جماعتِ احمدیہ کے خلاف ذرائع ابلاغ کا استعمال
چھاپہ خانے سے سوشل میڈیا تک
(یہ مضمون ادارہ الفضل انٹرنیشنل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
بعض نوجوان سوال کرتے ہیں کہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ جماعتِ احمدیہ کی مخالفت ہر دور اور ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ مگر اس زمانہ میں ایسا کیا ہوگیا کہ اس مخالفت نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے؟
سوشل میڈیا کے زمانے میں پروان چڑھنے والی اس نسل کا یہ سوال سو فیصد بجا ہے۔ سو ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جماعتِ احمدیہ کی مخالفت میں ذرائع ابلاغ کے کردارکو سامنے رکھا جائے اوروقت کے ساتھ ان ذرائع ابلاغ کے ارتقا پر بھی ایک نظر ڈالی جائے۔
واذا لصحف نشرت کا زمانہ
ہم اس قرآنی آیت کو حضرت مسیح موعودؑ کے بعثت کے زمانہ کی تعیین کے لیے بطور معیار پیش کرتے ہیں۔ اور یہ ایک جانی مانی بات ہے کہ یہ آیت اس زمانہ کی شناخت کے لیے بڑی ہی سنہری رہنمائی ہے۔ مگر یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ چھاپہ خانے کی ایجاد سے صرف مسیحِ محمدیؑ نے ہی فائدہ نہیں اٹھانا تھا، بلکہ مخالفین نے بھی اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا۔
سو ہمیشہ سے ہی جو ذریعۂ ابلاغ بھی ایجاد ہوتا رہا، وہ جہاں جماعتِ احمدیہ کے لیے ایک موثر آلۂ تبلیغ بنا، وہاں مخالفین کے لیے بھی اپنے حسد، بغض اور عناد کے اظہار اور پرچار کے لیے استعمال میں لایا گیا۔
تو آئیے تاریخ کی راہداریوں سے ہوتے ہوئے واپس اس زمانۂ حال میں آتے ہیں جس میں سوشل میڈیا جماعتِ احمدیہ کی تبلیغی کوششوں اور مخالفین کی نفرت انگیز تحریکات کا مرکز اور منبع بنا ہوا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانہ میں مخالف اخبارات
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت ہندوستان میں ہوئی جہاں اسلام، عیسائیت اور ہندومت باہم برسرِ پیکار تھے۔ چھاپہ خانہ کا استعمال اس جنگ میں مرکزی کردار کا حامل تھا۔ جہاں مناظرہ کامیدان تبلیغ کی مثبت کوششوں میں بالکل ناکام ہوچکا تھا، وہاں چھاپہ خانہ کا استعمال یورپ میں اپنا لوہا منوالینے کے بعد اب ہندوستان میں موجود بڑے مذاہب کی تبلیغ و اشاعت میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے موجود تھا۔ کس نے اس کا استعمال کیسے کیا، یہ ہر مذہب کے پیروکاروں پر منحصر تھا۔ اس سے انکار نہیں کہ اس کا مثبت استعمال بھی ہوا، مگر منفی استعمال بھی پہلے ہی روز سے اس کے ساتھ لگا رہا۔
اگلے حصے کی طرف جانے سے قبل یہ ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ خدا کی طرف سے مامور کیے گئے تھے۔ سو باقی سب مذاہب آپ کے خلاف متحد ہوئے، تو آپؑ کے پاس اپنے خدا کے علاوہ کوئی دوسرا سہارا نہ تھا۔
بے سروسامانی کی حالت
حضرت مسیح موعودؑ نے جب انقلاب انگیز قلمی جہاد کا آغاز فرمایا تو آپ کے پاس بجز قلم کچھ بھی نہ تھا۔ ہاں یہ وعدہ آپ کے پاس تھا کہ الیس اللہ بکاف عبدہ۔ اور آپؑ کو اس پر بڑا بھروسہ تھا۔ اسی کے سہارے آپ نے اپنے وقت کے موقر اخبارات میں اسلام اور دیگر ادیان پر تقابلی مضامین لکھنے کا آغاز فرمایا۔
پھرجوں جوں اللہ تعالیٰ نے آپ کے پیغام کو شہرت اور مقبولیت عطا فرمائی، غیر تو غیر، آپ کے ہم مذہب بھی آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہوئے اور کتاب کے بدلے میں کتاب، رسالہ کے بدلے میں رسالہ اور اشتہار کے بدلے میں اشتہار شائع کرنے لگے۔
آپؑ کی طرف سے ایک کتابچہ شائع ہوتا تو اس کے مقابل پر ہندو، سکھوں، عیسائیوں اور دیگر مسلمانوں کی طرف سے کئی کئی کتابچے شائع ہوکر سامنے آتے۔ انہیں مذاہب اور مسالک کی طرف سے اخبارات میں بھی سنسنی خیز سرخیاں جمائی جاتیں اور کہانیاں گھڑکر طوفان کھڑا کر دیا جاتا۔
سو آگے چلنے سے پہلے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ تناسب جہاں ایک تصنیف کے جواب میں درجنوں جواب تحریر کیے جاتے، حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے ہی چلا آتا ہے۔ایک طرف حضرت مسیح موعودؑ اور دوسری طرف سب مذاہب اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا متحد محاذ۔یوں مخالفانہ پراپیگنڈا میں کثرت کے رحجان کی وجوہات بھی سمجھ آجاتی ہیں۔
اخبار ’’جعفر زٹلی‘‘
حضرت مسیح موعودؑ کے ہر دعویٰ اور ہر پیشگوئی پر استہزا کرنا اخبارات کا وتیرہ رہا۔ مگر مولوی محمد حسین بٹالوی کے ایک شاگرد محمد بخش ، جو جعفرزٹلی کے نام سے لکھتا اور اسی نام سے اخبار نکالتا تھا،نے اپنے اخبار ’’جعفر زٹلی‘‘ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن، اہل خانہ ، صحابہ الغرض ہر پہلو سے نہایت گندے حملے جاری رکھے۔
یہ حملے اس قدر اخلاق سوز ہوتے کہ انہیں پڑھنا مشکل ہوتا۔ شروع سے آخر تک جھوٹ اور استہزا کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوتا۔
جن دنوں حضرت مسیح موعودؑ طاعون کی پیشگوئی فرما کر اپنے ہم وطنوں کو نیکی اور دینداری کی طرف بلا رہے تھے، انہیں دنوں جعفر زٹلی نے ’’افسوسناک حادثہ‘‘ کے عنوان سے یہ جھوٹی خبر شائع کردی کہ معاذ اللہ حضرت مسیح موعودؑ طاعون سے وفات پاگئے ہیں۔
اس سے ملک بھر میں انتشار پھیل گیا اور 3 ؍اپریل 1898ء کو الحکم کے خصوصی شمارہ کے ذریعہ اس خبر کی تردید کرنا پڑی۔ (تاریخ احمدیت، جلد دوم، ص 9)
ایسا نہیں کہ اس پر بات ختم ہوگئی۔ اس طرح کی جھوٹی خبروں اور گھٹیا اعتراضات کا سلسلہ اس اخبار کے ذریعہ جاری رہا۔
اخبار ’’نورافشاں‘‘
برصغیر میں عیسائیت کے نمائندہ اس اخبار کا ایڈیٹر، اس میں شائع ہونے والے مضامین، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ذات، آپ کی پیش گوئیوں اورآپ کے مشن کی مخالفت پر کمربستہ رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اس اخبار کے ایڈیٹر نے بدزبانی کو عادت بنالیا، اور آپؑ کے خلاف بے بنیاد خلاف تہذیب اور ناروا ا لفاظ لکھتا رہا۔ ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ نے اس کا ذکر یوں فرمایا:
’’پرچہ نور افشاں دہم مئی 1888ء کے دیکھنے والوں کو معلوم ہوگا کہ اس پرچہ کے ایڈیٹر نے اس عاجز کا ایک خط جو ایک پیشگوئی پر مشتمل ہے، اپنے اس پرچہ میں درج کر کے کس قدر بدزبانی کے ساتھ زبان کھولی تھی اور کیا کیا بے جا اور خلاف تہذیب اور گندے لفظ اس عاجز کے حق میں بولے تھے۔ ۔ یوں تو ان پادری صاحبوں پر کچھ بھی افسوس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ صداقت سے دشمنی کرنا اور انکار اور توہین سے پیش آنا ان کا قدیمی شیوہ ہے، لیکن اس وقت ہمیں یہ دکھلانا منظور ہے کہ جس الہامی پیشگوئی کو انہوں نے نفسانی منصوبہ اور انسانی افترا قراردے کر اپنی عادت کے موافق زبان درازی کی تھی، اس کا انجام کیا نکلا ۔ کیا انجام کار وہ انسانی افترا ہی ثابت ہوا یا خدا تعالیٰ نے، جو سچ کا حامی ہے، اس کی صداقت کھول دی۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، 279)
باربار اللہ تعالیٰ نے ان اخبارات کا استہزا انہی پر لوٹایا، مگر یہ نام مہاد صحافی اپنی روش سے باز نہ آئے۔
اخبار ’’شبھ چنتک‘‘
یہ اخبار حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں مستقل بدزبانی اور اخلاق سوز حملوں کے لیے وقف تھا۔ بغیر دلیل اور بے پر کی اڑانے ہی کے ذریعہ اپنے قارئین کی تعداد بڑھاتا اور اسی سے اپنا روزگار کماتا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس اخبار کا ذکر ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں یوں فرمایا ہے:
’’قادیان کے آریوں نے محض مجھے دکھ دینے اور بدزبانی کرنے کے لیے ایک اخبار قادیان میں نکالا تھا جس کا نام شبھ چنتک رکھا تھا ۔۔۔ جس شخص نے ان کے اخبار شبھ چنتک کے چند پرچے دیکھے ہوں گے وہ اس بات کا اقرار کرے گا کہ یہ تمام پرچے بدزبانی اور گند اور افترا سے بھر ےہوئے ہیں۔‘‘
(روحانی خزائن جلد 22، ص 590)
اخبار ’’ناظم الہند‘‘
جب سفیر سلطانِ روم حسین کامی قادیان آکر حضرت مسیح موعودؑ سے ملا اور اپنے مقاصد میں ناکام لوٹا، تو اس اخبار نے اس کی بدزبانیاں اپنے اخبار میں شائع کیں۔ حضرت مسیح موعودؑ پر استہزا کرنے میں ترکی کے اس سیاسی کارندے کا خوب ہاتھ بٹایا۔
اخبار ’’اہلِ حدیث‘‘
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ اخبار اہلِ حدیث کا نمائندہ اخبار تھا۔ مولوی ثناء اللہ امرتسری اس کے مدیر اور منتظم تھے۔ عقیدے کا اختلاف اپنی جگہ، مگر استہزا اور اتہام میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ پہلے ’’مرزا سیریز‘‘ کے نام سے ایک مستقل کالم شروع کیا جسے بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع کر کے اس کی خوب تشہیر کی۔
اخبار ’’پنجاب سماچار‘‘
جب لیکھرام سے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی پوری ہوگئی اور وہ عبرت کا نشان بن کر ہلاک ہوا، تو اخبار ’’پنجاب سماچار‘‘ نے اس کی موت کو معاذ اللہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی سازش قرار دیا۔ حکومت سے استدعا کی کہ قانون کو پوری طرح حرکت میں لایا جائے اور اس اخبارکے دعووں کو سچ ثابت کیا جائے۔
پنجاب سماچار کی یہ کوشش ثابت کرتی ہے کہ صحافت اور دیگر ذرائع ابلاغ کو شریروں نے ہمیشہ اپنا آلۂ کار بنانے کی کوشش کی اور عوام کی رائے کو اس طرح موڑنے کی کوشش کی کہ ان کے دعاوی بلاتصدیق درست اور برحق لگنے لگیں۔بلکہ تقاضا کیا کہ انہیں درست تسلیم کیا جائے۔
قارئین کو معلوم ہی ہے کہ اس پراپیگنڈا کے نتیجے میں جو لیکھرام کی موت پر حضورؑ کے خلاف کیا گیا، پولیس نے بھی مجبور ہو کر حضورؑ کے گھر کی تلاشی لی ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کی عزت اور معصومیت کو ظاہر فرمادیا اور وہی پولیس اہلکار جو پراپیگنڈا کے دباؤ میں تلاشی لینے چلے آئے تھے، حضورؑ کی معصومیت کی گواہی دیتے ہوئے رخصت ہوئے اور اس اخبار اور اس کے پیچھے چھپے شریروں کی خواہشات خاک میں مل گئیں۔
اخبار ’’رہبرِ ہند‘‘
یہ اخبار بھی اس بات کی پرچار میں پیچھے نہ رہا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے معاذ اللہ لیکھرام کی موت کے لیے سازش کی اور اسے قتل کروایا۔
انگریزی اخبار سِوِل اینڈ ملٹری گزٹ
انگریزی اخبارات بھی کہاں پیچھے رہتے تھے۔ باوجود غیر جانبدار ی کا لبادہ اوڑھنے کے، جہاں موقع ملتا، حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف کچھ نہ کچھ شائع کرہی دیا کرتے۔ مثلاً حضورؑ نے خود بیان فرمایا کہ: ’’ہم نے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ میں پڑھا ہے کہ یہ اخبار حکومتِ برطانیہ کے سامنے ہماری شکایت لگاتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ ہم اس مبارک حکومت کے دشمن ہیں۔ اور اخبار حکومت کو بتاتا ہے کہ ہماری نیتوں میں فتور ہے۔۔۔‘‘
(ترجمہ از عربی عبارت، مکتوبِ احمد، روحانی خزائن جلد 11، ص 283)
عرب اخبارات میں پراپیگنڈا
اخبار المنار جو مصر سے شائع ہوتا تھا، اس بات کی پرچار کرتا رہا کہ حضرت مسیح موعودؑ چونکہ انگریز حکومت کی ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں، لہذا جہاد کی ممانعت کا فتویٰ دیتے ہیں۔
اب قارئین ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ ایک اخبار حکومتِ برطانیہ کا دشمن قرار دے رہا ہے تو دوسرا اسی حکومت کا اس حد تک وفادار کہ جہاد کی ممانعت کا فتویٰ ان کی خوشنودی کی خاطر دیا۔
اسی اخبار ’’المنار‘‘ نے حضرت مسیح موعودؑ کی عربی تصنیف ’’اعجاز المسیح‘‘ پر تضحیک آمیز حملے کیے۔ حضورؑ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’غرض تمہارا دعویٰ ہے کہ میری کتاب سہو اور خطا سے بھری ہوئی ہے اور نحویوں اور ادیبوں سے کوئی دلیل تم اس پر نہیں لائے۔اب میں تمہارے جور اور افترا سے خدا کے پاس فریاد کرتا ہوں، اس لیے کہ تم نے بے سبب اور بے کسی پہلے بغض و عداوت کی وجہ کے یہ ظلم زیادتی کی۔۔۔‘‘
(الھدیٰ و التبصرہ لمن یری، روحانی خزائن جلد 18، ص 256)
چونکہ اخبار مصر سے شائع ہوتا تھا اور عربی زبان میں تھا، لہذا ہندوستان کے اخبارات اس میں شائع ہونے والی ہر وہ بات جو حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف لکھی جاتی، اسے نقل کرنا اور مزید حاشیہ آرائی کرنا گویا کارِ ثواب سمجھتے۔
حضورؑ نے ایک موقع پر تحریر فرمایا:
’’انہوں نے منار کی باتوں کو تیز ہتھیار سمجھا اور ہندوستان کے اخباروں میں انہیں شائع کیا۔ اور ایسی باتیں لکھیں جن کا سننا پاک اور بری ہمتوں کو سخت ناگوار ہوتا ہے اور میرے دل کو دکھ دیا جیسے کہ عادت کمینوں اور نادانوں کی اور سیرت سفلہ دشمنوں کی ہوتی ہے۔ اور وہ بڑے گھمنڈ سے اِترا کر اور اکڑ کر چلتے تھے گویا انہیں بڑے اعلیٰ درجہ کی خوبصورت پوشاکیں پہنائی گئی ہوں‘‘۔ (ایذاً)
مغربی اخبارات
حضرت مسیح موعودؑ کے دعوے کے خبر یورپ اور امریکہ تک پہنچ چکی تھی۔ اخبارات میں اکثر حضورؑ کے دعاوی کی خبریں شائع ہوتی رہتیں۔ اکثر وفاتِ مسیح کے دعوے کی بنیاد پر چراغ پا ہوکر تمسخر بھی کیا کرتے۔ مگر جو بات یہاں قابلِ ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اس روش کا ایک خاص pattern تھا جو آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
تفصیل میں جائے بغیر یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔
انگلستان کی سب سے مستحکم عیسائی ادارے Church Mission Society کے اخبار Church Missionary Gleaner نے حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے طاعون کی پیشگوئی اور اس کے علاج پر ایک رسالہ موصول ہونے کی خبر دی اور حسبِ عادت اسے تضحیک کانشانہ بنایا۔
پھر یہ رسالہ انگلستان کے اخبارات کو اپنی خبر کے ساتھ بھیجا۔
25 فروری 1899 کو اخبار North Wales Chronicle نے اس رسالہ کے مندرجات اختصار سے درج کرنے کے بعد تحریر کیا:
“Ghulam Ahmad is a heretical Mohammedan leader who held a public controversy in 1893 at Jandiala with Mr Athim and Dr Henry Martyn Clark, of Church Missionary Society, and was so emphatically worsted that he even neglected to claim the victory.”
یعنی عقائد کی دشمنی میں پہلے عیسائیت کے مذہبی حلقوں نے مخالفانہ مضمون لکھا۔ پھر انگلستان کے اخبارات کو اپنا رسالہ بھیجا اور ساتھ بطور ثبوت حضورؑ کا تصنیف فرمودہ کتابچہ ارسال کیا اور پھر اخبارات نے ایسے تعصب کے ساتھ خبر کو شائع کیا کہ نفسِ مضمون تو ایک طرف رہ گیا اور چھ سال پرانی بات یعنی عبداللہ آتھم سے مناظرہ کو شامل کر کے اپنے زخموں کو سہلانے کی کوشش کی۔
دشمن کی یہی ریت آج بھی قائم ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں جہاں کوئی خبر حضورؑ کے خلاف شائع ہوئی، وہ ہندووں کی طرف سے ہو، عیسائی پادریوں کی طرف سے ہو یا جس کسی کی طرف سے بھی، تمام اخبارات اسے تشہیر دینا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے۔ پیسہ اخبار بھی ہمہ وقت ایسی کسی بھی خبر کے انتظار میں رہتا، اور اسے خوب سرخیا ں جما کر شائع کرتا۔
عصرِ حاضر میں جماعت مخالف پراپیگنڈا
وقت گزرتا گیا۔ ذرائع ابلاغ کی اشاعت اور ترسیل میں ترقی ہوتی گئی۔ جماعت احمدیہ کو نت نئے طریقے تبلیغِ اسلام کے لیے میسر آتے گئے، اور ساتھ ہی مخالفین بھی انہی ذرائع کو مخالفت کے لیے استعمال میں لاتے رہے۔
جوں جوں زرد صحافت (yellow journalism) نے زورپکڑنا شروع کیا، اور سنسنی خیز خبریں اخبار کی خریداری میں اضافہ کا موجب ہونے لگیں، تو جماعت احمدیہ بھی زرد صحافت حملوں سے باہر نہ رہی۔
نچلے درجے کے اخبارات (tabloid newspapers) ایک طرف رہے، موقر اخبارات تک کو اس سستی شہرت کی ہوس کھا گئی۔
مثلاً جب حضرت مصلح موعودؓ نے کانگریس کے بعض اقدامات کے خلاف اور مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی، تولاہور سے شائع ہونے والے اخبار Tribune (جو ہندو اور کانگریسی ایجنڈے کا علمبردار تھا) نے 3 ؍جون 1930ء کے شمارہ میں خبر شائع کردی کہ ’’امام جماعت احمدیہ مرزا بشیرالدین محمود احمد انتقال کرگئے‘‘۔
اس جھوٹی خبر کے شائع ہونے کی دیر تھی کہ ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ یاد رہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کو روشن خیال غیر احمدی مسلمان اپنے حقوق کا علمبردار تسلیم کرتے تھے۔ ملک بھر سے قادیان میں تار آنے لگے۔ احمدی یہ خبرپڑھتے یا سنتے ساتھ اپنے اپنے شہروں دیہاتوں سے قادیان کے لیے روانہ ہوگئے۔
یوں معاندین نے اپنی بہت ہی عارضی خوشی کے لیے زرد صحافت کا سہارا لیا اور جماعت احمدیہ کو ایک عارضی اور بے بنیاد ، بے جا تکلیف سے دوچار کر کے اپنے حسد کی آگ کو کچھ لمحوں کے لیے ٹھنڈا کرلیا۔
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے زمانہ میں بھی ایک نہایت نچلے درجے کے اخبار نے حضورؒ سے منسوب کر کے ایک نقلی خط شائع کیا اور دشمنوں کو جماعت کے خلاف اکسایا اور جماعت میں بھی ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی۔
Post-journalism کا زمانہ
ہم آج جس دور سے گزر رہے ہیں، اسے ایک ماہرِ ابلاغیات Andrey Mir نے ’’مابعد صحافت‘‘ کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج ہر وہ آدمی جس کے پاس سمارٹ فون ہے ، وہ اپنی ذات میں ایک اخبار ہے اور خود آپ ہی اپنا مدیر بھی ہے۔ کیا شائع کرنا ہے، کیسے شائع کرنا ہے، سب فیصلے اس کے اپنے ہیں۔
آندرے میر کا کہنا ہے کہ اب کوئی بھی شخص جو کچھ گلی محلے میں ہوتا دیکھتا ہے، اس کی تصویر لے کر یا اس کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر چڑھا دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ہر کسی نے خود کو صحافی اور اس عمل کو اپنا صحافتی فرض سمجھ لیا ہے۔ آندرے میر کا کہنا ہے کہ :
“It is their need for social grooming, or what Hegel would call the ‘struggle for recognition”.
آگے چل کر بیان کی ہے کہ اخباری صحافت کو دنیا بھر میں پھیلنے میں صدیا ں لگ گئیں۔ جب کہ سمارٹ فون نے ساری دنیا کو چند سال میں اپنے سحر میں لے لیا۔ اس عمل میں کئی ترقی پذیر ممالک تو اخباری صحافت کے مرحلے سے گزرے بغیر سمارٹ فون کی صحافت کے دور میں داخل ہوگئے۔ یوں بغیر کسی صحافتی تعلیم کے ہر آدمی سوشل میڈیا کے سہارے صحافی بن گیا اور ایک click کے ساتھ دنیا کو اچھا برا سب پہنچنے لگا۔
اگرچہ آندرے اس رحجان سے مطمئن نظر آتے ہیں، مگر اس سے وابستہ اخلاقی مسائل سے بھی بے خبر نہیں۔ تاہم ان کا خیال ہے عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا نے اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کی جگہ لے لی ہے اور ہر طرح کی خبر ہم تک پہنچتی چلی آتی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ صحافتی اقدار کی رو سے خبر ہے بھی یا نہیں بلکہ درست بھی ہے یا غلط۔
خلافتِ خامسہ اور سوشل میڈیا کا دور
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ خلافتِ خامسہ اور سوشل میڈیا کا زمانہ قریب قریب ایک ہی ساتھ شروع ہوا۔ 2003 سے پہلے انٹرنیٹ تو عام ہوچکا تھا، مگر یوں بیک جنبشِ انگشت ایک بات کا دنیا بھر میں مشتہر ہوجانا دورِ خلافتِ خامسہ کے ساتھ ساتھ ہی شروع ہوا۔
ان جدید سہولیات کو اشاعتِ اسلام کے لیے بروئے کار لانے کے لیے خلافتِ خامسہ کے بابرکت عہد میں جو کام ہوا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم کا انٹرنیٹ اور پھر جدید applications کے ذریعے سے دستیاب ہوجانا، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دور کا خاص کارنامہ ہے۔ ہر آیت تلاش کی جاسکتی ہے، اس کا جس زبان میں چاہیں ترجمہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
https://www.alislam.org/quran/app/ https://www.openquran.com/پہلے سے جاری جماعتی اخبارات کا بھی سوشل میڈیا کے ذرائع پر آجانا
https://www.alhakam.org/Twice-Weekly – الفَضل انٹرنیشنل (alfazl.com)
اور پھر نئے اخبارات کا جاری ہی ان ذرائع پر ہونا اور دنیا بھر میں پھیلے احمدیوں کا ان سے فائدہ اٹھانا، اور ان کا تبلیغِ اسلام میں ایک اہم کردار ادا کرنا، یہ نظارہ بھی اسی مبارک عہد میں ظہور میں آیا۔
خلیفۃ المسیح کی کہی ہر بات سوشل میڈیا کے ذرائع سے دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔ جو کہ تبلیغِ اسلام کے لیے ایک نہایت اہم پیش رفت ہے۔
اسلام پر ہونے والے کسی بھی حملے کے جواب میں جماعت احمدیہ کے افراد نے جس طرح سوشل میڈیا کو استعمال کیا، وہ سب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہی کی رہنمائی کے طفیل ممکن ہوا۔
دنیا میں کہیں ظلم ہوا، کہیں کوئی قدرتی آفت آئی، کہیں اسلام کے نام پر دہشت گردی ہوئی، جماعت احمدیہ کے افراد نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کےاُن پر امن مگر پرشوکت اقوال سے سوشل میڈیا کے تمام ذرائع کو بھر دیا جو دینِ اسلام کی عظمت کو بیان کرنے اور مخالفین اسلام کا منہ بند کرنے کو کافی و شافی ثابت ہوئے۔
ایم ٹی اے انٹرنیشنل جو کبھی صرف سیٹلائٹ ڈش پر میسر ہوا کرتا تھا، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دور میں انٹرنیٹ پر میسر ہوگیا ۔ پھر ایم ٹی اے کئی نئے چینل کھلے۔ عربی زبان کے لیے علیحدہ چینل۔ افریقہ کے لیے علیحدہ اور پھر دنیا کے سب بڑے خطوں کے لیے نئے چینل بن گئے۔ ان سب کی applications تیار ہوئیں اور یوں تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا یہ ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں digital age میں ہر ہاتھ اور ہر ہتھیلی تک پہنچ گیا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
MTA | Muslim Television Ahmadiyya International | Ondemand and Live Streaming
یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ مخالفین نے بھی ان تمام سوشل میڈیا ذرائع کو جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کیا۔ بعض معاندین نے تو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو وقف ہی جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لیے کررکھا ہے۔ بعض معاندین افراد اور اداروں کا تو ذریعہ معاش ہی جماعت مخالف سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا کر، انہیں monetise کرنے کی صورت میں قائم ہے۔
پھر تاریخ سے ثابت ہے کہ جب کوئی منافق کوئی فتنہ لے کر اٹھا، سب جماعت مخالف طاقتیں اس منافق کے ساتھ متحد ہو کر جماعت کے خلاف اپنے حسد کا اظہار کرنے اور اپنے پرانے بغض کی آگ بھجانے کے لیے وقف ہوگئے۔
آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ بس آج فرق یہ ہے کہ ہمارے مخالف اپنی عددی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تمام تر طاقتیں جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ پہلے اگر ایک اخبار ایک ہزار کی تعداد میں چھپتا تھا، تو مخالفین کا بغض اور حسد کا اظہار ایک ہزار افراد تک پہنچتا تھا۔ آج سوشل میڈیا کے زمانے میں ایک click سے ان کے اخلاق سوز حملے ہزاروں اور پھر like اور share اور retweet ہونے سے لاکھوں تک پہنچ جاتے۔
پس جب ایسے حملوں کی تعداد بہت کثرت میں نظر آئے تو یہ یاد رکھ لینا ضروری ہے کہ ہر درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ سو اس زمانے میں اگر بھلا برا پرکھنے کا معیار سوشل میڈیا کو بنانا ہے، تو بس اتنا عرض کردیتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس جدید سہولت کو لاکھوں کروڑوں افراد تک اسلام کی پاکیزہ تعلیم پہنچانے کے لیے وقف کررکھا ہے۔ باقیوں کا احوال بتانے کی ہمیں ضرورت نہیں۔ سوشل میڈیا پر تو سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔الحمد للہ رب العالمین۔
٭…٭…٭
اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک استعمال کریں:
https://www.alhakam.org/anti-ahmadiyya-propaganda-from-printing-presses-to-the-age-of-social-media/