متفرق مضامین

شادی۔ آپس کا حسن سلوک۔ جدائی۔ صبر (قسط پنجم)

(امۃ الباری ناصر)

ایک مثالی بیوی کی حسن کار کردگی پر شوہر کی گواہی

خدا تعالیٰ کے فضل سے دونوں میں باہمی افہام و تفہیم وقت کے ساتھ ساتھ پہلے سے بڑھتی رہی۔ درویشی کی وجہ سے تعلق میں تقدس و عقیدت کا رنگ آ گیا۔ ہم نے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ پایا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی بہت قدر کی۔ اباجان ہمیں ماں کی عزت اور اطاعت کرنے کا درس دیتے۔ اور اس بات کی ہمیشہ تعریف کرتے کہ امی جان نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جان مار محنت کی ہے۔

آپ اکثر یہ بات دُہرایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ کسی لمبے سفرپر جاتے ہوئے اشرفیوں کی تھیلی اپنی بیوی کو امانتاًدے گئے۔ کئی سالوں کے بعد واپس آ کے ادھر ادھر کی باتوں میں اشرفیوں کا ذکر بھی آیا اس خاتون نے کہا کہ جلدی کیا ہے آپ کو سب کچھ بتاؤں گی پہلے نماز پڑھ آئیں وہ بزرگ مسجد میں نماز پڑھنے گئے وہاں ایک نوجوان کو درس دیتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی کہ بڑے بڑے لوگ عقیدت و احترام سے اس کے حلقہ درس میں شامل ہیں گھر آ کر اس نوجوان کی تعریف کی اس خاتون نے کہا کہ آپ کی اشرفیاں اس نوجوان کی جو آپ کا بیٹا ہے تعلیم و تربیت پر خرچ ہوئی ہیں۔

یہ بھی کہاکرتے تھے کہ اس خاتون نے ایک بچے کی تعلیم و تربیت کی جبکہ اشرفیوں کی تھیلی بھی اس کے پا س موجود تھی مگر میری بیوی نے میرے آٹھ بچوں کی تعلیم و تربیت کی جب کہ میں تو اسے کوئی تھیلی بھی نہ دے سکا تھا۔ قدردانی کے تحریری ثبوت دیکھئے:

’’تمہاری امی نے میرا وہ ساتھ دیا۔ وہ احسان کئے۔ وہ وفا کی وہ دلجوئی کی ایسی غمگساری دکھائی کہ میں ساری عمر ان کے سامنے شرمندہ رہا اور احسان مند رہا اور اب بھی تازیست دعاگو ہی رہوں گا۔ میرا گھر ان کی آمد سے برکتوں سے بھر گیا میری ساری اُمیدیں ان کی دعاؤں سے پوری ہوئیں میرے غم میں دل سے شریک ہو کر بے مثال غمگساری کرتیں میں ان کی یاد میں آنسو ہی نہیں خون کے آنسو بہاتا ہوں۔ ‘‘

’’اپنی والدہ کا ادب ملحوظ رکھیں اس کا درجہ رابعہ بصری جیسا ہے۔ بڑی ہی صالح عورت ہے گو آپ کے باپ نے اتنی قدر نہ کی جو حق تھالیکن اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ یہ کس قدر اخلاقِ فاضلہ کی مالک ہے اللہ تعالیٰ ہی جزا دے۔ میں تو اس کا ممنون احسان ہوں اس نے میری دنیا بسادی ہے بلکہ بنا دی ہے۔ اس نے مجھے دین میں پیش پیش کیا جو کچھ ہوا اس کا اور جو کچھ ہوگا اس کا۔ ہاں اگر مجھے کچھ ملا ہے تو اس کے طفیل۔ انشاء اللہ حالات بدلیں گے زمانہ کروٹ لے گا اپنی نیرنگیاں دکھائے گا مگر

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اور آمنہ اس کی مثال ہے‘‘

8؍ ستمبر 1963ء

’’یہ خط میں مسجد مبارک کے شمالی حصہ میں چار چادروں میں گھرا ہوا خدا کی گود سے تحریر کر رہا ہوں اعتکاف کا پہلا دن ہے اور دعا کی یہ حالت ہے کہ سر خالی خالی سا معلوم ہوتا ہے۔ آپ کی اور میری محبوب ترین ہستی بھی اعتکاف پر جا چکی ہو گی اللہ تعالیٰ اس کی سعی کو قبول فرمائے جس عورت نے خاوند کی جان اور اپنی جان کو ایک کر دیا میں نے آنکھ بند کر کے اُس کی پیروی کی۔ جنت پا لی۔ ہماری عید پر کیا پروگرام ہے روٹی لنگر سے چائے خود۔

رات عید ہونے کا فیصلہ ساڑھے دس بجے ہوا۔ اعتکاف بیٹھا تھا۔ بستر وغیرہ لانے میں قریباً بارہ بج گئے سونے کے لیے لیٹا تو مسجد سے ساتھ آنے والے کھٹملوں نے سونے نہ دیا کہنے لگے اتنی راتیں جاگتے رہے ہو آج کیوں سوتے ہو۔ تیز روشنی کا بلب جلا کر ان کا صفایا کیا قرآن پاک کا ایک پارہ باقی تھا مکمل کیا۔ جلدی سے جا کر صبح کی نماز باجماعت مشکل سے لی۔ اللہ تعالیٰ کی شان، یوں معلوم ہوتا تھا فرشتے میرے لئے رات بھر عید کی خوشیاں جمع کرتے رہے ہیں عید سے قبل عیدکرنے والا میں ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ عید کو میرے لئے میری قوم اور خاندان اور ملک کے لئے سارے جہاں کے لئے بابرکت فرمائے شکر ہے اعتکاف خیریت سے گزرا میرے خیمہ میں سارے معتکف جمع ہو کر کھانا کھاتے تھے مجھے بھی خدا نے اُن کی خدمت کا موقع دیا۔ ایسے مواقع کا ثواب نعمت کا خورشید بن کر میرے چاندوں پر چمکے گا انشاء اللہ۔ عید پر اہتمام کرتا ہوں اور تکبیرات سے آپ کو اللہ تعالیٰ سے قریب تر کرنے کا چارا۔ سو خدا تعالیٰ آپ کو اپنی رضا کی چادر میں ایساچھپالے کہ کوئی ذرہ فنافی اللہ اور فنافی الرسولؐ سے باہر نہ رہے آمین یہ حج کا دن ہے اور ایسی دعائیں آج قبولیت حاصل کرتی ہیں۔ ‘‘

’’آپ کی والدہ ماجدہ مبارکہ مقدسہ نے میری رائے کو ہمیشہ فوقیت دی ہے خدا تعالیٰ نے ان کو ذہن رسا عنایت کیا تھا۔ بچوں کی تربیت میں سارا دخل خدا کے فضل سے ان کا ہی ہے اور یہ میری خوش بختی ہے کہ یہ میرے شریک حال ہوئیں الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ اس کو اور سب اولاد کو شرف اور رضا سے نوازے اور الطاف و اکرام سے مالا مال کرے آمین۔ میں کمزور تھا میرے ہر غم اور تھکان میں انہوں نے میری یوں مدد کی کہ حدّ بیان سے باہر ہے یہ الگ بات ہے کہ میں نے مناسب قدر نہ کی اور نہ کر سکتا تھا ‘‘

8؍اگست 1966ء

’’اس کی قیمت مجھ سے ادا ہی نہ کی گئی۔ جب ایسا وقت آیا کہ کچھ خدمت کرسکوں تو قدرت نے الگ کردیا میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جن میں اس نعمت کا شکر ادا کر سکوں خدا کا شکر ہے کہ اس نے بہت صابر دل دے کر پیدا کیا ہے۔ خواب میں دیکھا کہ حضرت نواب صاحب کی چھت پر ایک طیارہ آیا ہے میں آنسوؤں سے دعا کررہا ہوں کہ اب تو آمنہ کو آجانا چاہئے اب تو وہ آجائے۔ خدا کی شان دیکھو کہ ڈاک دیکھی تو اس میں خبر تھی کہ ایک دلربا خوب صورت جاذبِ نظر روحانیت سے بھرپور گہری سوچ بچار میں ڈوبی آمنہ آنے والی ہے سبحان اللہ ‘‘

ایک اور خط میں لکھا:

’’یہ درحقیقت میری محسنہ ہیں۔ میرے ساتھ جس حسنِ سلوک سے زندگی گزاری اس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دے مجھ سے تو قدر نہ ہو سکی…پیارے بچو اگر صبر اور صلوٰۃ سے کام لو تو اللہ تعالیٰ ضرور راستہ نکال دیتا ہے تقویٰ اور صبر تو آپ کی امی کا شعار ہے …میرے بچوں نے اس کی گود میں ذکر الٰہی کی لوری لی۔ باوضو خاتون کا دودھ پیا۔ آپ سب بھی اس کے اوصاف اپنے اندر پیدا کریں تو درویشی میں بادشاہی کا لطف آجائے۔ اپنی والدہ سے کہیں فکر نہ کریں راضی برضا رہا کریں۔ ‘‘

جہانِ فانی سے رخصتی

امی جان بہت حوصلے والی تھیں مگرایک وقت ایسا آیا کہ ہم سب نے انہیں سخت متفکر و پریشان دیکھا اور ایسا اس وقت ہوا جب ابا جان کے ہاتھ پہ تکلیف دہ دانہ نکلا۔ اباجان کی تکلیف سے آپ بے چین ہوگئیں سب بچوں کو تاکید کرتیں کہ اباجان کو زیادہ باقاعدگی سے خط لکھیں بزرگوں کے پاس جا کر دعا کی درخواست کرتیں قادیان سے مسلسل رابطہ رکھا خود وہاں جا کر تیمارداری کا فرض ادا کرنے کی خواہش مند تھیں وہ اپنے خاوند کے لیے ہی اتنی پریشان و بے قرار نہ تھیں کیونکہ انہیں وہ عملاً جو انی کی عمر میں ہی خدا تعالیٰ کی خاطر چھوڑ آئی تھیں یہ پریشانی و فکر ایک درویش خاوند کو ایک درویش بیوی کا نذرانہ محبت و عقیدت تھا۔

بروز سوموار بتاریخ 9؍مارچ 1976ء گول بازار کی طرف رہنے والے تین چار رشتہ داروں سے پیدل جا کر مل کر عصر کے وقت واپس آئیں تھکی ہوئی تھیں لیکن اس کے باوجود باجی رشید کو ملنے فیکٹری ایریا چلی گئیں مغرب کے بعد واپس آئیں تو کچھ گھبرائی ہوئی تھیں پاؤں کی ایڑی میں درد تھا۔ آپا لطیف کو بتایا پھر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ ربوہ میں ہمارے گھر اس طرح ہیں کہ ایک پلاٹ کے چار حصے ہیں آدھے حصے میں بھائی جان مجید کی فیملی اور امی۔ ایک چوتھائی حصے میں بھائی جان باسط اور ایک چوتھائی حصے میں آپا کا گھر تھا۔ گھروں کے درمیان راستہ تھا۔ منگل کی صبح آپا کو بتایا کہ رات طبیعت خراب ہوگئی تھی پسینہ بہت آیا ضعف محسوس ہوا خود ہی قطروں والی دوا ڈال کر پی لی تھی آپا نے کہا آپ میرے پاس ہی ٹھہریں مگر امی اپنے کمرے میں سونا پسند کرتی تھیں جہاں معمولاً تہجد، فجر اور اشراق کی نماز ادا کرتیں۔ اگلے دن حکیم فاروقی صاحب کو گھر پر بلایا انہوں نے دوائیں دیں۔ کئی عزیز ملنے آتے رہے۔ جمعہ کی صبح کو مکرم مولوی محمد شریف صاحب( مبلغ بلاد عربیہ) ملنے آئے ان کو خواب آیا تھا جس میں کسی نیک عورت کی وفات کی طرف اشارہ تھا آپ کا دھیان امی کی طرف گیا اور ملنے آگئے۔ جمعہ کی شام بے چینی محسوس ہورہی تھی گلے پر بائیں طرف ہاتھ لگا کر بتایا کہ سانس میں مشکل ہورہی ہے۔ آدھی رات کو ڈاکٹر لطیف صاحب نے آکر دیکھا۔ ڈاکٹرصاحب نے بتایا کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ انجیکشن دیا اور صبح ای سی جی کرانے کا کہا۔ ربوہ میں موجود تین بہنیں دو بھابھیاں اور بچے امی جان کے پاس تھے۔ اس تکلیف میں امی جان نے بڑے بیٹے مجید کو یاد کیا وہ کیا کرے گا اس کا خیال رکھنا پھر آپا حمیدہ کو یاد کیا جو ان دنوں افریقہ میں تھی پھر آپا کی طرف دیکھ کر کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کومشکل میں ڈالا ہے۔ انہوں نے تسلی دلائی کہ کوئی بات نہیں بس اللہ کرے آپ ٹھیک ہوجائیں۔ مارچ کا مہینہ تھا سب بچوں کے سالانہ امتحان ہورہے تھے۔ مگر اس وقت سب اماں جی کے ارد گرد تھے۔

صبح کی نماز کے وقت امی کی حالت بگڑ گئی پھر ڈاکٹر لطیف صاحب کو بلایا اللہ کا شکر ہے کہ وہ جلدی ہی آگئے۔ ڈاکٹرصاحب امی کو دیکھ کر نسخہ لکھ رہے تھے کہ امی کی طرف نظر گئی۔ تشویش کے ساتھ آگے بڑھے دل کی مالش شروع کی دل میں انجیکشن دیے۔ سب اللہ شافی کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں کر رہے تھے۔ چچا جان مکرم صالح محمدصاحب اور چچا جان مکرم محمد عبد اللہ صاحب کو بھی بلا لیا۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی مولیٰ کریم نے ساری تکلیف سے نجات دے دی۔ 13؍مارچ 1976ء کو صبح ساڑھے سات بجے اچانک امی جان کا دھڑکتا ہوا دل خاموش ہوگیا۔ راضی بہ رضا خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ان دنوں ٹیلی فون مشکل سے ملا کرتا تھا کوشش کے باوجود مجھے کراچی میں اور بھائی جان مجید کو حیدرآباد میں بروقت اطلاع نہ مل سکی۔ ربوہ پہنچنے میں کچھ دیر ہوئی شکر ہے آخری دیدار نصیب ہوا۔ میرے سامنے میری پیاری امی جان کو اُٹھا کر لے گئے۔

یہاں دو تین باتیں لکھتی ہوں جو امی جان کی وفات کے ساتھ اکثر یاد آجاتی ہیں۔ بھائی جان عبد الباسط صاحب نے بتایا تھا کہ امی کہا کرتی تھیں بلکہ وعدہ لیا تھا کہ ان کی تجہیز و تکفین و تدفین وہ اپنے ہاتھوں سے کریں مگر جب اس کا وقت آیا وہ افریقہ میں تھے۔ امی جان نے انہیں اللہ کے حوالے کیا ہواتھا۔ جب پاکستان سے روانہ ہورہے تھے تو بھابھی جان محمودہ صاحبہ کے چہرے پر اداسی دیکھ کر امی جان نے کہا تھا کہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں زندگی کا کوئی اعتبار نہیں تاہم اسے اللہ پاک کی رضا کے لیے ہمت سے روانہ کر رہی ہوں۔ تم بھی ہمت سے کام لو۔ اس طرح امی جان نے اس بیٹے کو پہلے ہی الوداع کہہ دیا ہوا تھا۔ اور فی سبیل اللہ وقف بیٹے کے لیے کسی بے چینی اور گھبراہٹ کے اظہار کی ان کے پختہ ایمان اور یقین کے ساتھ کوئی مناسبت نہ ہوتی۔

امی جان کے حجاب و حیا پر مہر کرتا ہوا یہ واقعہ بھی یاد آتا ہے کہ جب آخری بار منہ دیکھنے کے لیے رشتہ داروں کو بلایا گیا تو مکرم چچا جان صالح محمد صاحب نے کہا میں بھابھی کے لیے دعا کروں گا مگر منہ نہیں دیکھوں گا انہوں نے ساری عمر حیا داری اور پردے میں گزاری ہے۔ اس کا مان رکھوں گا۔

اعلان وفات

الفضل ربوہ نے ذکر خیر کیا: ’’افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانتؔ درویش قادیان دل کے عارضہ سے نہایت مختصر علالت کے بعد 13؍مارچ بروز ہفتہ صبح ساڑھے سات بجے بعمر 67 سال ربوہ میں وفات پا کر محبوبِ حقیقی سے جا ملیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

مرحومہ نہایت نیک، عابدہ زاہدہ اور دعاگو خاتون تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت حکیم اللہ بخش صاحب آف ببّے ہالی ضلع گورداسپور کی بیٹی تھیں۔ مرحومہ کے خاوند محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانتؔ درویش تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی قادیان میں بطور درویش مقیم ہیں۔ مرحومہ نے گذشتہ 29 برس کا یہ طویل عرصہ بڑے صبر و شکر کے ساتھ محض رضائے الٰہی کی خاطر اپنے شوہر کی جدائی میں گزارا۔ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے خاص فضلوں سے نوازا۔ اِس عرصہ میں آٹھ بچوں کی شادیاں ہوئیں وہ سب پھلے پھولے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد سے اور دیگر دینی و دنیوی نعمتوں سے نوازا اور آپ نے اپنے وسیع خاندان کے درمیان ایک مرکزی شخصیت کی حیثیت سے زندگی گزاری۔ تین بیٹوں میں سے ایک مکرم مولوی عبدالباسط صاحب شاہد بطور مبلغ اسلام کینیا (مشرقی افریقہ) میں دینی خدمات بجا لا رہے ہیں۔ دو بیٹے مکرم عبدالمجید صاحب نیازؔ اور مکرم عبدالسلام صاحب طاہرؔ حیدرآباد (سندھ) میں مقیم ہیں۔ پانچ بیٹیاں (امۃاللطیف صاحبہ اہلیہ شیخ خورشید احمد صاحب نائب ایڈیٹر روزنامہ الفضل ربوہ، امۃالرشید صاحبہ اہلیہ صادق محمد صاحب ایم اے ٹیچر احمدیہ سیکنڈری سکول بوؔ سیرالیون، امۃالحمید صاحبہ اہلیہ عبدالسلام صاحب ظافر ایم اے پرنسپل احمدیہ سیکنڈری سکول وارو سیرالیون، امۃالباری صاحبہ اہلیہ ناصر احمد صاحب قریشی ڈائریکٹر محکمہ ٹیلیفون کراچی۔ امۃالشکور صاحبہ اہلیہ محمد ارشد صاحب ایم ایس سی کیمبیا سیرالیون) اور بہت سے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں مرحومہ کی یادگار ہیں۔

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز علالتِ طبع کی وجہ سے نمازِ جنازہ نہ پڑھا سکے اس لئے محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے 14؍مارچ کی صبح ساڑھے دس بجے گول بازار میں نمازِ جنازہ پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے۔ مرحومہ موصیہ تھیں اس لئے مقبرہ بہشتی ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔ تدفین مکمل ہونے پر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے دعا کرائی۔

احبابِ جماعت دُعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے اور مرحومہ کے شوہر محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانتؔ درویش کو اور دیگر تمام لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور ان کا خود حافظ و ناصر ہو۔ آمین۔ ‘‘(الفضل ربوہ 17؍مارچ1976ءصفحہ6)

تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد چہارم صفحہ488پر آپ کی وفات کی اطلاع کے ساتھ ذکر خیر ان الفاظ میں ہے:

’’ہجرت کے ابتدائی ایام میں تین سال تک مہاجر خواتین پہلے ہزاروں کی تعداد میں اورسینکڑوں کی تعداد میں آتی رہیں ان ایام میں لجنہ مرکزیہ کی زیر نگرانی مرحومہ، حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر، لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کھانا تقسیم کرتی رہیں۔ تقسیم بر صغیر کے وقت سے ہی آپ کے خاوند بطور درویش قادیان میں مقیم رہے۔ مرحومہ نے 29 برس کا طویل عرصہ بڑے صبروشکر کے ساتھ محض رضائے الٰہی کی خاطر ان کی جدائی میں گزارا۔

اپنے آٹھوں بچوں کی تربیت و تعلیم اور شادیاں بہت اچھی طرح سر انجام دیں۔ اپنے بچوں کو خدمتِ سلسلہ میں وقف دیکھنے کی تڑپ تھی خود بھی لجنہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں اپنی پانچوں بیٹیوں کو بچپن سے ہی لجنہ کے کاموں میں لگا دیا اور ہمیشہ کام کرتے رہنے کی تاکید کی۔ ‘‘(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد چہارم صفحہ488)

تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں آمنہ بیگم صاحبہ کانمبر722ہے۔ (صفحہ37)

اباجان کو چہیتی بیوی کی وفات کی خبر

دو وجود بظاہر الگ الگ رہ کر بھی ایک ہی تھے۔ باہم افہام وتفہیم اور عقیدت واحترام کا یہ عالم تھا کہ جدائی جدائی نہیں بلکہ قرب و وصال کے لیے باعث رشک بن گئی تھی لیکن دست قضا نے دونوں کے جہان ہی بدل دیے۔ ایک مہجور کے لیے زندگی کے ساتھی کی رحلت کی خبر پہاڑ ٹوٹ پڑنے کے مترادف ہو سکتی ہے مگر درویش کا صبر و حوصلہ اور توکل علی اللہ دیکھیے، تہتر سال عمر، صحت کمزور، بچوں سے دور، کوٹھڑی میں تنہا، مگر راضی بہ رضا ہونے کا مثالی ردِّعمل دکھایا۔ یہ بھی درویش مرحوم سے اللہ تعالیٰ کا خاص سلوک تھا کہ اطلاع ایسے وقت میں ملی جب آپ اللہ تعالیٰ ہی کے گھر میں تھے اور نیک ساتھی غمگساری کرنے کے لیے موجود تھے۔ ڈاک کے نظام کی وجہ سے وفات کی اطلاع چار دن بعد ملی جبکہ امی کی تدفین بھی ہو چکی تھی۔ دلگداز تحریرپڑھیے:

’’عزیزان!

آج مورخہ 1976ء-.3-17مسجد مبارک میں نماز کے بعد حضرت امیر صاحب نے محراب میں سے مجھے آواز دی میں گیا تو آپ نے حضرت میاں وسیم احمد صاحب کا خط سب کو بٹھاکر سنایا …جس میں آپ کی والدہ صاحبہ کی وفات حسرت آیات کا ذکر تھا سب سے بڑی خوشی یہ ہوئی یہ خبر میں نے مسجد مبارک میں سنی جس کے متعلق خدا کا الہام ہے۔ کہ سب کام جو اس میں ہوں گے مبارک ہوں گے۔ سبحان اللہ مرنا کس نے نہیں لیکن ایسی مبارک ساعت اور موت قابل ِصدرشک ہے میں تو ایک عرصہ سے منذر خوابیں دیکھ رہا تھا 1976ء-.3-9کو جو حضرت اقدس کا میرے خط کا جواب ملا اس کا ایک فقرہ یہ بھی تھا کہ خوابوں کے منذر پہلو سے محفوظ رکھے میں خود بھی علیل رہا اور اچانک میرا دایاں ہاتھ ہی علیل ہوا…میرے ہاتھ کو اب آرام ہے اور خدا کے فضل سے صحت بھی اچھی ہے۔ آپ سب کے خط بھی ملے۔ عزیز مجید کا مرسلہ جائے نماز ملا بڑی اچھی فال اور دور اندیشی کی سوجھی…مسجدسے آ کر فجر کے بعد سجدہ اُس پر کیا دعائےمغفرت کی اور اُس خلا اور انقلاب کو اچھے رنگ میں بدلنے کی دعا کی…اللہ تعالیٰ اُس کوغریقِ رحمت کرے اور آپ سب کو صبر اور استقلال کی توفیق دے آمین۔ کتبہ اُن کی امانت سے پیسے نکلوا کر اعلیٰ درجہ کا جس پر کم از کم چار پانچ صد روپیہ لگے لگوا دینا۔ دعا میری طرف سے بھی کر دینا میں خدا کے فضل سے صابر ہوں۔ احمدی ہوں۔ …میری تو تبلیغ کا نکتہ یہ ہے کہ خدا کے فیض کو بند کرنے والا ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا اور اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فیض کو بند کرنے والا کون ہے یہی تو خدائی ہے موت آگے پیچھے آ کر ہی رہتی ہے پھر واویلا کیوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے ابا جان کو جس بے مثال صبر کی توفیق دی اُس کا اجر تو خود خدائے عظیم و برتر ہے اُس نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ صابرین کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ایک پیارے بندے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد نے اپنے مکتوب میں آپ کے صبر کو سراہا فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ نے اس شدید صدمہ کو بڑی پامردی اور مومنا نہ ثباتِ قدم سے برداشت کیا اور خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کا عمدہ نمونہ پیش کیا فالحمدللہ۔ خدا تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے اور اُن کی سب اولاد اور آپ کو اُن کے لئے ایسے کام کرنے کی توفیق دے جو مرحومہ کے لئے صدقہ جاریہ ہوں وہاں میرا سلام سب کو پہنچا دیں۔

مرزا وسیم احمد 1976ء-.4-3‘‘

ابا جان کا آنکھ اور دل پر قابو

٭…5؍اپریل1976ء

’’میں نے اس وقت کے لئے 1947ء سے صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی خدا نے میری مدد کی اور مجھے اس طرح صبر و قرار کی دولت سے نوازا جس طرح یہ عظیم الشان انعام دیا تھا۔ یہ تو مولا کریم کا بے پایاں احسان ہے کہ اُس نے مجھے اس انعام کی رفاقت عطا کی۔ اگرچہ میں قادیان اور وہ ربوہ میں تھی مگر احسانِ الٰہی سے فیض یاب رہا۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو اس عظیم مہربانی کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔ میری قلم قاصر ہے میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں خدا کے اس فعلی انعام پر شکر گزاری کا حق ادا کر سکوں۔ سبحان اللہ۔ سبحان اللہ۔ سبحان اللہ۔ یہ انعام جاری رہے گا۔ اس باغ کی قلمیں قیامت تک پھل پھول لائیں گی میرا سینہ پرسکون ہے اللہ تعالیٰ نے باری، باسط اور دیگر پھل سیرت صورت سے بے انتہا خوبصورت عطا کر کے دین و دنیا سنوار دی۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کو بغیر کسی تکلیف کے بلا لیا یہ کوئی کم احسان ہے۔ میں کس طرح، کن الفاظ، کس دل، کس دماغ سے آپ کو رونے کی اجازت دوں اور اس احسان کو بھلا دوں بے صبری سے آنے والے انعامات کو ضائع نہ کرنا۔ شکر کریں الحمد للہ کریں صدقہ خیرات سے اُس کے درجات کی بلندی کا سامان کریں۔ کوئی لفظ قلم یا زبان سے ایسا نہ نکلے جو پَون صدی کی اس عنایت پر دمِ واپسیں نا شکری والا ہو آنکھ اور دل قابو میں رکھنا مشکل ہے میں نے اُس کا بھی حل نکالا ہے خط کسی کے حوالے کردئے کہ دوبارہ ویسی حالت نہ ہو۔ ‘‘

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button