غزل
اِسی لیے تو آج تک میں در بدر نہیں ہوا
میں نقشِ پائے یار سے اِدھر اُدھر نہیں ہوا
تِرے خیال سے پرے بھی اَور کچھ جہان تھے
یہ دل مگر تِرے سِوا کسی کا گھر نہیں ہوا
کسی بزرگ نے کہا یہ آسماں کو دیکھ کر
جو خاک میں نہیں مِلا وہ معتبر نہیں ہوا
جسے خدا کی ذات پر ہیں بےشمار وسوسے
وہ دیکھتا تو ہے مگر وہ دیدہ ور نہیں ہوا
وہ پیڑ جس کے سائے سے اُٹھا دیے گئے تھے ہم
سنا ہے اُس کے بعد پھر وہ باثمر نہیں ہوا
بچھڑ کے صبر آگیا جنہیں وہ کون لوگ تھے
مِری وہ شب کٹی نہیں وہ دن بسر نہیں ہوا
(مبارک صدیقی)