقہ دینے کا حکم ہے۔ مگر اسلام کہتا ہے یہ نہیں ہونا چاہئے۔ بعض مذاہب نے صدقہ غیر کے لئے رکھا ہے اپنے لوگوں کے لئے نہیں۔ مسلمانوں میں بھی یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کو صدقہ نہیں دینا چاہئے حالانکہ اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے۔ بلکہ قرآن کریم میں آتا ہے۔
قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ
یعنی جو مال تم خدا کی راہ میں تقسیم کرو اگر تمہارے ماں باپ محتاج ہوں اور تمہارے ہدایا سے بھی ان کی تنگی دور نہ ہو سکے تو انہیں صدقہ میں سے بھی دے سکتے ہو۔ پھر اقربین کو دو۔ یتامیٰ کو دو مساکین کو دو۔ مسافروں کو دو۔ پھر فرماتا ہے۔
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (التوبۃ :60)
یعنی صدقات غریبوں کے لئے، مسکینوں کے لئے اور جو ان صدقات کو جمع کرنے والے ہوں ان کے لئے ہیں۔ اسی طرح جو اسلام نہیں لائے ان کے لئے یعنی ان کے کھانے پینے کیلئے،ان کی رہائش کے لئے ان کی تعلیم و تربیت کے لئے۔ پھر قیدیوں کے چھڑانے کے لئے۔ قرض داروں کے لئے جو جہاد کے لئے جائیں ان کے لئے اور مسافروں کے لئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
اسی طرح فرمایا۔
لَا یَنۡہٰٮکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ(الممتحنۃ:9)
یعنی اللہ تمہیں روکتا نہیں کہ تم صدقہ دو ان کو جو تم سے لڑتے نہیں۔ جنہوں نے تمہیں تمہارے گھروں اور وطنوں سے نہیں نکالا۔ تم ان سے نیکی اور انصاف کرو۔ اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے۔
فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ
مسلمانوں کے مالوں میں حق ہے سوالی کا بھی یعنی جو بول سکتا ہے اور محروم کا بھی یعنی حیوانوں کا جو بول نہیں سکتے۔
پھر فرماتا ہے۔
وَ لَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَ السَّعَۃِ اَنۡ یُّؤۡتُوۡۤا اُولِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۪ۖ وَ لۡیَعۡفُوۡا وَ لۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ(النور:23)
یعنی اے مومنو! کوئی تم میں سے یہ قسم نہ کھائے کہ میں قریبیوں کو اور مساکین کو اور مہاجرین فی سبیل اللہ کو صدقہ نہ دوں گا چاہئے کہ تم درگذر سے کام لو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہارے متعلق درگذر سے کام لے۔ پس کسی سے ناراض ہو کر اسے صدقہ سے محروم نہیں کرنا چاہئے۔
(جاری ہے )