برصغیر پاک و ہند میں موجود مقدس مقامات
جن کو مسیح الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام نے برکت بخشی
سیالکوٹ میں ملازمت 1873ء
’’اب آپؑ کے والد صاحب کو خیال ہوا کہ سرکاری نوکری کرائی جائے۔ چنانچہ انہوں نے کوشش کر کے آپؑ کو سیالکوٹ میں اہلمد متفرقات کی آسامی پر ملازم کروادیا۔ جہاں آپؑ چار برس رہے۔ یہ 1864ء کا واقعہ ہے۔ آپؑ نے دورانِ ملازمت میں اللہ تعالیٰ اور اپنے افسران بالااور دیگر مخلوق کے حقوق و فرائض کو احسن طریق پر ادا کیا اور آپ کی راست بازی دیانت اور امانت تقویٰ و طہارت اور نیک روش نے ہر ایک دوست دشمن سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ آ پ کے قیام سیالکوٹ کے حالات شمس العلماء جناب سید میر حسن صاحب مرحوم نے جو خاکسار مؤلّف کے فارسی اور عربی کے استاد تھے اور بہت بڑے ادیب اور فاضل اجل تھے۔ ایک خط میں تحریر فرمائے ہیں جسے شیخ یعقوب علی تراب صاحب ایڈیٹر ’’الحکم‘‘ نے شائع کیا تھا۔ مَیں اُس خط کو بجنسہٖ یہاں نقل کئے دیتا ہوں کیونکہ وہ ایک ایسے بزرگ کی شہادت ہے جو اگرچہ حضرت مرزا صاحب کے مرید نہ تھے مگر اُن کی انصاف پسندی اخفائے حق کی مرتکب نہ ہوسکتی تھی۔
سید میر حسن صاحب کا خط
حضرت مرزا صاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا۔ چونکہ عزلت پسند اور پارسا اور فضول اورلغو سے مجتنب اور محترز تھے اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے آپ پسند نہیں فرماتے تھے۔ لالہ بھیم سین وکیل جن کے نانا ڈپٹی مٹھن لعل صاحب بٹالہ میں اکسٹرااسسٹنٹ تھے ان کے بڑے رفیق تھے۔ اور چونکہ بٹالہ میں مرزا صاحب اورلالہ صاحب آپس میں تعارف رکھتے تھے اس لیے سیالکوٹ میں بھی ان سے اتحاد کامل رہا۔ پس سب سے کامل دوست مرزا صاحب کے اگر اس شہر میں تھے تو لالہ صاحب ہی تھے اور چونکہ لالہ صاحب طبع سلیم اور لیاقت زبان فارسی اورذہن رسا رکھتے تھے۔ اس سبب سے بھی مرزا صاحب کو علم دوست ہونے کے باعث ان سے بہت محبت تھی۔ مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ نہ تھے مگر چونکہ اسی سال کے اوائل گرما میں ایک عرب نوجوان محمدؐ صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور اُن پر جاسوسی کا شبہ ہوا تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے (جن کا نام پرکنسن تھا اور پھر وہ آخر میں کمشنر راولپنڈی کی کمشنری کے ہو گئے تھے) محمدؐ صالح کو اپنے محکمہ میں بغرِ ضِ تفتیشِ حالات طلب کیا۔ ترجمان کی ضرورت تھی۔ مرزا صاحب چونکہ عربی میں استعداد کامل رکھتے تھے اور عربی زبان میں تحریرو تقریر بخوبی کر سکتے تھے۔ اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو اور جو جواب وہ دیں اُردو میں ہمیں لکھواتے جاؤ۔ مرزا صاحب نے اس کام کو کما حقہٗ ادا کیا۔‘‘
(مجدد اعظم یعنی سوانح عمری حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی رحمۃ اللہ علیہ مسیح موعود ومہدی موعود مجدد صد چہاردہم مرتبہ جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب حصہ اول صفحہ 42-41)
٭…٭…٭