عبد بننے کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 10؍ اگست 2012ء میں فرمایا:
عبد بننے کے لئے عبادات کے ساتھ باقی احکامات پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ انسان کمزور ہے، بشری تقاضے کے تحت اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے لیکن اس اونچ نیچ کا احساس فوری طور پر پیدا بھی ہونا چاہئے۔ کسی ایک عمل میں کمزوری کا احساس ہوتے ہوئے اُس کے مداوے کی پھر کوشش بھی کرنی چاہئے۔ توبہ استغفار کی طرف توجہ کرتے ہوئے فوری اُن کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش بھی ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ ٹھیک ہے اس رمضان میں نیکیوں کے کرنے کی طرف توجہ کر لو پھر سارا سال دنیا کے حصول کی ہی فکر رہے۔ انسان دنیاوی کاموں میں پڑا رہے اور اپنے مقصدِ پیدائش کو بھول جائے اور سمجھے کہ آئندہ رمضان آئے گا تو پھر عبد بننے کی کوشش کر لیں گے۔ پھر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ کر لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے روزوں کے ساتھ اس حکم کو رکھا ہے کہ میری باتوں پر لبیک کہو اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو تو ٹھیک ہے۔ یہ نہیں کہ جب اگلا رمضان آئے گا تو پھر ہم کوشش کر لیں گے۔ اگر اس بات پر توجہ رکھو گے کہ اگلے رمضان کے آنے تک ہم نے اس رمضان کی نیکیوں کو جاری رکھنا ہے تو تبھی فائدہ ہو گا۔ ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ اس رمضان میں نیکیاں کر لیں اور بس۔ پھر جب اگلا رمضان آئے گا تو پھر کر لیں گے۔ اگر یہ ہماری سوچ ہو گی تو ہم نے اپنے مقصد کو پانے کی کوشش نہیں کی، اُن نیک لوگوں کے زمرہ میں شامل نہیں ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عِبَادِیْ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
پس عبد بننے کا عمل چند دن یا ایک مہینے کا عمل نہیں ہے۔ عبد بننے کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے اور رمضان میں کیونکہ ایک مومن بندے کی اس طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے اس لئے خاص طور پرروزوں کے ساتھ اس طرف توجہ دلائی کہ جب اپنی اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے تو اس میں ترقی ہوتی رہنی چاہئے۔ اور یہ ترقی کس طرح ہو گی، اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد انسان کس طرح بنے گا؟ اپنے مقصدِ پیدائش کوکس کس طرح حاصل کرنے کی کوشش کرے گا؟ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً۔ وَنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْن (البقرۃ: 139)
کہ اللہ کا رنگ پکڑو اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے اور ہم اُسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔ پس مقصدِپیدائش کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کا رنگ پکڑنے، اُس کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے تبھی انسان حقیقی عبد بن سکتا ہے۔ دنیاوی رشتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ پیار کایہ رشتہ تو ایک طرف رہا، خونی رشتے تو ایک طرف رہے، آقا اور غلام کے رشتوں میں بھی غلام اپنے آقا کی پسند اور ناپسند کو اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے یا اس کی کوشش کرتا ہے۔ ان رشتوں میں تو بعض دفعہ دکھاوا اور جھوٹ بھی شامل ہو جاتا ہے اور فائدہ بھی یقینی نہیں ہوتا۔ جیسا کہ مختلف قصے آتے ہیں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ کا درباری تھا، بادشاہ کو کہیں سے بینگن تحفہ آئے اور اُس کی بڑی تعریف ہوئی تو اس نے روزانہ وہی کھانے شروع کر دئیے۔ درباری نے بے تحاشہ اُس کی تعریفیں کیں، اتنی زیادہ مبالغہ آمیز تعریفیں کہ حد کر دی۔ آخر بادشاہ نے ہر کھانے پر جب اُسے کھانا شروع کیا تو بیمار ہو گیا۔ اُس بادشاہ نے جب اس کی بدتعریفی کی تو اُسی درباری نے اُس کی بدتعریفیں شروع کر دیں۔ تو بادشاہ نے پوچھا پہلے تم تعریف کر رہے تھے اب تم بدتعریفیں کر رہے ہو۔ اس نے کہا جی حضور میں تو آپ کا غلام ہوں، ان بینگنوں کا غلام تو نہیں۔ تو یہ رنگ نہیں چڑھتا۔ اُس نے تو اپنے پروہ رنگ چڑھانے کی کوشش کی تھی کہ جو مالک کہہ رہا ہے مَیں بھی وہ کہتا جاؤں لیکن اللہ تعالیٰ کا رنگ ایسا ہے جو انسان جب چڑھاتا ہے تو اپنی دنیا و عاقبت سنوار لیتا ہے۔ خدا تعالیٰ جو زمین و آسمان کا مالک ہے، اُس کے رنگ میں رنگین ہونے والا تو اپنی دنیا و عاقبت سنوار رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنا کر ایک بندہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ یہی رنگ ہے جو مومن اپنے اوپر چڑھاتا ہے تو اپنی پیدائش کے حقیقی مقصد کو حاصل کر لیتا ہے۔