حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

عائلی زندگی میں مسائل کے اسباب

بیویوں پر الزام تراشی اور ناروا سلوک

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک صحابی کو نصیحت کا ایک خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: باعث تکلیف دہی ہے کہ میں نے بعض آپ کے سچے دوستوں کی زبانی جودرحقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہےکہ امورمعاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہئے کسی قدر آپ شدّت رکھتے ہیں۔ یعنی غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا۔ میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا کیونکہ اول تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں اور دوسری چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسّام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ سی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر چونکہ خداتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے۔ اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں۔ اللہ جل شانہ فرماتا ہے:

عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(النساء: 20)

یعنی اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو۔ بلکہ ان کو اس مسافر خانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہ

ٖیعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے۔ اور حسن معاشرت کے لئے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا۔ عزیز من، انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کر دیا اور وہ دیکھتا ہے کہ ہریک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے۔ نرمی برتنی چاہئے اور ہر یک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خداتعالیٰ نے میرے سپرد کیاہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجا لاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے مجھے اس پر کون سی زیادتی ہے۔ خونخوار انسان نہیں بننا چاہئے۔ بیویوں پر رحم کرنا چاہئےاور ان کو دین سکھلانا چاہئےاور درحقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے۔ میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرا درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صد ہا کوس سے میرے حوالہ کیا ہے شاید معصیت ہو گی کہ مجھ سے ایسا ہوا۔ تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کروکہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما ویں اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ سو میں امید رکھتاہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے۔ ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں سے حلم کرتے تھے۔ زیادہ کیا لکھوں۔ والسلام‘‘۔ (الحکم جلد 9نمبر13مورخہ17؍اپریل1905ء صفحہ6)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا پر چلاتے ہوئے ان خوبصورت اعمال کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتائے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے ایسے معاملات کے بارے میں سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’کچھ مرد غلط اور غلیظ الزام لگا کر بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں۔ ایسے لوگو ں کا تو قضا کو کیس سننا ہی نہیں چاہئے جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں۔ ان کو سیدھا انتظامی ایکشن لے کر امیر صاحب کو اخراج کی سفارش کرنی چاہئے۔ غرض کہ ایک گند ہے جو کینیڈا سمیت مغربی ملکوں میں پیدا ہو رہاہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ24؍جون2005ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر۔ ٹورانٹو۔ کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 08؍جولائی 2005ء)

مردوں میں حرص اور بے غیرتی

بعض خاوندوں کی اخلاقی کمزوریوں کے حوالے سےحضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایسے مرد بھی ہیں جن کومیں کہوں گا کہ جن میں غیرت کی کمی ہے جو اپنی بیوی سے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں کہ تم جہیزمیں جو زیور لائی ہو مجھے دو تا کہ میں کاروبار کروں۔ یا جو رقم اگر نقد ہے تو وہ مجھے دو تا کہ میں اپنے کاروبار میں لگاؤں۔ اگر تو میاں بیوی کے تعلقات محبت اور پیار کے ہیں تو آپس میں افہام و تفہیم سے عورتیں دے بھی دیتی ہیں۔ لیکن اگر عورت کو پتہ ہوکہ میرا خاوند نکھٹو ہے، اس میں اتنی استعداد ہی نہیں ہے کہ وہ کاروبار کرسکے اور یہ احساس ہو کہ کچھ عرصہ بعد میرا جو اپنا سرمایہ ہے، رقم ہے وہ بھی جاتی رہے گی اور گھر میں پھرفاقہ زدگی پیدا ہو جائے گی اور وہی حالات ہوجائیں گے تووہ نہیں دیتیں اور اس سے لڑائی جھگڑے بڑھتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتاہے کہ بعض دفعہ تھوڑی بے غیرتی کی حد آگے بھی چلی جاتی ہے جب ایک دفعہ بے غیرت انسان ہوجائے تو یہ مطالبہ ہوجاتاہے کہ بیوی کوکہا جاتاہے کہ تمہارا باپ کافی پیسے والاہے، امیر ہے اس لئے مجھے اتنی رقم اس سے لے کر دو تاکہ میں کاروبار کروں اور اس میں لڑکے کے گھر والے بھائی بہن وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں جو اس کو اکساتے رہتے ہیں کہ تم اس رقم کا مطالبہ کرو۔ تو گویا اب لڑکی کے پورے سسرال کوپالنا اس کی ذمہ داری ہو جاتی ہے۔ تو ایسے لوگ جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں وہ ہمیشہ وہی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جھکنے والے اور اس پر توکل نہ کرنے والے اور اس کے احکامات اور تعلیم پر عمل نہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی عبادات، جو حق ہے عبادت کرنے کا اس طرح نہ کرنے والے ہوں ان میں کبھی توکل پیدا ہو ہی نہیں سکتااور پھر جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جب عائلی معاملات میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں توان حالات میں بھی عورتوں پرہی ظلم یہ ہوتاہے کہ اگر مردوں کی Demand پوری نہ کی جائیں تو ان کو گھر سے نکال دیا جاتاہے اور بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے اور یہ ایسی صورت حال ہے جو سامنے آتی ہیں جن کا میں ذکر کر رہاہوں۔ تو اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ایسے گھروں کو عقل اور سمجھ سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر گھر، ہر احمدی گھرانہ پیار اور محبت اور الفت کا نمونہ دکھانے والاہو۔‘‘ (خطبہ جمعہ15؍ اگست2003ء بمقام مسجد فضل، لندن برطانیہ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍اکتوبر2003ء)

(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 98تا103)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button