اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان۔ دسمبر2020ء اور جنوری 2021ء
دسمبر2020ءاورجنوری 2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
بعض وجوہات کی بنا پر مکینوں نے خود حفاظتی نظام کا اہتمام کیا…احمدیوں کی جان یہاں خطرے میں ہے۔ وہ غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں
67 احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کا واقعہ
تازہ صورت حال
ترگڑی، ضلع گوجرانوالہ، 18؍دسمبر 2020ء: جولائی 2020ء میں یہاں احمدیوں کی خاصی مخالفت ہوئی اور پولیس نے مخالفین کے مطالبے پر عمل کرتے ہوئے قبرستان میں موجود 67 احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی۔ بعد میں فریقین کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا، اور احمدیوں کو دوبارہ قبروں کی مرمت کی اجازت دی گئی۔
18؍دسمبر کو نائب تحصیل دار عبدالرحمٰن اور پٹواری ریاض بھٹی نے گاؤں کا دورہ کیا اور احمدیوں کو قبرستان کے بارے میں اسسٹنٹ کمشنر کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قبرستان کو سیل کر دیا گیا ہے۔ کوئی بھی فریق اپنے وفات یافتہ کو یہاں دفن نہیں کر سکے گا۔ غیراحمدیوں کے پاس پہلے سے ہی ایک الگ قبرستان ہے جہاں وہ اپنے وفات یافتگان کو دفنائیں گے، جبکہ احمدیوں کے لیے ایک ایکڑ زمین مختص کرنے کی تجویز اعلیٰ حکام کو بھیجی گئی ہے۔ اس دوران احمدی نئی الاٹمنٹ تک قبرستان میں اپنی جگہ استعمال کر سکیں گے۔ اس موقع پر نمبردار (گاؤں کا سردار) بھی موجود تھا۔ وہ احمدیوں کی مخالفت کرتا ہے اور مخالفین کی حمایت کرتا ہے۔
جب اسسٹنٹ کمشنر کے فیصلے کا اعلان کیا گیا تو احمدی حکام نے نمبردار سے احمدیہ قبروں کی دوبارہ تعمیر کے بارے میں بات کی۔ اس پر نمبردار نے احمدیوں سے کہا کہ جب بھی وہ قبروں کے کتبوں کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہیں گے وہ ان کے ساتھ چلے گا۔
اگلے دن، 19؍دسمبر کو، قبروں کے کتبوںکی دوبارہ تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔ اسی دوران نمبردار کچھ شرپسندوں کے ساتھ قبرستان میں آیا، احمدیوں کو کام سے روکا، اور سخت الفاظ استعمال کیے۔ احمدیوں نے پولیس سے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے بھی احمدیوں کو کام بند کرنے کا عندیہ دیا۔
بعد میں مخالفین نے مقامی احمدیہ صدر کے خلاف پولیس میں درخواست دائر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ احمدیہ وفد نے 21؍دسمبر کو ڈی ایس پی سے ملاقات کی۔ ڈی ایس پی نے انہیں کہا کہ وہ خود مرمت شروع نہ کریں۔ انہیں بتایا گیا کہ قبروں کے کتبوں کی مرمت کا کام مخالف فریق کی رضامندی سے شروع کیا گیا تھا۔ اس پر ڈی ایس پی نے کہا کہ وہ اے سی کو درخواست دیں تاکہ اہلکار مرمت کے کام کی نگرانی کر سکیں۔
اسی دوران ایک غیر احمدی فوت ہو گیا اور اسے اسی متنازعہ قبرستان میں دفن کیا گیا جسے سیل کر دیا گیا تھا۔ جب پولیس سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے نائب تحصیل دار سے مشورہ کیا ہے، اور اس نے بتایا کہ صرف احمدیوں کو اپنے وفات یافتگان دفن کرنے سے روکا گیا تھا، دوسروں کو نہیں۔ احمدیوں نے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی سے رابطہ کیا۔ پولیس نے اپنے پہلے فیصلے کا احترام نہیں کیا۔
قتل کی دھمکی کا سامنا کرنے والے احمدی کو پولیس نے گاؤں سے نکال دیا !
چک 565گ ب، ضلع فیصل آباد، 7؍جنوری 2021ء: تین احمدی امتیاز احمد، اعجاز احمد، اور ریحان احمد، اپنے گاؤں سے ملحقہ گاؤں نامدار میں دس سال سے چنائی کا کام کر رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل گاؤں کے ایک ملا نے مقامی لوگوں کو اکسایا کہ ان کے گاؤں میں کافر آئے ہیں جواپنے گھر بنا رہے ہیں۔ اس لیے انہیں گاؤں سے نکال دیا جائے۔ جب احمدیوں کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے اپنا کام چھوڑ دیا اور چلے گئے۔ بعد میں ایک مقامی فردنے امتیاز احمد کو دوبارہ بلایا اور امتیاز احمد نے کام شروع کیا۔ جب گاؤں والوں کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے ملا کو اطلاع دی جوموقعے پر پہنچا اور امتیاز سے پوچھا کہ کیا وہ احمدی ہےجس پر اس نے اثبات میں جواب دیا۔ ملا نے اعلان کیا کہ ان کے گاؤں میں ایک کافر آیا ہے اور کہا یہ (یعنی امتیاز احمد) احمدی ہے۔ سارا گاؤں اس کے گرد جمع ہو گیا اور امتیاز کو برا بھلا کہا۔ اس پر امتیاز کو گاؤں میں بلانے والے شخص نے گاؤں والوں سے کہا کہ اگر کسی نے امتیاز احمد کوچھوا تو وہ اسے گولی مار دے گا۔
اس واقعہ کا پولیس نے نوٹس لیا۔ معاملہ کو سننے کے بعد ایس ایچ او نے کہا کہ یہ ختم نبوت کا معاملہ ہے۔ اس نے امتیاز کو گاؤں سے باہر جانے کا حکم دیا۔
گاؤں کے لڑکوں نے دھمکی دی کہ اگر امتیاز احمد کو دوبارہ گاؤں میں کام کرتے دیکھا گیا تو وہ اسے جان سے مار دیں گے۔
سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم
کڑیانوالہ، ضلع گجرات، جنوری 2021ء: ایک غیر احمدی نے فیس بک پر احمدیہ کمیونٹی کے بانی کی تصویر پوسٹ کی اور گندی زبان استعمال کی۔ اس نے ایک مقامی احمدی کے ساتھ سخت الفاظ میں بات کی۔
اس کے بعد غیر احمدی نے اس احمدی کے خلاف تھانے میں توہین مذہب کا الزام لگا کر شکایت درج کرائی۔
فیصل آباد میں احمدیوں کے خلاف دشمنی
چک نمبر 565 گ ب ضلع فیصل آباد، جنوری 2021ء: ضلع فیصل آباد کے چک نمبر565گ ب میں تین نمبردار تھے۔ ان نمبرداروں میں سے ایک احمدی تھا جو 2018ء میں انتقال کر گیا تھا۔ دوسرے نمبردار کی طرف سے، مقامی پولیس افسر نے ڈی سی سے درخواست کی کہ نمبردار کی سیٹ خالی ہے، اور اس کے بیٹے کو وہاں تعینات کیا جائے۔ مقامی لوگوں نے ڈی سی سے رابطہ کیا کہ یہ معاملہ ہمارے گاؤں کا ہے، ان کا نہیں۔ یہ کیس ابھی تک زیر التوا ہے۔ فریق مخالف چونکہ احمدیوں کے خلاف ہے اس لیے وہ احمدیوں کے خلاف گندی زبان استعمال کرتے ہیں۔ مخالفین نے ہمایوں رفیق کے خلاف تھانہ صدر ننکانہ صاحب میں مقدمہ درج کرایا کہ اس نے دو غیر احمدی لڑکوں کو اسلامی طریقے سے سلام کیا۔ پولیس انسپکٹر نے ہمایوں رفیق کو تھانے میں حاضر ہونے اور اپنی پوزیشن واضح کرنے کو کہا۔ بصورت دیگر، ’’السلام علیکم‘‘ کہنے پر ان کے خلاف پولیس مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔
اس دوران فریق مخالف نے سیشن جج سے درخواست کی کہ پولیس افسر کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے۔ مسٹر رفیق نے پولیس افسر سے ملاقات کی اور بتایا کہ یہ لوگ ہمارے خلاف ہیں، اور ان کا کیس ڈی سی فیصل آباد کے پاس ہے۔ اس لیے انہوں نے ہمارے خلاف درخواست دائر کی ہے۔ پولیس افسر نے ایسی ہی رپورٹ بنا کر سیشن جج کے سامنے پیش کی۔ ابتدائی طور پر کیس میں پیش ہونے کے لیے کوئی وکیل موجود نہیں تھا۔ پھر ایک وکیل پیش ہوا، اور مخالفین کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ یہ گاؤں ضلع ننکانہ صاحب میں واقع ہے۔
کوٹ دیالداس اس گاؤں سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ احمدیوں کے لیے وہاں کی صورت حال بدتر ہے۔ بعض وجوہات کی بنا پر مکینوں نے خود حفاظتی نظام کا اہتمام کیا۔ معمول کے مطابق گاؤں کی مسجد سے رضاکاروں کے ناموں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پہلے مقامی مسجد سے احمدیوں کے نام بھی مانگے جاتے تھے، اب انہوں نے مسجد سے احمدیوں کے ناموں کا اعلان کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ احمدیوں کی جان یہاں خطرے میں ہے۔ وہ غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
٭…٭…٭