ادعیہ ۔ کتب مینار (قسط 14)
تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
(مصنفہ حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب رضی اللہ عنہ)
اس کتاب کے باب اوّل میں قرآن کریم کی 26 دعائیں مع اردو ترجمہ درج ہیں۔ جبکہ باب دوم میں ادعیہ ماثورہ ابواب واردرج ہیں
حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحبؓ کے والد گرامی کا نام منشی امام بخش تھا، جو پشاور کے ایک مشہور اور قابل اپیل نویس تھے اور بڑے قانون دان مشہور تھے۔ آپ کے والد کی پہلی شادی سے ایک بیٹی تھی اور دوسری شادی سے چار فرزند تولد ہوئے، جن میں ماسٹر فقیراللہ صاحب سب سے بڑے تھے۔ ماسٹر صاحب کی پیدائش پشاور میں 24؍جون 1876ء میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کی بے وقت وفات نے ماسٹر صاحب کو مشکل حالات سے آشنا کردیا، سلسلہ تعلیم بھی جاری رہا۔ اور فکر معاش نے بھی جکڑے رکھا۔ ہم جلیسوں کے زیر اثر تصوف اور چلہ کشیوں کی طرف متوجہ رہے۔ تعلیمی میدان میں انعامات کے حقدار بھی ٹھہرتے رہے اور نوجوانی میں ایک پادری کے دجل میں آکراسلام سے دور اور عیسائیت کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ انٹرنس کے امتحان کی تیاری کے ایام میں حضرت مولانا غلام حسن پشاوری کی کرم فرمائی سے ’’ازالہ اوہام‘‘ کا مطالعہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا یقین دل میں راسخ ہوگیا۔
1896ء کے آخر میں بیعت کا خط لکھا، جس کا جواب حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کے قلم سے ملا کہ حضرت صاحبؑ بیعت قبول فرماتے ہیں۔ استغفار بہت پڑھا کریں۔
قادیان جاکر دستی بیعت کی، اور قادیان کے سکول میں مدرس کے عہدے پر کام کرنے لگے۔ رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے دفتر میں بھی خدمت کی۔ زندگی میں مختلف اتار چڑھاؤ آتے رہے۔ آپ حضر ت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ ابن حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے پرائیویٹ ٹیوٹر بھی رہے۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے ساتھ محکمہ بندو بست میں بھی کام کیا الغرض جہاں بھی گئے لوٹ کر قادیان ہی آئے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وفات کے بعد دَور خلافت اولیٰ میں بیعت بھی کی اور مختلف صیغوں میں بڑی محنت اور توجہ سے خدمت کرتے رہے۔ دَور خلافت ثانیہ میں لاہور چلے گئے اور بیعت نہ کی لیکن آپ کی اہلیہ نے بیعت بھی کی، جو صحابیہ تھیں۔ تحریک جدید میں باقاعدگی سے ماہ بماہ چندہ دیتی رہیں۔ اوراپنی زندگی کے آخری سانس 10؍ستمبر1960ء تک خلافت کی مطیع رہیں اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔ الغرض اس نیک بی بی نے اگلے تیس سال تک اپنے شوہر کے غیر مبائع ہوتے ہوئے بیعت کا حق ادا کیا۔
ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے اپنے قیام لاہور کے دوران انجمن اشاعت اسلام لاہور کے انتھک اور مخلص کارکن کے طور پر مسلسل کام کیا، لیکن بعض چھوٹی چھوٹی ناراضگیوں اور اختلافِ رائے میں ترقی ہونے پر لاہورکی انجمن سے کٹتے چلے گئے۔ جب حضرت مریم النساء (سیدہ ام طاہر)رضی اللہ عنہا بیمار تھیںاور لاہور میں زیرِ علاج رہیں تب حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب ؓ مریضہ کی عیادت کرنے حضرت مصلح موعود ؓ کے پاس آیا کرتے تھے۔مارچ 1944ء میں مرحومہ کی وفات پر اظہار افسوس کے لیے لاہور سے قادیان گئے اور بیعت کا جؤاپھر سے اپنی گردن میں پہن کر مبائع احمدی بن گئے۔
بیعت کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحبؓ کو فرمایا کہ مجھے آپ کی بیعت سے بہت خوشی ہوئی۔ کیونکہ آپ میرے استاد ہیں اور میری ہمیشہ خواہش رہتی تھی کہ آپ بیعت کر لیں۔
بیعت کے بعد آپ کے سپرد مختلف خدمات رہیں جیسا کہ تحریک جدید کے مشن ہائے بیرون ہند کے بجٹ کی تیاری۔ محاسب صدر انجمن احمدیہ۔ افسر امانت تحریک جدید وغیرہ۔ آپ بفضل اللہ تعالیٰ موصی تھے، اور تحریک جدید کے دَور ثانی کے مجاہدین میں شامل ہونے کی توفیق پائی۔ محلہ دارالصدر جنوبی ربوہ کی مسجد کابطور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنگ بنیاد رکھا، بعد وفات بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ صحابہ میں آسودہ خاک ہوئے۔
اصحاب احمد جلد دہم کے صفحہ 13 پر ماسٹر صاحبؓ کے خود نوشت حالات زندگی جو انہوں نے اواخر دسمبر 1938ء کو مولف اصحاب احمد کو لکھ کر بھجوائے، محفوظ ہیں۔
اثنائے حالات میں حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحبؓ کا بطور استادحضرت مصلح موعودؓ ذکر آیا ہے۔ اس حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ نے میرے استادوں سے کہہ دیا پڑھائی اس کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ آپؑ بار بار مجھے فرماتے تم قرآن کریم کا ترجمہ اور بخاری حضرت خلیفہ اولؓ سے پڑھ لو۔ کچھ طب بھی پڑھ لو، ماسٹر فقیر اللہ صاحب تھے۔ وہ بورڈ پر سوالات حل کیا کرتے تھے مجھے نظر کی کمزوری کی وجہ سے دکھائی نہ دیتے تھے۔ بینائی نہ تھی۔ پھر زیادہ دیر تک بھی دیکھ نہ سکتا تھا نظر تھک جاتی تھی۔ کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا۔ ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے شکایت کی کہ حضورؑ یہ کچھ نہیں پڑھتا کبھی آجاتا ہے کبھی نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے‘‘ آپؓ نے لکھا: ’’میںڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں کس قدر ناراض ہوں۔ لیکن جب آپؑ نے بات سنی تو فرمایا۔ آپ کی بڑی مہربانی ہے جو بچہ کا خیال رکھتے ہیں مجھے آپ کی بات سن کر خوشی ہوئی کہ کبھی کبھی مدرسہ چلا جاتا ہے ورنہ میرے نزدیک اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے۔ پھر ہنس کر فرمایا: اس سے ہم نے آٹے دال کی دکان نہیں کھلوانی کہ حساب سکھایا جائے۔ آخر رسول کریمﷺ نے کونسا حساب سیکھا تھا۔ اگر مدرسہ جائے تو اچھی بات ورنہ مجبور نہ کیا جائے۔ میں نے اس نرمی سے اور بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔ پھر مدرسہ جانا ہی چھوڑ دیا۔‘‘
ماسٹر صاحب موصوف کی مرتب کردہ ایک کتاب احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی ویب سائٹ پر موجود ہے جس کا نام ادعیہ ہے۔ ایک ہزار کی تعداد میں شائع کی جانے والی اس کتاب کے صرف 32 صفحات ہیں۔
اس کتاب کے باب اوّل میں قرآن کریم کی 26 دعائیں مع اردو ترجمہ درج ہیں۔ جبکہ باب دوم میں ادعیہ ماثورہ ابواب واردرج ہیں۔ فصل اوّل میں نماز کے متعلق دعائیں ہیں۔ یعنی اذان سننے کے بعد۔ وضو کرتے ہوئے۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت۔ مسجد سے نکلتے وقت۔ نماز کے اندر پڑھی جانے والی دعائیں۔ نماز کے بعد پڑھی جانے والی دعائیں۔ دعائے قنوت۔ دعائے جنازہ۔ دعائے استخارہ وغیرہ۔
فصل دوم میں روزے کے متعلق دعائیں ہیں۔
جبکہ فصل سوم میں معاشرت وتمدن کے متعلق دعائیں ہیں۔ نیند سے بیدار ہوتے وقت۔ گھر سے نکلتے وقت۔ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد کی دعا۔ رفع حاجت کے لیے جاتے اور واپس آتے وقت کی دعا۔ بازار میں داخل ہوتے وقت۔ سبق شروع کرتے وقت۔ رویت ہلال کے وقت۔ نیا کپڑا پہننا۔ آئینہ دیکھنا۔ زیارت قبور۔ بستر پر آتے وقت کی دعا۔ اور جب غصہ آجائے تو کیا کہنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
اور فصل چہارم میں سفر کی دعائیں۔ کسی کو رخصت کرتے وقت۔ کسی سواری پر سوار ہونے کی دعا۔ سفر میں رات آجائے تو کیا پڑھے۔ جس کسی نئی بستی کو دیکھے اور اس میں جانا چاہے تو کیا دعا پڑھے مع اردو ترجمہ پیش کی گئی ہیں۔
فصل پنجم میں جنگ اور مقابلہ کے وقت کی دعائیں درج ہیں۔
فصل ششم میں ہم و غم کے وقت کی مناسبت سے مختلف دعائیں بتائی گئی ہیں۔
فصل ہفتم میں شفائے امراض و حفاظت از آفات وبلّیات کے لیے دعائیں مع ترجمہ درج کی گئی ہیں۔ الغرض اس مختصر سے رسالے میں حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب رضی اللہ عنہ نے دعاؤں کا ایک قابل قدر مجموعہ مہیا کردیا ہے۔
٭…٭…٭