خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍ جنوری 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ
٭…سفرِ ہجرت کے دوران سراقہ بن مالک کے تعاقب کرنے کے متعلق بعض روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سراقہ کے واپس لوٹتے ہوئے نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ سراقہ! تیراکیا حال ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے
٭…ناواقف لوگ حضرت ابوبکرؓ کو رسول اللہﷺ سمجھے اور بڑے ادب سے آپؓ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئے۔ ایسے میں حضرت ابوبکرؓ جھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہا یا رسول اللہ! آپ پر دھوپ پڑ رہی ہے مَیں آپؐ پر سایہ کرتا ہوں
مکرم چودھری اصغر علی کلار صاحب مرحوم اسیر راہِ مولیٰ، مکرم مرزا ممتاز احمد صاحب کارکن وکالت علیا ربوہ اور مکرم کرنل ریٹائرڈڈاکٹر عبدالخالق صاحب سابق ایڈمنسٹریٹر فضلِ عمر ہسپتال کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍ جنوری 2022ء بمطابق 14؍صلح1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 14؍ جنوری 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذاور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گذشتہ سے پہلے خطبے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ذکر ہورہا تھا۔ سفرِ ہجرت کے دوران سراقہ بن مالک کے تعاقب کرنے کے متعلق بعض روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سراقہ کے واپس لوٹتے ہوئے نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ سراقہ! تیراکیا حال ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے۔سراقہ حیرت زدہ ہوکر پلٹا اور کہا کہ کسریٰ بن ہرمز؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں!وہی کسریٰ بن ہرمز۔ چنانچہ جب حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں کسریٰ کے کنگن ،تاج اور کمربند لایا گیا تو حضرت عمرؓنے سراقہ کو بلایا اور انہیں یہ کنگن پہنائے اور فرمایا کہو کہ تمام تعریفیں اللہ کےلیے ہیں جس نےکسریٰ بن ہرمز سے یہ دونوں چھین کر عطا کیں۔ یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ سراقہ کویہ خوش خبری حنین اور طائف سے واپسی کے سفر کے دوران ان کے اسلام قبول کرنے پر دی گئی تھی۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے’سیرت خاتم النبیینؐ ‘ میں سراقہ کے اپنے الفاظ میں یہ واقعہ درج فرمایا ہے۔ فال خلاف نکلنے اور گھوڑے کے پاؤں ریت میں دھنسنے کے متعلق سراقہ کا بیان ہے کہ اس سرگذشت سے مَیں نے یہ سمجھا کہ اس شخص کا ستارہ اقبال پر ہے اور بالآخر آنحضرتﷺ غالب رہیں گے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں جب سراقہ لوٹنے لگا تو معاً اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے حالات آپؐ پر غیب سے ظاہر فرمادیے۔ آپؐ نے فرمایا :اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ آپؐ کی یہ پیش گوئی سولہ سترہ سال کے بعد جاکر لفظ بلفظ پوری ہوئی… سراقہ مسلمان ہونے کے بعد اپنےاس واقعے کو مسلمانوں کو نہایت فخرکے ساتھ سنایا کرتاتھا اور مسلمان اس بات سے آگاہ تھے۔ ایرانی فتوحات کے بعد جب مالِ غنیمت میں حضرت عمرؓ نے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو سب نقشہ آپؓ کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ وہ کمزوری اور ضعف کا وقت جب خدا کے رسول کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینے آنا پڑا ، وہ سراقہ اور دوسرے آدمیوں کا آپؐ کے پیچھے اس لیے گھوڑے دوڑانا کہ کسی صورت میں بھی آپؐ کوپکڑکہ مکّہ والوں تک پہنچادیں اور سَو اونٹنیوں کے مالک بن جائیں۔ اس وقت آپؐ کاسراقہ کویہ خوش خبری دینا۔ کتنی بڑی پیش گوئی تھی کتنا مصفیٰ غیب تھا۔ حضرت عمرؓ نے سراقہ کو حکم دیا کہ وہ کسریٰ کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں۔ سراقہ نے کہا کہ سونا پہننا تو مسلمانوں کے لیے منع ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہاں منع ہے مگر ان موقعوں کے لیے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺکو تمہارے ہاتھ میں سونےکےکنگن دکھائے تھے یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا مَیں تمہیں سزا دوں گا۔ سراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لیے اور مسلمانوں نے اس عظیم الشان پیش گوئی کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
سفرِ ہجرت کے دوران آپؐ کاقافلہ زادِ راہ کی طلب میں امِ معبد کے خیمے کے پاس رکا۔ امِ معبد ایک بہادر خاتون تھیں جو مسافروں کو کھانا کھلایا کرتیں۔ جب آپؐ کا قافلہ وہاں پہنچا تو امِ معبد کی قوم قحط زدہ تھی اور ان کے پاس حضورﷺ کو پیش کرنےکےلیے کچھ نہ تھا۔ امِ معبد کی اجازت سے ایک انتہائی لاغر اور کمزور بکری سے آپؐ نےبرکت کی دعاکرکے دودھ دوہا تو اس میں بےپناہ برکت پڑی ۔
رسول اللہﷺ ابھی راستے میں تھے کہ انہیں حضرت زبیرؓ ملے جو مسلمانوں کے ایک قافلے کے ساتھ شام سے تجارت کرکے واپس آرہے تھے۔ زبیر نے سفید کپڑوں کاایک جوڑا آنحضرتﷺکو اور ایک حضرت ابوبکرؓ کی نذر کیا۔
راہ گزرتے ہوئے کئی دوسرے قافلے والے حضرت ابوبکرؓکو پہچان کر رسول اللہﷺ کے متعلق دریافت کرتے تو حضرت ابوبکرؓ جواب دیتے کہ یہ شخص مجھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔
آٹھ دن سفر کرتے ہوئے خدائی نصرتوں کے ساتھ آخرکار پیر کے دن آپؐ قبا پہنچ گئے۔ یہ بستی مدینے سےدو میل کے فاصلے پر تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے آپؐ کی اونٹنیوں کو آتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ قافلہ محمدﷺ کا ہے۔ اس نے بستی والوں کو آواز دی تو مدینے کا ہر شخص قبا کی طرف دوڑ پڑا۔ مدینے کے اکثر لوگ آپؐ کی شکل سے واقف نہیں تھے، حضورﷺ بہت سادگی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھےناواقف لوگ حضرت ابوبکرؓ کو رسول اللہﷺ سمجھے اور بڑے ادب سے آپؓ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئے۔ ایسے میں حضرت ابوبکرؓ جھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہا یا رسول اللہ! آپ پر دھوپ پڑ رہی ہے مَیں آپؐ پر سایہ کرتا ہوں۔ اس لطیف طریق سے انہوں نے لوگوں پر ان کی غلطی کو ظاہر کردیا۔
حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ تشریف لائے تو ہمارے لیے مدینہ روشن ہوگیا اور جب آپؐ فوت ہوئے تو اس دن سے زیادہ تاریک ہمیں مدینے کا شہر کبھی نظر نہیں آیا۔ قبا کے انصار نے آپ کا نہایت پُرتپاک استقبال کیا اور آپؐ کلثوم بن الہدم کے مکان پر فروکش ہوئے۔
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ آپؐ بنو عمرو بن عوف کے محلے میں دس سے زائد راتیں ٹھہرے اور مسجد کی بنیاد رکھی اور اس میں نماز پڑھی۔ مسجد قبا کے متعلق مذکور ہے کہ یہی وہ مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی۔ حضرت ابنِ عباس بیان کرتے ہیں کہ مدینے کی تمام مساجد جس میں قبا کی مسجد بھی شامل ہے ان کی بنیاد تقویٰ پر ہی رکھی گئی ہے لیکن جس کے متعلق آیت نازل ہوئی تھی وہ مسجد قبا ہی ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ قبا میں زائد از دس دن قیام کے بعد جمعے کے روز آنحضرتﷺ مدینے کے اندرونی حصّے کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ قافلہ آہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ راستے میں نمازِ جمعہ کاوقت آگیا اور آنحضرتﷺ نے بنو سالم بن عوف کے محلّے میں ٹھہر کر خطبہ دیا اور جمعے کی نماز ادا کی۔
آپؐ جس بھی مسلمان کے گھر کے پاس سے گزرتے وہ جوشِ محبت سے عرض کرتے کہ یارسول اللہﷺ !یہ ہمارا گھر یہ ہمارا مال و جان حاضر ہے، ہمارے پاس آپؐ کی حفاظت کا سامان بھی ہے آپؐ ہمارے پاس تشریف فرما ہوں۔ آپؐ ان کے لیے دعائے خیر کرتے اور آگے بڑھ جاتے۔ مسلمان عورتیں اور بچیاں خوشی کے جوش میں اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ چڑھ کر استقبالی ترانے گا رہی تھیں۔ مدینے کے حبشی غلام آپؐ کی تشریف آوری کی خوشی میں تلوار کے کرتب دکھاتے پھرتے تھے۔
آنحضرتﷺنےکچھ عرصہ بعد حضرت زید کو مکے بھجوایا اور وہ آپؐ اور حضرت ابوبکرؓ کےاہل و عیال کو خیریت سے مدینے لے آئے۔مدینے میں آپؐ نے جو زمین خریدی تھی وہاں سب سے پہلے مسجد کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے مکان بنوائے۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد حضرت ابوبکرؓ سنح میں خبیب بن اساف کے ہاں ٹھہرے۔ ایک قول کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کی رہائش حضرت خارجہ بن زید کے ہاں تھی۔ آپؓ نے سنح میں ہی اپنا مکان اور کپڑا بنانے کا کارخانہ بنا لیا تھا۔
حضرت ابوبکرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کےبعد حضورِانور نے درج ذیل مرحومین کا ذکر خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
1۔مکرم چودھری اصغر علی کلار صاحب مرحوم اسیر راہِ مولیٰ ابن مکرم محمد شریف صاحب کلار بہاولپور۔ مرحوم 10 جنوری کو حالتِ اسیری میں بیمار ہوکر بعمر 70سال وفات پاگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم پر 24؍ستمبر 2021ءکو دفعہ 295۔ج، جو توہینِ رسالت (نعوذباللہ) کی دفعہ ہے لگا کر مقدمہ قائم کیا گیا اور 26؍ستمبر کو گرفتاری عمل میں آئی۔ حضورِانور نے فرمایا کہ توہینِ رسالت کا الزام تو احمدیوں پر فوراً لگا دیتےہیں۔ مرحوم اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والے، خلافت کے وفادار، مہمان نواز، دعوتِ الیٰ اللہ کا شوق رکھنے والے، عبادت گزار اور 8/1 حصّے کے موصی تھے۔
2۔مکرم مرزا ممتاز احمد صاحب کارکن وکالت علیا ربوہ۔ مرحوم پچاسی سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کو اٹھاون برس سلسلے کی خدمت کی توفیق ملی۔ آپ بڑے خاموش طبع، صابرشاکر شخصیت کے مالک تھے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ مَیں نے بھی ان کو دیکھا ہے بڑا خاموش طبع اور اپنے چند دوستوں کے ساتھ ہی اور یہی دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر یہی معمول ہوتا تھا لیکن بڑی محنت ، اخلاص و وفا سے کام کرنے والے تھے۔
3۔مکرم کرنل ریٹائرڈ ڈاکٹر عبدالخالق صاحب سابق ایڈمنسٹریٹر فضلِ عمر ہسپتال جو ستانوے سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نے 1938ء میں بیعت کی تھی۔ 1974ء میں احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیے جانے پر سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر نصرت جہاں سکیم کے تحت اپنی خدمات پیش کردی تھیں۔ 1994ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان کو فضلِ عمر ہسپتال کا ایڈمنسٹریٹر مقرر فرمایا تھا جہاں آپ جون 2005ء تک خدمات بجالاتے رہے۔ مرحوم عبادت گزار، دعا گو، تلاوت قرآن پاک کا ذوق رکھنے والے، خلافت کے سچے وفادار، جماعتی اموال کی حفاظت کرنے والے، بڑے خوش اخلاق بزرگ تھے۔
حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغرت اور بلندی درجات کے لیے دعاکی۔
٭…٭…٭