حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اب وہ ہرگز واپس نہیں آئیں گے
اب ہم اس دردناک واقعہ کا باقی حصہ اپنی جماعت کےلئے لکھ کر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے۔ کہ جب چار مہینے قید کے گزر گئے۔ تب امیر نے اپنے روبرو شہید مرحوم کو بلا کر پھر اپنی عام کچہری میں توبہ کےلئے فہمایش کی۔ اور بڑے زور سے رغبت دی کہ اگر تم اب بھی قادیانی کی تصدیق اور اُس کے اُصولوں کی تصدیق سے میرے روبرو انکار کرو تو تمہاری جان بخشی کی جائے گی اور تم عزّت کے ساتھ چھوڑے جاؤگے۔ شہید مرحوم نے جواب دیا کہ یہ تو غیر ممکن ہے۔ کہ مَیں سچائی سے توبہ کروں اس دنیا کے حکام کا عذاب تو موت تک ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن میں اُس سے ڈرتا ہوں جس کا عذاب کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ ہاں چونکہ مَیں سچ پر ہوں اس لئے چاہتاہوں کہ ان مولویوں سے جو میرے عقیدے کے مخالف ہیں میری بحث کرائی جائے۔اگرمَیں دلائل کے رُو سے جھوٹا نکلا تو مجھے سزا دی جائے۔ راوی اس قصّہ کے کہتے ہیں۔ کہ ہم اس گفتگو کے وقت موجود تھے۔ امیر نے اس بات کو پسند کیا۔ اور مسجد شاہی میں خان ملّا خاں اور آٹھ مفتی بحث کےلئے منتخب کئے گئے۔ اور ایک لاہوری ڈاکٹرجو خود پنجابی ہونے کی وجہ سے سخت مخالف تھا بطور ثالث کے مقرر کر کے بھیجا گیا۔ بحث کے وقت مجمع کثیر تھا اور دیکھنے والے کہتے ہیں۔ کہ ہم اُس بحث کے وقت موجود تھے۔ مباحثہ تحریری تھا صرف تحریر ہوتی تھی۔ اور کوئی بات حاضرین کو سُنائی نہیں جاتی تھی۔ اس لئے اُس مباحثہ کا کچھ حال معلوم نہیں ہوا۔ سات بجے صبح سے تین بجے سہ پہر تک مباحثہ جاری رہا۔ پھر جب عصر کا آخری وقت ہوا تو کفر کا فتویٰ لگایا گیا۔ اور آخر بحث میں شہید مرحوم سے یہ بھی پوچھا گیا۔ کہ اگر مسیح موعود یہی قادیانی شخص ہے تو پھر تم عیسٰی علیہ السلام کی نسبت کیا کہتے ہو۔ کیا وہ واپس دنیا میں آئیں گے یا نہیں۔ تو انہوں نے بڑی استقامت سے جواب دیا۔ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ اب وہ ہرگز واپس نہیں آئیں گے۔ قرآن کریم اُن کے مرنے اور واپس نہ آنے کا گواہ ہے۔ تب تو وہ لوگ ان مولویوں کی طرح جنہوں نے حضرت عیسیٰؑ کی بات کو سُن کر اپنے کپڑے پھاڑ دئے تھے۔ گالیاں دینے لگے۔ اور کہا اب اس شخص کے کفر میں کیا شک رہا۔ اور بڑی غضبناک حالت میں یہ کفر کا فتویٰ لکھا گیا۔ پھر بعد اس کے اخوند زادہ حضرت شہید مرحوم اسی طرح پابزنجیر ہونے کی حالت میں قید خانہ میں بھیجے گئے۔ اور اس جگہ یہ بات بیان کرنے سے رہ گئی ہے۔کہ جب شاہزادہ مرحوم کی اُن بدقسمت مولویوں سے بحث ہورہی تھی تب آٹھ آدمی برہنہ تلواریں لے کر شہید مرحوم کے سر پر کھڑے تھے۔ پھر بعد اس کے وہ فتویٰ کفر رات کے وقت امیر صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا۔ اور یہ چالاکی کی گئی ۔کہ مباحثہ کے کاغذات ان کی خدمت میں عمداً نہ بھیجے گئے۔ اور نہ عوام پر اُن کا مضمون ظاہر کیا گیا۔ یہ صاف اس بات پر دلیل تھی ۔کہ مخالف مولوی شہید مرحوم کے ثبوت پیش کردہ کا کوئی رد نہ کر سکے۔ مگر افسوس امیر پر کہ اُس نے کفر کے فتویٰ پر ہی حکم لگا دیا۔ اورمباحثہ کے کاغذات طلب نہ کئے۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ54۔55)