فضائل القرآن (3) (قسط نمبر 9)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اول اسلام نے صدقہ مستحقین کو دینے کا ارشاد فرمایا ہے۔ کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں کیا۔ نہ اس میں کوئی زائد ثواب رکھا ہے۔
دوم اپنے بیگانے میں فرق نہیں کیا۔ اپنوں کے لئے بھی جائز رکھا ہے اور دوسروں کے لئے بھی۔ اس طرح ایسے لوگوں کے خیالات کی تردید کی ہے جو (الف)اپنوں کی خود بھی مدد نہیں کرتے اور صدقہ بھی نہیں دیتے کہ اپنوں کو کس طرح دیں۔ (ب)جو غریب اپنوں کو مدد اور صدقہ ایک ہی وقت میں نہیں دے سکتے انہیں نیکی سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ اپنوں کی مدد کو ہی صدقہ شمار کر لیاہے۔
سوم صدقہ صرف غرباء کے لئے ہی نہیں رکھا گیا بلکہ ان سے جو مشابہ لوگ ہوں ان کے لئے بھی رکھا ہے (الف)مثلاً ایک لکھ پتی ہو مگر رستہ میں اس کا مال ضائع ہو گیا ہو تو اسے بھی صدقہ دے سکتے ہیں۔ اسے قرض اس لئے نہیں دے سکتے کہ کیا پتہ ہے کہ وہ کوئی لٹیرا ہو اور دغا باز ہے یا ٹھگ ہے۔ لیکن صدقہ دے سکتے ہیں کیونکہ اگر ٹھگ اور دغا باز ہوگا تو اس کا وبال اس پر پڑے گا۔ (ب)مساکین۔ مسکین سے مراد غریب نہیں۔ کیونکہ اگر اس کے یہی معنے ہوتے تو پھر
لِلۡفُقَرَآءِ
کیوں فرمایا۔ دراصل مسکین سے مراد ایسا شخص ہے جو سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام نہ کر سکے۔ مثلاً ایک شخص ایک فن جانتا ہے مگر وہ فن ایسا ہے کہ دس ہزار روپے سے کام چل سکتا ہے۔ ایسا شخص فقیر تو نہیں کہلا سکتا۔ وہ بہر حال کھاتا پیتا ہوگا مگر اپنی لیاقت اور قابلیت سے کام نہ لینے کی وجہ سے ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر اسے دس ہزار روپیہ دے دیا جائے تو کام چلا سکتا ہے۔ ایسے شخص کو صدقہ کی مد سے حکومت روپیہ دے سکتی ہے خواہ بطور قرض ہو خواہ بطور امداد۔ (ج)ایک ایسا شخص ہو جو ہو تو مالدار مگر مقروض ہو۔ مثلاً اس کی پچاس ہزار کی تجارت ہو اور دس ہزار اس پر قرض ہو۔ اور قرض والے اپنا روپیہ مانگتے ہوں۔ تو اگر وہ سرمایہ میں سے ان کا قرض ادا کر دے تو اس کی پچاس ہزار کی تجارت تباہ ہو جاتی ہے ایسے شخص کی بھی صدقہ سے مدد کی جا سکتی ہے۔ یا مثلاً زمیندار ہے اور وہ مقروض ہے۔ اگر قرض ادا کرے تو اس کی زمین بک جاتی ہے اور اس کے گذارہ کی کوئی صورت نہیں رہتی اسے بھی صدقہ میں سے مدد دی جا سکتی ہے۔
چہارم۔ صدقہ میں صدقہ کے عاملوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ کیونکہ جب اسلام نے یہ حکم دیا کہ فلاں فلاں کو صدقہ دینا ضروری ہے تو یہ سوال ہو سکتا تھا کہ پھر صدقہ جمع کون کرے پس ضروری تھا کہ اس کے لئے کارکن ہوں اور ان کی تنخواہیں مقرر کی جائیں بے شک اسے صدقہ نہیں قرار دیا جائے گا مگر صدقہ میں سے ہی ان کی تنخواہیں ادا کی جا سکیں گی۔ یہ ایک سوال ہے، جس کی طرف اَور کسی مذہب نے توجہ نہیں کی۔ یعنی یہ نہیں بتایا کہ صدقہ میں عاملوں کابھی حق ہے۔
پنجم۔ یہ بتایا کہ سائل کو بھی محروم نہیں رکھنا چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سائلوں کو نہیں دینا چاہئے کیونکہ اس طرح ان کی عادت خراب ہو جاتی ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ انہیں دینا چاہیے۔ کیونکہ بعض دفعہ صرف ظاہر کو دیکھ کر یہ پتہ نہیں لگتا کہ فلاں محتاج ہے، یا نہیں۔ اس وجہ سے اسلام نے یہ رکھا کہ کوئی شخص سوال کرے اور اس کو پورا کرنے کی مقدرت ہو تو اسے دے دینا چاہئے۔
ششم۔ اپنوں پرائیوں سب کو صدقہ دیا جائے سوائے ان کے جو اس وقت جنگ میں مشغول ہوں تاکہ وہ نقصان نہ پہنچائیں۔
ہفتم۔ انسانوں کے سوا جانوروں کو بھی جو محروم ہیں جن کی کوئی مالیت نہیں سمجھی جاتی۔ صدقہ سے محروم نہ رکھا جائے کہ خدا تعالیٰ نے ان کا حصہ انسان کے ساتھ شامل کر دیا ہے۔ گویا بوڑھے اور ناکارہ جانوروں کو چارہ اور دانہ ڈالنا بھی صدقات میں شامل ہے اور ثواب کا موجب ہوگا۔ گئوشالہ کو مدد دینا بھی صدقہ ہے مگر اونٹ شالے اور بھینس شالے بھی ہونے چاہئیں۔
صدقات کی تقسیم کے اصول
بارھویں بات اسلام نے یہ بیان کی کہ حکومت جو صدقات وصول کرے انہیں کن اصول پر تقسیم کرے۔ اس کے لئے اسلام نے قواعد مقرر کئے ہیں۔ فرمایا
تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا (التوبۃ:103)
یعنی دو اصل تمہارے مدنظر ہونے چائیں۔
اول۔
تُطَہِّرُہُمۡ۔
قوم کی کمزوری دور کرنے کے لئے اور مصیبت زدوں کی مصیبت دور کرنے کے لئے۔
دوم۔
یُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا۔
قوم کو بلند کرنے کے لئے۔
زکیکے معنے اٹھانے اور ترقی دینے کے بھی ہوتے ہیں۔
صدقہ دینے اور لینے والوں کے تعلقات پر بحث
تیرھویں بات یہ بیان کی کہ صدقہ دینے والے اور جنہیں دیا گیا ہو ان کے تعلقات کیا ہوں؟ (۱)شریعت نے ایسے مال کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ حصہ جو حکومت کے ہاتھ سے جاتا ہے۔ اس کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ہاتھ سے گیا ہے۔ یا میرا روپیہ فلاں کو دیا گیا ہے کیونکہ وہ سب کا جمع شدہ مال ہوتا ہے جس میں سے حکومت خود مستحق کو دیتی ہے اس طرح دینے والے کا واسطہ ہی اڑا دیا گیا ہے اور احسان جتانے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہنے دی۔
(۲)حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ
کہہ کر احسان جتانے کی روح کو بھی کچل دیا اور بتایا کہ جن کو صدقہ دیا جاتا ہے ان کا بھی دینے والے کے مال میں حق ہے۔
(۳)لیکن چونکہ ہر ایک اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا اس لئے ظاہری احکام بھی دے دیئے۔ چنانچہ فرمایا۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی(البقرۃ:265)
اےمومنو! صدقات کو احسان جتا کر یا دوسروں سے خدمت لے کر ضائع نہ کرو۔
(۴)پھر ایک اَور پہلو اختیار کیا جس سے احسان کا کچھ بھی باقی نہ رکھا۔ فرمایا۔
یَمۡحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرۡبِی الصَّدَقٰتِ (البقرۃ:277)
اللہ تعالیٰ سود کو مٹائے گا اور صدقات دینے والوں کے مال کو بڑھائے گا۔ اس میں بتایا کہ صدقہ دینے والوں کو ہم خود بدلہ دیں گے۔
صدقات پر زور لیکن سوال کی ممانعت
چودھویں بات یہ بیان کی کہ جہاں صدقات دینے پر اسلام نے زور دیا وہاں چونکہ یہ خیال ہو سکتا تھا کہ مانگنا اچھی بات ہے اس لئے اس کی بھی تشریح کر دی۔ چنانچہ مومن کی شان بتائی کہ
یَحۡسَبُہُمُ الۡجَاہِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعۡرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ لَا یَسۡـَٔلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَافًا (البقرۃ:274)
یعنی جو شخص اس تعلیم سے واقف نہیں کہ اسلام سوال کو پسند نہیں کرتا وہ ایسے لوگوں کو سوال سے بچنے کی وجہ سے غنی خیال کرتا ہے۔ لیکن جو اس سے واقف ہے۔ وہ لوگوں کی شکلوں سے تاڑ لیتا ہے اور ان کی مدد کر دیتا ہے۔
اس میں بتایا کہ کامل مومن کو سوال نہیں کرنا چاہئے مگر منع بھی نہیں کیا۔ یعنی مانگنا قطعی حرام نہیں کیونکہ بعض دفعہ انسان اس کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا۔ اور اس نے عرض کیا مجھے کچھ دیں۔ آپﷺنے دیا۔ اس نے پھر مانگا۔ آپﷺنے پھر دیا۔ اس نے پھر مانگا آپﷺ نے پھر دیا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا۔ میں تمہیں ایک بات بتائوں؟ اور وہ یہ کہ مانگنا اچھا نہیں ہوتا۔ اس نے اقرار کیا کہ آج کے بعد مَیں کسی سے نہیں مانگوں گا۔ ایک صحابی ؓ کہتے ہیں ایک جنگ کے دوران اس کا کوڑا گر گیا۔ دوسرا شخص اٹھا کر دینے لگا تو اس نے کہا تم نہ دو۔ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کیا ہوا ہے کہ مَیں کسی سے کچھ نہیں لوں گا۔ اس پر وہ خود اترا اور کوڑا اٹھایا۔ تو جہاں اسلام نے صدقات پر اتنا زور دیا ہے کہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیوں نہ لیں۔ وہاں یہ بھی بتا دیا کہ مانگنا نہیں چاہئے۔ یہ بات دینے والے پر رکھو کہ وہ تلاش کر کے دے۔
یہ صدقات کے متعلق اسلام کی بیان کردہ وہ چودہ باتیں ہیں کہ خواہ باقی مذاہب کی ساری الہامی کتابیں اکٹھی کر لو تمام فلسفیوں کی کتابیں بھی دیکھ لو ان کی بحث ان میں نہ ہو گی۔ اور مَیں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کی معمولی سی بات بھی اس رنگ میں نہ انسانی کتابوں میں پائی جائےگی اور نہ الہامی کتابوں میں جس رنگ میں قرآن نے بیان کی ہے۔
عورت اور مرد کے تعلقات پر بحث
اب میں مثال کے طور پر ایک اَور بات کو لے لیتا ہوں اور وہ عورت اور مرد کا تعلق ہے یہ ایک ایسا فطری تعلق ہے جو جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اور کسی گہرے تدبر سے اس کے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایک شیر دوسرے تمام جانداروں کو پھاڑے گا لیکن وہ بھی شیرنی کے ساتھ رہنے کی ضرورت محسوس کرے گا۔ گدھا بے وقوف جانور سمجھا جاتا ہے لیکن وہ بھی گدھی سے تعلق ضروری سمجھتا ہے۔ غرض یہ تعلق ایسا ہے کہ دنیا کے ہر جاندار کا ذہن ادھر جاتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ پس اس کی تعلیم بہت مکمل ہونی چاہئے۔ کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے یہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور اب تک محسوس کی جارہی ہے۔ مگر ساری مذہبی کتابیں اس کی تکمیل سے محروم ہیں صرف قرآن کریم نے ہی اسے مکمل کیا ہے۔ حالانکہ بظاہر اس تعلق کے متعلق کسی کتاب کا نئی بات بتانا ناممکن سا نظر آتا ہے۔
عورت مرد کے تعلقات کا مضمون ایک وسیع مضمون ہے۔ مَیں اس وقت کثرت ازدواج، حقوق نسواں، ایک دوسرے کے معاملہ میں مرد و عورت کی ذمہ داریاں، مہر اور طلاق وغیرہ کے مسائل نہیں لوں گا کہ یہ مسائل زیادہ لمبے اور باریک ہیں۔ مَیں صرف اس چھوٹی سے چھوٹی بات کو لوں گا جس کی وجہ سے مرد و عورت آپس میں ایک جگہ رہنے لگ جاتے ہیں۔ اور بتائوں گا کہ اس تعلق کو بھی اسلام نے کس قدر مکمل طور پر بیان کیا ہے۔ اور اسے کتنا لطیف اور خوبصورت مضمون بنا دیا ہے۔
٭…٭(جاری ہے)٭…٭