مسجد کی تعمیر اور مقصدِ پیدائش
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 8؍ نومبر 2013ء میں فرمایا:
ہم جو اپنے آپ کوحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے والا کہتے ہیں، ہمارے مقصد حقیقت میں تب حاصل ہو سکتے ہیں جب ہم مستقل مزاجی سے اپنے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنے کی کوشش کریں۔ جب ہم جماعت احمدیہ کے قیام کے مقصدکو اپنے پیشِ نظر رکھیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’مُنْعَم عَلَیْھِم
لوگوں میں جو کمالات ہیں اور
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ
فرمایاہے ان کو حاصل کرناہر انسان کا اصل مقصدہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کوقائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیارکرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیارکی تھی تاکہ اس آخری زمانے میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پربطورِ گواہ ٹھہرے۔‘‘
(الحکم 31؍مارچ 1905ء جلد 9 شمارہ نمبر 11صفحہ 6 کالم 2)
پس یہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے لگائی ہے کہ ہم نے اُن مقاصدکو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت نے حاصل کئے یا اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مسلسل جان، مال اور وقت کی قربانی دی۔ اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ڈرتے ہوئے ادا کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ڈرتے رہے اور اپنی دعائیں پیش کرتے رہے۔ کسی قربانی پر فخر نہیں کیا بلکہ یہ دعاکرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کئے توایسے کہ اپنی راتوں کو بھی عبادتوں سے زندہ رکھا اور اپنے دنوں کو بھی باوجود دنیاوی کاروباروں کے اور دھندوں کے یادِ خدا سے غافل نہیں ہونے دیا۔
پس یہ وہ مقصدہے جو ہم میں سے ہر ایک کوحاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ مقصدہے جس کے بارے میں قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم نے یہ مقصدپا لیا تو اپنی پیدائش کے مقصدکو حاصل کرلیا۔ کیونکہ انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ ہم جب مساجد بناتے ہیں یا اجتماعی عبادت کے لئے کوئی جگہ خریدتے ہیں تو یہی مقصد پیشِ نظر ہوناچاہئے کہ ہم نے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی پیدائش کے مقصد کی بلندیوں پر جانا ہے۔ دنیا میں تو جو مقاصدہیں اُن کی بعض حدودہیں۔ ایک خاص بلندی ہے جس کے بعد انسان خوش ہو جاتاہے کہ میں نے اُسے پا لیا ہے۔ یا اس دنیا میں ہی اس کے نتائج حاصل کر لئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کا مقصد تو ایساہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے قربت کے نئے سے نئے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے اور پھر مرنے کے بعدبھی اس دنیا کے عملوں کی اگلے جہان میں جزاہے جس میں اللہ تعالیٰ کے لا محدود رحم اور فضل کے تحت ترقی ممکن ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے اور ایسے انعامات کا انسان وارث بنتاہے جو انسان کی سوچ سے بھی باہرہیں۔ صحابہ رِضْوَانُ اللّٰہ عَلَیْھِم نے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کیں اور ’’رضی اللّٰہ عنہ‘‘ کا اعزاز پایا۔