امام الزمان کی بیعت اور خلافت سے وابستگی بہت بڑا فضل ہے (قسط 3)
(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍اپریل 2010ء)
ٹیلی ویژن یا انٹرنیٹ کے بیہودہ پروگراموں سے بچیں
زنا ہے، بدنظری وغیرہ ہے۔ یہ برائیاں آج کل میڈیا کی وجہ سے عام ہو گئی ہیں۔ گھروں میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ایسی ایسی بیہودہ اور لچر فلمیں اور پروگرام وغیرہ دکھائے جاتے ہیں جو انسان کو برائیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بعض احمدی گھرانوں میں بھی اس برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پہلے تو روشن خیالی کے نام پر ان فلموں کو دیکھا جاتا ہے۔ پھر بعض بدقسمت گھر عملاً ان برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تویہ جوزنا ہے یہ دماغ کا اور آنکھ کا زنا بھی ہوتا ہے اور پھر یہی زنا بڑھتے بڑھتے حقیقی برائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ماں باپ شروع میں احتیاط نہیں کرتے اور جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر افسوس کرتے اور روتے ہیں کہ ہماری نسل بگڑ گئی، ہماری اولادیں برباد ہو گئی ہیں۔ اس لئے چاہئے کہ پہلے نظر رکھیں۔ بیہودہ پروگراموں کے دوران بچوں کو ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیں اور انٹر نیٹ پر بھی نظر رکھیں۔
نو جوانوں کو جماعتی نظام سے جوڑیں
بعض ماں باپ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ جماعتی نظام کا کام ہے کہ ان کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ اسی طرح انصاراللہ ہے، لجنہ ہے، خدام الاحمدیہ ہے یہ تنظیمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ماتحت بھی ان برائیوں سے بچنے کے پروگرام بنائیں۔ نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں، اپنی تنظیموں کے ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے اور اس بارے میں ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی تنظیموں سے بھر پور تعاون کرنا چاہئے۔ اگر ماں باپ کسی قسم کی کمزوری دکھائیں گے تو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہوں گے۔ خاص طور پر گھر کے جو نگران ہیں یعنی مرد ان کا سب سے زیادہ یہ فرض ہے اور ذمہ داری ہے کہ اپنی اولادوں کو اس آگ میں گرنے سے بچائیں جس آگ کے عذاب سے خدا تعالیٰ نے آپ کو یا آپ کے بڑوں کو بچایا ہے اور اپنے فضل سے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔
امام الزمان کی بیعت اور خلافت سے وابستگی بہت بڑا فضل ہے
دنیا خاص طور پر دوسرے مسلمان شدید بے چینی میں مبتلا ہیں کہ ان کو کوئی ایسی لیڈر شپ ملے جو ان کی راہنمائی کرے۔ لیکن آپ پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہوا ہے کہ زمانے کے امام کی بیعت میں آکر راہنمائی مل رہی ہے۔ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے سے نیکیوں پر قائم رہنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے یہ سب فضل تقاضا کرتے ہیں کہ توجہ دلانے پر ہر برائی سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں۔ نیکیوں پر خود بھی قدم ماریں اور اولاد کو بھی اس پر چلنے کی تلقین کریں اور اس کے لئے کوشش کریں۔ خدا تعالیٰ کے اس ارشاد اور انذار کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا (التحریم: 7)
اے مومنو! اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی آگ سے بچاوٴ۔
آج کل کی لہو و لعب ہماری زندگی کا مقصد نہیں
آج کل تو دنیا کی چمک دمک اور لہو و لعب، مختلف قسم کی برائیاں جو مغربی معاشرے میں برائیاں نہیں کہلاتیں لیکن اسلامی تعلیم میں وہ برائیاں ہیں، اخلاق سے دور لے جانے والی ہیں، منہ پھاڑے کھڑی ہیں جو ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہاپہلے روشن خیالی کے نام پر بعض غلط کام کئے جاتے ہیں اور پھر وہ برائیوں کی طرف دھکیلتے چلے جاتے ہیں۔ تو یہ نہ ہی تفریح ہے، نہ آزادی بلکہ تفریح اور آزادی کے نام پر آگ کے گڑھے ہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں پر انتہائی مہربان ہے، مومنوں کو کھول کر بتا دیا کہ یہ آگ ہے، یہ آگ ہے اس سے اپنے آپ کو بھی بچاوٴ اور اپنی اولادوں کو بھی بچاوٴ۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو اس معاشرے میں رہ رہے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ یہ تمہاری زندگی کا مقصدنہیں ہے۔ یہ نہ سمجھوکہ یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے کہ اس لہو و لعب میں پڑا جائے، یہی ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے تمہارے میں اور غیر میں فرق ہونا چاہئے۔ اسی طرح ہر احمدی کو ہر قسم کے ظلم سے بچنے کی ضرورت ہے۔
آپس میں محبت اور نظام جماعت کی پابندی
آپس میں محبت و پیار اور بھائی چارے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہر قسم کے دھوکے سے اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے۔ نظامِ جماعت کی پابندی کی ضرورت ہے۔ جماعت احمدیہ کی خوبصورتی تو نظامِ جماعت ہی ہے۔ اگر اس خوبصورتی سے دور ہٹ گئے تو ہمارے میں اور غیر میں کیا فرق رہ جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ تم نمازیں پڑھتے ہو وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں۔ تم روزے رکھتے ہو دوسرے مسلمان بھی روزے رکھتے ہیں۔ تم حج پر جاتے ہو دوسرے بھی حج پر جاتے ہیں۔ یا بعض صدقات بھی دیتے ہیں توکوئی فرق ہونا چاہئے۔ ایک بڑا واضح فرق نظامِ جماعت ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلافت سے تو ہمارا وفا کا تعلق ہے لیکن جماعتی نظام سے اختلاف ہے۔ جماعتی نظام بھی خلافت کا بنایا ہوا نظام ہے، اگر کسی عہدیدار سے شکایت ہے تو خلیفۂ وقت کو لکھا جا سکتا ہے۔ اس کی شکایت کی جا سکتی ہے۔ لیکن نظامِ جماعت کی اطاعت سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
عہدیدار سچی ہمدردی اور خیرخواہی کا سلوک کریں
اسی طرح عہدیداروں کا بھی کام ہے کہ لوگوں کے لئے ابتلا کا سامان نہ بنیں۔ لوگوں کو ابتلا میں نہ ڈالیں اور سچی ہمدردی اور خیر خواہی سے ہر ایک سے سلوک کریں۔
میرے سے منسوب ہونے کے لئے نمازیں شرط ہیں
3۔پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی شرائطِ بیعت میں نمازوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ میرے سے منسوب ہونے کے لئے نمازیں شرط ہیں۔
(ماخوذ ازمجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 مطبوعہ ربوہ)
اس بارے میں پہلے بھی بتا چکا ہوں۔ لیکن اس مضمون کو آپ نے نمازوں کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرو اور اس کے احسانوں کو ہمیشہ یاد رکھو۔
4۔ نفسانی جوش کے تحت کسی کو تکلیف نہیں دینی
پھرچوتھی شرط بیعت آپ نے بیان فرمائی کہ نفسانی جوش کے تحت نہ زبان سے نہ ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہیں دینی۔
(ماخوذ ازمجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 مطبوعہ ربوہ)
(باقی آئندہ)