اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ(قسط نمبر 11)
کیا پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار غیر محدود ہے یا اس کی کچھ حدود ہیں؟
جیسا کہ اس مضمون کی پہلی قسط میں تفصیل پیش کی گئی تھی کہ اسلام آبا د ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ اس نکتے پر درج کیا گیا تھاکہ درخواست گزاروں کی نزدیک پارلیمنٹ نے جو2017ءمیں نئے انتخابی قوانین کا بِل منظور کیا ہے وہ غیر قانونی ہے کیونکہ وہ ان کے نزدیک پاکستان کے آئین سے متصادم تھا۔اگر چہ قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں نے ان قوانین کو منظور کیا تھا پھر بھی جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کے نزدیک چونکہ یہ قوانین پاکستان کے آئین کے خلاف تھے اس لئے غیر قانونی تھے۔گو کہ حکومت نے اس مقدمہ کے فیصلہ سے قبل ہی ان شقوں کو جن پر جماعت احمدیہ کے مخالفین کو اعتراض تھا تبدیل کر دیا تھا ، پھر بھی جماعت ِاحمدیہ کے مخالفین کی تسلی نہیں ہوئی ۔اُن کا مطالبہ تھا کہ ان لوگوں کو منظرِ عام پر لایا جائے جنہوں نے یہ تبدیلی کی تھی۔چنانچہ اللہ وسایا صاحب اور یونس قریشی صاحب کی درخواستوں میں یہی مطالبہ کیا گیا تھا۔
بابر اعوان صاحب کی رائے
ایک Amicus Curiae(وہ ماہر جنہیں عدالت اپنی اعانت کے لئے طلب کرتی ہے) سابق وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان صاحب نے اس معاملہ پر رائے دی کہ پارلیمنٹ کا قانون بنانے کا اختیار غیر محدود نہیں ہے۔گو کہ بابر اعوان صاحب نے یہ رائے جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کے موقف کی حمایت کے لئے دی تھی لیکن اس کی دلیل دیتے ہوئے وہ جماعت ِ احمدیہ کے اُس اصولی مؤقف کی تائید کر گئے جو کہ1974ءکی کارروائی میں جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا اور اُس موقف کی مخالفت کر گئے جو کہ جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے پیش کیا جاتا رہا۔سب سے پہلے ہم بابر اعوان صاحب کی دلیل انہی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔انہوں نے فرمایا:
"Learned Amicus further added that higher judiciary is duty bound to examine the constitutionality of any law if it found to be promulgated in derogation of the Fundamental Rights as envisaged by Art.8 and 227 of the Constitution, or where any provision of any law was found contrary to the very theme of the Constitution then it is to be declared void. Moreover, any enactment aimed at benefitting a specific person or community should also be discouraged and declared void as such exercise instead of promoting the administration of justice would cause injustice in the society amongst the citizens who were being governed under the Constitution.”(page36)
ترجمہ : فاضل ماہر نے اس پر اضافہ کیا کہ اعلیٰ عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر اُس قانون کا جائزہ لے جو کہ ان بنیادی حقوق کے خلاف ہو جن کا ذکر آرٹیکل 8اور آرٹیکل 227 میںہے۔یاجب کسی قانون کے مندرجات آئین کے بنیادی خدو خال سے متصادم ہوں تو اسے منسوخ قرار دینا چاہیے۔جب کوئی قانون اس لئے بنایا جائے کہ کسی مخصوص شخص یاگروہ کو فائدہ پہنچایا جائے تو اسے منسوخ قرار دینا چاہیے کیونکہ اس عمل سے آئین کے فراہم کردہ انصاف کی بجائے معاشرے میں ان شہریوں کے درمیان ناانصافی پیدا ہوتی ہے جواس آئین کے ماتحت رہ رہے ہوتے ہیں۔
پہلے اس رائے کے دوسرے دلچسپ حصے کا ذکر کرتے ہیں ۔ اس سے یہ تأثر مل رہا ہے کہ جس طرح پاکستان میں قانون سازی کرتے ہوئے احمدیوں کے مفادات کو پیش ِ نظر رکھا جاتا ہے اور دوسروں کے مفادات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اس کے ردّ میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں کوئی بھی ذی ہوش اسے سنجیدہ رائے قرار نہیںدے سکتا۔انتخابی قوانین کی مثال ہی لے لیں۔ پورے پاکستان میں ایک انتخابی فہرست اس لئے بنتی ہے جس میں مسلمانوں کے باقی تمام فرقے عیسائی ، ہندو اور دوسرے مذاہب کے سب افراد شامل ہوتے ہیں۔ اور ایک اور فہرست بنتی ہے جس میں علیحدہ احمدی شامل کئے جاتے ہیں۔اس سے بڑھ کر اور تفریق کیا ہو سکتی ہے؟ صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ احمدیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کی تفصیل پہلی قسط میں بیان کی جا چکی ہے۔آخر کوئی ایک مثال تو پیش کی جائے کہ ملک میں کون سا قانون احمدیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنایا گیا ہے؟
اب بابراعوان صاحب کی رائے کے پہلے حصے کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔بابراعوان صاحب کی رائے میں جب کوئی قانون آئین کے آرٹیکل 8کے خلاف یاآرٹیکل 227کے خلاف بنایا جائے تو ایسا قانون غیر قانونی ہے اور عدالت کے لئے لازمی ہے کہ اس کا جائزہ لے کر اسے منسوخ کر دے۔اُن کی رائے میں پارلیمنٹ کاقانون سازی کا اختیار غیر محدود نہیں ہے۔ یہ اختیار اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ پارلیمنٹ آرٹیکل 8یا آرٹیکل 227 سے متصادم قانون بنا دے۔
پہلے آرٹیکل 8کا جائزہ لیتے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ قسط میں تفصیل بیان کی جا چکی ہے کہ یہ آرٹیکل بنیادی حقوق بیان کرتا ہے ۔ اور اس کے آغاز میں ہی لکھا ہوا ہے کہ مملکت اگر کوئی قانون بنائے جو اس سے متصادم ہو تو وہ اس حد تک جس حد تک اس آرٹیکل سے متصادم ہو ، منسوخ سمجھا جائے گا۔یہ سوال ایک بار پہلے بھی بڑی تفصیل سے زیرِ بحث آیا تھا۔ اور اُس وقت زیرِ بحث آیا تھا جب 1974ءمیں پاکستان کی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں جماعتِ احمدیہ کا وفد اپنا مؤقف پیش کر رہا تھا۔ اور یہ موضوع زیرِ بحث تھا کہ کیا قومی اسمبلی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز بھی ہے کہ نہیں؟ کیا پارلیمنٹ جس طرح چاہے آئین میں ترمیم کر سکتی ہے یا اس کی کوئی حدود ہیں۔
1974ءمیں پیش کیا جانے والا مؤقف۔ کیا اسمبلی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی تھی؟
اس بحث میں قدرتاََ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کیا کوئی اسمبلی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ ایک گروہ کو کسی مذہب کی طرف منسوب ہونے کا اختیار ہے کہ نہیں؟ اس اہم پہلو کہ بارے میں جماعت احمدیہ نے اپنے محضر نامہ میں یہ موقف پیش کیا تھا کہ کسی بھی اسمبلی کو یہ ا ختیار حاصل نہیں ہے اور اگر اس سمت میں قدم اُٹھایا گیا تو یہ امر پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں اَن گنت فسادات اور خرابیوں کا راستہ کھولنے کا باعث بن جائے گا۔ (محضرنامہ صفحہ5)
اس کارروائی کے آغاز سے پہلے بھی اس ضمن میں حضرت امام جماعت ِ احمدیہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 21جون1974ء میں فرمایا تھا:
ـ’’ پس ہزار ادب کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ یہ عقل کی بات ہم حکومت کے کان تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ جس کا تمہیں انسانی فطرت اور سرشت نے حق نہیں دیا ، جس کا تمہیں حکومتوں کے عمل نے حق نہیں دیا ، جس کا تمہیںیو۔این۔او کے Human Rightsنے (جن پر تمہارے دستخط ہیں ) حق نہیں دیا ، چین جیسی عظیم سلطنت جو مسلمان نہ ہونے کے با وجود اعلان کرتی ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کوئی شخص professکچھ کر رہا ہو اور اس کی طرف منسوب کچھ اور کر دیا جائے۔ مَیں کہتا ہوں مَیں مسلمان ہوں ، کون ہے جو دنیا میں جو یہ کہے گا کہ تم مسلمان نہیں ہو؟ یہ کیسی نامعقول بات ہے۔ یہ ایسی نا معقول بات ہے کہ جو لوگ دہریہ تھے انہیں بھی سمجھ آ گئی ۔ پس تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس کا تمہیں تمہارے اُس دستور نے حق نہیں دیا جس دستور کو تم نے ہاتھ میں پکڑ کر دنیا میں یہ اعلان کیا تھا کہ دیکھو کتنا اچھا اور کتنا حسین دستور ہے۔ آج اس دستور کی مٹی پلید کرنے کی کوشش نہ کرو اور اس جھگڑے میں نہ پڑو اسے خدا پر چھوڑ دو کیونکہ مذہب دل کا معاملہ ہے ۔ خدا تعالیٰ اپنے فعل سے ثابت کرے گاکہ کون مومن اور کون کافر ہے۔‘‘
( الفضل 23 جون 1974ءص8)
آئین ِ پاکستان کےChapter 1میں انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اور اس میں آرٹیکل20 میں یہ ضمانت دی گئی تھی کہ:
"Subject to law, public order and morality:-
(a) every citizen shall have the right to profess, practice and propagate his religion; and
(b) every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions”
ترجمہ:قانون، امن ِ عامہ اور اخلاق کے تابع۔
(الف) ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہو گا؛اور
(ب) ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے ، برقرار رکھنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہو گا۔
اگر یہ سوال اُٹھایا جائے کہ یہ آزادی قانون کے تحت دی گئی ہے۔ اگر ایسا قانون بنا دیا جائے کہ جس میں یہ آزادی سلب کر دی جائے تو پھر آئین کی رو سے مذہبی آزادی کا اختیار بھی سلب ہو جائے گا۔ تو یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ آئین ِپاکستان کا Chapter 1جس میں بنیادی حقوق بیان کیے گئے ہیں شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ:
"Any law, or any custom or usage having the force of law, in so far as it is inconsistent with the rights conferred by this Chapter, shall, to the extent of such inconsistency, be void.”
ترجمہ : کوئی قانون، کوئی رسم یا رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو ، تناقض کی اس حد تک کالعدم ہوگاجس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو۔
تو حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی ایسا قانون بنانے کی اجازت ہی نہیں جو کہ ان حقوق کو منسوخ کرے یا ان میں کمی کرے۔جب جماعت ِ احمدیہ کے وفد سے سوال و جواب شروع ہوئے تو پہلے روز ہی یحییٰ بختیار صاحب نے حضرت امام جماعت ِ احمدیہ سے یہ سوال کیا کہ آپ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں یہ ذکر کیا ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ہمیں یہ کہے کہ تم غیر مسلم ہو اور اس ضمن میں آئین کی شقوں کا حوالہ دیا ہے ۔اس پر حضرت امام جماعت ِ احمدیہ نے فرمایا:
’’I rely on clauses 8 and 20ہماری جو کانسٹی ٹیوشن ہے اس کی غالباََ دفعہ 8ہے جو یہ کہتی ہے کہ اس ہاؤس کو یہ اختیار نہیں ہو گاکہ جو اس نے حقوق دیئے ہیں ان میں کوئی کم کرے یا اس کو منسوخ کرے۔ـ‘‘
(کارروائی صفحہ38)
1974ءمیں اٹارنی جنرل صاحب کے اُٹھائے گئے سوالات
اس مرحلہ پر اٹارنی جنرل صاحب یہ سوال اُٹھایا:
"I will ask a very simple question. Is the parliament competent to amend article 8 and article 20.”
ترجمہ : میں ایک بہت سادہ سوال پوچھوں گا؟ کیا پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ آئین کی آٹھویں اور بیسویں شق میں ترمیم کردے۔
اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے فرمایا : ـ’’کانسٹی ٹیوشن کیا کہتا ہے؟‘‘
اس کے جواب میں اٹارنی جنرل صاحب نے کہا:
"Yes, by two-thirds majority they can amend; through a particular procedure they can amend. I am not saying…..I am coming to that ….but I am just suggesting a simple proposition.”
ترجمہ: ہاں، دو تہائی اکثریت کے ساتھ وہ اس میں ترمیم کرسکتے ہیں۔مَیں نہیں کہہ رہا…مَیں اس کی طرف آرہا ہوں ۔۔لیکن میں صرف ایک سادہ رائے پیش کر رہا ہوں۔
پہلے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس رائے کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا غیرمحدود اختیار حاصل ہے لیکن پھر اگلے فقروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس رائے کے بارے میں پُر اعتماد نہیں تھے۔ اس پر حضرت امام جماعت ِ احمدیہ نے فرمایا :
’’…یہ نیشنل اسمبلی ، یہ سپریم لیجسلیٹو باڈی ہے اور اس کے اوپر کوئی پابندی نہیں ، سوائے ان پابندیوں کے جو یہ خود اپنے اوپر عائد کرے ۔‘‘
Yahya Bakhtiar: I appreciate that they should not do it, they ought not to
it; But they are legally competent to do it, to repeal Article 20 and to repeal article 8 or any other provision.”
ترجمہ: میں یہ جانتا ہوں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے اور یہ نہیں کرنا چاہیے مگر انہیں قانون کی رو سے اختیار حاصل ہے کہ وہ کہ آئین کی شق بیس اور آٹھ کو منسوخ کردیں ۔ـ
حضرت امام جماعت ِ احمدیہ : …وہ تو میں نے بھی یہ کہا ہے ناں کہ اس کی سپریم لیجسلیٹو باڈی کی حیثیت ہے۔ ان کے اوپر کوئی ایجنسی نہیں ہے جو پابندی لگا سکے۔لیکن کچھ پابندیاں اس سپریم لیجسلیٹو باڈی نے خود اپنے پہ لگائی ہیں ۔
Yahya Bakhtiar: With that I agree
ترجمہ: میں اس سے متفق ہوں۔
Yayha Bakhtiar: Those are of ploitical, religious nature, but not
constitutional nature.
ترجمہ: یہ (پابندیاں) سیاسی اور مذہبی نوعیت کی ہیں لیکن آئینی نہیں ہیں۔
(کارروائی سپیشل کمیٹی1974صفحہ36تا40)
سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے مندرجہ بالا حصے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم قانونی اور آئینی سوال کے بارے میں خود اٹارنی جنرل صاحب کا ذہن واضح نہیں تھا۔ ایک سے زائد مرتبہ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ان کے نزدیک پاکستان کی پارلیمنٹ کو مکمل اختیار ہے کہ وہ آئین میں جس طرح چاہے تبدیلی کرے۔اس پر کوئی پابندی نہیں ، خواہ یہ پارلیمنٹ آئین میں دیئے گئے تمام بنیادی انسانی حقوق کوترمیم کر کے منسوخ کر دے۔ اور ایک ایسا آئین بنا دے جس میں کسی قسم کے انسانی حقوق کی کوئی ضمانت نہ دی گئی ہو۔لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہہ گئے کہ وہ حضرت امام جماعت ِ احمدیہ کے نظریہ سے متفق ہیں کہ پارلیمنٹ نے اپنے اوپر خود یہ پابندی لگائی ہے کہ جن بنیادی انسانی حقوق کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے، ان میں کوئی کمی بھی نہیں کر سکتی۔
مخالفین ِ جماعت کے نظریات
اس مسئلہ پر کہ آیا پاکستان کی پارلیمنٹ کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اس قسم کا فیصلہ کرے ، مولوی عبد الحکیم صاحب نے جماعت ِ احمدیہ کے موقف کے بارے میں یہ نظریہ پیش کیا :
’’یہی پہلا اور بنیادی فرق ہے جو مرزائیوں اور مسلمانوں میں ہے۔مسلمان اپنے فیصلے صرف قرآن اور شریعت کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں۔ اور اسی کو قانونِ زندگی کی بنیاد سمجھتے ہیں۔مگر مرزائی اقوامِ متحدہ کو دیکھتے ہیں۔کبھی عالمی انجمنوں کو اور کبھی انسان کے بنائے ہوئے دستور اور قانون کو۔ ہم تو تمام امور میں صرف دین اور اس کے فیصلے دیکھتے ہیں۔ــ‘‘(کارروائی صفحہ 2349)
مولوی عبد الحکیم صاحب کا موقف تھا کہ خواہ ایک ترمیم اقوام ِ متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کے خلاف ہو، خواہ آئین ِ پاکستان میں اس قسم کی ترمیم کرنے پر پابندی ہو، پارلیمنٹ اس لئے اس ترمیم کو منظور کرنے کی مجاز ہے کیونکہ اس کے نزدیک دینی طور پر یہ فیصلہ درست ہے۔
تمام تر کارروائی جب اختتام پر پہنچ رہی تھی تو مولوی ظفر احمد انصاری صاحب نے ایک اَور نظریہ پیش کیا۔ جب 3ستمبر کو انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو کہا
’’محضرنامے میں دونوں طرف سے اس طرح کے سوال کئے گئے ہیں کہ کیا پاکستان کی نیشنل اسمبلی کو یہ اختیار ہے یا نہیں ہے۔یہ نہایت اہانت آمیز اور اشتعال انگیز سوال ہے۔‘‘
اس آغاز سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہ نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کو بالکل یہ اختیار ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ ایک فرقے یا ایک گروہ کو کس مذہب کی طرف منسوب ہونا چاہیے۔اور یہ سوال اُٹھانا کہ اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ نہیں اسمبلی کی توہین ہے۔ لیکن پھر چند لمحوں میں ہی انہوں نے نہ صرف اپنے اس بیان کا بلکہ قومی اسمبلی کی تمام کارروائی کا ردّ کر دیا۔ انہوں نے کہا:
’’میرے پاس شایداورممبران کے پاس بھی بہت سے خطوط ایسے آئے ہوں گے جن میں یہ کہا گیا کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ آپ اسمبلی کو دینی معاملات میں فیصلہ کرنے کا حق دیتے ہیںکہ کون مسلمان ہے کون مسلمان نہیں ہے۔کل وہ کہیں گے سود جائز ہے…۔حالانکہ میرے نزدیک مسئلہ کی نوعیت یہ نہیں ہے۔ میں بھی اسمبلی کو درالافتاء کی حیثیت دینے کو تیار نہیں ہوں۔ اور نہ یہ اسمبلی ایسے ارکان پر مشتمل ہے جنہیں فتویٰ دینے کا مجاز ٹھہرایا جائے۔لیکن یہاں فتویٰ دینے کی بات نہیں ہے ہمارے فتویٰ دینے یا نہ دینے سے اس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر آج ہم کہہ دیں کہ ہم آج کہہ رہے ہیں کہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا چاہیے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آج تک وہ غیرمسلم نہیں تھے، مسلمان تھے۔‘‘
(کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ء ص 2875-2874)
مندرجہ بالا عبارت ظاہر کر رہی ہے کہ خود ظفر احمد انصاری صاحب کے نزدیک پاکستان کی قومی اسمبلی ایسے افراد پر مشتمل نہیں تھی جو کہ اس قسم کے معاملات پر فیصلہ کرسکے۔ اور ان کے نزدیک کسی بھی اسمبلی کو اس قسم کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اور جماعت ِ احمدیہ نے بالکل یہی موقف پیش کیا تھا جسے ظفر احمد انصاری صاحب اہانت آمیز اور اشتعال انگیز قرار دے رہے تھے۔معلوم ہوتا ہے کہ کارروائی کے آخر تک خود ممبران ِ اسمبلی اس بات کو بھول چکے تھے کہ یہ سپیشل کمیٹی کس مقصد کے لئے قائم کی گئی تھی۔ اور قانونی طور پر وہ اسی موضوع پر کام کرنے کی پابند تھی۔3ستمبر کو سپیشل کمیٹی کی کارروائی کا یہ حصہ ملاحظہ ہو۔اس کمیٹی کے سربراہ صاحبزادہ فاروق علی خان صاحب نے کہا:
’’مولانا محمد ظفر احمدانصاری:شاید مولانا صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔یہ مسئلہ ہے ہی نہیں کہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم۔یہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان کی دستوری اور قانونی حیثیث کو کس طریق پر واضح کریں۔
جناب چیئر مین: یہی تو میں نے کوریجہ صاحب کو کہا تھا کہ ان کی قانونی حیثیث کیا ہے اور کیا کچھ ہم کر سکتے ہیں، کیا ہمیں سفارش کرنی چاہیے۔
مولانا عبد الحق :اچھا جی ۔تو گزارش میری یہ ہے کہ ختم نبوت کا مسئلہ جو ہے یہ مسئلہ تو ہمارے آئین میں طَے شدہ ہے کہ مسلمان وہ ہو سکتا ہے جس کا عقیدہ یہ ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں اور اس کے بعد کوئی بروزی ظلی نبی نہیں آ سکتا۔‘‘ (کارروائی 2917-2916)
جہاں تک مولوی عبد الحق صاحب کے نکتے کا تعلق ہے تو اس کو پڑھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اور بہت سے اور ممبران ِ اسمبلی کا ذہن آئین کے مندرجات کے بارے میں واضح نہیں تھا۔اس وقت تک پاکستان کے آئین کی جو شکل تھی اس میں اس قسم کی کوئی بات نہیں لکھی تھی جس کا دعویٰ مولوی عبد الحق صاحب کر رہے تھے۔ آئین کی جس شق میں غیر مسلم اقلیتوں کے نام لکھے تھے۔ اس شق میں احمدیوں کا نام درج نہیں تھا۔
یہاں یہ یاد دلاتے چلیں کہ یہ کارروائی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی تھی اور یہ سپیشل کمیٹی قانوناََاس موضوع پر کارروائی کرنے کی پابند تھی جو کہ قومی اسمبلی نے اس کے لئے مقرر کیا تھا۔ اور موضوع یہ تھا کہ اسلام میں اس شخص کی کیا حیثیث ہے جو کہ آنحضرت ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتا۔ اس سوال کو حل کئے بغیر کسی قانونی اور دستوری حیثیت کو واضح کرنے کا مرحلہ نہیں آ سکتا تھا۔ لیکن آخر میں سپیشل کمیٹی کے چیئرمین سمیت دوسرے ممبران نے اس بات کا واضح اقرار کیا تھا کہ وہ اس موضوع پر کارروائی نہیں کر رہے۔
جیسا کہ کتاب ـ’’ سپیشل کمیٹی کی کارروائی پر ریویو‘‘ میں اس بات کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ 15اگست کے روز سوال و جواب کے دوران اٹارنی جنرل صاحب نے یہ نکتہ اُٹھایا تھا کہ آئین میں مذہبی آزادی کی جو شقیں ہیں ، ان سے قبل یہ لکھا ہے :
"Subject to law, public order and morality.”
یہ آزادی قانون ، امن ِ عامہ کے تقاضوں اور اخلاقی حدود کے اندر ہوگی۔اور یہ بحث اُٹھائی تھی کہ اگر قانون سازی کرکے کسی گروہ کی مذہبی آزادی کو سلب کر لیا جائے یا محدود کر دیا جائے تو پھر آئین کی مذکورہ شق اس راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ آئین ِ پاکستان کاCHAPTER 1جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا جو کہ ان بنیادی انسانی حقوق میں کمی کر سکے۔ لیکن اس کے با وجود اٹارنی جنرل صاحب نے یہ خوفناک نظریہ پیش کیا تھا کہ پارلیمنٹ اگرچاہے تو دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئین میںبنیادی انسانی حقوق کی ضمانت کو مکمل طور پر ختم کر سکتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہی نکل سکتا تھا کہ ایسا آئین ملک پر مسلّط کیا جا سکتا ہے جس میں تمام بنیادی انسانی حقوق سلب کر لئے گئے ہوں۔یعنی کہ جہاں تک مذہبی آزادی کا تعلق ہے تو کسی کو اپنے مذہب کو profess, practice اور propagateکرنے کی اجازت نہ ہو۔جب آئین میں دوسری ترمیم منظور کی جا رہی تھی اور بزعم ِ خود احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جا رہا تھااس موقع پر وزیر ِ اعظم بھٹو صاحب نے اس ترمیم کی منظوری سے کچھ دیر پہلے اپنی تقریر میں یہ نظریہ پیش کیا :
"Every Pakistani has a right to profess his religion, his caste and his sect proudly and with confidence, and this guarantee the Constitution of Pakistan gives to citizens of Pakistan.”
(The National Assembly Of Pakistan, Debates, Official Report, Saturday, 7th September, 1974 p 567)
ترجمہ: ہر پا کستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کا اظہار کرے، اپنی ذات اور اپنے فرقے کا اعلان فخر اور اعتماد کے ساتھ بغیر کسی خوف کے کرے۔اور پاکستان کے شہریوں کو پاکستان کا آئین یہ حق دیتا ہے۔
یہاں وہ اپنی تقریر میں خود مجوزہ ترمیم کی نفی کر رہے تھے۔ اگر قانون اور آئین کی اغراض کے لیے احمدی مسلمانوں کو غیر مسلم شمار کیا جائے گا تو سرکاری کاغذوں میں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں لکھ سکیں گے جبکہ وہ یہ اعلان کر چکے تھے کہ اسلام کے علاوہ ان کا کوئی اور مذہب نہیں ہے۔تو پھر یہ کس طرح دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی یہ مذہبی آزادی مجروح نہیں ہوئی اور انہیں اپنے مذہب کا اعلان کرنے کی مکمل آزادی ہے۔
مندرجہ بالا حقائق اس بات کو بالکل واضح کر دیتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے اراکین کا ذہن اس قسم کے بنیادی سوالات کے بارے میں واضح نہیں تھا۔یہ سوالات اہم تھے اور بعد میں اس کے بارے میں کافی تنازعہ پیدا ہونا تھا۔
مختلف ممالک کی عدالتوں کے فیصلے
اب ہم اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار ہے۔ دوسری آئینی ترمیم کی بحث سے قطع نظراس بارے میں پوری دنیا میں قانونی اور آئینی بحثیں ہوتی آئی ہیں اور اب تک ہو رہی ہیں۔ ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ پارلیمنٹ یا قانون ساز ادارے کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیرمحدود اختیار ہے۔ اگر پارلیمنٹ کوئی غلط ترمیم کرے تو یہ ترمیم غلط تو ہو گی لیکن اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، اگر اسے ختم کرنا ہے تو صرف پارلیمنٹ ہی ایسا کرسکتی ہے۔ دوسرا گروہ یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار نہیں ہے۔مثلاََ پارلیمنٹ کسی ترمیم کے ذریعہ بنیادی انسانی حقوق سلب نہیں کر سکتی۔پارلیمنٹ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ختم نہیں کرسکتی۔ اور اگر پارلیمنٹ ایسا قدم اُٹھائے تو ملک کی اعلیٰ عدالت اس ترمیم کو ختم کر سکتی ہے۔سوال و جواب کے مرحلہ کے دوران یحییٰ بختیار صاحب نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ پارلیمنٹ کے پاس دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئین میں ترمیم کا غیر محدود اختیار ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ چاہے تو آئین میں اس شق کو بھی ختم کر سکتی ہے کہ آئین میں جن انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ان میں کسی قانون کے ذریعہ کمی نہیں کی جا سکتی۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار ہے؟ کیا قومی اسمبلی اور سینٹ دو تہائی کی اکثریت سے آئین میں کوئی بھی ترمیم کرسکتے ہیں؟ یا ان کے اختیار کی کوئی حدود ہیں۔ اس سوال کا تعلق صرف پاکستانی آئین کی دوسری ترمیم سے ہی نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں اس موضوع پر بحث ہو تی رہی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے۔ اس سلسلہ میںاگست 2015ء میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا ذکر ضروری ہے۔ جب پاکستان کی آئین میں اکیسویں ترمیم کی گئی اور اس کے تحت ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تو سپریم کورٹ میں اس کے خلاف بہت سے درخواستیں درج کرائی گئیں۔ ان میں سے کئی درخواستیں بہت سی وکلاء تنظیموں کی طرف سے تھیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے جب فیصلہ سنایا تو جہاں ایک طرف یہ ترمیم برقرار رکھی گئی وہاں فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار نہیں ہے۔اور آئین میں ترمیم کو عدالت ِ عظمیٰ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں عدالت ِ عظمیٰ آئین میں ترمیم کو ختم کر سکتی ہے۔ اس فیصلہ میں لکھا گیا:
"Therefore, it can be stated unequivocally that Parliament does not have unbridled or unfettered power to amend the Constitution, and if an amendment is made the Supreme Court has the jurisdiction to examine it and, if necessary, strike down the offending whole or part thereof. The Supreme Court exercises this power not because it seeks to undermine Parliament or travel beyond its domain, but because the Constitution itself has granted it such power. The Supreme Court‘s power of judicial review cannot be negated in any manner whatsoever because it is provided in the original 1973 Constitution and in its Preamble.”
فیصلہ کے اس حصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس اس بات کا اختیار ہے کہ آئین میں ہونے والی کسی ترمیم کا جائزہ لے یا اسے منسوخ کردے۔اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے یا پارلیمنٹ کو کمزور کرنا چاہ رہی ہے بلکہ خود آئین نے اسے یہ اختیار دیا ہے۔اور یہ اختیار اس سے اس لئے واپس نہیں لیا جا سکتا کیونکہ یہ اختیار1973 ءکے اصل آئین میں اور آئین کی تمہید میں دیا گیا ہے۔
اس مقدمہ میںاس وقت کے اٹارنی جنرل صاحب نے یہ دلیل پیش کی کہ آئین کے آرٹیکل 239میں یہ واضح کیا گیا ہے:
"No amendment to the Constitution shall be called in question in any court on any ground whatsoever..”
یعنی آئین میں کسی ترمیم کو کسی عدالت میں کسی وجہ سے بھی چیلنج نہیں کیا جائے گا۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین کے جس آرٹیکل میں کسی معاملہ کو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا گیا ہے وہاں یہ درج کیا گیا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں سماعت نہیں کیا جا سکتا لیکن آرٹیکل 239 میں جہاںـ’ کسی بھی عدالت ‘ کے الفاظ ہیں وہاں ان حدود کا اطلاق سپریم کورٹ پر نہیں ہوتا۔ (عدالتی فیصلہ صفحہ 853تا856)
[Distric Bar Rawalpindi Vs. Federation of Pakistan, 21st amendment[
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس امر کی نشاندہی کی کہ آرٹیکل 239کا مذکورہ حصہ جس کا حوالہ اٹارنی جنرل صاحب دے رہے تھے ، 1973 ءکے اصل آئین میں موجود نہیں تھا بلکہ جنرل ضیاء الحق صاحب نے اسے آئین میں شامل کیا تھا اور اس وقت کی پارلیمنٹ نے مجبوری کی حالت میں اس کی منظوری دی تھی کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو طویل تعطل کے بعد مشکل سے جو جزوی جمہوری عمل شروع ہوا تھا وہ بھی ختم کر دیا جاتا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اس امر کی نشاندہی بھی کی کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 239کا مذکورہ حصہ بھارت کے آئین میں کی جانے والی 42nd (Amendment) Act of 1976سے نقل کیا گیا تھا۔ اور اس کے ذریعہ اندرا گاندھی صاحبہ کے دَور میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 368میں ترمیم کی گئی تھی۔اس ترمیم کے الفاظ یہ تھے:
"Art. 368. Power of Parliament to amend the Constitution and procedure therefor:
(4) No amendment of this Constitution (including the provisions of Part III) made or purporting to have been made under this article [whether before or after the commencement of Section 55 of the Constitution (Forty-second Amendment) Act, 1976] shall be called in question in any court on any ground.
(5) For the removal of doubts, it is hereby declared that there shall be no limitation whatever on the constituent power of Parliament to amend by way of addition, variation or repeal the provisions of this Constitution under this article..”
اس ترمیم کے آخری حصہ میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار موجود ہے۔ اور پارلیمنٹ جس طرح چاہے آئین میں اضافہ یا ترمیم کر سکتی ہے یا اس کی کسی شق کو ختم کر سکتی ہے۔یہ بات اہم ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ میں آئین کی اس شق کو ختم کر دیا تھا۔بھارت کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا:
"The newly introduced clause 5 of article 368 transgresses the limitations on the amending power of Parliament and is hence unconstitutional. It demolishes the
very pillars on which the preamble rests by empowering the Parliament
exercise its constituent power without any "limitation whatever”.
"No constituent power can conceivably go higher than the sky-high power conferred by clause (5), for it even empowers the Parliament to "repeal the provisions of this Constitution”, that is to say, to abrogate the democracy. and substitute for it a totally antithetical form of Government. That can most effectively be achieved, without calling a democracy by any other name, by a total denial of social, economic and political justice to the people, by emasculating liberty of thought, expression, belief, faith and worship and by abjuring commitment to the magnificent ideal of a society of equals. The power to destroy is not a power to amend.
Since the Constitution had conferred a limited amending power on
Parliament, the Parliament cannot under the exercise of that limited power enlarge that very power into an absolute power. Indeed, a limited amending power is one of the basic features of Indian Constitution and therefore, the limitations on that power cannot be destroyed. In other words, Parliament cannot, under Article 368, expand its amending power so as to acquire for itself the right to repeal or abrogate the Constitution or to destroy its basic and essential features. The donee of a limited power cannot by the exercise of that power convert the limited power into an unlimited one. (2) The newly introduced clause (4) of Article 368 is equally unconstitutional and void because clauses (4) and (5) are inter-linked. While clause (5) purports to remove all limitations on the amending power, clause (4) deprives the courts of their power to call in question any amendment of the Constitution.
Indian Constitution is founded on a nice balance of power among the
wings of the State namely, the Executive, the Legislature and the Judiciary. It is the function of the Judges, may their duty, to pronounce upon the validity of laws. If courts are totally deprived of that power, the fundamental rights conferred upon the people will become a mere adornment because rights without remedies are as writ in water.
A controlled Constitution will then become uncontrolled. Clause (4)
Article 368 totally deprives the citizens of one of the most valuable modes of redress which is guaranteed by Article 32. The conferment of the right to destroy the identity of the Constitution coupled with the provision that no court of law shall pronounce upon the validity of such destruction is a transparent case of transgression of the limitations on the amending power.
If a constitutional amendment cannot be pronounced to be invalid even if
destroys the basic structure of the Constitution, a law passed in pursuance of such an amendment will be beyond the pale of judicial review because it will receive the protection of the constitutional amendment which the courts will be powerless to strike down. Article 13 of Constitution will then become a dead letter because even ordinary laws will escape the scrutiny of the courts on the ground that they are passed on the strength of a constitutional amendment which is not open to challenge.
ترجمہ:آرٹیکل368میںشق 5 کا اضافہ پارلیمنٹ کے ترمیم کرنے کی حدود کی خلاف ورزی کرتاہے اور اس لئے غیر آئینی ہے۔یہ ان ستونوں کو تباہ کردیتا ہے جس پر آئین کی تمہید قائم ہے کیونکہ یہ شق پارلیمنٹ کو ایسا آئینی اختیار دے دیتی ہے جس کی کوئی حدود نہیں ہیں۔
کوئی آئینی اختیار اس اختیار سے زیادہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں آئین کی دفعات کو منسوخ کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے، جمہوریت کو ختم کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے ۔اس کی جگہ اس کے خلاف نظام متعارف کرانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔اور ایسا جمہوریت کو کسی اور نام سے منسوب کئے بغیر یا اس کا مکمل انکار کر کے بھی کیا جا سکتا ہے۔ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو معاشی، اقتصادی اور سیاسی انصاف سے محروم کر دیا جائے۔سوچ، اظہار ، عقیدے ، ایمان اور مذہب کی آزادی کو غیر مؤثر کر دیا جائے۔اس عظیم مقصد کو ترک کر دیا جائے کہ ایک ایسا معاشرہ تعمیر کیا جائے جس میں سب برابرکے شہری ہوں۔ یہ آئین میں ترمیم کر نے کا اختیار نہیں بلکہ اسے تباہ کرنے کا اختیار ہے۔
چونکہ آئین پارلیمنٹ کو ترمیم کرنے کا محدود اختیار دیتا ہے، پارلیمنٹ اس محدود اختیار کا استعمال کر کے، اس میں اضافہ کرکے اس اختیار کو غیر محدود نہیں بنا سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا آئین پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا محدود اختیار دیتا ہے۔ ان حدود کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔دوسرے لفظوں میں پارلیمنٹ آرٹیکل 368 کے تحت اپنے اختیارات کو وسیع کر کے آئین کو منسوخ کرنے یا ختم کرنے کا اختیار نہیں حاصل کر سکتی۔یا اس کے بنیادی خدو خال کو ختم کرنے کا اختیار نہیں حاصل کر سکتی۔محدود اختیارات کا حامل ان اختیارات کو غیر محدود بنانے کا حق نہیں رکھتا۔آرٹیکل 368میں شق 4کا اضافہ بھی اتنا ہی غیر آئینی ہے کیونکہ شق 4اور شق 5 ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔شق 5 آئین میں ترمیم کرنے کے اختیار پر تمام حدود ختم کر دیتی ہے اور شق 4عدالتوں کا یہ اختیار سلب کر لیتی ہے کہ وہ آئین میں کسی ترمیم کے بارے میں سماعت کرے۔
بھارت کا آئین ریاست کے تین حصوں یعنی انتظامیہ ،مقننہ اور عدلیہ کے درمیان ایک عمدہ توازن پر قائم کیا گیا ہے۔ یہ ججوں کا صرف کام نہیں بلکہ فرض ہے کہ وہ قوانین کے جواز کے متعلق سماعت کریں۔ اگر عدالتوں کا یہ اختیار ختم کر دیا جائے تو آئین میں بنیادی حقوق صرف ایک سجاوٹ کی چیز بن جائیں گے۔ کیونکہ ایسے حقوق جن کے پامال ہونے کی صورت میں چارہ جوئی کا کوئی راستہ نہ ہو پانی پر لکیر ثابت ہوتے ہیں۔
عدالت نے فیصلہ دیا کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے لیکن اس اختیار کی بھی کچھ حدود ہیں۔ اگر اس حق کو غیر محدود کر دیا جائے اور عدالتوں کا یہ حق ختم کر دیا جائے کہ وہ اس بارے میں کسی مقدمہ کی سماعت کریں تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔اس طرح ایک متوازن آئین ایک غیر متوازن آئین میں تبدیل ہو جائے گا۔ آرٹیکل 368کی شق 4شہریوں کو اس حق سے کلیتاََ محروم کردیتی ہے کہ وہ آرٹیکل 38میں زیادتیوں کے ازالہ کے لئے جو ضمانت دی گئی ہے اس سے مستفیض ہو سکیں۔ ایک طرف یہ آئین کو تباہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور دوسری طرف یہ پابندی لگا دی گئی ہے کہ کوئی عدالت اس کے جواز کے بارے میں سماعت بھی نہیں کر سکتی۔یہ ترمیم کے اختیار سے تجاوز کی ایک واضح مثال ہے۔اگر ایک آئینی ترمیم کو اس صورت میں بھی غیر قانونی نہیں قرار دیا جاسکتا کہ وہ آئین کی بنیاد ہی کو منہدم کر رہی ہو تو جو قوانین اس ترمیم کے نتیجہ میں بنیں گے وہ بھی عدالت کے جائزہ کے دائرہ سے بالا ہوں گے اور عدالتیں بے بس ہوں گی کہ ان کو ختم کر سکیں۔ اس صورت میں آرٹیکل 13 ایک مردہ دستاویز بن جائے گا اور عام قوانین بھی عدالت کے جائزہ سے بالا ہوں گے کیونکہ انہیں کسی ترمیم کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس ترمیم کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ایک مقدمہ کی سماعت کے بعد جو فیصلہ دیا اس میں لکھا:
"Basic structural pillars of the Constitution cannot be changed by amendment.”
ترجمہ: آئین کے بنیادی ستونوں کو ترمیم کے ذریعہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
(Anwar Hossain Chowdhury Vs. Bangladesh, 1989, 18 CLC (AD))
اس موضوع پر بہت سی بحثیں ہو چکی ہیں اور اب بھی یہ بحث جاری ہے لیکن یہ امر قابل توجہ ہے کہ برصغیر کی تینوں پارلیمانی جمہوری ممالک کی سپریم کورٹس کا آخری فیصلہ یہی ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کا غیر محدود اختیار نہیں ہے۔
پاکستان کے آئین میں بنیادی حقوق کے باب کے آغاز پر ہی یہ پابندی درج ہے:
(۱) کوئی بھی قانون، یا رسم یا رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو ، تناقض کی اس حد تک کالعدم ہوگا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو۔
(۲) مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو بایںطور عطا کردہ حقوق کو سلب یا کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے اس خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہوگا۔
اور اس باب میں ہی مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا۔
آخر میں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس قرارداد کی منظوری سے قبل وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان میں ہر شخص کو اپنا مذہب professکرنے کی آزادی ہے ۔ اور سوال و جواب کے پہلے روز اٹارنی جنرل صاحب نے بھی یہی نظریہ پیش کیا تھا کہ اگر آئین میں جماعت ِ احمدیہ کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے تو اس سے ان کے اپنے مذہب کو profess کرنے کے حق پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ [کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ءصفحہ129]۔ Profess کا مطلب ہے:
Affirm one’s faith in or allegiance to a religion or set of beliefs
اردو میں اس کا مطلب ہے کہ دعویٰ کرنا اور اقرار کرنا۔
اگر آئین میں ترمیم کرکے قانون اور آئین کی اغراض کے لئے ایک فرقہ کو غیر مسلم قرار دیا جائے تو کم از کم سرکاری کارروائی میں یا سرکاری کاغذات میں وہ اپنے آپ کو مسلمان درج نہیں کر سکیں گے۔احمدیوں کا مذہب کیا ہے ؟ یہ فیصلہ اور اس کا اعلان کرنے کا حق بھی انہی کا ہے۔اگر انہیں اس سے روکا جائے گا تو ان کا اپنے مذہب کوprofessکرنے کا حق بحر حال متاثر ہو گا۔ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں احمدیوں کے اُن بنیادی حقوق پر پابندی لگانے کا ذکر بار بار کیا گیا ہے جو آئینِ پاکستان کے باب اوّل میں درج ہیں۔
… … … … … …(جاری ہے