دین کی عزت ہر عزیز سے زیادہ عزیز سمجھیں (قسط 4)
(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍اپریل 2010ء)
5۔کسی حالت میں خدا تعالیٰ سے بے وفائی نہیں کرنی
پھر آپؑ نے فرمایا کہ ہر حالت میں، تنگی کے حالات ہوں یا آسائش کے خدا تعالیٰ سے بے وفائی نہیں کرنی بلکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں قدم آگے بڑھانا ہے۔
(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159)
جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں کشائش جو اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں آنے کی وجہ سے آپ کو عطا فرمائی ہے اس کے حقیقی شکر گزار بندے بنیں۔ بعض لوگ آج کل کے معاشی حالات کی وجہ سے جو دنیا میں گزشتہ تقریباً دو سال سے عمومی طور پر چل رہے ہیں پریشانی کا شکار بھی ہیں۔ لیکن اس پریشانی میں بھی خدا تعالیٰ کا دامن نہیں چھوڑنا۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھول کر بیان فرمایا ہے۔
6۔ دنیا کی رسموں سے اپنے آپ کو بچائیں
پھر ایک شرط یہ آپ نے رکھی کہ دنیا کی رسموں اور ہوا و ہوس سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرنی ہے۔
(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159)
اب اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرنے کے لئے قرآنِ کریم کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے تا کہ قرآنِ کریم میں اس کے جو حکم ہیں ان کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو۔
7۔ تکبر چھوڑ کر عاجزی اختیار کریں
پھر ایک شرط یہ فرمائی کہ ہر قسم کا تکبر چھوڑنا ہو گا اور عاجزی اختیار کرنی ہو گی۔
(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159)
8۔ دین کی عزت ہر عزیز سے زیادہ عزیز سمجھیں
پھر آٹھویں شرط میں آپ فرماتے ہیں کہ اور دین اور دین کی عزت اور ہمدردیٴ اسلام کو اپنی جان، مال اور عزت اور اولاد اور ہر ایک عزیزسے زیادہ عزیز سمجھ لیں۔
(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160)
پس یہ ایک بہت اہم شرط ہے۔ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ احمدی ہونے کے ناطے احمدیت کا نمائندہ ہے۔ اور اسلام کی حقیقی تصویر بننے کی اس نے کوشش کرنی ہے۔ غیر احمدی مسلمانوں کی نظریں بھی ہم پر ہیں اور غیر مسلموں کی نظریں بھی ہم پر ہیں۔ ہم یہ دعویٰ کر کے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں کہ ہم اسلام کی حقیقی تصویر ہیں۔ جب ہم اسلام کی حقیقی تصویر ہیں تو اسلام کی عزت کو قائم رکھنے کی ذمہ داری بھی ہمارے سپرد ہے۔ ہم نے ایک نمونہ بننا ہے۔ اور جب ہمارے نمونے ہوں گے تو تبھی ہم تبلیغ کے میدان میں بھی ترقی کر سکتے ہیں۔ دین کی عزت اور اسلام کی ہمدردی ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس عزت کو دنیا میں قائم کریں۔
میناروں کا ایشو ہر وقت زندہ رکھیں
آج جب کہ ہر طرف اسلام کے خلاف محاذ کھڑے کئے گئے ہیں آپ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اسلام مخالف لوگوں نے یہاں اس ملک میں بھی اسلام کو بدنام کرنے کا ایک طریق اختیار کیا ہے کہ مسلمانوں کی مسجدوں کے مینارے نہ بننے دئیے جائیں۔ اگر یہ مینارے ختم ہو گئے تو مسلمانوں کے جرائم اور ان کی دنیا میں فساد پیدا کرنے کی جو ساری activities ہیں وہ بقول ان کے ختم ہو جائیں گی۔ بے شک یہ میناروں کا فیصلہ تو ہو چکا ہے۔ لیکن اس ایشو کو ہر وقت زندہ رکھیں۔ وقتاً فوقتاً اخباروں میں لکھیں، سیمینار کریں یا اور مختلف طریقوں سے اس طرف لوگوں کی توجہ کراتے رہیں۔ جس طرح توجہ سے انہوں نے ریفرینڈم کروا کر یہ قانون پاس کروایا ہے اسی طرح ریفرینڈم سے قانون ختم بھی ہو سکتا ہے۔ بے شک میناروں کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ تو بہت بعد میں بننے شروع ہوئے ہیں لیکن یہاں اسلام کی عزت کا سوال ہے کہ اسلام کو میناروں کے نام پر بدنام کیا جا رہا ہے۔ اس لئے مسلسل کوشش ہوتی رہنی چاہئے۔ جماعت احمدیہ کی مثال دنیا کے سامنے پیش کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے 195ممالک میں جماعت قائم ہے۔ کسی ایک جگہ بھی مثال دو، یہاں سوئٹزرلینڈ میں ہی مثال دو کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے کبھی کوئی قانون شکنی کی گئی ہو یا کسی بھی فساد میں جماعت نے حصہ لیا ہو، یا حکومت کے خلاف کسی بغاوت میں شامل ہوئے ہوں۔ بلکہ قوانین کی مکمل پابندی کی جاتی ہے۔ ہم ہیں جو اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے والے ہیں۔ ذاتی رابطوں سے اپنے تعلقات کو بھی وسیع کریں۔ اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے ماحول میں نہ بیٹھے رہیں۔ جن کو زبان آتی ہے، جن کے ارد گرد ماحول میں شرفاء ہیں وہ اس ماحول میں رابطے کریں۔ تبلیغی میدان کو وسیع کریں۔ جن کوصحیح طرح زبان نہیں آتی وہ کوئی لٹریچر لے کر تقسیم کرنا شروع کر دیں۔ بہر حال پوری جماعت کے ہر فرد کو اس بات میں اپنے آپ کو ڈالنا ہو گا۔ تبھی آپ کی تھوڑی تعداد بھی جو ہے وہ موٴثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ کیونکہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا اور تبلیغ کی مہم میں اسلام کی اور دین کی عزت اور عظمت قائم کرنا ضروری ہے۔ جب تک ہم ایک مسلسل جدوجہد کے ساتھ اپنی تعداد میں اضافے کی کوشش نہیں کرتے ہم دین کی عزت قائم کرنے اور اسلام کی ہمدردی کا حق ادا نہیں کر سکتے یا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے نہیں کہلا سکتے۔
(باقی آئندہ)